یہ بات پُرانی ہے بچپن کی نَادانی ہے سُننے وَالو سُنو مِیری اَپنی کہانی ہے
بچپن میں اِک چہرہ دِیکھا چہرہ بھولا بھالا نین کٹورے رِیشمی زُلفیں رَنگ اُس کا مٹیالا
میٹھی میٹھی باتیں اُس کی جیسے شہد کا پیالا میں بھی اُس کا دِیوانہ تھا وہ بھی میری دِیوانی تھی
دریا کی روانی تھی بھر پور جوانی تھی
وہی سنگ گا ؤں کی ہر شام سہانی تھی
سندھ کنارے ہَسدا وَسدا چھوٹا سا اِک گاؤں کچے پکے رَستوں پر بہتی تھی پیار کی چھاؤں
سرسوں کے کھیتوں میں گھومنا دِن بھر ننگے پاؤں کچے گھر ہم بناتے تھے کہی سپنے سجاتے تھے
یک طرفہ قیامت ہے دل پھر بھی سلامت ہے
اپنا جسے سمجھا غیروں کی امانت ہے
دِل کے بدلے دِل دِے بیٹھے اِک دُوجے کو اِک دِن جب سے پیار ہوا ہم کو ملن ہوا نہ ممکن
ہجر کی رات گزرتی ناں ہی تھک گئے تارے گِن گِن بِن تیرے سجن پیارے لگے تَارے بھی اَنگارے
اُسے رَاج کراؤں گا اِک تاج بناؤں گا
سونے کی تاروں سے اِک ڈولی سجاؤں گا
سوچا تھا میں اُس کیلئے اک تاج محل بنواہوں سرخ گلابوں کی پتیاں میں راہوں میں بکھراہوں
جل مل کرتے تارے لیکر اُس کی مانگ سجاوں یاد اُس کی پھر آئی ہے لیکن اب وہ پرائی ہے
گردش میں ستارے ہیں ہم عشق کے مارے ہیں
تُم تو کِسی کے ہو ہم اَب بھی تمھارے ہیں
ہِجر کا دریا تیز اور گہرا مولا پار اُتارے ساحل پہ بھی سخت ہے پہرا مولا پار اُتارے
جیتے جی وہ دیکھو چہرا مولا پار اُتارے بس اِتنا بھلا کرنا اِے عمر وفا کرنا
دِن روز نکلتا ہے دُکھ روز بدلتا ہے
زخموں کا نہیں مرہم بَس آپ ہی بھرتا ہے
پیار کی باہوں میں تھا ماہی تھا ابھی عشق کا چاوا اَبھی گھڑولی بھر نہ پائی پی کے اُبھلا لاوا
فصل کی رُت سے پہلے ہی آ پہنچا ہجر بھلاوا ہم دُونوں جُدا ہو گئے لیک اَپنے خفا ہو گے