افغانستان اور ہندوستان کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے بنوں پر مسلمان جرنیلوں اور سلاطین کے نقش ِ پا پائے جاتے ہیں ۴۴ہجری میں ایک جنگجو جرنیل بوصغرا نے بنوں کو تاراج کیا۔ اسی طرح محمود غزنوی اور سلطان محمد غوری بھی آئے ۔سلطان محمد غوری نے ٖغوریوالہ کے مقام پر پڑاؤ کیا تھا اس لئے اس علاقے کا نام غوریوالہ مشہور ہوا۔شیر شاہ سوری نے بھی بنوں کی سرزمین پر قدم رکھے ہیں۔علاقہ بیزن خیل کی سڑک کو شیر شاہ سوری روڈ بھی کہتے تھے کیونکہ اس سڑک سے شیر شاہ سوری گزرے تھے۔ بعد میں مغل بادشاہ بابر بھی بنوں آئے تھے جس کا ذکر بابر نے تزک بابری میں کیا ہے۔مگر پہلی دفعہ اورنگزیب کے دور میں مغلوں نے بنوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور بعد میں بہادر شاہ ظفر خود بھی بنوں آکر علاقہ جھنڈوخیل کے قریب شاہ کوٹ کا مضبوط قلعہ بہت مشکل سے فتح کیا اور اصالت خان گھگڑ کو بنوں پر مامور کیا۔ جس کو یہاں کی مقامی مسلمان آبادی نے جلا وطن کردیا۔اور قلعہ پھر دوبارہ قبضہ کیا۔بہادر شاہ ظفر کو جب اس کا علم ہوا تو دوبارہ بنوں پر حملہ آور ہوا اور اس بار مباذر خان کو یہاں کا حاکم بنایا لیکن کچھ عرصہ بعد بنوں کے لوگ پھر بغاوت پر اُتر آئے اور مباذر خان کو بھی شکست دی۔چونکہ یہاں کے لوگ غلامی قبول نہیں کرتے یہی وجہ تھی کہ ہر بار کشت و خون کے باوجود وہ علاقے کے حاکم کو بھگا دیتے۔اس کے بعد پھر ایک نہ ختم ہونے والی شورش شروع ہوئی ۔مغل سردار کو جب کبھی موقع ملتا بنوں پر حملہ اور ہوتے اور یہاں ایک زبردست جنگ ہونے کے بعد ہی وہ یہاں سے گزرتے ۔لیکن بنویان بھی شکست تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ بھی پوری تیاری کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے۔بنوں کے باسی اب مکمل باغی بن چکے تھے۔ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے البتہ جب احمد شاہ ابدالی تخت نشین ہوئے تو سب نے ان کی اطاعت قبول کی احمدشاہ بابا خود دو بار بنوں آئے۔ بنوں کے لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ اور ان کو بابا کے نام سے پکارتے۔۱۷۷۱ ء میں امیر تیمور شاہ بھی بنوں آئے تھے اور کچھ عرصہ یہاں قیام کیا۔ اسی طرح مختلف مسلم فاتحین نے بنوں کا رُخ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔