کِس لیے جانِ مَن تم ہمیں چھوڑ کر غیر کی بزم شب بھر سجاتے رہے
عہد الفت تو رو رو کے ہم سے کیا اور پیمان اُن سے نبھاتے رہے
ہجر کی تُم نے تحفے میں سوغات دی ہوئی صبح نہ تھی جِس کی وہ رات دی
ہم تمھارے لیے پھول چنتے رہے اور تم تھے کہ کانٹے بچاتے رہے
ہم مناتے رہے جب خفا تُم ہوئے سوچتے ہی رہے کیا سے کیا تُم ہوئے
ہم ہمیشہ تُم میں یاد کرتے رہے تُم ہمیشہ ہم میں بھول جاتے رہے
پیار ہی پیار کے ہم طلبگار تھے اِس لیے جانیں جاں ہم سزا وار تھے
ہم معافی کے شاید نہ حقدار تھے اِس لیے لوگ سولی چڑھاتے رہے
بن گیا درد تقدیر تنویرؔ کی ہر قدم پر ضرورت تمھاری رہی
زندگی بِن تمھارے مکمل نہ تھی اِس لیے ہم تم میں ہی بلاتے رہے