فرانسیسی نقاد الگر ڈاس جولین گریماس(Algridas Julian Greimas) کا شمار بیسویںصدی کے دنیا کے اُن انتہائی ممتاز،معتبر اور مؤقر ماہرین لسانیات میں ہوتا ہے جنھوں نے لسانیات اور ادبی تنقیدمیں تقلید کی مہلک روش سے گلو خلاصی حاصل کر نے کے بعدجہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرارکیا ۔الگرڈاس جولین گریماس(پیدائش:نو مارچ1917،وفات:ستائیس فروری 1992)نے اپنے معاصر ماہر لسانیات رولاں بارتھ(پیدائش:بارہ نومبر 1915،وفات:چھبیس مارچ1980)کے ساتھ مِل کر جدید لسانیات کوعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ فرانس میں مقیم نامور ماہر علم بشریات،ساختیات کے علم بردار، ادیب ،دانش ور اور ماہر لسانیات کلاڈ لیوی سٹراس (پیدائش: اٹھائیس نومبر 1908،وفات:تیس اکتوبر 2009)سے بھی متاثر تھا۔اپنے منفرد اور توانا اسلوب میںاس نے روسی ماہر لسانیات ولاد میر پروپ(پیدائش:سترہ اپریل1995،وفات:بائیس اگست1970) کو پیشِ نظر رکھا ۔اس نے مقدور بھر کوشش کی کہ روسی لوک کہانیوں پر تحقیقی کام کرنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل کے نظریات کی ترویج و اشاعت کویقینی بنایا جائے۔ وہ لوک کہانیوں اور لوک گیتوں میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ 1928میں روسی زبان میں ماسکو سے شائع ہونے والی ولاد میر پروپ کی معرکہ آرا تصنیف’’Morphology of Folk tales‘‘اسے بہت پسند تھی۔اہل مغرب اس اہم کتاب سے طویل عرصہ تک بے خبر رہے یہاں تک کہ اس کا انگریزی زبان میںترجمہ 1958میں ہوا تو مغربی دانش وروں کو اس اہم کتاب کے مصنف کے اشہب قلم کی جو لانیوں کا اندازہ ہوا۔ولاد میر پروپ کی اس تصنیف سے جو ممتاز ادیب بہت متاثر ہوئے ان میں کلاڈ لیوی سٹراس، ایلن ڈنڈیز(Allen Dundes) ہنری بریمنڈ(Henri Bremond) اور الگرڈاس جولین گریماس کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ان تمام دانش وروں نے قدیم لوک داستانوں اورلوک گیتوں پر تحقیقی کام کو آگے بڑھانے میں اہم کردارادا کیا۔
تولا(روس )میں جنم لینے والے الگرڈاس جولین گریماس نے ایک زیرک، فطین ،متجسس اور ہونہار طالب علم کی حیثیت سے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ اس کے والدین کا تعلق لتھوانیا سے تھا ۔ اس نے 1934 میں امتیازی حیثیت سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد لتھوانیا کے دوسرے بڑے شہر اور ملک کے ممتاز تعلیمی مرکزکاناس(Kaunas) میں واقع پبلک یونیورسٹی میںقانون کی تعلیم حاصل کی۔اپنی انڈرگریجویٹ تعلیم سال 1939 میں گر ینوبل(Grenoble) یونیورسٹی فرانس سے مکمل کی۔اس نے گریجو یٹ سٹڈیزکا آغاز تو فرانس میں کر دیامگر 1940 میں اسے بعض نا گزیر حالات کے باعث لتھوانیاواپس آنا پڑا۔ یہاںاس نے تدریس اور صحافت کے شعبوںمیںخدمات انجام دیتے ہو ئے اپنی عملی زندگی کا آغازکیا ۔صحافتی زند گی میںاس نے تخلیقِ ادب ،تحقیق اور تنقیدِ ادب کے موضوع پر اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے سماں با ند ھ دیا۔ اس کے تنقیدی مضامین ملک کے ممتاز ادبی جرا ئد میں توا تر سے شا ئع ہو نے لگے ۔ اس نے علم و ادب ، فنون لطیفہ ، تہذیب ، ثقافت ،تاریخ اور علم بشریات کے مو ضوع پر کھل کر لکھا۔1940 سے 1950 کے عر صے میں اس کی تنقیدی بصیرت کی ہر طرف دھوم مچ گئی ۔ اس عر صے میں اس کی درج ذیل دو کتابیںبہت مقبول ہوئیں:۔
1. On Gods and Men
2. In search of national memory
سال1944 میںاس نے لتھوا نیا سے ہجرت کی او رسور بون (Sorbonne )میں تحقیق و تنقید کی اعلا تعلیم کا آغاز کیااور یہیں سے اس نے 1949 میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ اس نے فیشن کے ذخیرہ الفاظ پر جس محنت سے داد تحقیق دی اسے وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی اور ممتاز ماہرین لسانیات بھی باریک بینی اور تجسس پر مبنی اس کی تحقیق و تنقید پر دنگ رہ گئے۔اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے اُسے دائر ۃالمعارف ، قامو س اورلغت سے گہری دلچسپی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقی مراحل میں اس کا اختصاص لغت نو یسی (Lexicography ) ہی تھا ۔اپنی عملی زندگی میںتحقیق اور تنقید کو شعار بنانے والے ایک وسیع النظر، محنتی اور دُوراندیش لغت نویس (Lexicography) کی حیثیت سے اس نے الفاظ کے عام استعمال اور ان میں نہاں گنجینۂ معا نی کے طلسم سے مدلل انداز میں بحث کی۔اس نے واضح کیا کہ بصیرت سے متمتع ایک وسیع المطالعہ زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر اپنی عملی زندگی کے متنوع تجربات ،مشاہدات اور جذبات و احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتا ہے تو وہ یدِ بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ادبی تخلیقات میں بیانیہ کے معنیاتی تجزیہ کو جس مہارت سے اس نے پیش کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ پر خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے وہ ایک پھول کا مضمون بھی سو رنگ سے باندھنے پر قادر تھا اور اس کی تحریریں اس کا بے مثال نمونہ ہیں ۔اس کے وسیع مطالعہ ،محنت اور قابلیت کی بنا پر دنیا بھر میں اس کے مداحوں اور خوشہ چینوںکی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی علمی ،ادبی،تنقیدی ،تحقیقی اور لسانی کا مرانیوں کی ہر طرف دُھوم مچ گئی۔ سال 1950میںاس نے مصر کے قدیم شہر سکندریہ میں علم و ادب کو پروان چڑھانے والے معلم (Docent)کا منصب قبول کر لیا ۔سکندریہ جو 331قبل مسیح میں قائم ہوا تھا مصر میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے ۔یہاں اس کا تقرر فرانسیسی زبان کی تدریس کے شعبے میںہوا ۔ممتاز ماہر لسانیات رولاں بارتھ سے اس کے معتبر ربط کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا ۔اس نے رولاں بارتھ کو رومن جیکب سن (Roman Jakobson)کے لسانی تصورات سے آگا ہ کیا۔ روس سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب رومن جیکب سن(پیدائش:دس اکتوبر 1896،وفات اٹھارہ جو لائی1982) کا شمار ساختیاتی فکر کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔زبان سے وابستہ اظہار و ابلاٖغ کی مختلف کیفیات ،اسالیب اور سانچوں کے بارے میں رومن جیکب سن کے خیالات سے انھوں نے گہرے اثرات قبول کیے۔الگرڈاس جولین گریماس کی قابلیت سے متاثر ہو کر دنیا کی متعدد جامعات نے اسے اپنے ہاں تدریسی خدمات انجام دینے کی دعوت دی۔انقرہ یونیوسٹی میںاسے فرانسیسی زبان اور گرامر کی تدریس پر مامور کیا گیا۔جلد ہی وہ استنبول یو نیورسٹی چلا گیا یہاں سے وہ فرانس کی پایوٹیرز یونیورسٹی( ُPoitiers University) پہنچا۔ فرانس کی اس مشہور یونیورسٹی نے 1431میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا جہاں تئیس سو کے قریب اساتذہ چوبیس ہزار طلبا و طالبات کی تدریس میں مصروف ہیں۔سال 1965میںاس نے رولاں بارتھ کی جگہ لی اور اسے اس عظیم جامعہ میں سوشل سائنسز کے ڈائریکڑ کے منصب پر فائز کیا گیا۔اس نے پچیس سال تک یہاں خدمات انجا م دیں۔
اپنی کتاب ’’Semantique Structurale‘‘میں الگرڈاس جولین گریماس نے ولادمیر پروپ کے لسانیات اورساختیات کے بارے میںخیالات کی وضاحت اور صراحت کرتے وقت بیانیہ کے مفاہیم کے تجزیاتی مطالعہ پر توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ’’Structural Semantics‘‘ اور ’’Semiotics and language‘‘کے نام سے ہو چکا ہے تاہم اس کے متعدد مقالات کا تا حال انگریز زبان میں ترجمہ نہیں ہو سکا ۔اہلِ نظر اس حقیقت سے بہ خوبی آگا ہ ہیں کہ ولاد میر پروپ نے محض لوک داستانوں میں پائے جانے والے کہانی پن کے محرکات کو زیر بحث لانے پر اکتفا کیا لیکن الگرڈاس جولین گریماس نے اسلوب اور بیانیہ کی تمام ممکنہ صورتوں،الفاظ و معانی کے نمونوں اور سانچوںاور بیانیہ کی ساخت اور شعریات کے گُل دستۂ معانی کے دھنک رنگ منظر نامے سے قوس قزح کے رنگوں کے مانند جھلکنے والے شعریات کے طلسم کو موضوع بنایا ہے۔اس نے معانی میں نہاں امتیازات و افتراقات کے تجزیاتی مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اورمعنیاتی اکائیوں کے مابین پائے جانے والے افتراقات کو معنی خیزی کے عمل انگیز کی حیثیت سے دیکھا۔ اس نے استدلال سے ثابت کیا کہ شکست و فتح ،بلند و پست ،نشیب و فراز اور ہجر و وصال کی کیفیات کی تفہیم صرف متضاد مفاہیم کی مرہون منت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مرنے کے بغیر جینے کی شان دِل رُبائی کا کوئی تصور ہی نہیں۔
سلسلہ ء روز و شب نقش گر حادثات ہے ۔اس وسیع و عریض عالم آب و گل کے مظاہر ،دراز کا رجہاں ،اسرار و رموز اور تعاملات ا س حقیقت کے مظہر ہیںکہ یہ کائنات ابھی شاید نا تمام ہے اسی لیے دما دم صدائے کن فیکو ن کانوں میں گونجتی ہے ۔جہاں تک تخلیق ادب کا تعلق ہے تو اس کے سوتے بھی زندگی کی معنویت کی روانی اور اسی معنی خیزی سے پھوٹتے ہیں ۔ادب کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایک فعال مستعد اور زیرک تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے محض گنجینہ ء معانی کے طلسم کی گرہ کشائی نہیںکرتا بلکہ ایک رنگ کے خوب صور ت پھول کا مضمون سو رنگ سے باند ھ کر نئے معانی کو سامنے لاتا ہے ۔اس کی یہ حیران کن فعالیت ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور نئے معانی کی تخلیق اور نئے مفاہیم کی آفرینش سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ مرتب ہوتا ہے الگرڈاس جو لین گریماس کے خیال کے مطابق فکر و خیال کی اسی جولانی کو تخلیق ادب پر محمول کرنا چاہیے ۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کا ادب محض لفظی مرقع نگاری کے ذریعے تمام مناظر ،مطالب اور مفاہیم تک رسائی کے امکانات سامنے نہیں لاتا بلکہ اس کے معجز نما اثر سے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے غیب سے نئے نئے مضامیں خیال میں آتے چلے جاتے ہیںاور اس طر ح ا یک ایسا غیر مختتم سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو نت نئے معانی اور مفا ہیم کی تشکیلات پر منتج ہوتا ہے ۔ اس لیے اس نے ادب کو معنی خیزی کا نقیب قرار دیا ۔یہ معنی خیزی اس قدر وسیع ،جامع اور ہمہ گیر ہوتی ہے کہ ہر لحظہ اس کی نئی شان قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔زبان کے بارے میںاس کے تصورات ساختیاتی فکر کو سمجھنے میںمدد دیتے ہیں ۔اس نے زبان کے ہمہ گیر اثر کو زیر بحث لاتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سائنسی طریقِ کار کے تحت ایک خاص لسانی نظام تشکیل پاتا ہے۔اس کے معجز ناماثر سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہانسانی تہذیب و معاشرت کے تمام عناصر جن میں ادب اور فنون لطیفہ بھی شامل ہیںسب نشانات کے ایک خاص نظام کاحصہ ہیں۔
تاریخ اور اس کے مسلسل عمل الگرڈ اس جولین گریماس نے ایک ایسے علم سے تعبیر کیا ہے جو چونکا دینے اور ورطہ ء حیرت میں ڈال دینے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔ پہلی اوردوسری عالمی جنگ کی زخم خوردہ دُکھی انسانیت کو سمے کے سم کے ثمر نے طبعی اور نفسیاتی اعتبار سے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ان تباہ کُن عالمی جنگوں کے مسموم اثرات نے بے بس انسانیت کی روح کو زخم زخم اور دلوں کو کرچی کرچی کر دیا۔ عالمی جنگوں کے نتیجے میں پھیلنے والی وسیع پیمانے پر تباہیوں نے آبادیاں کھنڈر،رُتیں بے ثمر ،بستیاں پُرخطر،کلیاں شرر، زندگیاں مختصر اورآہیں بے اثر کر دیں۔طالع آزما اور مہم جُو عناصر کی خون آشامی اور موقع پرست عناصر کی نمک حرامی کے باعث مرگِ نا گہانی کی تمنا لیے مظلوم انسانیت اپنے گلے میں اپنی ہی بانہیں ڈالے حسرت و یاس کا پیکر بن گئی۔جدیت نے ان حالات میںنموپائی ۔دنیا بھر کے دا نش ور ایسے نظریات کے متلا شی تھے جن سے فکر و خیال کی واد ی میںمنڈلانے والے یاس و ہراس کے سائے چھٹ جا ئیں۔ 1950 میں فرانس سے ساختیات کا غلغلہ بلند ہوا۔ یورپ میںروبن جیکب سن ،کلاڈلیوی سٹراس اور رولاں با رتھ کی ساختیاتی فکر پر مرکوز رہی ۔ ان کا خیال تھا کہ نشا نا ت کی سا ئنس (Semiotics )کو رو بہ عمل لا کر فکری اضمحلال سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
ان کا خیال تھا کہ اس عا لم آب و گل میںافراد کے اعمال ، افعال ، را بطے اور جذبات کا اظہار و ابلاغ ان سب کا انسلا ک نشان سے کیا جا سکتا ہے اور نشا نات من ما نے طر یقے سے متعین کیے گئے ہیں۔ ان تما م نشا نات میں کو ئی وراثتی مفاہیم نہاںنہیںبل کہ ان نشا نوںکو ذاتی پسند یا نا پسند اور من ما نے اندازسے مفا ہیم دیئے گئے ہیں۔ الفا ظ اور نشا نات کی معنی خیزی کا عمل دراصل افتراقات کے قا بل تعین نظا م کے سہا رے پر وان چڑھتا ہے ۔ اس طر ح متن کے مطالب کی جانب مر حلہ وار اور سائنسی انداز کے تحت پیش قدمی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس کی معنی خیز تحریروں میں سو سیئر کے تصورات کی بازگشت سنا ئی دیتی ہے۔ سوسئیر اور لیوی سٹراس کی طر ح اس نے بھی کئی پر اسرار مفرو ضوںکی گرہ کشا ئی کر نے کی سعی کی اور یہ کہا کہ نا خن پر قر ض ہے گرہ نیم بازکا اور اس طرح ان مفروضوںکو بامعنی اکائیوں میںمنقسم کرکے جہانِ معانی تک رسائی کی راہ دکھائی ۔ مفروضے اور متن سے معانی اخذ کرنے میںساختیاتی فکر نے افتراقات پر انحصار کرتے ہوئے روشنی کے نئے سفر کا آغاز کیا۔ساختیاتی فکر کے بارے میں یہتاثر عام ہے کہ اسے یورپی ذہن نے پروان چڑھایا لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ متعدد امریکی مفکرین بھی اس سے براہِ راست متاثر ہوئے ۔نوم چو مسکی (Noam Chomsky)کی تحریروں میں ساختیاتی فکر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔اس نے الفاظ اور آوازوں کے باہمی ارتباط اور افتراقات کو جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی سے تعبیر کیا ۔ تخلیقی عمل میںالفاظ کے متکلم ہونے اور ان کے آ ہنگ سے اظہار اور ابلاغ پر یقیناً دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔لسانیات کی کشتِ ابلاغ میںالفاظ کے بیج بو نے سے جو گُل کھلتا ہے سا ختیا ت نے اس سا ئنسی عمل کو مر حلہ وار سمجھنے کی مقدور بھر کو شش کی ۔
چارلس سینڈرز پیرز ( ( Charles Sanders Peirceاور سوسئیر(Saussure) کی طرح اس نے بھی اظہار و ابلاغ کے لیے استعمال ہو نے والے الفاظ کی گرا ئمر کی تہہ تک پہنچنے پر اصرار کیا اور اس فکری انتشارکی وجو ہ کو منظر عام پر لا نے کی کو شش کی ۔ جس نے معا شرتی زند گی کو اپنی گر فت میں لے رکھا تھا ۔ انسب دانش وروں کا خیال تھا کہ نشا نا ت کے مفا ہیم کے سوتے ان میں پا ئے جا نے والے افترقات سے پھو ٹتے ہیں۔حریت فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے اس نے ہمیشہ تقلیدی رجحانات کے مسموم اثرات سے بچنے کی راہ دکھائی،اس نے ادبی ،لسانی ،تہذیب اورثقافتی اقدار و روایات کے پرانے اور فرسودہ تصورات کی اسا س پر استوار کاخ و ایوان کو تیشہ ء حرف سے منہدم کر دیا ۔زبان کو اس نے کبھی شفاف میڈیم تسلیم نہ کیا اور ان لوگوں کے انداز فکر کو گمرا ہ کن قرار دیا جو زبان کو ایک شفاف میڈیم کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ادبی تنقید کو اس نے ایسا دلکش اسلوب اور ڈسکورس عطا کیا کہ اسے تخلیق کی دل کش رعنائیو ں سے مزین کر دیا ۔اس کا خیال تھا کہ بادی النظر میں ماضی ،حال اور مستقبل کے متعلق مثبت شعور و آگہی کے سوتے تاریخ کے حقیقی شعور ہی سے پھوٹتے ہیں ۔تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کی صورت میں انسان اپنے حال کو سنوارنے کے لیے بہتر لا ئحۂ عمل اختیا کر سکتا ہے ۔اس کے اعجاز سے ایک مثبت انداز ِفکر پروان چڑھتا ہے اور انسان یہ محسوس کر لیتا ہے کہ ستارو ںسے آگے اور بھی کئی جہاں ہیں۔اس کی نگاہ بلند ہو جاتی ہے اور وہ ستارو ںپہ کمند ڈالنے کی صلاحیت اپنے اندر موجزن محسوس کرتا ہے ۔آج کے دور میںزندگی کی برق رفتاریو ں نے فاصلو ں کی طنابیں کھینچ لی ہیں ۔تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لانے والے محنتی ، اولو العزمان دانش مند جبرکا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر کی راہ اپناتے ہیں۔جب ایک جر ی تخلیق کار حق گوئی ،بے باکی اور صداقت کی مشعل تھام کر تخلیقِ فن پر مائل ہوتا ہے تو اس کا وجود مہیب سناٹو ں میں حق کی آواز اور ہولناک تاریکیوں میں ستارہ ٔ سحر اور جانگسل تنہائیوں ایک قابل اعتماد ساتھی کی حیثیت سے حوصلے اور ہمت کی نوید بن جاتا ہے۔
الگرڈاس جولین گریماس کو اس بات کا شدیدقلق تھا کہ چربہ ساز ،سارق،کفن دزد ،جعل ساز اور خفاش عناصر نے گلشن ادب پر دھاوا بو ل دیا ہے ۔ان لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کے باعث فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم اب تک نہیں آسکا۔قلم فروش ادیبوں کے قبیح کردار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس نے واضح کیا ہے کہ ان سفہا ،اجلاف و ارزال اور ساتا روہن کی وجہ سے ادب نے الفاظ کے سرطان کی صورت اختیار کر لی ہے ۔جب بھی لفظ کی حرمت کو پامال کیا گیا رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔ایک سچے تخلیق کار کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے تخیل کی جولانیوں سے رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اپنے الفاظ میں اس طر ح اتار ے ہیں ہے کہ قاری ان کی رو ح کی گہرائیو ںمیں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مسحور ہو جائے ۔الگر ڈاس جولین گریماس کی تحریروں میں یہی اثر آفرینی اپنا رنگ دکھاتی ہے ۔اپنے تخیل کی جولانیو ںسے قاری کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈالنے میں اُسے ید طولیٰ حاصل ہے ۔ادبی دبستانوں کی تنگ نظری اور ہر قسم کی عصبیت سے دامن بچاتا ہو ا وہ اپنے لیے ایک الگ اور منفرد راہ کا انتخاب کرتا ہے اس کی اس انفرادیت میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ۔اپنی ادبی زندگی اور تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت الگرڈ جولین گریماس نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس کا تعلق قلم و قرطاس کے حوالے سے تخلیق ادب سے ہے ۔اس نے کبھی تنقید ،لسانیات یا دیگر نظریات کے حوالے سے احساس تفاخر کا اظہار نہیں کیا بل کہ اپنے فطری عجز و انکسار کو سدا زادِ راہ بنایا۔اپنی بیس کے قریب وقیع تصانیف سے اس نے لسانیات کی ثروت میں اضافہ کیا ۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
1.Of gods and men
2. On Meanings
3. The Social Sciences
4.The semiotics of passions
5.Structural semantics
6.Semantic and language
رخش حیات مسلسل رو میں ہے اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں ہے ۔ اس عالم آب و گل کی ہر شے مسافر ہے اور ہرچیزراہی ہے ۔ قیدحیات و بند و غم کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اعمال و افعال کا منظر نامہ سیل زماں کے تھپڑوں کی زد میں ہے۔ دنیا ایک ایسی پہیلی ہے جس کے اسرار ،کردار اور واقعات ہمیشہ ناقابل فہم ہوتے ہیں ۔ جہاں تک کہانیوں اور حکایات کا تعلق ہے اِن کے اسلوب اور اظہار و ابلاغ کی راہیں جداگانہ نوعیت کی ہیں۔ پروپ نے افسانوی دنیا کے قواعد و ضوابط اور طرز ادا کو محدود نوعیت کا حامل قرار دیا تھا اور اسے ساختیات کے دائرہ کا ر میں لاتے ہوئے اس کی تفہیم و تعبیر کی سعی پر زور دیا تھا ۔اپنی تنقیدی کتب میں الگرڈ جولین گریماس نے اس جا نب متو جہ کیا کہ کہانی ، افسانہ ، داستان اور حکایت کو ایک منفرد انداز میں دیکھنا چاہیے ۔ الفاظ و معانی اور پیرایۂ اظہار کے لحاظ سے ان کی معنیاتی ساخت فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر تی ہے۔ پر و پ نے افسانوں کے کرداروں کو سات مداروں میں سر گرم عمل دکھایا جب کہ الگرڈجولین گریماس کا خیال ہے کہ کردارتین جوڑوں کی صورت میں فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں ۔ اپنے اس ستد لال میںالگرڈاس جولین گریماس نے بالعموم سو سیئر اور رومن جیکب سن کے عناصر میں پائے جانے والے ارتباط و تضاد کے دوہرے تفاعل کو پیش نظر رکھاہے۔اس نے لسانی تفاعل کے جس خاص آہنگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی وہی اس کی پہچان بن گیا۔اس کے اعجازسے تخلیق فن کے لمحوں میں معنیاتی نمونوں کی خاص انداز میں ترتیب و تنظیم اورصورت گری کی راہ ہموار ہو گئی ۔اس کے ساتھ ساتھ اظہار و ابلاغ اور فکر و خیال کو نئی جہات سے متعارف کرانے میں بھی مدد ملی۔اس نے لسانیات اور لغت نویسی کے شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان سے قارئینِ ادب کے ذہن و ذکاوت کو صیقل کرنے اور ذوق سلیم کو بیدار کرنے میں مدد ملی۔جہانِ تازہ کے نقیب اس کے خیالات سے یورپ کے علمی و ادبی حلقوں نے بھر پور استفادہ کیا۔اس نے خود شناسی اور اپنے من کی غواصی کر کے زندگی کے گوہر مراد پانے کی جو راہ دکھائی وہ ہر دور میں لائق توجہ سمجھی جائے گی۔جدید لسانیات اور ساختیاتی فکر نے اس کے روح پرور تصورات کو خضر راہ سمجھا اور اس کی تحسین کی۔اس کی انجمن خیال جن چارصلاحیتوں کو رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں کی حیثیت حاصل ہے ان میں تمنائیں ،دستیاب وسائل،استعدادِ کار اور خود شناسی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔الگرڈاس جولین گریماس نے اظہار و ابلاغ کے لیے جو طریقہ وضع کیا اسے ایکٹینل ماڈل کے نام سے شہرت ملی۔اپنے پیش کیے ہوئے ایکٹینل ماڈل (Actanial Model)میںالگرڈ جولین گریماس نے افسانوی ادب کی تفہیم کے سلسلے میں کئی چشم کشا صداقتوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔داستان ،کہانی یا عملی زندگی کے حقائق ہر مر حلے پر اس ماڈل سے معامالت کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے ۔یہ ماڈل در اصل گراف کی مدد سے کہانی کے بیانیہ کو آگے بڑھانے کی ایک سعی ہے ۔اس کے ذریعے کہانی کے با معنی ڈھانچے کی حدود و قیود کی تفہیم ممکن ہے۔اس کے علاوہ کہانی کے منظر نامے کے اسرار و رموز ی گرہ کشائی میں بھی یہ ماڈل معاون ثابت ہو سکتاہے ساٹھ کے عشرے میں اس ماڈل کی وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی ۔ ادبی ڈسکورس کے بارے میںاس نے اس امر کی صراحت کی کہ اس کے دو انداز ہوتے ہیں۔ان میں ہر صورت میں فاعل پر براہِ راست اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔جہاں تک مفعول کا تعلق ہے تو یہ علم ہی ہے جس کے عملی زندگی کے ساتھ بہت گہرے ناتے ہیں۔ ہم سب تمنائے علم لیے روشنی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تخلیق کار جب اپنے تاثرات کو کسی متن کی صورت میںپیش کر دیتا ہے تو اس کا تخلیقی کام اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے ۔ اِس کے بعداُس ادب پارے کے استحسان کی ذمہ داری قاری پر عائد ہو تی ہے۔متن کی قرا ٔت اور تفہیم کے سلسلے میں قاری کے اہم کردار کو الگرڈاس جو لین گریماس نے بہت اہم قرار دیا ۔ ابتدا میں سا ختیات نے نثر پر اپنی تو جہ مر کوز رکھی لیکن جلد ہی سا ختیا تی مفکر ین نے شا عری کے مو ضو عات میں بھی دلچسپی لینا شرو ع کردی ۔ اس کے بعد ادب کی شعر یات ان کی تو جہ کا مر کز بن گیا۔سال 1970تک سیمیالوجی (Semiology)کی اصطلاح صرف فرانس میںمستعمل تھی لیکن اب اسے سیمیاٹکس (Semiotics) کے نام سے پُوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہے ۔ یہ سائنس معاشرتی زندگی میں موجود اشارات سے مفاہیم اخذ کرتی ہے اس کے بعد یہی مفاہیم سماجی نفسیات کے اسرار و رموز اور نشیب و فراز سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جو ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے عام نفسیات کا حصہ بن جاتے ہیں۔اس عمل کو باقاعدہ سائنس کے مطالعہ کی سطح تک پہنچانے میں الگرڈ اس جولین گریماس اور اس کے ساختیاتی فکر کے علم بردار معاصرین کا کردار تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جیسا کہ اوپر دئیے گئے ماڈل سے ظاہر ہے الگرڈاس جولین گریماس نے کہانی کے بیانیہ کے عمل کو چھے اقدامات میں تقسیم کرکے اس کی تفہیم کی جانب پیش قدمی کی راہ دکھائی ہے ۔اس کا یہ اقدام جدید اندازِ فکر کا مظہر اور اس کی فکری اُپج کا آئینہ دار ہے ۔ ادبی تنقیدکے متعدد روایتی قسم کے معائر ،اسالیب اور نمونوں کی نوعیت اور وقعت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے الگرڈاس جولین گریماس نے ان کے وجود اور جواز کو چیلنج کیا ۔تخلیقی فعالیت اور متن جیسے اہم موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس نے واضح کیا کہ ادبیات کی تمام اصناف کا تعلق اشارات (Codes)کے ایک جامع نظام سے ہے ۔اس کے خیالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک تخلیقِ ادب کو کسی واحد تخلیق کار کی انفرادی فعالیت اور اس کی تنہا ذہنی کاوش سے تعبیر کرنا درست اندازِ فکر نہیں بل کہ اس نوعیت کی تخلیقی فعالیت کے پسِ پردہ متنوع عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ان تمام عوامل کے باہمی تفاعل سے فکر و خیال کی رعنائیاں جب تخلیق کی جلوہ آرائیوں کا رُوپ دھارتی ہیںتو ایسا حسین اوردھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتا ہے جو قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے ۔تخلیقِ ادب کے مراحل میں حقیقت نگاری کے بارے میں بھی اس نے ساختیاتی فکر کو بہ نظرِ تحسین دیکھتے ہوئے اسے اپنے تخلیقی عمل اور وجدان کی اساس بنایا۔اس نے اس امر پر اصرار کیا کہ کوئی بھی متن صداقت کا پرتو لے کر کس طرح منصۂ شہود پر آ سکتا ہے۔ محض سطحی مشاہدات ،عام تخمین و ظن اور فرضی معلومات کی بنا پر کسی متن کے بارے میں یہ تاثر قائم کر لینا کہ اس میں حقائق کی ترجمانی کی گئی ہے مجذوب کی بڑ کے سوا کیا ہے؟ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوںمیں جب قلم تھام کر اپنے تخلیقی وجدان کو رو بہ عمل لاتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہو کر اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیاں دکھاتا ہے تو جو کچھ اس کے دِل پر گزرتی ہے وہ اسے زیبِ قرطاس کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس کی گل افشانیٔ گفتار پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے اور اس کی اسلوب کی شگفتگی کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔یہ بات بلاخوفِ ترددید کہی جا سکتی ہے کہ اس تخلیقی عمل میں وہ ہر لمحہ اپنی پسند اور مرضی کے مطابق تخلیقی کام انجام دیتا ہے ۔ پرورش لوح و قلم کے دوران انتہائی نا مساعد حالات میں بھی رخِ وفا کو تازہ رکھنا ایک تخلیق کار کی منشا اور مرضی پر مبنی ایسا فعل سمجھنا چاہیے جو اس کی اُفتاد طبع کا مظہر ہوتا ہے ۔اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات، مشاہدات اور مجموعی تاثرات کی لفظی مرقع نگاری کے اپنے محبوب مشغلے کے دوران وہ جو خاص نوعیت کے خاکے بناتا ہے ،اُن میں اپنی پسند اور نا پسند کاخیا ل رکھتے ہوئے رنگ آمیزی بھی کرتا چلا جاتا ہے۔تخلیقات کو گُل ہائے رنگ رنگ سے مزّین کرنے کایہ تخلیقی عمل در اصل اقلیمِ ادب میں جس کا وہ مطلق العنان حاکم ہے ، اس کی من پسند فعالیت ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے ہر کام کر گزرتا ہے ۔ تخلیق کار کی من مانی فعالیت کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والے ایسے تخلیقی کام کو حقیقت نگاری پر محمول کرنا صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کے مترادف ہے ۔ایک زیرک نقاد کی حیثیت سے اس نے قاری کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیاکہ وہ تخلیقی فن پارے کے متن کے بارے میں کوئی رائے قائم کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔الگر ڈاس جولین گریماس نے ایک ادیب کی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے ر ونما ہونے والے متن کو فن کے ایک ایسے لچک دار نمونے سے تعبیر کیا جسے قارئین کسی بھی سمت موڑنے پر قادر ہیں۔اس کے خیالات سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ ممکن ہے جس متن کے بارے میںایک خاص وقت میں کوئی خاص رائے قائم کر لی جائے مگر سیلِ زمان کے تھپیڑے انھیں بہا لے جائیں۔اس کے بعد مستقبل کے قارئین کوئی مختلف نوعیت کی رائے قائم کر لیں۔ یہ بھی ممکن ہو کہ ان دونوں آرا کے درمیان بعد المشرقین ہو ۔اس کے نتیجے میں امکانی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مستقبل کے قارئین ان نتائج کو لائقِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئے انھیں پشتارۂ اغلاط قرار دے کر ان سے گلو خلاصی حاصل کر لیں۔اس بنا پر یہ بات قابل فہم ہے کہ ادبی تخلیق اور متن کے بارے میںقابل قدرتجزیاتی رائے دینے کے سلسلے میںقاری ہی کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ادب پا رے کے بارے میں تنقید اور تجزیہ پر مبنی کو ئی بھی محاکمہ قاری کے دائرہ کار میںشا مل ہے تخلیق کار کا اس کا م سے کو ئی تعلق نہیںہو نا چا ہیے ۔ بہ قول شا عر ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی رو شنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جا ن ہو گی وہ دیا رہ جا ئے گا
الگرڈاس جو لین گریماس نے اپنے ماڈل کے ذریعے نہ صرف تخلیقی فعالیت کی وسعت اور ہمہ گیری کوواضح کیا بل کہ ساختیاتی شعریات اور تھیوری پر بھی اپنے خیالات کا بر محل اظہار کیا ۔اس زمانے میں کئی اورساختیاتی مفکرین نے بھی ادبی شعریات اور تھیوری کے موضوع پر خیال افروز مباحث کا سلسلہ شروع کیا ۔ان میں جو نا تھن کیولر(Jonathan Culler)کا نام قابل ذکر ہے ۔ امریکہ کی ممتاز جامعہ’’ کارنل یونیورسٹی نیو یارک‘‘ میں شعبہ انگریزی کے پروفیسرجو نا تھن کیولر(Jonathan Culler)ساختیاتی تھیوری پر خیال افروز مباحث کے سلسلے کو مزید آگے بڑھایا۔ساختیاتی شعریات پر جوناتھن کیولرکی معرکہ آرا تصنیف (Structuralist Poetics) پر اسے فروغ علم و ادب کو مطمح نظر بنانے والی ماڈرن لنگویج ایسوسی ایشن امریکہ کی جانب سے 1974میںجیمز رسل لاول انعام (James Russel Lowell Prize) سے نوازا گیا۔اس بیش بہا اور باوقار ایوارڈ کا اجرا 1969میں ہوا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔جو ناتھن کیولر نے اپنی تنقید میں متن کے بجائے قاری کو موضوع بنایا اور اس بات پر زوردیا کہ ادب کا سنجیدہ قاری جب متن سے نتائج اخذ کرنے کے بعد اپنے خیال کے مطابق متن کی ترجمانی کرتے وقت کسی نتیجے پرپہنچنے کے بعد اپنی کوئی حتمی رائے قائم کر لیتا ہے تو اس کے بعدنہ تو وہ ازخود اس سے دست بردار ہوتا ہے اورنہ ہی کسی نقاد کے سامنے قاری کی اس رائے کو نظر انداز کرنے کا کوئی جواز ہے۔بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جہاں تک ادبی اہلیت، ادب فہمی کی صلاحیت،اورتخلیقی فعالیت کا تعلق ہے اس میں تخلیق کار کے بجائے قاری کا ذوق ِسلیم کلیدی اہمیت کا حامل ثابت ہوتا ہے۔بیانیہ کے ساختیاتی اجزا کے بارے میں الگرڈاس جو لین گریماس نے جن ا مور کی جانب متوجہ کیا ہے ان کی بازگشت ہر عہد کی تنقید میں سنائی دے گی اور اہلِ نظر فکر و خیال کی نئی انجمن سجاتے رہیں گے۔
اس خامشی پہ ختمِ سفر کا گُماں نہ کر
آسودگانِ خاک نئی منزلوں میں ہیں