سال ۱۹۱۲میں لدھیانہ کے قریبی قصبے سمرالا کے ایک متوسط گھرانے میں مولوی غلام حسین کے گھر جنم لینے والے افسانہ نگار سعادت حسن منٹونے اُردو افسانہ نگاری کو حقیقت نگاری اور مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ مولوی غلام حسین نے دوشادیاں کیں پہلی بیوی کی ذہنی حالت صحیح نہ تھی ۔سعادت حسن منٹو دوسری بیوی سے پیداہوئے ۔افرادِ خانہ میںباہمی ربط کے فقدان سے سعادت حسن منٹو نے منفی اثرات قبول کیے ۔جب سعادت حسن منٹو کی عمر اٹھارہ سال ہوئی توان کے والد نے داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ اس سانحہ کے بعد نوجوان سعادت حسن منٹوکی منزل سے نا آشنا زندگی پر رنج و غم کے بادل چھا گئے۔ شدید ذہنی دباؤ کے باعث سعادت حسن منٹو کا بھری دنیامیںجی نہیں لگتاتھا۔ اسی زمانے میںکثرت ِمے نوشی نے جہاں سعادت حسن منٹو کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کیا وہاں اسے جذباتی طور پر بھی مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔پریشاں حالی ،درماندگی ،فکری تشویش اور شدیدذہنی دباؤ کے باعث سعادت حسن منٹوکی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔ اس کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ شدید پریشانیوں کے باوجودسعادت حسن منٹو کی تخلیقی فعالیت متاثر نہ ہوئی ۔ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے سعادت حسن منٹو ایک ہی نشست میں ایک افسانہ لکھنے کی صلاحیت سے متتمع تھا یہ فن افسانہ نگاری پر اُس کی مہارت کی دلیل ہے ۔
قصے، کہانیاں اورداستان گوئی ایک ایسا قدیم فن ہے جو روزِ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری ر ہے گا۔داستان گو کا زاویۂ نگاہ بدلنے سے کہانی کی شکل و صورت بھی بدل جاتی ہے ۔ معاشرے کے طبقۂ اسفل کے بارے میں سعادت حسن منٹو نے بہت بے باکی کے ساتھ قلم اُٹھایا۔ قحبہ خانے کی جسم فروش رذیل طوائفوں کے گھناونے دھندے ،مجرم بھڑووں،مسخروں ،لچوں اور تلنگوں کی چالوں ،نائکہ کے حربوں اور جنسی جنونیوں کے قبیح ہتھکنڈوں کو سر زنش بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کے شب و روز کے معمولات پر سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے یہ تاثر ملتاہے کہ یہ رسوائے زمانہ لوگ بھی معاشرے کا حصہ ہیں ۔ جعل سازی ،دو عملی ،منافقت اور عیاری کے خلاف سعادت حسن منٹوکی تحریریں فکر و خیال کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہیں ۔ سعادت حسن منٹو (۱۹۱۲۔۱۹۵۵(نے اپنی تینتالیس سالہ زندگی میں اپنے تئیس افسانوی مجموعوںمیں ہر قسم کے جبر اور استحصال کے خلاف کھل کر لکھاہے ۔ قحبہ خانے کی جسم فروش رذیل طوائفیں دراصل ایس عفونت زدہ بد روئیں اور موریاں ہیں جو کوچہ و بازار کی ساری غلاظت اپنے ساتھ بہالے جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اجلاف و ارذال سے تعلق رکھنے والی ا ن ننگِ وجود مار خورطوائفوں کی کمین گاہ سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں ۔ ان طوائفوں کے قحبہ خانوں کے درو دیوار پر ذلت ،تخریب ،نحوست ،بے غیرتی، بے شرمی ،بے حیائی ،عیاشی اور فحاشی کے کتبے آویزاںہیں۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں عیش کوشی کی مظہر تفریح اور جنسی اشتہا کے بجائے اصلاح ِ احوال پر توجہ مرکوزرکھی ہے ۔ قحبہ خانوں کے مسموم ماحول اوروہاں کے حالات و واقعات کی لفظی مرقع نگاری سعادت حسن منٹو کے اسلوب کا اہم پہلو ہے ۔اس کے باوجود قاری کے لیے یہ امر حیران کن ہے کہ سعادت حسن منٹو نے معاشرتی زندگی کی قباحتوں اور وہاں ڈھائی جانے والی قیامتوں کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے کوئی موثر لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔ اپنے نقادوں کی دشنام طرازی کا جواب دیتے ہوئے اپنے ا سلوب کے بارے میں سعادت حسن منٹونے اپنے زاویہ ٔ نگاہ کی صراحت کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا ہے :
’’ میں ایک ایسا انسان ہوںجو ایسے رسالوں اور ایسی کتابوں میں لکھتا ہوںاور اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے کچھ کہنا ہوتاہے ،میں جو کچھ دیکھتاہوں،جس نظر اور جس زاویے سے دیکھتاہوں،وہی نظر ،وہی نظر،وہی زاویہ میں دوسروں کے سامنے پیش کردیتاہوں ۔ اگر تمام لکھنے والے پاگل تھے تو آ پ میرا شماربھی اُن پاگلوںمیں کر سکتے ہیں ۔‘‘ (۱)
سعادت حسن منٹوکے اسلوب میںجنس ،مے نوشی ،حسرتوں اور تمناؤں اورطوائفوں کی شرم ناک زندگی کے مسائل کا غلبہ ہے ۔ سعادت حسن منٹو نے معاشرتی زندگی کو بے ثمر کرنے و الے جس خسیس طبقے پر گرفت کی ہے ۔اس میں اُجرتی بد معاش ،پیشہ ور قاتل ، چور ،رہزن ،قزاق، ٹھگ، ڈوم، ڈھاری ،بھانڈ،بھڑوے ،مسخرے ،لچے ،شہدے ،تلنگے ،رجلے ،خجلے،نائکہ،طوائفیں اور ہم جنس پرست شامل ہیں۔ فحاشی کے الزام میں سعادت حسن منٹو کو چھے مرتبہ تعزیری کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سقفِ نیلوفری کے نیچے انسانوں کی زندگی کے نشیب و فراز ،تضادات اور ارتعاشات تخلیق کار کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے ’’ کالی شلوار ‘‘ میں سلطانہ ہو یا افسانے ’’ ہتک ‘‘ میں سو گندھی ہر جگہ طوائف کا قبیح کردار اور کریہہ روپ سامنے آ تا ہے ۔
سفاک ظلمتوں میںسعادت حسن منٹو کی زندگی ایک ٹمٹماتی شمع کے مانند گزری اس نے خبردار کیا کہ کوئی دیوتا،کسی قسم کے حالات،کوئی من گھڑت تجریدی تصوریا ضابطہ بے بس و لاچار اور بے گناہ انسانیت کے چام کے دام چلانے ، ان پر کوہِ ستم توڑنے اور مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع گُل کرنے کا جواز پیش نہیں کرتا ۔اُسے یقین تھا کہ ظلم کا پرچم بالآ خر سر نگوں ہو گا اور حریتِ ضمیر سے جینے والے عملی زندگی میں کامیاب و کامران ہوں گے۔سعادت حسن منٹو کی زندگی مہیب سناٹوں اور سفاک ظلمتوں میں ایک مشعلِ تاباں کے مانند گزری۔ سعادت حسن منٹو ان مظلوم انسانوں کا حقیقی ترجمان تھا جن کی زندگی جبر مسلسل برداشت کرتے کرتے کٹ جاتی ہے۔اس نے اس جانب متوجہ کیا کہ اقوام کی تاریخ اور تقدیر در اصل افراد ہی کی مرہونِ منت ہے ۔یہ افراد ہی ہیں جو جو کسی قوم کی تاریخ کے مخصوص عہد کے واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کو دُور کر کے اِسے از سرِ نو مرتب کرتے ہیں۔افراد کی خاموشی کو تکلم اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ حریتِ فکر کی پیکار اور جبر کے خلاف ضمیر کی للکار سے تاریخ کا رُخ بدل جاتا ہے ۔حریتِ فکر کے مجاہد تاریخ کے اوراق سے فرسودہ تصورات اور مسخ شدہ واقعات کو حذف کر کے اپنے خونِ جگر سے نئی خود نوشت تحریر کرتے ہیں۔ جب جو ر و جفا کا بُر اوقت ٹل جاتا ہے توتاریخ میں مذکور ماضی کی بے ہنگم اور بد وضع قباحتیں جنھیں ابن الوقت مسخروں نے نظر انداز کر دیا ان پر گرفت کی جاتی ہے ۔افراد پر یہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق میں مذکور تمام بے سرو پا واقعات کو لائق استردا دٹھہراتے ہوئے انھیں تاریخ کے طوماروں میں دبا دیں۔
پس ماندہ اور نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ممالک کے مظلوم باشندوں کا لہو سوز ،یقیں سے گرمانے میں سعادت حسن منٹونے نہایت خلوص اور دردمندی سے کام لیا ۔ وہ ایک دردِ دِل رکھنے والااور درد آشناافسانہ نویس تھا جس نے نہایت خلوص سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ یہ امر کس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے کہ بے گناہ افراد کو اس شک کی بنا پر جبر کے پاٹوں میں پِیس دیا جائے کہ ان کے آبا و اجداد نے ماضی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کا ارتکاب کیا تھا اور موجودہ دور کے ظالم ان کا نشانہ بنتے رہے ۔ افسانہ ’ ۱۹۱۹ کی ایک بات ‘‘ کے کرادر’ تھیلا ‘‘ سے بلاجواز انتقام اس منفی سوچ کی دردناک مثا ل ہے ۔ستم تو یہ ہے کہ ظالم و سفاک،موذی و مکار استحصالی طبقے کی طرف سے ا س صریح جبرکے لیے بالعموم یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ ان کے خاندان نے ماضی میں بہت ظلم سہے ہیں اس لیے اب وہ نسل در نسل ان مظالم کا انتقام لیں گے اور اپنے آبا و اجداد کے دشمنوں کی زندگی اجیرن کر کے انھیں ماضی کے تلخ سمے کے سم کا ثمر کھانے پر مجبور کر دیں گے۔سعادت حسن منٹو نے سادیت پسندوں پر واضح کردیاکہ کسی کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی بھی حد ہونی چاہیے۔اس سے پہلے کہ مظلوموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے فسطائی جبر کو اپنے انتہا پسندانہ روّیے پر غور کرنا چاہیے۔زندگی کا ساز بھی ایک عجیب اور منفرد آ ہنگ کا حامل ساز ہے جو پیہم بج رہا ہے مگر کوئی اس کی صدا پر کان نہیں دھرتا۔کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ نے تو لُٹیاہی ڈبو دی ہے ۔اس قماش کا جو بھی مسخرہ درِ کسریٰ میں داخل ہوتا ہے طلوعِ صبح ِ بہاراں کی نوید عشرت آگیں لے کرغراتا ہے کہ ماضی کے فراعنہ کے برعکس اس کا مقصدلُوٹ مار،غارت گری،انسان دشمنی،اقربا پروری اور قومی وسائل پر غاصبانہ تسلط نہیں بل کہ وہ افراد کی آزادی،تعلیم،صحت اور خوش حالی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیتاہے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ فقیروں کے حال جُوں کے تُوں رہتے ہیں مگر بے ضمیروں کے سد اوارے نیارے رہتے ہیں۔ اپنی تخلیقات میںسعادت حسن منٹو اُن مظلوم انسانوں کا حقیقی ترجمان بن کر اُبھرا تھا جن کی زندگی جبر مسلسل برداشت کرتے کرتے بِیت گئی۔سعادت حسن منٹونے اس جانب متوجہ کیا کہ اقوام کی تاریخ اور تقدیر در اصل افراد ہی کی مرہونِ منت ہے ۔یہ افراد ہی ہیں جو کسی قوم کی تاریخ کے مخصوص ادوارکے اہم واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کو دُور کر کے اِسے از سرِ نو مرتب کرتے ہیں۔افراد کی خاموشی کو تکلم اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ’ ’ ۱۹۱۹ کی ایک بات ‘ ‘ میں فسطائی جبر کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہارنے والے ایک مظلوم کردار ’’ تھیلا ‘‘کی دو بہنیں الماس اور شمشادجوطوائفیں ہیں ان طوائفوں کی موقع پرستی بھی انھیں انتقام اور عبرت ناک انجام سے نہ بچا سکی ۔
تصانیف :
افسانوی مجموعے ۲۳،ریڈیو ڈرامے ۵ مجموعے ،مضامین کے مجموعے ۳،خاکوں کے مجموعے ۲،ناول ۱،فلم کے کئی سکرپٹ۔
سعادت حسن منٹونے ترجمہ نگاری سے بھی اردو ادب کی ثروت میںاضافہ کیا ۔ اس کی زندگی کے شب وروزدہلی ،ممبئی ،امرتسراور لاہور میں گزرے۔ ان شہروں کی نمود و نمائش سے بھرے گلی کوچوں اور افراتفری کے ماحول میں اس نے ہر قسم کی عصبیت اور تنگ نظری کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ۔اس آفاقی انسان دوست تخلیق کار کے افسانوں میں جہاںان شہروں سے وابستہ یادیں شامل ہیںوہاں اس نے فرانسیسی ،روسی اورانگریزی ادب کے نمائندہ افسانوں کااردو ترجمہ بھی کیا۔سعادت حسن منٹونے اقتضائے وقت کے مطابق اپنے مسرور کن فنی تجربات سے اردو افسانے کو نئے آفاق سے آ شنا کیا ۔ تقسیم ہند کے بعدافق ادب پر ستاروں کی جو کہکشاں ضیا بار تھی اس کے تابندہ ستاروں میں ترقی پسند ادیب راجندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر ،عصمت چغتائی ،علی سردار جعفری ، شیام اور اشوک کمار شامل ہیں ۔
نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد اس خطے میں جو دہشت گردی اورقتل و غارت ہوئی وہ تاریخ کاایک لرزہ خیز باب ہے ۔ سعادت حسن منٹونے اپنے افسانوں میں اس المیے کے بارے میں نہایت دردمندی سے لکھاہے ۔ سعادت حسن منٹوہجرت کے وقت پُھوٹ پڑنے والے فسادات اور بلووں کاچشم دید گواہ تھا۔اس نے جو کچھ دیکھا اُسے اپنے افسانوں من و عن پیش کر دیا۔دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے درندوں کے مہاجرین پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوزمظالم ،بے بس و لاچار خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک ، خواتین کی تذلیل و توہین ،جنسی جنون اور ہوس کی انتہائی مکروہ صورت کے خلاف سعادت حسن منٹونے حرف صداقت لکھ کر واضح کیاکہ دنیا کاکوئی مذہب اس قسم کی درندگی وسفاکی کو جائزنہیںسمجھتا۔ سعادت حسن منٹو کا خیال ہے کہ مصائب و آلام کے پاٹوں میں پسنے والے بے بس و لاچار انسانوں کی زندگی میںدُکھ کی مثال ایک ایسے چوک کی ہے جو اپنے گرد لاکھوں بل کہ کروڑوںسڑکوں کا جال بُن دیتاہے ۔ افسانے ’’ خدا کی قسم ‘‘ میں سعادت حسن منٹو نے ایک بڑھیا کی دردناک کہانی بیان کی ہے جس کی اکلوتی بیٹی بھاگ بھری کو بلوائیوں نے اغوا کر لیا ۔اپنی چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی کی تلاش میں بڑھیا در در کی خاک چھانتی پھررہی تھی ۔ اپنی حسین و جمیل بیٹی کی موہوم تلاش میںطویل، کٹھن اور پُر خار مسافت طے کر کے اپنے پاؤں کے آبلوں کی پیاس بجھانے کے بعد بڑھیا کا ہوش جاتا رہا۔ سعادت حسن منٹو کے مطابق دنیاکے ایک وسیع و عریض پاگل خانے میں اس بڑھیا کی زندگی کا سفر تو افتا ںو خیزاں کٹ رہا تھامگر جبر کے ماحول میں اس ناتواں ضعیفہ کا دل و جگر پھٹ رہاتھا۔ امرتسر کے فرید چوک میںکھڑی بڑھیا نے اپنی نیم اندھی آنکھوں سے دیکھاکہ ایک سکھ نوجوان ایک حسن و جمال کی دیوی کو ساتھ لیے وہاں سے گزرا ۔لڑکی نے گھونگھٹ اُٹھا کر دیکھا تو سکھ نوجوان نے اس بڑھیا کی طرف اشارہ کیا جو اپنی نو جوان بیٹی کی تلاش میںخاک بہ سر کھڑی پر نم آ نکھوں سے انھیں دیکھ ر ہی تھی ۔ سکھ نوجوان نے اپنے پاس کھڑی اس حسینہ سے کہا:
’’ تمھاری ماں ۔‘‘
اس حسینہ نے ایک لمحے کے لیے حالات کا جبر سہنے والی ضعیفہ کی طرف دیکھا اور سکھ نوجوان کا بازو پکڑ کر بھینچے ہوئے لہجے میں کہا :
’’ چلو ‘‘
بڑھیا کے ماتھے کے نیچے دو گڑھو ںمیں بے نُور ڈیلے متحرک تھے ، چیتھڑں میں ملبوس پریشاں حال ، نیم عریاں اور خاک بہ سر بڑھیا نے اپنی بیٹی کو پہچان لیااور اضطراری حالت میں چیخ ماری اور کہا : ’’ بھاگ بھری ۔‘‘
بڑھیا کی زندگی کا انحصاربھاگ بھری کی موہوم تلاش ہی پر تھا۔ تباہ حال بڑھیا سمجھتی تھی اگر بھاگ بھری مل گئی تو اس کی بے ثمر زندگی میں بہار آ جائے گی۔ حیف صد حیف اس بڑھیا کی حسین بیٹی بھاگ بھری جس کی تلاش میں وہ شمالی ہند کے ہر شہر میں ایک عرصے سے سر گرداں تھی وہ تو اس سے کوئی بات کیے بغیرسکھ نوجوان کا بازو تھام کر وہاں سے جا چکی تھی ۔ قتل و غارت ، آبر و ریزی اور جنسی جنون نے زندگی کی اقدار و روایات کو مسخ کر دیاتھا۔اس قسم کابے حس اور بے رحم غیر انسانی روّیہ بے غیرتی اور بے ضمیری کی علامت ہے ۔ اس سانحہ کے بعدوہ دیوانی بڑھیا جا ن لیواصدمے کی وجہ سے چوک میں ڈھیر ہو گئی ۔سعادت حسن منٹونے نہایت پر اسرار انداز میں کہانی ختم کی ہے ۔اس نے یہ فیصلہ قاری پر چھوڑ دیاہے کہ بھاگ بھری کیسے غائب ہوئی ؟کیا نوجوان سکھ لڑکا طاقت اور اسلحہ کے بل بوتے پر بھاگ بھری کواغوا کر کے لے گیا یا بھاگ بھری کی الہڑ جوانی نے اپنی تسکین کے لیے ایک تنو منداور متمول رفیق حیات کا انتخاب کرلیا۔ طویل جدائی کے بعداپنی ماں کو دیکھ کر اس سے ملے بغیر بے رخی سے منھ پھیر لینا اور اپنے آشناسے صرف ایک لفظ ’’ چلو ‘‘ کہہ دینے سے ساری حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ بھا گ بھری نہ صرف اخلاقی اعتبار سے تہی دامن ہے بل کہ اس کا شباب اس کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ۔ اس طوطا چشم لڑکی نے یہ بات فراموش کر دی کہ اس کی ضعیف ماں جس کے قدموں میں اُس کی جنت ہے وہ اس کی جدائی کے غم میںپائمال ،خوار وزبوں اور پریشان و دردمند ہے ۔ اگر بھا گ بھری مظلوم ہوتی تو وہ ’’ چلو ‘‘ کے بہ جائے ’’ ٹھہرو ‘‘ کہتی اور ماں کے قدموں میںگر پڑتی اور سکھ سے نجات حاصل کر لیتی ۔ اپنے آشناکے ساتھ رنگ رلیا ں منانے والی بھاگ بھری کی بے حسی اور بے غیرتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ شعر میرے ذہن میںگردش کرنے لگا:
تہمت لگاکے ماں پہ جو دشمن سے دادلے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
زوال پذیر معاشرے میںمحسن کُشی،بے وفائی ،پیمان شکنی اور طوطاچشمی عام ہو جاتی ہے ۔ متشدد بلووں کے نتیجے میںرونما ہونے والے انتہائی مخدوش اور مایوس کن حالات میں بھاگ بھری کا بروٹس بن جانابھی گردشِ حالات کا نتیجہ ہے ۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور تقسیم ہند کے درد ناک واقعات کو بیسویں صدی کا سب سے اہم تاریخی واقعہ سمجھا جاتاہے ۔ ہجرت کے وقت ہر طرف تباہیوں ،بربادیوں اور خونریزی کے باعث وقت کے رخسار پرآنسو دیکھ کر سعادت حسن منٹو تڑپ اُٹھا۔ نو آبادیاتی دور میںسعادت حسن منٹو پر فحاشی کے الزام میں تین مرتبہ مقدمہ چلا۔ پس نو آبادیاتی دور میں بھی یہ سلسلہ ختم نہ ہوا اور سعادت حسن منٹو پر فحاشی کے تین مقدمات قائم کیے گئے ۔ سعادت حسن منٹو کے ہوا خواہوں نے اسے قید وبند کی صعوبتوں سے بچانے کی خاطریہ ہوائی اُڑ ادی کہ سعادت حسن منٹو ذہنی مریض ہے ۔ اس کے نتیجے میں سعادت حسن منٹو کو کچھ عرصہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں گزارنا پڑا۔ اپنی جنم بھومی کی محبت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر سال ۱۹۵۴ میں لکھا جانے والا افسانہ ’’ ٹو بہ ٹیک سنگھ ‘‘ منفرد نوعیت کے تاثر کاحامل ہیسعادت حسن منٹو کا واحد تاثر کا حامل لازوال شاہ کاراورمحیر العقول ادبی تخلیق افسانہ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ اسی عہد کی یادگارہے ۔ آج بھی قارئین ِ ادب اس افسانے کو پڑھ کر تخلیق کار کے مشاہدات اور تجربات سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔نو آبادیاتی دور کے واقعات پر مبنی افسانہ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ پڑھ کر قاری تخلیق کار کی بصیرت اور مشاہدے پر اش اش کر اُٹھتے ہیں۔اپنے افسانوں میں سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند کے الم ناک واقعات ،فسادات ، قتل عام اور انسانیت کی حدود اور ابعاد کااحاطہ کیا۔ دس لاکھ بے گناہ انسان ان فسادات کی بھینٹ چڑھ گئے اور ایک لاکھ کے قریب عورتیں متاع عصمت سے محروم کر دی گئیں ۔ سعادت حسن منٹونے انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں نہایت جرأت مندانہ موقف اپنا یا ۔ تقسیم ہند کے الم ناک واقعات کو سعادت حسن منٹو نے جس دیانت ،خلوص اور دردمندی سے زیب قرطاس کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کے افسانے جہاں تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہیں وہاں یہ عبرت کاتازیانہ بھی ہیں۔ افسانہ ’’ یزید ‘‘ میںکریم داد اور چودھری نتھو دو ایسے کردار ہیں جو جبر کے ہر انداز کے خلاف آوز بلند کرتے ہیں ۔ بلووں کے کشت و خون کے دوران میں شہتیر جیسے کڑیل جوانوں کی موت نے جینے کی اُمنگ بھی متاثرہ لوگوں کے دل میں سیاہ پوش کردی ۔ وہ سمجھتے ہیں فسادات کے بعد کینہ پرور دشمن سے انسانی ہمدردی کی توقع رکھنا کور مغزی اور بے بصری کی دلیل ہے ۔ انسانی زندگی کے رنگ و آہنگ بھی موسموں کے مانند تغیر کی زد میں رہتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کی جان پر دہرا عذاب تھا وہ دکھی انسانیت کو بے چارگی کے عالم میں سوگ زدہ حالت میں دیکھ کرگہری سوچ میں پڑ جاتا اس کے بعداستحصالی عناصر کی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر وہ کڑھتاتھا۔تقسیم ہند کے موقع پر جب بھارت نے پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی بند کر دیا تو چودھری نتھو اور کریم داد نے بہ یک زبان کہا :
’’ دریا بند کرنا بہت ہی اوچھاہتھیار ہے۔انتہائی کمینہ پن ہے ۔رذالت ہے ۔عظیم ترین ظلم ہے ۔بد ترین گناہ ہے ،یزید پن ہے ۔‘‘
انسانی نفسیات پر سعادت حسن منٹوکو عبور حاصل تھا۔معاشرتی زندگی میں یہ روزکا معمول ہے جب رنج کی گفتگو کا آغازہوتا ہے تو اس کے بعد تُو تُو میں میں تک نوبت آ جاتی ہے ۔ یہاں کھسیانی بلی کھمبا نوچنے والی بات سمجھ میںآ جاتی ہے ۔
افسانہ ’’ یزید ‘‘ میں گالی گلوچ پر مبنی انسانی روّیے پر سعادت حسن منٹو نے گرفت کی ہے ۔اسے اچھی طر ح معلوم ہے کہ نشتر زنی سے معاشرتی قباحتوں کو سامنے لایا جاسکتاہے ۔
’’ وہ پانی بند کرکے تمھاری زمینوں کو بنجر کرنا چاہتے ہیں اور تم انھیں گالی دے کر یہ سمجھتے ہو کہ حساب بیبا ق ہوا۔یہ کہاں کی عقل مندی ہے ۔گالی تو اس وقت دی جاتی ہے جب اور کوئی جواب پاس نہ ہو۔‘‘
سعادت حسن منٹو کے اسلوب پر جن ممتازافسانہ نگاروں کے اثرات ملتے ہیںان کے نام درج ذیل ہیں:
امریکی افسانہ نگار ایف۔سکاٹ فٹز گرالڈ( 1896-1940 : F. Scott Fitzgerald )، برطانوی ادیب ڈی ۔ایچ۔لارنس ( 1885-1930 : D. H. Lawrence )
فرانسیسی افسانہ نگار مو پساں ( 1850-1893 : Guy de Maupassant )
بیسویں صدی کے ممتازفرانسیسی ادیب موپساں کے اسلوب کو سعادت حسن منٹو نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اوراس سے گہرے اثرات قبول کیے ۔
افسانہ ’’ بُو ‘‘ کی اشاعت کے بعد سعادت حسن منٹو پر تنقید بڑھنے لگی اوراسے جنسی جنونی کہا جانے لگا۔اسی افسانے کی وجہ سے ایک بار پھر اسے تعزیری کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس افسانے میں سعادت حسن منٹو نے ایک رذیل جسم فروش طوائف کے ساتھ ایک امیر شخص کے تعلقات کو موضوع بنایا ہے ۔ یہ عقل کا اندھااور گانٹھ کا پورا گھٹیا عیاش امیر نوجوان اس رذیل گھاٹن مراٹھی طوائف کی بغلوں سے نکلنے والی سڑاند اور بُوکا گرویدہ جو بارش سے بھیگی ہو ئی مٹی کے مانند ہے ۔اس عیاش نو جوان کو عروسی شب میں اپنی اعلا تعلیم یافتہ بیوی کا حسن و جمال اور ملبوسات پر چھڑکے گئے فرانسیسی پرفیوم کی عطر بیزی متاثر نہیں کر سکی ۔
افسانہ ’’ ٹھنڈا گوشت ‘‘ پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان پہنچنے کے بعد لکھا گیا سعادت حسن منٹوکا پہلا افسانہ ہے ۔ اس افسانے کی اشاعت پر بھی سعادت حسن منٹو پر مقدمہ چلا اور اسے قید وبندکی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ۔یہ انسانیت سے عاری جلاد منش اوردرندہ صفت ایک غارت گر سکھ ڈاکو ایشر سنگھ کی کہانی ہے جس نے نسل کشی ،لوٹ مار اور جنسی جنون کی مکروہ وارداتوں میں آدم خور کاروپ دھارلیا ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلایہ مردم کش درندہ اس مردہ عورت کو اپنی درندگی اور ہوس کا نشانہ بناتاہے جس کے نتیجے میں وہ زندگی بھر کے لیے جنسی صلاحیت سے محروم ہوجاتاہے ۔زندگی کی اقدار عالیہ کی پامالی کا یہ لرزہ خیز ، اعصاب شکن،سفاکانہ اور سوہانِ روح المیہ تازیانہ ٔ عبرت بن جاتاہے یہ غار ت گر ایک گھر میں داخل ہوتاہے اور اس نے چھے مردوں کو اُسی کرپال سے قتل کر دیا جس کے ساتھ اس کی اہلیہ کلونت کور نے اسے شدید گھائل کیا تھا۔گھر میں لیٹی ایک سُندر لڑکی کو اس نے اُٹھا لیااور باہر نکل گیا اور نہر کی پٹڑی کے پاس تھوہر کی جھاڑیوں تلے اسے لٹا کرسوچا کلونت کور کے بجائے آج یہ میوہ بھی چکھ دیکھ ۔۔ ایشر سنگھ کی بیوی کلونت کور جو سردار نہا ل سنگھ کی بیٹی ہے اور بے حد کینہ پرور اور منتقم مزاج ہے۔اس کے ہاتھو ںشدید زخمی ہونے کے بعدایشر سنگھ اپنی بیوی کلونت کور کوجب اپنی سر گزشت سنا رہا تھاتواس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے:
’’ وہ ۔۔ وہ مری ہوئی تھی۔۔لاش تھی ۔۔۔بالکل ٹھنڈا گوشت ۔۔۔جانی ، مجھے اپنا ہاتھ دے ۔۔‘‘
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر ر کھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔‘‘ ( ۲)
افسانہ ’’ ٹھنڈاگوشت ‘‘جنسی جنون اور درندگی کی شرم ناک ،افسوس ناک، لرزہ خیز اور حیران کن کیفیت کوسامنے لاتاہے ۔
سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رہتی ۔بیسویں صدی کے تنہائیوں کے اسیر اس شعلہ بیان اور متنازعہ تخلیق کار کی ہر قسم کے جبر کے خلاف دبنگ لہجے میں تنہا آواز کی بازگشت ہر عہد میں سنی جائے گی ۔موضوعات کے اعتبار سے سعادت حسن منٹوکے افسانوں کی تین درجات میں تقسیم کیا جا سکتاہے :
۱۔ تقسیم ہند کے موقع پر رونما ہونے والے فسادات: بابو گوپی ناتھ ،ٹوبہ ٹیک سنگھ ،سہائے ،ڈارلنگ،رام کھلوان،ٹیٹوال کا کتا
۲۔جنسی ہوس کے موضوع پر لکھے گئے افسانے : ہتک ،سوگندھی ،بُو ،کھول دو، کالی شلوار،ٹھنڈاگوشت،ننگی آوازیں
۳۔متفرق موضوعات: افسانہ ’’ میرا نام رادھا ہے ‘‘ ،’’آخری سلیوٹ ‘‘ ،’’ شاہ دولے کا چوہا ‘‘ کے علاوہ ’’ موذیل ‘‘ اور’’ ممی ‘‘ شامل ہیں۔
’’ میرا نام رادھا ہے ‘‘ میں ایک مرد کردارکو ایک عورت دبوچ لیتی ہے ۔ممبئی کی فلمی دنیا سے متعلق وہ مسائل جن کا انسانیت سے گہر ا تعلق ہے ۔
اگرچہ سعادت حسن منٹو کو معیشت کے افکار نے دم نہ لینے دیامگرتاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر اُس کی گہری نظر تھی ۔تاریخ کے ایک تباہ کن دورکی دھندلی سی تصویر دکھانے والا اردو کا شاہ کار افسانہ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ سعادت حسن منٹو کے اشہبِ قلم کی پر جوش جولانیوں ، ثمر بارتخیل کی بلند پروازی سے مزین حقیقت نگاری اور نیک نیتی کی یاد دلاتا رہے گا۔ تقسیم ہندکے موقع پر رونما ہونے والے فسادات کے بارے میں سعادت حسن منٹو نے تاریخ سے متعلق جن واقعات کو موضوع بنایا ہے ان کا ایک ایک جملہ گنجینہ ٔ معانی کا طلسم بن گیا ہے ۔ یاس و ہراس کے عالم میںکھلی ہواکے لیے ترستے ہوئے پندرہ سال قید کاٹنے والے ذہنی مریض ٹوبہ ٹیک سنگھ کا اصل نام بشن سنگھ تھا۔ تقسیم ہند کے موقع پر بر صغیر کے طول و عرض میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں لکھی گئی یہ کہانی معاشرتی زندگی کی اذیت ناک شکست و ریخت کے بہت ہی قریبی مشاہدے اورذاتی تجربات کی آئینہ دارہے ۔ بشن سنگھ ایک ایسا پر اسرار قیدی ہے جو اپنے ایام اسیری میں ایک لمحے کے لیے بھی نہ بیٹھا اور نہ ہی آرام سے لیٹا۔ اس قیدی کے تبادلے کے وقت بین الاقوامی سر حد پر دونوں ممالک کی سرحدوں پر عجیب کش مکش ہونے لگی ۔پاکستان اور بھارت میں قیدیوں کے تبادلے کا عمل سال ۱۹۵۰ میں مکمل ہو گیا مگر یہ افسانہ سال ۱۹۵۴ میںمنظر عام پر آیا۔تقسیم ہند کے مسائل اور مضمرات کا احاطہ کرنے والے اس افسانے میں سعادت حسن منٹو نے حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے قارئین کو سوچنے پر مجبور کر دیاہے ۔ذہنی مریض ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کم زور اورعلیل ذہن پر یہ کُھلاکہ اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بجائے کہیں اور بھیجنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے ۔اس سوچ نے اس کی بے چین روح کو زخم زخم اور دلِ حزیں کو کرچی کرچی کر دیا اور تقسیم ہند کے موقع پر وہ ترک وطن کے لیے تیار نہیں ہوتااور بین الاقوامی سرحد کی اس لکیر پر جان دے دیتاہے جو دونو آزادملکوں کے درمیان کھینچ دی گئی ہے ۔ تقسیم ہندکے وقت اس خطے میںاخلاقی بحران نے جو گمبھیر صورت اختیار کر لی تھی اس کے بارے میں یہ افسانہ خیال افروز تاثرات سے لبریزہے ۔روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترجانے والی اثر آٖفرینی سے معمور سعادت حسن منٹوکے افسانے استحصالی طبقے کے لیے عبرت کے تازیانے ہیں۔
سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’ کھول د و ‘‘ تقسیم ہند کے خونریز فسادات ،بہیمانہ تشدد اور جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی ماں باپ کی اکلوتی نوجوان لڑکی سکینہ اوراُس کے بدنصیب بوڑھے باپ سراج الدین کے لرزہ خیز مصائب و آلام کے بارے میں ہے ۔ ان فسادات میں دہشت گردوں نے سکینہ کی ماں کو سراج الدین اور سکینہ کے سامنے موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ نزع کے عالم میں مبتلا بڑھیا نے آخری وقت اپنے شوہر سے یہ کہا:
’’ مجھے چھوڑو اورسکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ۔‘‘ ( نمرود کی خدائی: صفحہ ۶)
دہشت گردجنسی جنونی ٹولے نے امرتسر سے لاہورجانے والی ریل گاڑی سے گورے رنگ کی بہت ہی خوب صورت سترہ سالہ سکینہ کو اغواکیااورسب بھیڑئیے اس نہتی لڑکی پر ٹُوٹ پڑے ۔ان کی ہوس ناک جنسی درندگی کے نتیجے میں لڑکی بے ہوش ہو گئی ۔ نیم جان سکینہ کو ہسپتال پہنچایا گیا ،سراج الدین بھی اپنی بیٹی کی تلاش میں ہسپتال پہنچ گیا اوربوڑھے باپ نے جان کنی کے عالم میںپڑی اپنی نوجوان بیٹی کو پہچان لیا ۔سعادت حسن منٹو نے اس اعصاب شکن سانحہ کی جس انداز میں لفظی مرقع نگاری کی ہے اسے پڑھ کر دل دہل جاتاہے ۔اجلاف و ارذال اور سفہانے انسانیت کی توہین ،تذلیل اور بے توقیری کر کے مظلوم لڑکی کو قلعۂ فراموشی کی اسیر بنادیاجہاں وہ اپنی یادداشت اور سوچ سمجھ تک کھو بیٹھی ۔زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا سکینہ کی جنبش دیکھ کر اس کے الم نصیب باپ پر کیا گزری اس کا حال بیان کرتے ہوئے سعادت حسن منٹو نے لکھا ہے :
’’ ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا ،اس کی نبض ٹٹولی اورسراج الدین سے کہا: ’’کھڑکی کھول دو۔‘‘
سکینہ کے مُردہ جسم میںجنبش پیدا ہوئی ،بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اورشلوار نیچے سر کادی ۔بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا’’ زندہ ہے ۔۔۔میری بیٹی زندہ ہے ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔ ‘‘ (۳)
’’ ٹیٹوال کا کتا ‘‘ ایک علامتی افسانہ ہے جس میں ایک مردہ کتے کی علامت سے جنگ کے مسائل،مضمرات اور نتائج سے آ گاہ کیا گیا ہے ۔سعادت حسن منٹو کے افسانے تاریخی اہمیت کے واقعات کا معتبر حوالہ ہیں ۔ان میں صحافیانہ اندازیا عصبیت کا کوئی دخل نہیں ۔ سعادت حسن منٹو نے مقصدیت کے اظہار کے پیشِ نظر نظام قدرت میں انسانی فطرت کی جستجو کی اہمیت پر زور دیا۔ داخلی کرب ،انسانیت کودرپیش مسائل کا شدید ا حساس اور تخلیق فن کے لمحوں میں تخلیق کار کی یکسوئی قاری کو بہت متاثر کرتی ہے ۔ محاذ جنگ پر بھارتی مورچوں میں بیٹھے مسلح دستے اس کتے کو ’’ جُھن جُھن‘‘ جب کہ پاکستانی مورچوں میںاسے ’’ شن شن‘‘ کہاجاتاہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس بے ضرر اور بے گناہ کتے کو کہیں بھی اماں نہیں ملتی ۔ وہ تکلیف دہ آواز میں بھونکتاہے مگر کوئی بھی بے گناہ کتے پر ترس نہیں کھاتا۔ بین الاقوامی سرحد پر محاذِ جنگ پر پاکستان اور بھارت کی مسلح افواج آمنے سامنے ہیں ۔دونوں طرف کے سپاہی اس پر اسرار کتے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔سب کو یہ گمان ہے کہ یہ کتا سراغ رسانی کے لیے استعما ل ہوتا ہے ۔ سب سے پہلے بھارتی فوج نے اس کتے کو نشانہ بنایا اس کے بعدیہ کتا پاکستانی سپاہیوں کی فائرنگ کی زد میں آ گیا۔بھارتی فوج کے جمعدار ہرنام سنگھ نے نشانہ تاک کر گولی چلائی اور اس کتے کو ڈھیر کر دیااور کتے کی ہلاکت کے بعدکہا’’ وہی موت مرا جوکتے کی ہوتی ہے ۔‘‘
سعادت حسن منٹو نے انحطاط کے شکارمعاشرے میں اخلاقی اقدار کی زبوں حالی کے خلاف آوازبلند کی اور معاشرے کے معتوب طبقے کے وہ سب عذاب بیان کیے ہیں جنھیں مراعات یافتہ استحصالی طبقہ بالعموم لائق ِ اعتنا نہیں سمجھتا۔گلشن ہستی میں بوم و شہر ،ملخ و مور ،زاغ و زغن اور کرگسوں کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگر معمورۂ عالم میں سنبل ،گلاب اور چنبیلی کی موجودگی لائق تحسین ہے تو یہاں کثرت سے اُگنے والی خود ر و جڑی بوٹیوں زقوم ،تھوہر ،پوہلی ،بھکڑا، کسکوٹا اوراکڑا کے ذکر پر بھوئیں کیوں تن جاتی ہیں ؟کواکب جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے ۔ یہاں لا ل کنورجیسی حسینائیں ،زہرہ کنجڑن جیسی کٹنی ، بروٹس قماش کے محسن کش، آستین کے سانپ ، سانپ تلے کے بچھو، بگلا بھگت ،سفید کوے ،کالی بھیڑیں،گندے انڈے اور گندی مچھلیاں بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں ۔ ان سادیت پسندوں کے قبیح کردا ر کی حقیقی مرقع نگاری پر چیں بہ جبیں ہونے کا کوئی جوازنہیں ۔ اگر معاشرتی زندگی کوبے اعتدالیوں ،تضادات ،شقاوت آمیز نا انصافیوں ،اخلاقی پستی ،عیاشی ،فحاشی اور بے راہ روی سے نجات مل جائے تو ان سب مناقشات سے وابستہ کردار بھی اپنی موت آ پ مر جائیں گے ۔ ایسی صورت میں جب بانس ہی نہ رہے گا تو بانسری کے بجنے کا تو سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں سعادت حسن منٹو کا مطمح نظر یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہو معاشرتی زندگی کی قباحتوں کو ہدفِ تنقید بنایاجائے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طوائف ،نائکہ اور کٹنی کا متعفن وجودمعاشرے کے لیے باعث ننگ و عار ہے مگر اس کے وجودسے شپرانہ چشم پوشی کرناخود فریبی ہے ۔سعادت حسن منٹو نے قحبہ خانو ں ،چنڈو خانوں اور عشرت کدوں کے ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے یہاں داد عیش دینے والے جنسی جنونیوں اور گھٹیا عیاشوں کی مکروہ چہرے سے بھی نقاب اُٹھایا ہے ۔ فن افسانہ نگاری میں اپنے اسلوب کا دفاع میں سعادت حسن منٹو نے لکھاہے :
’’ اگر ہم افیون ،بھنگ،چرس اور شراب کے ٹھیکوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو اُن کوٹھوں کا ذکرکیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعما ل کیا جاتاہے ۔بھنگیوں سے چھوت چھات کی جاتی ہے ۔اگر کوئی بھنگی ہمارے گھر سے گندگی کا ٹوکرااُٹھاکر باہر نکلے تو ہم اپنی ناک پررومال ضرور رکھ لیں گے ۔ہمیں گِھن بھی آ ئے گی مگر ہم بھنگیوں کے وجود سے تو منکر نہیں ہو سکتے ۔اُس فضلے سے تو انکار نہیں کر سکتے جوہر روز ہمارے جسم سے خارج ہوتاہے ۔‘‘ (۴)
افسانوی مجموعے ’’ خالی بوتلیں خالی ڈبے‘‘ میں شامل ایک نیم سوانحی افسانے ’’ سہائے ‘‘ میں سعادت حسن منٹو نے تشدد کے خلاف لکھاہے :
’’ یہ مت کہوکہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ،یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں،ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے والے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میںنہیں گئے ۔۔۔۔۔۔وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکارکیے جا سکتے ہیں۔۔۔مذہب ،دین،ایمان،دھرم ،یقین ،عقیدت۔۔یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں ،روح میں ہوتاہے ۔۔۔چُھرے ،چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتاہے ؟۔‘‘ (۵)
اپنے افسانے ’’ ۱۹۱۹ کی ایک بات ‘‘ جوسال ۱۹۵۱میں شائع ہونے والے افسانوی مجموعے ’’ یزید‘‘ میں شامل ہے سعادت حسن منٹو نے جلیاں والا باغ کے المیہ کے موضوع پر لکھا ہے ۔فسادات سے متاثر ہونے والوں کی زبوں حالی اور سوختہ سامانی کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت سعادت حسن منٹو نے جس بے مثال انسانی ہمدردی ،غیر جانب داری ،خلوص ،دردمندی اور بصیرت سے کام لیا ہے وہ اس کی انفردیت کی دلیل ہے ۔اس افسانے میں منشیات کے عادی اور جواری ایک طوائف زادے ’’ تھیلا ‘‘ نامی ایک آوارہ گرد کنجر کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس کہانی کااچانک اور غیر یقینی حالت میں اختتام قاری کو ایک ایسی وادیٔ خیال میں پہنچادیتاہے جہاں وہ سوچتا ہے کہ تخلیق کار کے افکار کی جولاں گاہ حدِ ادراک سے بھی پرے ہے ۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں حقائق کی گرہ کشائی اور افکارِ معیشت کی لفظی مر قع نگاری قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔اس کنجر کی دو حسین وجمیل بہنیں شمشاداور الماس رذیل جسم فروش طوائفیں تھیں جب وہ زرق برق پشوازوں میں ملبوس ہوتیں تو ان پر کوہ قاف کی پریوں کا گمان ہوتا۔ تھیلا کنجر برطانوی استعمار کے آلۂ کار شقی القلب افسروں کے انتقام کا نشانہ بن گیا۔ اپنے نوجوان بھائی کی لاش دیکھ کراس کی دونوںبہنیںبے ہوش ہوگئیں۔ جب تھیلا کاجنازہ اُٹھا تو شمشاداور الماس نے ایسے بین کیے کہ ہر آنکھ اشک بار ہوگئی ۔ تھیلا کی موت کے صرف دودن بعد اس کی بہنوں کو خوشامدی ٹوڈی موقع پرستوں کی ایماپربرطانوی استعمار کے کارندوں کی سجائی ہوئی ایک محفل رقص و موسیقی میں بلایا گیا۔ یہ دونوں بہنیںخوب سج کر او ر سولہ سنگھار کر کے اپنے بھائی کے قاتلوں کے پاس پہنچ گئیں ۔ رقص و سرود کی یہ محفل رات گئے دو بجے تک جاری رہی اور عالمِ مدہوشی میں یہ دونوںبندِ قبا سے بے نیاز ہو کر ناچتی ،گاتی اور اپنے بھائی کے قاتلوںکا دل لبھاتی رہیں ۔ اپنی یقینی موت کودیکھ کر بھی یہ رذیل طوائفیں اپنی عیاشی اور بدمعاشی سے باز نہ آ ئیں ۔ عیش و طرب کی یہ محفل ختم ہوئی تو ان حسیناؤں نے بلانے والوں کی ہر بات مان لی اور ہوس پرست سفا ک قاتلوں کی تسکین کے لیے سب کچھ وار دیا۔یوں ان طوائفوں نے اپنے بھائی کے نام پر بٹالگادیا۔خون آشام کرگسوں نے انھیں نوچنے اور بھنبھوڑنے کے بعد گولیوں سے بُھون ڈالا۔ یہ رذیل جسم فروش طوائفیں اور بے ضمیر کسبیاں حرص و ہوس کی وجہ سے بے حس ہو چکی تھیں۔اپنے حقیقی بھائی تھیلا کی ہلاکت کے بعد انھوں نے ردائے ماتم اوڑھنے کے بجائے اپنی آنکھوں پر بے شرمی،بے حیائی ،بے غیرتی اور بے حسی کی ٹھیکری رکھ لی ۔ سعادت حسن منٹو نے قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیاہے کہ ان طوائفوں کوکیا کرنا چاہیے تھا؟اس کا جواب واضح ہے کہ جو ظلم پر لعنت نہیں کرتا وہ خود لعین ہے ۔ اپنی جان پر دہرا عذاب لینے کے بجائے ان طوائفوں کے لیے یہ بہتر تھا کہ وہ اپنی مرضی سے موت کو گلے لگا لیتیں اور اپنے بھائی تھیلا کے نام پر بٹانہ لگاتیں ۔
کردار نگاری میں سعادت حسن منٹو کی فنی مہارت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔افسانہ ’’ کالی شلوار‘‘ کا اہم کردار انبالہ شہر سے تعلق رکھنے والی ایک رذیل جسم فروش طوائف ہے جس کا نام سلطانہ ہے ۔ یہ رذیل جسم فروش طوائف انبالہ میں تین چار گھنٹو ں میں آٹھ دس گورو ںکو نمٹا کر بیس تیس روپے خرچی جمع کر لیتی تھی ۔ سلطانہ نے خرچی کی کمائی سے گھر کافرنیچر ،قیمتی ملبوسات ،کانوں کے بُندے اورساڑھے پانچ تولے کی آ ٹھ کنگنیاں بنوالیں ۔ انبالہ میں ایک بھڑوے خدابخش کے ذریعے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے ۔ ہوس ِزر سے مجبور ہو کر سلطانہ نے اپنے بھڑوے اور توہم پرست دیرینہ آ شنا’’ خدا بخش‘‘ کے مشورے سے قسمت آزمائی کے لیے دہلی جانے کا فیصلہ کیا۔ خدا بخش ایسے عاملوں کے پاس جاکر اپنی قسمت کھلنے کے منترپوچھتا ہے جن کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہوتی ہے ۔دہلی میں بھی جب سلطانہ کے حالات جوں کے تو ں رہے تو اس کی پریشاںحالی اور درماندگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دہلی میں سلطانہ کاایک دیوانہ ’’ شنکر ‘‘ ہے جوسلطانہ اور مختار دونوں کو فریب دیتا ہے ۔سلطانہ نے اپنی زندگی سے جمود کے خاتمے کی خاطر شنکر کووقت کا ایک سانحہ اور حالات کا جبر سمجھ کر قبول کر لیا۔شنکر نے سلطانہ سے چاندی کے بُندے لیے اور وہ مختار کو دے کر اس سے ساٹن کی کالی شلوارلی ۔ سلطانہ کو کالی شلوار کی ضرورت تھی یہ شلوار اس نے سلطانہ کو دے دی ۔
سلطانہ نے اپنا پسندیدہ کالا لباس پہنا اور خوشی سے پھولے نہ سمائی ۔اس اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی ۔مختار اس کے گھر میں داخل ہوئی جب اس نے حیرت و استعجاب کے عالم میں سلطانہ کے لباس کو دیکھا اور بولی :
’’ قمیص اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتاہے ،پریہ شلوار نئی ہے ۔۔۔۔کب بنوائی ؟‘‘
سلطانہ نے جواب دیا ’’ آج ہی درزی لایا ہے ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اُس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں ’’ یہ بُندے تم نے کہاں سے لیے ہیں ؟‘‘
مختارنے جواب دیا ’’ یہ آ ج ہی منگوائے ہیں ۔‘‘
اس کے بعد دونوں کو کچھ دیر تک خاموش رہنا پڑا۔ ‘‘ (۶)
افسانہ ’’ کالی شلوار ‘‘ بہت معنی خیزہے ۔اس میں سعادت حسن منٹو کی کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کی انتہائی موثر قوت دیکھ کر قاری ششدر رہ جاتاہے ۔دہلی میں سلطانہ کا دھندے میں مندے کا رجحان بڑھنے لگااور اس کے زیور تک بِک گئے ۔ اس افسانے کاایک کردار ’’ شنکر ‘‘ ہے جو سلطانہ کے فلیٹ کی بالائی منزل میں رہتاہے ۔ شنکرپہلی اتفاقی ملاقات میں سلطانہ کو کھر ی کھری سناتاہے ۔سعادت حسن منٹو کے اسلوب کا یہ پہلو قاری پر فکر و خیال کے متعدد نئے دریچے واکرتا چلا جاتاہے ۔ سعادت حسن منٹوکے افسانوی کرداروں کے بر جستہ مکالمات اور قاری کے ذہن پر مرتب ہونے والے ان کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے ذیل میں ایک نمونہ پیش کیاجاتاہے :
سلطانہ نے کہا:
’’آپ کام کیا کرتے ہیں ؟‘‘
شنکر نے جواب دیا:’’ یہی جو تم لوگ کرتے ہو!‘‘
’’ کیا ؟‘‘
’’ تم کیا کرتی ہو ؟‘‘
’’ میں ۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔میں کچھ بھی نہیں کرتی۔‘‘
’’ میں بھی کچھ نہیں کرتا۔‘‘
سلطانہ نے بِھناکر کہا:’’ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ۔۔۔۔آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے ؟‘‘
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا:’’ تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہو گی ؟‘‘
’’ میں جھک مارتی ہوں۔۔۔۔‘‘
’’ میں بھی جھک مارتاہوں ۔۔۔‘‘
’’ تو آؤ دونو ںجھک ماریں ۔۔۔‘‘
’’ حاضر ہوں مگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔‘‘
’’ ہوش کی دوا کرو ۔۔۔۔یہ لنگر خانہ نہیں۔۔۔‘‘
’’ اور میں بھی والنٹئیر نہیں۔‘‘
سلطانہ اب رُک گئی۔اس نے پوچھا’’ یہ والنٹئیر کون ہوتے ہیں؟‘‘
شنکر نے جواب دیا’’ اُلّوکے پٹھے ۔۔۔۔‘‘
’’ میں اُلّو کی پٹھی نہیں ۔۔۔۔‘‘
’’ مگر وہ آدمی جو تمھارے ساتھ رہتاہے ،ضرور اُلّو کا پٹھاہے ۔‘‘
افسانہ ’’ ہتک ‘‘ ایک رذیل جسم فروش طوائف’’ سوگندھی ‘‘ کی کہانی ہے ۔اس طوائف کا بھڑوا دلال رام لال اس کے لیے گاہک ڈھونڈ کر لاتاہے ۔ مسخرا ،تلنگا اور بھڑوا دلال جس کانام رام لال ہے ، اپنی زندگی سیہ بختی کے سائے میں کاٹ چکا تھا۔اپنی تباہیوںکوقریب سے دیکھنے کے بعداس نے سوگندھی کوگھٹیا عیاش مادھو کی خست و خجالت سے کئی بار خبر دار کیا مگر سوگندھی نے رام لال کی باتوںپر کوئی دھیان نہ دیا۔وہ سمجھتی تھی کہ اگر خالص سونے کے زیورات میسر نہ ہوں تو ملمع کیے ہوئے گہنوںہی پر گزارا کرنامصلحت ہے ۔ ایک مرتبہ رام لال نے سوگندھی کو ایک سیٹھ کے سامنے پیش کیاتو سیٹھ نے سوگندھی کو دیکھ کر ’’ اونہہ ‘‘ کہا اور موٹرمیں بیٹھ کریہ جاوہ جا۔
رام لال نے سوگندھی کوبتا دیاکہ سیٹھ نے اُسے بالکل پسند نہیں کیا۔ اس واقعہ نے سوگندھی کو بہت بے چین کر دیا متمول سیٹھ کی نفرت کا یہ زہر دھیرے دھیرے سوگندھی کے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ چپکے چپکے ہونی اپنے کاج میں مصروف تھی ۔اس اثنامیں پونہ سے سوگندھی کا ایک پرانا آشنا مادھوبھی آگیا اوراس نے اپنے ایک مقدمے کے لیے سوگندھی سے پچاس روپے کا تقاضا کیا۔ اس موقع پر سوگندھی نے مادھوکے سامنے مادھو سمیت اپنے سب آشناؤں کی تصاویر پھاڑ کر گلی میں پھینک دیں ۔مادھونے جب سوگندھی کو غیظ وغضب کے عالم میں دیکھا تو گھبرا کر چلایا:
’’ سو گندھی ! ‘‘
مغرور سیٹھ کی نفرت، حقارت،توہین وتذلیل کا زخم سہنے کے بعد سوگندھی اپنے من کی چِتا میں جل رہی تھی اور اس کا دل سوگوار تھا۔ شہرِخوگر کیابدلاسارا منظر ہی بدل گیااس کیفیت کو دیکھ کرسوگندھی کی سوچ کا محور مکمل طور پر بدل گیا۔ وہ یہ بات اچھی طر ح جانتی تھی کہ احتیاج کاخراج عقیدت اورتقاضوں کا غازہ لگائے ہوئے رابطے اور نامہ و پیام حلقہ ٔ دام کی ایک صورت ہی تو ہے۔حسرتوں کے گھنے جنگل میں اس مردودِ خلائق طوائف کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ مادھو کی اصلیت جاننے کے بعد سوگندھی نے تیز لہجے میں مادھو سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ سوگندھی کے بچے تُو آیاکس لیے ہے یہاں ؟تیری ماں رہتی ہے اس جگہ جو تجھے پچاس روپے دے گی؟یا تُو کوئی ایسا بڑا گبرو جوان ہے جو میں تجھ پر عاشق ہو گئی ہوں ۔۔۔کتے ،کمینے مجھ پر رعب گانٹھتاہے ؟میں تیری دبیل ہوں کیا؟۔۔۔بِھک منگے !تو اپنے آ پ کو کیا سمجھ بیٹھاہے ۔۔۔میں پوچھتی ہوں تُو ہے کون؟۔۔ ۔چور ہے یا گٹھ کترا؟اِس وقت تُو میرے مکان میں کیا کرنے آیا ہے ؟بلاؤں پولیس کو؟‘‘ ( ۷ )
مادھونے جب سوگندھی کی تلخ باتیں سنیں تو وہ سہم گیااور وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ مادھو کے ساتھ سوگندھی کے لاگ اور لگاؤ کے سب سلسلے ٹوٹ چکے تھے ۔ اپنے ایک پرانے آشنامادھوکے بے نیلِ مرام جانے کے بعدسوگندھی کو اپنے دِل میں ایک خلا محسوس ہوا۔ سمے سمے پر دبے پاؤں آجانے والاسنجوگ خیال وخواب بن گیا۔سیٹھ نے سوگندھی کی جس سفاکانہ انداز میں توہین ،تذلیل اور ہتک کی تھی اس نے جذباتی اعتبارسے سوگندھی کومکمل طور پر منہدم کر دیا۔ کافی دیر تک وہ پیچ و تاب کے عالم میںاپنے بر گشتہ طالعی کے بارے میںسوچتی رہی۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے سوگندھی کو کچھ کرنے نہیں دیتے تھے ۔ کالا دھن کما کر عیاشی کرنے والے مغرور سیٹھ کے صرف ایک ہی لفظ ’’ اونہہ ‘‘ کے ذریعے اس کی جو تکلیف دہ توہین، الم ناک تحقیر،اذیت ناک بے عزتی، عبرت ناک جگ ہنسائی،شرم ناک تضحیک اوراعصاب شکن بے توقیری ہوئی اس صدمے کے بعد وہ مرنابھی چاہتی تو آلامِ روزگار کے بگولے اُسے مرنے بھی نہ دیتے ۔ اس موقع پر سوگندھی کی حالت ِزار کے بارے میں سعادت حسن منٹو نے لکھا ہے :
’’ بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی ۔سوچ بچار کے بعدبھی جب اُس کواپنا دِل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ مِلا،تو اُس نے اپنے خارش زدہ کتے کوگود میں اُٹھایا اور ساگوان کے پلنگ پر اُسے اپنے پہلو میں لِٹا کر سو گئی ۔‘‘ (۸)
مغرور سیٹھ کے ہاتھوں اپنی اذیت ناک ہتک کے بعدسوگندھی کو یہ محسوس ہوا کہ اس کابخت بھی سو گیاہے ۔ ستم گر سیٹھ کی حقارتوں کے بعد ایسی بادِ حوادث چلی جس کے بگولوں نے سوگندھی کی سوچ کا محور اور اُس کی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس کے دِل کی بستی سونی سونی تھی اور وہ سہمی سہمی بیٹھی مجبوریٔ حالات پر غور کر رہی تھی ۔ سوگندھی ایک ایسی طوائف ہے جسے میونسپل کمیٹی کا دارغہ صفائی بھی اپنی ہوس کا نشانہ بناتاہے۔اس کے گاہک شراب کے نشے میں چُور اس کے قحبہ خانے میں آ تے ہیں اور اُس کی ہڈی پسلیاں جھنجھوڑ کروہاں سے واپس جاتے ہیں۔ رام لال اور مادھوسے بیزارہونے کے بعدوہ اپنے پالتو کتے کی وفاداری پر یقین کر لیتی ہے ۔ ادب میں کتے سے وفا کی توقع کی کئی مثالیں ہیں جن میں سگِ لیلیٰ ، خواجہ سگ پرست اور دیو جانس کلبی کا کتا شامل ہیں ۔
نو آ بادیاتی دور میں استبدادی قوتوں کی طرف سے یہاں ہر موقر اور مستندآواز کو حیران و پریشان کر دینے والے جابرانہ ہتھکنڈوںسے دبانے کی مذمو م کوشش کی گئی ۔ افلاک تک پہنچنے والے ان نالوں کے جواب میں اس دل خراش ماحول کاانجام قریب تھا ۔ یہ وہ واضح عواقب اور قباحتیں تھیں جن کے باعث گلش ہندکی ہر شاخ پر بُوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیرا تھا۔ فرسو دہ دقیانوسی تصورات سے گلو خلاصی حاصل کر کے افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی جانب سرگرم سفر رہنے کی تلقین کرنے والے اس تخلیق کار نے زندگی بھر معروضی حقیقت نگاری کو شعاربنایا ۔ پس نوآبادیاتی دورمیںانسانی تہذیب کے نشیب و فراز پر سعادت حسن منٹو نے اپنے خاص طریقہ ٔ کار کو رو بہ عمل لاتے ہوئے جس خلوص کے ساتھ انسانیت کو درپیش مسائل پر قلم اُٹھایاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ابلیس نژاد سفہا کی درندگی کی جو پریشان کن اور عبرت ناک تصویر سعادت حسن منٹو نے پیش کی ہے اسے دیکھ کر ہر حساس اور با ضمیر انسان لرزاُٹھتاہے ۔ تقسیم ہند کے موقع پرہجرت کی بے رحم یادوںکے غیر مختتم دکھ سہنے والے سوگوار ،بے یار و مددگار،بے گھر و بے سہارا،بُھوکے پیاسے ،مفلس و قلاش اور بیمار و نڈھال اپنے مستقبل سے مایوس انسانوں کے انتہائی تکلیف دہ مصائب و آلام کوسعادت حسن منٹونے اپنے افسانوں کا موضوع بنا کر اپنے عہد کے واقعات کو تاریخ کا معتبرحوالہ بنا دیا۔آزادی کے بعد موقع پرستوں کے غیر معقولیت پر مبنی غیر انسانی روّیے کے نتیجے میں یہاں رونما ہونے والے غیر متوقع حالات نے یہاں کے پس ماندہ طبقے کے باشندوں کو خود اپنی نظروں میں اجنبی اور غیرمانوس بنا دیا۔ الم نصیب انسانوں کے دل پر لگنے والے اس نفسیاتی داغ نے خزاں کے سیکڑوں مناظر کی صورت اختیارکر لی ۔ یہ بات سعادت حسن منٹو کے لیے سوہان روح بن گئی تھی کہ وہ اقوام جو اس خطے میں صدیوں سے باہم مل کرخوش وخرم زندگی بسر کر رہی تھیں ان کے روّیے میں تبدیلی کیسے آ گئی ؟ بین الاقوامی سرحدکی ایک لکیر کھنچنے کے بعد یہ قومیں انسانی اقدار سے عاری ہو کر ایک دوسرے کے خون کی پیاسی کیوں ہو گئیں ؟ سعادت حسن منٹونے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے اپنی بے مثال معروضی حقیقت نگاری کے اعجاز سے جبر کے کریہہ چہرے سے نقاب اُٹھایا ہے ۔صبح آزادی کے دل کش مناظر کو وقفِ آلام کرنے والے موقع پرستوں کے خلاف سعادت حسن منٹو نے بڑی جرأت کے ساتھ حقائق بیان کیے ۔ اسے اس بات پر تشویش تھی کہ بر صغیر کی تقسیم کے وقت یہاں کے باشندے اسقدر بے حس کیوںہو گئے کہ وہ ذلت ،تخریب ،رسوائی اورنحوست کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے ۔ عصبیت اور جانب داری کی مظہر قوم پرستی پرسعادت حسن منٹو نے گرفت کی ۔مختلف اقوم کے رگ و پے میں سرایت کر جانے والی نفرت ،عصبیت اور انسان دشمنی کی لرزہ خیز کیفیت دیکھ کر سعادت حسن منٹو نے مظلوم طبقے کی قابل رحم حالت کواپنے افسانوں کا موضوع بنایا ۔تقسیم ہندکے موقع پر رونماہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں اخلاقیات ،اقدار و رویات ،سیاسیات ،تمدن اور معاشرت اور ذہنی انتشار و بے یقینی نے بحرانی کیفیت اختیار کر لی ۔تاریخ ِآزادی کے وہ واقعات جو ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میںاوجھل ہو گئے تھے وہ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میںایک اہم دستاویزکی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔ان دستاویز ی حوالوں کے بغیر ہماری ادبی تاریخ نا مکمل رہ جاتی ہے ۔ اپنی حقیقت نگاری کے تیشے سے سعادت حسن منٹو نے نوآبادیاتی دور میں ابلیس نژاددرندوں کے مسلط کیے ہوئے اذیت و عقوبت کے ماحول اور خام خیالی پر مبنی فرسودہ دقیانوسی سوچ کی فصیل ِجبر پر کاری ضرب لگائی ہے ۔
سعادت حسن منٹو اورہنگری کے ادیب استوان آرکینے ( 1912-1979 :István Örkény ) کی اکثر تحریروں کے بیانیہ میں مماثلت پائی جاتی ہے۔سعادت حسن منٹو کی تصنیف’’ سیاہ حاشیے ‘‘ اور استوان آرکینے کی تصنیف ’’ ایک منٹ کی کہانیاں ‘‘( One Minute Stories ) پڑھ کر قاری لرز اُٹھتا ہے ۔دونوں ادیبوں نے جذباتیت سے ہٹ کرکٹھن حالات کے پسِ پردہ کارفرماقباحتوں کے انسداد کے لیے بیانیہ کی منفر د نوعیت کی چونکا دینے والی حکمت عملی وضع کی ۔دوسری عالمی جنگ( 1939-1945) کی عالم گیر بربادی اورتقسیم ہندکے اذیت ناک تجربات سے معاشرتی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ۔ان اذیت ناک واقعات کے نتیجے میں جو ہولناک تباہیاں ہوئیں وہ تاریخ کالرزہ خیزاور اعصاب شکن باب ہے ۔عالمی ادب میں بھی ان الم ناک واقعات کی بازگشت سنائی دی ۔خاص طور پر اردو ،پنجابی ،ہندی ، سندھی ،بنگالی اور ہنگرین ادب پر اِس کے دُوررس اثرات مرتب ہوئے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیاہے کہ طالع آزمااور مہم جُو عناصر جوشریک سفر ہی نہ تھے انھوں نے منزلوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ان دونوںادیبوں کی روایات اور تشبیہات میں وسیع تر تناظر میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔دونوں نے اپنی جنم بھومی کی شناخت کے حوالے سے دل کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی باتیں حقیقت پسندانہ اندازمیں لکھیں ۔
پس نوآبادیاتی دورمیں عالمی سامراج کی سازش سے پس ماندہ اقوام کی آزادی بے وقار او رموہوم ہو کر ر ہ گئی ہے ۔ مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ ،سماج اور معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو محققین کا وتیرہ رہا ہے ۔یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ ( Napoleon Bonaparte)نے سال 1798میں مصر اور شام پر دھاوا بو ل دیا تھا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں ان سابقہ نو آبادیات میںسلطانیٔ جمہور کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ان ممالک کے حکمرانوں کے سر پر تو خود مختارحکومت کا جعلی تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں بیڑیوں سے فگار ہیں ۔ اپنی تحریروں میں سعادت حسن منٹو نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا استحصالی عناصر پرانے شکاریوں کے مانند ہمیشہ نئے جال لے کر شکار گاہ میں پہنچتے ہیں اور کُھلی فضاؤں میں دانہ دُنکا چُگنے کے عادی طیور کو اسیرِ قفس رکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتے ہیں ۔ سعادت حسن منٹو نے نہایت صبر و تحمل کے ساتھ تباہیوں کا ملال برداشت کرتے ہوئے اعصاب کو شل کر دینے والے تجربات کو پیرایہ ٔ اظہار عطاکیا۔ اُردو افسانے کو آفاق کی وسعتوں سے آ شنا کرنے میں سعادت حسن منٹو کی دروں بینی،مشاہدے اور تجربات نے کلیدی کردار ادا کیا ۔سیاسی اور معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز ،تضادات ،بے ہنگم ارتعاشات اور مناقشات نے سعادت حسن منٹو کو بے حد مضطرب کر دیاتھا۔ اپنے افسانوں میں سعادت حسن منٹو نے روایتی حقیقت نگاری سے آگے بڑھ کر افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا۔اس نے جو نئی تخلیقی حکمت عملی وضع کی اس کا اہم پہلو زندگی کے تلخ حقائق کی جستجو تھا۔آزادخیالی کی مظہر اس غیر روایتی تکنیک کو رو بہ عمل لاتے ہوئے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر سعادت حسن منٹونے کاٹ دار افسانے لکھے ۔ تخلیق فن کے لمحوں میں سعادت حسن منٹو نے معروضی حقائق کے احساس و ادراک کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔ پس نو آبادیاتی دور کے حالات پر سعادت حسن منٹو کے موثر افسانوں کاعالمی سطح پر اعتراف کیاگیا۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مآخذ
۱۔سعادت حسن منٹو : ’’ مجھے بھی کچھ کہنا ہے ‘‘ مضمون مشمولہ ادب لطیف ،لاہور، جلد۱۶،شمارہ ۱، ستمبر ۱۹۴۲، صفحہ ۴
۲۔ سعادت حسن منٹو : فسانے منٹو کے ، ترتیب و انتخاب ڈاکٹر خالد اشرف، کتابی دنیا دہلی ، سال اشاعت ۲۰۰۷، صفحہ۳۳۰
۳۔ سعادت حسن منٹو : نمرد کی خدائی ، ساقی بک ڈپو ،دہلی، جدید ایڈیشن ،۱۹۹۰، صفحہ ۱۰
۴۔سعادت حسن منٹو : ’’ مجھے بھی کچھ کہنا ہے ‘‘ مضمون مشمولہ ادب لطیف ،لاہور، جلد۱۶،شمارہ ۱، ستمبر ۱۹۴۲، صفحہ ۵
۵۔ سعادت حسن منٹو : فسانے منٹو کے ، ترتیب و انتخاب ڈاکٹر خالد اشرف، کتابی دنیا دہلی ، سال اشاعت ۲۰۰۷، صفحہ ۳۴۳
۶۔ سعادت حسن منٹو : فسانے منٹو کے ، ترتیب و انتخاب ڈاکٹر خالد اشرف ، ایضاً، صفحہ۲۱۷
۷۔سعادت حسن منٹو: منٹو کے افسانے ، مکتبہ ٔ اُردو ،لاہور، ستمبر ۱۹۴۱ صفحہ ۲۴۲
۸۔ سعادت حسن منٹو: منٹو کے افسانے، ایضاً صفحہ ۲۴۳
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad Jhang City )