(ترجمہ: اے گوتم! یوشا(عورت) ہی آگ ہے، یعنی یہ شعلہ بار ہے۔اس کے شرم گاہ ( بذر، شفرِ صغیر اورشفرِ کبیر) کشش کا مرکز ہے۔مباشرت سے دھنوا پیدا ہوتا ہے۔ شرم گاہ شعلہ ہے۔دورانِ مباشرت جو مادۂ منویہ اندر کی طرف داخل ہوتے ہیں وہ انگارے ہیں اور اس عمل کے دوران جوجنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے وہ پرم آنند ہے۔عورت کے شرم گاہ(ہَوَن کُنڈ)میں روحانی بزرگ مادۂ منویہ کا ’ہَوَن‘ کرتے ہیں (’آہوتی‘یا’ قربانی‘ دیتے ہیں )جس سے حمل وجود میں آتا ہے۔)
منتر کے پہلے حصّے میں عورت کو آگ سے، اس کی شرم گاہ کو آتش کدہ سے، مادۂ منویہ کو انگاروں سے اور مباشرت کے عمل کے دوران حاصل ہونے والی جنسی آسودگی کو پرم آنند سے تعبیر کیا گیا ہے۔دوسرے منتر میں شرم گاہ کو’ ’ہَوَن کُنڈ‘‘ اوراس میں جو مادۂ منویہ جاتے ہیں اسے ’آہوتی ‘دینے سے تعبیر کر کے جنسی عمل کو مذہبی فریضہ قرار دیا گیا ہے جو ایک تخلیقی و تعمیری عمل ہے جس کے بغیر دنیا کا وجود ممکن نہیں ہے۔ یعنی تخلیقیت اور جنسی لذتیت ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان دونوں کا سرچشمہ جنسی عمل ہے۔ شاید اسی لیے’ لینڈوروم‘ نے کہا ہے کہ ’’تخلیقی عمل کے بعد ایساہی جنسی اور جسمانی ردّ عمل ہوتا ہے،جیسا کہ مباشرت کے بعدیااس کے برعکس یاشایدجنسی جذبے کے ذریعہ مظہر ہوتا ہے،جس کی تکمیل ضروری ہے۔دونوں ردّ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنس، فنکار کے تخلیقی عمل میں شامل ہے۔‘‘ فرائڈ نے بھی لاشعور کے عمل اور Wishfulfilment theoryمیں واضح کیا ہے کہ ’’ہرقسم کا آرٹ اورہرقسم کا ادب حقیقتاً جنس کا رہینِ منت ہے۔‘‘
منٹوجنسی عمل کے فلسفیانہ حقیقت اوراس کے جمال و جلال سے واقف تھے اسی لیے انہوں نے اپنے افسانوں میں جنس کو موضوع بنایا اورسیکس کی اصل روح کو پیش کیا لیکن زیادہ تر نقادوں نے ان کے اسلوب کی نفاست اور لطافت کوسمجھے بغیر ان پر فحش نگاری کا الزام عاید کر دیا۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمے بھی چلائے گئے اور انہیں صفائی دیتے ہوئے یہ کہنا پڑا:
’’عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں ہے۔ان کا ذکر بھی فحش نہیں۔ لیکن جب اس رشتے کوچوراسی آسنوں یا جوڑ دار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کو غلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناؤنا،مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا۔‘‘
جنس کے متعلق منٹو کے بیانات کی تقویت D.H.Lawrenceکے اس خیال سے بھی ہو جاتی ہے:
’’جنس اور حسن ایک ہی چیز ہے۔شعلہ اور آگ کی طرح۔اگر تم جنس سے نفرت کرتے ہو تو تم حسن سے بھی نفرت کرتے ہو۔اگر تم زندہ حسن سے پیار کرسکتے ہواورجنس سے نفرت، لیکن حسن سے پیار کرنے کے لیے جنس کا احترام لازمی ہے۔جنس اور حسن ناقابلِ تقسیم ہیں۔ جیسے زندگی اور شعور جو ذہانت جنس اورحسن سے وابستہ ہے اور جنس اور حسن سے جنم لیتی ہے وہی وجدان ہے۔ ‘‘
یونانی دیومالا کے مطابق کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں ایسے لوگ ہوتے تھے جو نصف عورت اور نصف مرد تھے۔نصف عورت اور نصف مرد ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی کاملیت پر ناز تھا۔ اس لیے وہ دیوتاؤں کے خلاف بغاوت کر دیتے تھے جس کی وجہ سے دیوتاؤں کے بادشاہ Zeusنے ان کے جسم کے دو الگ الگ ٹکڑے (نصف عورت اور نصف مرد) کر کے زمین پر پھینک دیا۔اس دن سے آج تک عورت اور مرد کے منقسم حصّے ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہو کر تکمیل پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے شکیل الرحمٰن نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہر مرد کے اندر عورت ہے اور ہر عورت کے اندر مرد، یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے سے اس وقت ملتی ہیں جب یوگ سے انہیں بیدار کیا جاتا ہے‘‘۔
منٹو نے بھی sexo-Yogicعمل کے لطیف احساسات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔انہوں نے اس موضوع کے لیے جو اسلوب وضع کیا ہے اس سے جنسی تلذذ کی نفیس اور لطیف کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اس میں تخریبی یا درندگی کے جذبات نہیں ابھرتے ہیں۔ منٹو نے اس قسم کے افسانوں میں صرف سیکس کے ان تجربات کو پیش کیا ہے جن سے ہمیں جنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے اورجنسی تلذذ کی روحانی کیفیت کااحساس ہوتا ہے۔ ’بلاؤز‘، ’دھنوا‘، ’شاردا‘،’خوشیا‘ اور ’بو‘ وغیرہ افسانوں میں جنسی تلذذ کے مختلف سطحیں ہیں اور تلذذ کی ان کیفیات کے اظہار کے لیے منٹوں نے جواسلوب خلق کیا ہے اس کے بھی کئی Shades(رنگ) نظر آتے ہیں۔ طوائفوں کے ساتھ جنسی تعلق کے جوModesہیں وہ دیگرجنسی تجربوں سے متعلق افسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ مثلاً افسانہ ’ہتک‘ میں سیکس کا جو Degree of Satisfactionہے وہ دوسرے نوعیت کی ہے۔اس افسانہ کے پہلے ہی پیراگراف،’’دن بھر تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سوگئی تھی۔میونسپل کمیٹی کا داروغۂ صفائی،جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی،ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور،گھرکوواپس گیا تھا۔۔۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو ’کام سوتر‘کے اصل جوہر سے واقف ہیں۔ منٹو کے بعض نقادوں نے ’’ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ نے‘‘ کی رعایت سے لکھا ہے کہ منٹو نے اس عبارت میں سوگندھی کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ دراصل نقادوں نے اس عبارت کے اسلوب کو سمجھے بغیر یہ رائے دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مباشرت کے پرم آنند کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ مہا کوی کالی داس نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔انہوں نے ’’رگھوونشم‘‘ میں سیتا اور رام کی شادی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ راجہ’ دس رتھ‘ اپنی وِشال سیناکے ساتھ بارات لے کر جب جنک نگری پہنچے تو ان کی سینانے وہاں کے باغوں کے پھولوں اور کھیتوں میں لگے فصلوں کو روند ڈالا۔ پھر بھی اس نگری نے سینا کے اس عمل کوویسے محظوظ کیا جیسے عورتیں اپنے پریتم کے کٹھورسنبھوگ کو محظوظ کرتی ہیں۔ ’خوشیا‘ اور ’بو‘ میں جنسی آسودگی کی سطح کچھ اور ہی ہے۔ افسانہ ’خوشیا‘ میں کانتا کے عریاں بدن کو دیکھنے کے بعد خوشیا کے اندرآہستہ آہستہ جنسی خواہش اس طرح بیدار ہونے لگتی ہے جیسے ’’کام دیو‘‘ نے ’سوتروان‘خوشیا کے سینہ میں پیوست کر دیئے ہوں لیکن اس کے اندر کا مرد اس وقت بیدار ہوتا ہے جب کانتا اس کے سامنے ننگی چلی آتی ہے اور خوشیا کے اعتراض کے بعد کہتی ہے کہ تو کیا ہوا تم اپنا خوشیا ہی تو ہو۔منٹو نے اس خاص لمحے کے بیان کے لیے جو پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے اس کی دو خوبیاں ہیں۔ سیکس کے سوئے ہوئے جذبہ کو گدگدا کر بیدار کرنے کی خوبی اور دوسری خوبی احساسِ ’ہتک ‘ہے جو سیکس کے جذبے کی شدّت میں اضافہ کر دیتا ہے۔اسی طرح افسانہ ’بو‘ میں سیکس کی لذت کے اظہار کے لیے جواسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ منٹو کے جنسی تجربے اور روحانی لذتیت(Eroticism) سے اس طرح ہم آہنگ ہو گیا ہے کہ قاری بھی پرم آنند کی کیفیت سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔اس افسانہ میں گھاٹن لڑکی کے پستانوں کو دیکھنے کے بعد رندھیر کے جسم میں بھی وہی برقی لہر دوڑ جاتی ہے جو کالی داس کی تخلیق ’’کمارسمبھو‘‘میں پاروتی کے سینے سے چادر کھسک جانے کے بعد اس کے پستانوں کو دیکھ کر شیوجی کے ریشے ریشے میں سیکس کی برقی لہر دوڑ گئی تھی۔ رندھیر گھاٹن کے ساتھ صرف ایک رات اپنے کمرے میں رہتا ہے اور ایک ہی رات میں اس نے سیکس کی وہی ultimateلذت حاصل کر لی جو شیوجی نے یوگوں یوگوں تک پاروتی کے ساتھ ’ہمالیہ پروت پر حاصل‘ کی تھی۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ منٹو نے صدیوں سے چلے آرہے ہندوستانی جنسی تقدس کے تصورکوازسرنوقاری سے متعارف کراکراس عمل کے ان پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے آمادہ کیا ہے جسے لوگ بھول چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگایا گیا تھا کیوں کہ لوگ جنسی عمل کو فحش عمل سمجھنے لگے تھے۔ رندھیر اور گھاٹن لڑکی کے Sexo-Yogicلمحات کے بیان کے لیے منٹو نے جو اسلوب خلق کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکس کی دیوی ’’مہاناگنی‘‘ نے سیکس کے دیوتا ’مہا ناگ‘ کو دبوچ لیا ہے اور آسمان سے جنسی تلذذ کے رسوں کی امرت ورشا شروع ہو گئی ہے۔بنجر دھرتی زرخیز ہو رہی ہے، پیڑ پودے سبزوشاداب ہو رہے ہیں۔ پھول کھلنے لگے ہیں اور ان کی خوشبوؤں سے عالم مہک اٹھا ہے۔یہ منٹو کے اسلوب کی جادوگری کا کمال ہے۔سیکس کی ایسی کیفیت اور فضا منٹوجیسافنکار ہی پیداکرسکتا ہے۔ منٹو کے اسلوب سے منٹو کا فن،ان کے تجربے اور روح ہم آہنگ ہو کر جنسی تلذذ کو لافانی بنا دیا ہے۔منٹو کا کمال یہ ہے کہ مختلف النوع جنسی تجربات واحساسات کے اظہار کے لیے جو پیرایہ بیان اختیار کیا ہے اس میں ان کے اپنے تجربے شامل ہو گئے ہیں اور ان کے قاری بھی ویسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں جیسے ان کے افسانوں کے کرداروں نے محسوس کیا تھا۔ان کے افسانوں کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے:
’’پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا۔۔۔پھندنے کی تلاش میں نکلا۔۔۔دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا۔۔۔نئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوئی۔پھر نہ جانے کیا ہوا۔۔۔ایک کالی شاٹن کے بلاؤزپراس کا ہاتھ پڑا۔۔۔کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔پھر دفعتاً ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔تھوڑی دیر تک وہ کچھ نہ سمجھ سکاکہ کیا ہو گیا ہے۔اس کے بعد اسے خوف،تعجب اور ایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی۔۔۔پہلے اسے تکلیف و حرارت محسوس ہوئی۔مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم پر رینگنے لگی ‘‘( ’بلاؤز‘)
’’مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔دبے پاؤں وہ نیم باز دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ اس نے دونوں پٹ کھول دیئے۔دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھیں، خوف زدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔۔۔۔بملا کے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی‘‘(دھواں )
منٹو نے ان عبارتوں میں عورتوں کے سینے کے اُبھار اور گداز کے لمس سے جنسی تلذذ کی برقی کیفیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔صنف نازک کی اس حصّے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنسکرت کے ایک عظیم شاعر اور مفکر بھرتھری ہری نے لکھا ہے:
’’چھوڑ ان پھیکے باسی اُپدیشوں کو/مردکوتوصرف دو چیزوں کی لگن ہونی چاہئے/بھرپور چھاتیوں والی اس ناری کی جو کام رس کو اُبھارے/اور دل کو موہ لینے والی بَن کی۔‘‘
دراصل رقص کا آغاز بَن یعنی جنگل کے معاشرے میں ہوا تھا کیوں کہ جنگل کے معاشرے میں بدن جذبے کے عریاں اور والہانہ اظہار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔موسیقی سے بھی جنسی جذبہ کا تعلق بہت گہرا ہے۔منٹو کے افسانوں کے چند اقتباسات اور ملاحظہ کیجئے جن میں جنسی کی جمالیات نقطۂ عروج پر ہے۔
’’کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے پتّے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے اور نہا رہے تھے اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کر چمٹی ہوئی تھی۔‘‘( ’بو‘ )
’’رندھیراس کے پاس بیٹھ گیااور گانٹھ کھولنے لگا۔جب نہیں کھلی تو تھک ہارکراس کے ایک ہاتھ میں چولی کا ایک سراپکڑا،دوسرے ہاتھ میں دوسراسرااورزورسے جھٹکا دیا۔گرہ ایک دم پھسلی،رندھیر کے ہاتھ زورسے اِدھر اُدھر ہٹے اور دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم نمایاں ہو گئیں۔ لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر نرم نرم گندھی ہوئی مٹّی چابک دست کمہار کی طرح دو پیالوں کی شکل دے دی ہے۔‘‘( ’بو‘)
’’حساس فنکاروں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہر عورت کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، خوشبو کا رشتہ قائم ہو جائے تو سچی جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ نیز سچا انبساط ملتا ہے، جو عورتیں جسم پر خوشبوؤں کا استعمال نہیں کرتیں ان کے بدن سے مٹی کی سوندھی سوندھی وہ خوشبو ملتی ہے جو آدم کو حوا سے ملی ہو گی۔ مٹی کی یہ سوندھی سوندھی خوشبو عورت کے ہر عضو پر ہونٹوں کو رکھ دینے پر مجبور کر دیتی ہے، یہ خوشبو جادو ہے، جہاں ہونٹ رکھئے وہی خوشبو ملے کہ جس سے احساس و شعور کی بے قراری بڑھ جائے اور پھر محسوس ہو جیسے اس خوشبو نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وہ عورت کہ جس نے حضرت سلیمان کو چوم کر یہ کہا تھا میرا بستر دارچینی کی خوشبو سے معطر ہے اور میرے بدن کی فطری خوشبو کستوری جیسی ہے، آپ آ جائیے۔ ہم دونوں رات بھر ایک دوسرے میں جذب رہیں، وہ عورت ایسے گہرے جنگل کی ہو گی کہ جہاں پھولوں کے رنگ انتہائی تیز اور شوخ ہوں گے، جہاں کے پھل رسوں سے بھرے ہوں گے، جہاں کی مرچیں حد درجہ تیز ہوں گی اور جہاں جسم آزاد ہو گا! ایسی عورت کا تجربہ پوری زندگی کے حسن و جمال، نرمی اور گرمی اور پوری زندگی کی جنسی آسودگی کے تجربوں کے رس کا استعارہ ہے۔ عورت کے جسم کی خوشبو اگر اس طرح ملے کہ لوبان کی خوشبو وجود میں جذب ہونے لگے، دارچینی کی مہک کا احساس کو گرفت میں لینے لگے تو ٹپکتا ہوا تجربوں کا رس کتنا شیریں ہو گا۔(‘‘ منٹوشناسی اور شکیل الرحمٰن‘‘، ص - 125)
منٹو کے افسانوں میں سیکس کا اصل جوہرUltimateجنسی لذتیت کے ان لمحوں کے بیان میں نظر آتا ہے جہاں منٹو کے نسوانی کرداروں کے بدن سے طرح طرح کی خوشبو نکلنے کااحساس ہوتا ہے۔ان کے ان تحریروں میں بھی نظر آتا ہے جہاں انہوں نے Sexualityکو Texualityمیں تبدیل کر دیا ہے۔ اور وہاں بھی جہاں ان کے فن کی جمال و جلال اور ان کی روح جنس سے متعلق افسانوں کے کرداروں کے جذبات واحساسات اور اعمال سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔