پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اسلوبیاتی تنقید کے دو پہلو ہیں، نظری اور عملی۔ انھوں نے اپنے بعض مضامین میں اسلوبیاتی تنقید کی نظری بنیادوں سے بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ اسلوبیات کو Defendکرنے کا کام بھی انھوں نے بڑی خوبی سے انجام دیا ہے، کیوں کہ اکثر لوگ اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں اپنی نا فہمی کے باعث اس کے خلاف کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں، جہاں تک کہ اسلوبیاتی تنقید کے عملی پہلوؤں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی نارنگ صاحب کے کارنامے لائقِ صد تحسین ہیں۔ انھوں نے میر تقی میر انیس، اقبال فیض وغیرہ کی شاعری اور ذاکر صاحب اور خواجہ حسن نظامی کی نثر کا اعلیٰ لسانیاتی مہارت اور گہرے اسلوبیاتی ذوق کے ساتھ تجزیہ کیا ہے جس سے زبان و اسلوب سے متعلق ان مشاہیر ادب کے بعض ایسے گوشے سامنے آئے ہیں جن کی طرف ابھی تک کسی ناقد کی نظر نہیں گئی تھی۔
(۱)
اب ہم اسلوبیاتی نظریۂ تنقید سے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ کے بعض افکار کا جائزہ لیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ اسلوبیاتی تنقید ان کے نزدیک کیا ہے؟ اپنے ایک مضمون ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘(۱) میں نارنگ صاحب اسلوبیات کا استعمال اس طریقِ کار کے لیے بتاتے ہیں ’’جس کی رو سے روایتی تنقید کے موضوعی اور تاثراتی انداز کے بجائے ادبی فن پارے کے اسلوب کا تجزیہ معروضی، لسانی اور سائنٹفک بنیادوں پر کیا جاتا ہے‘‘ اس میں کو شک نہیں کہ نارنگ صاحب نے اسلوبیات کی یہ بہت صحیح تعریف بیان کی ہے۔ نارنگ صاحب اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ اسلوبیاتی نظریۂ تنقید اپنے بنیادی اصول و ضوابط لسانیات سے اخذ کرتا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ’’اسلوبیات یا ادبی اسلوبیات ادب یا ادبی اظہار کی ماہیت سے سروکار رکھتی ہے‘‘۔ نارنگ صاحب کا یہ خیال بھی بالکل درست ہے کہ ’’اسلوبیات کا بنیادی تصور اسلوب (Style) ہے‘‘۔
اسلوبیات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے نارنگ صاحب دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں:
’’اسلوبیات، اسلوب کے مسئلے سے تاثراتی طور پر نہیں، بلکہ معروضی طور پر بحث کرتی ہے، نسبتاً قطعیت کے ساتھ اس کا تجزیہ کرتی ہے، اور مدلّل سائنسی صحت کے ساتھ نتائج پیش کرتی ہے۔ ‘‘(۲)
اسلوبیات کو نارنگ صاحب توضیحی یا وضاحتی لسانیات (Descriptive Linguistics) کی وہ شاخ بتاتے ہیں ’’جو ادبی اظہار کی ماہیت عوامل اور خصائص سے بحث کرتی ہے‘‘۔ اسلوبیات دراصل اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics) کی شاخ ہے کیوں کہ زبان کے تجزیے کی جو روشنی ہمیں لسانیات کی شاخ قرار دی جا سکتی ہے کہ اس میں توضیحی لسانیات کی تمام سطحوں یعنی صوتیات، لفظیات، نحویات، اور معنیات پر ہم اسلوبیاتی تجزیے کی بنیاد قائم کرتے ہیں۔
ہاکٹ(۳) اور اس کے بعد انکوسٹ(۴) نے اسلوب یا اسٹائل کی ایک تعریف یہ بیان کی ہے کہ یہ متبادل اظہارات کے درمیان انتخاب ہے۔ یعنی Choice Between Alternative Expressionsکا نام اسٹائل ہے، مثلاً میر انیس کے کلام میں ’’ شبنم‘‘ اور ’’اوس‘‘ کے درمیان انتخاب لغوی سطح پر اسلوب کی بہترین مثال ہے:
ع۔ شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
ع۔ کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
نارنگ صاحب اسلوب کی اس تعریف سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ اسلوبیات کے بنیادی تصوّر سے بحث کرتے ہوئے اسلوب کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں:
’’اسلوبیات کا بنیادی تصوّر یہ ہے کہ کوئی خیال، تصور، جذبہ یا احساس زبان میں کئی طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ زبان میں اس نوع کی یعنی پیرایۂ بیان کے اختیار کی مکمّل آزادی ہے۔ شاعر یا مصنّف قدم قدم پر پیرایۂ بیان کی آزادی کا استعمال کرتا ہے۔ پیرایۂ بیان کی آزادی کا استعمال، شعوری بھی ہوتا ہے اور غیر شعوری بھی سازر اس میں ذوق، مزاج، ذاتی پسند و نا پسند، صنف یا ہیئت کے تقاضوں نیز قاری کو نوعیت کے تصوّر کو بھی دخل ہو سکتا ہے، یعنی تخلیقی اظہار کے جملہ ممکنہ امکانات جو وجود میں آ چکے ہیں اور وہ جو وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا (جس کا اختیار مصنّف کو ہے) دراصل اسلوب ہے۔ ‘‘ (۵)
انکوسٹ نے اسلوب کو مروّجہ طرز سے انحراف کا بھی نام دیا ہے۔ یعنی اس کے نزدیک اسٹائل (Deviation From a Norm) بھی ہے۔ نارنگ صاحب نے جہاں اسلوبیاتی خصائص کی شناخت پر زور دیا ہے وہیں اسلوبیاتی تجزیے کے طریقِ کار سے بحث کرتے ہوئے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اسلوبیات تجزیاتی طریقِ کار کے استعمال سے تخلیقی اظہار کے پیرایوں کی نوعیت کا تعیّن کر کے ان کی درجہ بندی کرتی ہے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فن کار نے ممکنہ تمام لسانی امکانات میں سے اپنے طرز بیان کا انتخاب کس طرح کیا اور اس سے جو اسلوب خلق ہوا، اس کے امتیازات یا خصائص کیا ہیں۔ یعنی وہ کون سی لسانی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے کسی پیرایۂ بیان کی الگ سے شناخت ممکن ہے یا لسانی اظہار کا جو عمومی فطری انداز (Norm) ہے، اس سے کسی مصنّف یا شاعر کا کوئی پیرایۂ بیان کتنا مختلف ہے، یا کسی مخصوص طرزِ اظہار میں کون کون سے لسانی خصائص پس منظر میں چلے گئے ہیں اور کون کون سے پیش منظر میں آ گئے ہیں۔ ‘‘(۶)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تجزیہ کسی ادبی فن پارے کا محض لسانیاتی تجزیہ نہیں، بلکہ اس میں اسلوبیاتی خصائص یا لسانی امتیازات کی شناخت بھی شامل ہے۔ اسلوبیاتی خصائص کی شناخت کے وسیلے سے ہی ہم کسی ادبی فن پارے کی انفرادیت کے بارے میں کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ انھیں اسلوبیاتی خصائص کی بنیاد پر ایک فن پارہ دوسرے فن پارے سے، ایک ادیب یا شاعر دوسرے ادیب یا شاعر سے، ایک صنف یا ہیئت دوسری صنف یا ہیئت سے اور ایک عہد دوسرے عہد سے ممتاز و منفرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسلوبیات خصائص کے ضمن میں یہ بات یاد رکھنا بے حد ضروری ہے کہ یہ زبان کے عام استعمال یا زبان کے عام حالات میں استعمال سے پیدا نہیں ہوتے، بلکہ یہ زبان کی عام خصوصیات سے مختلف ہوتے ہیں۔ ہر اس لسانی خصوصیت کو ہم اسلوبیاتی خصوصیت کہیں گے جسے زبان کے عام دھارے سے الگ کیا جا سکے۔ جو زبان کی اپنی بے شمار خصوصیات کے درمیان پہچان لی جائے۔ اور جس کا استعمال ادبی فن پارے کو منفرد اور اس کے خالق کو ممتاز بنا دے۔ اسلوبیاتی خصوصیت کا حامل کوئی مخصوص لفظ بھی ہو سکتا ہے یا مختلف الفاظ کا مجموعہ اور اس کا تسلسل بھی۔ اسی طرح کوئی مخصوص آواز یا آوازوں کا مجموعہ یا ان کی مخصوص ترتیب و تنظیم بھی اسلوبیاتی خصوصیت قرار دی جا سکتی ہے۔ اسلوبیاتی خصائص کا تعلق زبان کی کسی بھی سطح سے ہو سکتا ہے۔ اسلوبیاتی تجزیے میں جن اسلوبیاتی خصائص کا پتا لگایا جاتا ہے یا جن لسانی امتیازات کو نشان زد کیا جاتا ہے ان کے بارے میں نارنگ صاحب یوں رقم طراز ہیں:
’’غرض اسلوبیاتی تجزیے میں ان لسانی امتیازات کو نشان زد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کسی فن پارے، مصنّف، شاعر، ہیئت، صنف یا عہد کی شناخت ممکن ہو۔ یہ امتیازات کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ (۱) صوتیاتی (آوازوں کے نظام سے جو امتیازات قائم ہوتے ہیں، ردیف و قوافی کی خصوصیات، یا معکوسیت، ہکاریت یا غنائیت کے امتیازات یا مصمتوں اور مصوتوں کا تناسب وغیرہ۔ (۲) لفظیاتی (خاص نوع کے الفاظ کا اضافی تواتر، اسماء اس،ائے صفت، افعال وغیرہ کا تواتر اور تناسب، تراکیب وغیرہ۔ (۳) نحویاتی (کلمے کی اقسام میں سے کسی کا خصوصی استعمال، کلمے میں لفظوں کا در و بست وغیرہ۔ (۴) بدیعی۔ (Rhetorical) بدیع و بیان کی امتیازی شکلیں، تشبیہ، استعارہ، کنایہ، تمثیل، علامت، امیجری وغیرہ۔ (۵) عروضی امتیازات (اوز ان، بحروں، زحافات وغیرہ کا خصوصی استعمال اور امتیازات۔ ‘‘( ۷)
اسلوبیاتی خصائص یا لسانی امتیازات، جو زبان کے مخصوص استعمال سے پیدا ہوتے ہیں، پتا لگانے کے بعد ان کی توجیہ بھی اسلوبیات کے مقاصد میں داخل ہے، یعنی اسلوبیاتی تجزیے میں یہ بات بے حد دلچسپ ہوتی ہے کہ اس بات کا بھی پتا لگایا جائے کہ ان خصوصیات کا وقوع کسی شاعر کے یہاں یا کسی ادبی فن پارے میں کن اسباب کی بنا پر ہوا ہے۔ نارنگ صاحب کو اس سے اختلاف نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خالص اسلوبیاتی مطالعے بالعموم اسلوبیاتی شناخت ہی کو مقدّم سمجھتے ہیں، اور کسی بھی مصنّف یا فن پارے کے لسانی امتیازات کو نشان زد کر دینے کے بعد کسی نوع کی رائے زنی نہیں کرتے تاہم ایسے مطالعات کی بھی کمی نہیں جن میں اعداد و شمار اور اضافی تواتر سے اخذ ہونے والے اسلوبیاتی حقائق کو مصنف کی سائیکی سے یا اس کی نفسیاتی اور ذہنی ترجیحات سے مربوط کر کے دیکھا گیا ہے اور نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ ‘‘(۸)
اسلوبیاتی تجزیے میں، اسلوبیاتی خصائص اور معنی کے درمیان ربط اور مطابقت بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کسی ادبی فن پارے یا نظم کے صوتی و اسلوبیاتی تجزیے سے ایک خاص قسم کے صوتی آہنگ اور مصوتوں اور مصمتوں کی ایک مخصوص ترتیب و تنظیم کا پتا چلتا ہے۔ نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نظم کی صوتی ہیئت و ترتیب اور اصوات کی تکرار و تکرّر (Frequency) کا صوتی و سماعی تاثر نظم کے معنیاتی تاثر سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ صوت و معنی کے اس فطری امتزاج، ربط و مطابقت یا اتحاد اور علاقے کو شعر کی صوتی رمزیت (Sound Symbolism) کہتے ہیں۔ نارنگ صاحب کا اس ضمن میں خیال یہ ہے کہ ’’قاری جب متن کا مطالعہ کرتا ہے تو اسلوب اور معنی کا مطالعہ الگ الگ نہیں کرتا۔ بلکہ لفظ، کلمی ہیئت، معنی سب مجموعی طور پر بیک وقت قاری کے ذہن پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ گویا قاری کا ردّ عمل کلّی ہوتا ہے‘‘ نارنگ صاحب کے نزدیک ’’اسلوب اور معنی کی بحث کو الگ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ‘‘(۹)
اکثر اسلوبیات کا موازنہ ادبی تنقید سے کیا جاتا ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اسلوبیاتی تنقید اور ادبی تنقید میں کیا رشتہ ہے۔ نارنگ صاحب نے یہ امر بار ہار واضح کیا ہے کہ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید ادبی تنقید کا بدل نہیں۔ انھوں نے اپنے مذکورہ مضمون ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘ میں بھی لکھا ہے ’’اوروں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ اسلوبیات ادبی تنقید کا بدل ہے۔ ‘ ’’اسلوبیات کو ادبی تنقید کا بدل سمجھ کر اس سے بھڑکنا نا سمجھی کی بات ہے، اور ایسا اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جو لسانیات کے تفاعل سے ناواقفِ محض ہیں، یا وہ لسانیات اور اسلوبیات سے خائف ہیں۔ ‘‘(۱۰) نارنگ صاحب اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید کو ادبی تنقید کا بدل نہیں ماننے، لیکن وہ یہ بات ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ اسلوبیات ادبی تنقید کی مدد کر سکتی ہے اور اس کو نئی روشنی فراہم کر سکتی ہے، وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسلوبیات کے پاس ’’ادبی ذوق کی نظر‘‘ نہیں ہے، لیکن ’’متن کے سائنسی لسانی تجزیے کا حربہ‘‘ ضرور ہے نارنگ صاحب نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ادبی تنقید کی بنیاد جمالیاتی تاثر پر قائم ہے جو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اس کے علی الرغم اسلوبیاتی تنقید تجزیے سے کام لیت ہے اور معروضی ہے۔ وہ یہ واضح طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ’’ادب کی تحسین کاری اور تعینِ قدر کا کام ادبی تنقید اور جمالیات کا کام ہے اسلوبیات کا نہیں۔ ‘‘(۱۱) اسلوبیاتی تنقید کی معروضیت کے بارے میں نارنگ صاحب نے ایک اور بہت اچھی بات یہ کہی ہے کہ یہ ’’ہر گز یہ حکم نہیں لگاتی کہ فلاں پیرایہ اعلا ہے اور فلاں ادنا، یا فلاں اسلوب بہتر ہے فلاں کمتر، بلکہ اسلوبیات، اظہار کے لسانی امتیازات جیسے وہ ہیں، ان کا تعین کر کے اور ان کی شناخت کے کام کو پورا کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو جاتی ہے اور ادنا اعلا کا فرق قائم کرنے کے لیے ادبی تنقید کے لیے راہ چھوڑ دیتی ہے۔ ‘‘(۱۲)
(۳)
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسلوبیات کے حوالے سے عملی اور تجزیاتی تنقید کے عدیم المثال نمونے پیش کیے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے مضامین ’’اسلوبیاتِ میر‘‘ ’’اسلوبیاتِ انیس‘‘ اور ’’اسلوبیاتِ اقبال‘‘(۱۳) خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے علاوہ فیض کی شاعری کے معنیاتی نظام کا(۱۴) اور اُردو کے بنیادی اسلوب کے حوالے سے ذاکر صاحب کی نثر کا(۱۵) جو تجزیہ انھوں نے پیش کیا ہے اس سے نارنگ صاحب کے معروضی طرزِ نظر، تجزیاتی اندازِ فکر اور اعلیٰ تنقیدی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ ان مضامین کے علاوہ چند دوسرے مضامین مثلاً شہریار، بانی، ساقی فاروقی اور افتخار عارف کی شاعری کے تنقیدی تجزیوں(۱۶) میں بھی اسلوبیاتی باریکیاں جا بجا پائی جاتی ہیں جس سے ان کی تنقید کا منفرد رنگ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ ذیل کی سطور میں نارنگ صاحب کے تین نمائندہ اسلوبیاتی تجزیوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے مضمون ’’اسلوبیاتِ میر‘‘ میں میر کے کلام کے تجزیے سے میر کے بنیادی اسلوبیاتی امتیازات کا پتا لگایا ہے۔ ان میں سے محض چند اسلوبیاتی امتیازات کا ذکر یہاں اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے طوالت کے خوف سے مثالیں نہیں پیش کی جائیں گی۔
٭ میر کے یہاں ’’طویل مصوتوں کا استعمال دوسرے صاحب اسلوب شعراء کی بہ نسبت زیادہ ہوا ہے۔
٭ میر کے یہاں ’’نحوی واحدے‘‘ کثرت سے پائے جاتے ہیں جنھیں دوسرے نحوی واحدوں سے بڑی آسانی کے ساتھ الگ کیا جا سکتا ہے۔
٭ میر کی شاعری ’’Oralروایت‘‘ کی امین‘‘ کہی جا سکتی ہے کیوں کہ ان کے اشعار میں باتوں کا انداز پایا جاتا ہے۔ ‘‘ میر کی شاعری کا عام انداز یہ ہے ’’کہ گویا باتیں کر رہے ہیں۔ ‘‘
٭ میر کی شاعری کی ایک اسلوبیاتی خصوصیت ’’سہل ممتنع‘‘ ہے۔ ’’میر کے اشعار میں حیرت انگیز حد تک عام گفتگو یا نثر کی نحو ترتیب برقرار رہتی ہے۔
٭ میر کی شاعری کی نحو ساختیں غیر معمولی موزونی طبیعت کا پتا دیتی ہیں۔ یہ زبان کی عام ساختوں سے بے حد قریب ہیں جملوں اور لفظوں کی ترتیب گفتگو کی ترتیب سے دور نہیں۔ ‘‘
٭ میر کی شاعری میں ’’ہندی الفاظ کا رس‘‘ موجود ہے۔
٭ میر کی شاعری میں جو ’’نغمگی اور ترنّم ریزی‘‘ پائی جاتی ہے اس کی بڑی وجہ ’’غنیت اور طویل مصوتوں‘‘ کا استعمال ہے۔
٭ زبانِ میر کے صوتیاتی امتیاز کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ اس میں فارسی، عربی کی صیفری آوازوں کے ساتھ ساتھ دیسی ہکار اور معکوسی آوازیں گھل مل گئیں ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے مضمون ’’اسلوبیاتِ انیس‘‘ میں اس بات کو پرکھا اور ثابت کیا ہے کہ انیس جس فصاحت کا دعویٰ کرتے ہیں اور شبلی اور ان کے بعد آنے والے نقاد انیس کی جس فصاحت کی داد دیتے ہیں، اس کا گہرا تعلق مسدس کے فارم کو انتہائی فن کاری کے ساتھ برتنے میں ہے۔ اس سلسلے نارنگ صاحب نے مراثی انیس کے مسدس کے فارم کے اسلوبیاتی پہلوؤں اور اس کے صوتی عناصرِ ترکیبی کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ وہ انیس کے شاہکار مرثیے ’’نمکِ خوانِ تکلم ہے فصاحت میری‘‘ کے تمام بندوں کا صوتی تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس مرثیے میں ’’غالب رجحان پابند قوافی والے مصرعوں کاہے۔ ‘‘ اپنے اس مقدمے کی توثیق کے لیے انھوں نے انیس کے دوسرے شاہکار مرثیے ’’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے‘‘ کا بھی صوتی تجزیہ کیا۔ اس مرثیے میں بھی پابند قوافی والے بندوں کی تعداد انھیں زیادہ نظر آئی۔ اپنے اس مقدمے کو حتمی طور پر ثابتِ کرنے کے لیے نارنگ صاحب نے مراثیِ انیس (مطبوعہ نول کشور) کی چاروں جلدوں میں سے کہیں کہیں سے بغیر کسی تخصیص کے پچیس مرثیے لیے اور ان کے تمام بندوں کے صوتی تجزیے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مراثیِ انیس کے بندوں کا غالب رجحان پابند قوافی والے بندوں کی طرف ہے۔
پابند قوافی سے نارنگ صاحب کی مراد وہ قوافی ہیں جو مصمتوں یعنی حروفِ صحیح۔ (Consonants) پر ختم ہوتے ہیں، مثلاً انیس کے ایک مرثیے کے حسبِ ذیل بند کے قوافی، ظہور، طیور، حضور، نور جو مصمتے/ر/پر ختم ہوتے ہیں، پابند قوافی ہیں:
صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یادِ الٰہی میں طیور
مثلِ خورشید برآمد ہوتے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
شش جہت میں رخِ مولا سے ظہورِ حق تھا
صبح کا ذکر ہے کیا، چاند کا چہرہ فق تھا
اس کے مقابلے میں مذکورہ بند کی ہیئت کے دونوں مصرعے کھلی ہوئی ردیف رکھتے ہیں، یعنی ان ردیفوں کا اختتام مصمتوں پر نہیں بلکہ مصوتوں (Vowels) پر ہوتا ہے، مثلاً حق تھا، فق تھا۔
نارنگ صاحب کے خیال کے مطابق پابند قوافی کا وقوع قصیدے کی بھی خصوصیت رہی ہے۔ ان کا قول ہے کہ ’’ کسی بھی کامیاب قصیدے کو صوتی اعتبار سے دیکھیے تو پابند قوافی یعنی مصمتوں پر ختم ہونے والے ارکان کی بجتی ہوئی زنجیر نظر آئے گی۔ ‘‘ چوں کہ مراثی میں بھی یہی بات انھیں نظر آئی اس لیے نارنگ صاحب نے یہ نکتہ نکالا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر انیس کی فصاحت کی انتخابی نظر قصیدے کے اس بنیادی تقاضے سے صرف نظر نہیں کر سکتی تھی۔ ‘‘ نارنگ صاحب مراثیِ انیس کے بندوں کے پابند قوافی میں اگر ایک طرف ’’قصیدے کی رُوح‘‘ دیکھتے ہیں تو دوسری طرف بیت کے شعروں میں ’’غزلیہ لے‘‘ پاتے ہیں۔ اور ان دونوں کی آمیزش کو مراثیِ انیس کی نئی جمالیاتی اور اسلوبیاتی سطح‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ (۱۷)
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے طویل مضمون ’’اسلوبیاتِ اقبال‘‘ میں جو دو حصّوں پر مشتمل ہے اقبال کے کلام کے صوتیاتی نظام اور شعرِ اقبال میں پائے جانے والے صرفی و نحوی امتیازات کا مطالعہ بڑی شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اقبال کی شاعری اسلوبیاتی مطالعے کے لیے خاصا دلچسپ مواد فراہم کرتی ہے۔ ‘‘ اپنے اس مضمون کے پہلے حصّے میں انھوں نے اقبال کی تین شاہکار نظموں ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ، ’’ذوق و شوق‘‘ اور ’’خضرِ راہ‘‘ کا صوتیاتی سطح پر تجزیہ پیش کرنے کے بعد ان کے اسلوبیاتی خصائص یا لسانی امتیازات کا بھی پتا لگایا ہے۔ پھر ان تینوں نظموں میں جو چیز صوتیاتی سطح پر قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی ہے اسے بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تینوں نظموں کے صوتیاتی تجزیے سے اقبال کی ’’صوتی انفرادیت‘‘ اور ان کے کلّی صوتیاتی آہنگ‘‘ کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کے صوتی تجزیے سے نارنگ صاحب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس پوری نظم میں صیفری آوازیں (Fricative Sounds) یعنی ف س ش ز خ غ ہ (نیز ث ص ذ ض ظ ح) اور مسلسل آوازیں (Continuants) یعنی ل ر کثرت سے استعمال ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس ہکار و معکوسی آوازیں (Aspirates and Retroflex Sounds) یعنی بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ دھ ڈھ ڑھ کھ گھ لھ مھ نھ بہت کم استعمال ہوئی ہیں۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کے کل اشعار کی تعداد ۶۴ ہے جن میں نارنگ صاحب کے تجزیے کے مطابق صیفری و مسلسل آوازیں ۹۳۱ بار اور ہکار و معکوسی آوازیں ۳۹ بار استعمال ہوئی ہیں۔ یعنی صیفری و مسلسل آوازیں اُردو میں ہکار و معکوسی آوازوں کے مقابلے میں خاصی کم ہیں، لیکن اقبال کی اس نظم میں ان کا وقوع نسبتاً زیادہ ہے۔ نارنگ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس تجزیے سے تویہی ظاہر ہوتا ہے کہ صیفری اور مسلسل آوازوں کی کثرت اور ہکار معکوسی آوازوں کا انتہائی قلیل استعمال ہی شاید وہ کلید ہے جس سے اقبال کی نہاں خانہ آہنگ تک رسائی ہو سکتی ہے۔ ‘‘(۱۸)
اقبال کی ایک دوسری نظم ’’ ذوق و شوق‘‘ کے صوتیاتی تجزیے سے نارنگ صاحب کی اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ اقبال کے کلام میں صیفری و مسلسل آوازیں ہکار و معکوسی آوازوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ اس نظم میں ان آوازوں کا تناسب ۴۵۱ اور ۲۳ کا ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ اور ’’ذوق و شوق‘‘ کا تعلق بالِ جبریل سے تھا۔ نارنگ صاحب نے اقبال کے ایک دوسرے مجموعے بانگِ درا کی ایک نظم ’’خضرِ راہ‘‘ کا صوتی تجزیہ کیا اور اسی نتیجے پر پہنچے کہ اقبال کے یہاں ہکار و معکوسی آوازیں قلّت کے ساتھ استعمال ہوئی ہہیں اور ان کے مقابلے میں صیفری و مسلسل آوازوں کی کثرت ہے۔ ’’خضرِ راہ‘‘ میں نارنگ صاحب کے تجزیے کے مطابق صیفری و مسلسل آوازوں کی تعداد ۱۲۱۵ ہے اور ہکار و معکوسی آوازیں صرف ۸۷ ہیں۔ نارنگ صاحب نے ان آوازوں کے تعلق سے اقبال کا تقابل اُردو کے دو عظیم شاعر میر اور غالب سے کیا اور اس سے جو نتائج نکلے ان سے انھوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ’’شاید اقبال کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کا تناسب اُردو شاعری میں سب سے قلیل ہے۔ ’’میر کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کا تناسب دو آواز فی شعر ہے۔ غالب کے یہاں ان آوازوں کا تناسب تقریباً ایک آواز فی شعر ہے اور اقبال کے یہاں انھیں آوازوں کا تناسب ایک سے کم آواز فی شعر ہے۔ اس سے اقبال کی صوتی انفرادیت کا پتا چلتا ہے۔ نارنگ صاحب کا خیال ہے کہ ’’اقبال کے کلام میں صیفری و مسلسل آوازوں کا بکثرت استعمال اس لیے ہوا ہے کہ اقبال نے جو رموز و علائم استعمال کیے ہیں ان میں یہ آوازیں نمایاں طور پر استعمال اس لیے ہوئی ہیں جن سے اقبال کی حرکی اور رجائی لے کا پتا چلتا ہے۔
اقبال کے صوتی تجزیے سے نارنگ صاحب نے اس بات کا بھی ثبوت فراہم کیا ہے کہ اقبال کے کلام میں طویل مصوتوں (Long Vowels) کا استعمال بکثرت ہوا ہے اور طویل مصوتوں کے استعمال میں بھی اقبال غالب سے ’’خاصے آگے‘‘ ہیں اور ’’میر کے ہم پلّہ‘‘ ہیں۔ اقبال کے یہاں طویل مصوتوں کے ساتھ غنائی مصوتے بھی پائے جاتے ہیں۔ نارنگ صاحب کا اس ضمن میں خیال یہ ہے کہ ’’جہاں طویل مصوتوں کی فراوانی ہو گی، غنائی مصوتوں کی کثرت بھی وہیں ہو گی، کیونکہ یہ اُردو کا ایک عام رجحان ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ’’اسلوبیاتِ اقبال کے دوسرے حصّے میں کلامِ اقبال کے صرفیاتی اور نحویاتی نظام کا مطالعہ نظریۂ اسمیت اور فعلیت کی روشنی میں کیا ہے۔ نارنگ صاحب اقبال کے صرفی و نحوی امتیازات کو بھی اتنا ہی اہم قرار دیتے ہیں جتنا کہ صوتیاتی امتیازات کو۔ اسے وہ شعرِ اقبال کے اسلوبیاتی مطالعے کا حصّہ تسلیم کرتے ہیں۔ نارنگ صاحب سے قبل ایک مغربی اسکالر رولاں ویلز نے انگریزی کے حوالے سے اسمیہ اور فعلیہ اسلوب (Nominal and Verbal Style) کا مطالعہ پیش کیا تھا(۱۹) شعرِ اقبال کے حوالے سے اسمیہ اور فعلیہ اسلوب کا مطالعہ پیش کر کے اُردو اسلوبیات کو نہ صرف وسعت دی ہے بلکہ اسے ایک نئی جہت سے بھی ہم کنار کیا ہے۔
شعرِ اقبال کے اسمیہ اور فعلیہ اسلوب سے متعلق نارنگ صاحب کے ذہن میں پہلے سے ایک تاثر موجود تھا جس کا ذکر وہ یوں کرتے ہیں:
’’الفاظ کی دو سب سے بڑی شقیں اسم اور فعل ہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے بڑے فن کار اپنے تخلیقی سفر میں لفظیات کی ان شقوں میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ترجیحات کیسے قائم کرتے ہیں اور ان کے جہاں معنی سے ان کا کیا تعلق ہے، یہ خاصے دلچسپ سوال ہیں۔ میں اقبال کے بارے میں اکثر سوچتا رہا کہ ان کا اسلوبِ شعر اسمیت کا ساتھ دیتا ہے۔ یا فعلیت کا بظاہر ان کی لے حجازی ہے۔ وہ نطقِ اعرابی اور شکوہِ ترکمانی کے قائل بھی معلوم ہوتے ہیں۔ ہماری لفظیات کا وہ تمام حصّہ جو عربی فارسی کے یہاں اسمیت کا پلّہ بھاری ہو گا۔ بخلاف اسم کے ہمارے فعل پر عربی فارسی کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ یعنی ہمارا فعل ننّانوے فی صد یا شاید اس سے بھی زیادہ پراکرتی ہے، یعنی آریائی ذخیرے سے آیا ہے۔ ‘‘(۲۰)
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’اقبال کے یہاں ملّتِ اسلامی کی شیرازہ بندی کی جو تڑپ ملتی ہے، جس طرح نوائے شوق سے حریم ذات اور گنبدِ افلاک میں غلغلہ برپا کرنا چاہتے ہیں،یا جس طرح ان کی ہمّتِ مردانہ یزداں پر کمند ڈالتی ہے اور کارِ جہاں کی درازی کے باعث ذاتِ باری کو منتظر چاہتی ہے، یا جس طرح وہ عروجِ آدمِ خاکی کی بشارت دیتے ہیں........ یا اُن کی فکر کو غزالی اور ابن عربی سے جو نسبت ہے ،یاوہ میخانۂ شیراز کا ذکر جس ذوق و شوق سے کرتے ہیں، یا وہ جس طرح پیر رومی و حافظ شیرازی سے کسبِ فیض کرتے ہیں........ اس سے یا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کے شعری اسلوب میں اسمیّت (Nominalization) کا وفور ہو گا اور ان کے یہاں صرفی و نحوی استعمال کا جھکاؤ اسمیت کی طرف ہو گا۔ ‘‘ (۲۱)
نارنگ صاحب کے اس ’’تاثر‘‘ کو مزِید تقویت اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کے ابتدائی بند سے ملتی ہے جس کے پہلے تین مصرعے یہ ہیں :
سلسلۂ روز و شب ، نقش گرِ حادثات
سلسلۂ روز و شب ، اصلِ حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب ، تارِ حریرِ دو رنگ
ان مصرعوں میں کوئی بھی فعل استعمال نہیں ہوا ہے اور جتنے الفاظ آئے ہیں وہ سب اسم ہیں۔ اس نظم کے ابتدائی بند کے آخری چار مصرعوں میں بھی کوئی فعل نظر نہیں آتا :
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات،کارِ جہاں بے ثبات
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو ، منزلِ آخر فنا
’’مسجد قرطبہ ‘‘ کے سولہ مصرعوں کے اس بند میں فعل صرف چوتھے ،چھٹے اور ساتویں مصرعے میں آتا ہے۔ باقی چار مصرعوں میں امدادی فعل ’’ہے ، ہوں ، ہو‘‘، آتا ہے۔ فعل کے انحذاف کی یہ صورت بقول نارنگ صاحب ’’پورے بند کو اسمیت کے رنگ میں رنگے دے رہی ہے۔ ‘‘ نارنگ صاحب کو یہی کیفیت اس نظم کے دوسرے،تیسرے اور پانچویں بند میں بھی نظر آتی ہے۔ لیکن ’’ چوتھے اور چھٹے بند میں جہاں خطاب کا انداز ہے، افعال کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ ساتواں بند جس میں تاریخی صورتِ حال کا بیان ہے، اس میں افعال اور زیادہ استعمال ہوئے ہیں ، اور آخری بند میں جس میں منظر کاری بھی ہے، وہ پہلے بند کی اسمیّت سے بالکل متضاد کیفیت رکھتا ہے۔ اس بند کے ہر ہر شعر میں فعل کا عمل دخل دیکھا جا سکتا ہے ‘‘
’’مسجد قرطبہ‘‘ کے بعد نارنگ صاحب اقبال کی ایک دوسری نظم ’’ ذوق و شوق ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہیں،چنانچہ فعلیت کی یہی کیفیت انھیں اس نظم میں بھی ملتی ہے، اقبال نے اپنے کلام میں فعل کی ایک شکل صیغہ امر کا بھی استعمال کیا ہے، لیکن بقولِ نارنگ صاحب یہ انداز اقبال کے یہاں غالب رجحان کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اقبال کی شاعری میں تخاطب کا انداز بھی پایا جاتا ہے۔ جس میں فعلیت ناگزیر ہے نارنگ صاحب لکھتے ہیں:
’’طلوعِ اسلام ہو یا خضرِ راہ ، مسجد قرطبہ ہو یا ذوق و شوق ، ساقی نامہ ہو ، لالۂ صحرا یا شعاعِ امید ، سب میں تخاطب یا مکالمے کی ساختی فضا ہے اور صرفی و نحوی التزام گفتگو ہی کاہے ، فعلیت جس کے لئے ناگزیر ہے۔ ‘‘(۲۲)
شعرِ اقبال کے اسمیہ اور فعلیہ اسلوب سے مدلل بحث کرنے کی بعد پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں:
’’اقبال اگر چہ اسمیّت سے کام لیتے ہیں اور ایک مضبوط تخلیقی حربے کے طور پر اس کو اس کو استعمال کرتے ہیں ، لیکن اس کی تحدید یا امکانات کی کمی کے خطروں کا بھی انھیں وجدانی طور پر احساس تھا، اس لئے اس سے گریز بھی کرتے ہیں اور جلد اس تنگنائے سے باہر فعلیت کی کھلی فضا میں آ جاتے ہیں‘‘(۲۳)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زیرِ نظر مضمون کو ہم نے پروفیسر گوپی نارنگ کے فقط منتخب مضامین کے جائزے تک محدود رکھا یہ مضامین واضح طور پر اسلوبیاتی طریقۂ نقد کے بہترین ماڈل ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اس طریقۂ نقد کو استعمال کرنے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا، وہاں بھی بین السطور میں اسلوبیاتی نظر کی کارفرمائی دیکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر پریم چند ، راجندر سنگھ بیدی اور انتظار حسین پر ان کے مضامین میں اقداری تنقید کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی پر کھ بھی ہے اور کچھ اس طرح کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے۔ بیدی والے مضمون کو اکثر اوقات اسطوری تنقید کے ماڈل کے بطور پیش کیا جاتا ہے، لیکن یہ مضمون جہاں بیدی کے فن کی اساطیری جڑوں پر ہے، وہاں استعاراتی تفاعل بھی ہے۔ اسی طرح پریم چند والے مضمون کا تھیسس پریم چند کا (Irony) کا استعمال ہے ، نیز انتظار حسین کے ذہنی ارتقاء میں ان کے یہاں جا تک اور کتھا کے اسلوب کی باز آفرینی کو نمایاں کیا گیا ہے غرض کہ یوں دیکھا جائے تو نارنگ صاحب کی پوری تنقید ی حسیت اسلوبیات میں گتھی ہوئی ہے اور یہ عمل ان کے یہاں جتنا ظاہر ہے اتنا تہِ نشیں بھی ہے۔
حواشی و حوالے :
۱۔ گوپی چند نارنگ ، ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات ‘‘ مشمولہ ادبی تنقید اور اسلوبیات (گوپی چند نارنگ) ، دہلی: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۸۹ ء۔ ص ۱۱ تا ۲۸
۲۔ ایضاً ً ، ص ۱۵
۳۔ دیکھئے چارلز ایف۔ ہاکٹ(Charles F. Hoekett) ، ۱۹۸۵ء، A Course in Modern Linguistics(نیویارک: میکملن ) ص ۵۵۶
۴۔ دیکھئے نلز ایرک انکوسٹ (Nils Erik Enkvist) کا مضمون’’On Defining Style‘‘مشمولہ Linguists and Style(نلز ایرک انکوسٹ جان اسپنسر اور مائیکل جے۔ گریگری ) ، لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۶۴ء
۵۔ گوپی چند نارنگ، محولہ کتاب ، ص ۱۵۔
۶۔ ایضاً ، ص ۱۶۔
۷۔ ایضاً ، ص ۱۷۔
۸۔ ایضاً، ص ۲۲۔
۹۔ ایضاً، ص ۲۳۔
۱۰۔ ایضاً، ص ۲۰۔
۱۱۔ ایضاً، ص ۲۱۔
۱۲۔ ایضاً، ص ۲۱۔
۱۳۔ یہ تینوں مضامین گوپی چند نارنگ کی کتاب ادبی تنقید اور اسلوبیات (دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۸۹ء) میں شامل ہیں۔
۱۴۔ دیکھئے گوپی چند نارنگ کا مضمون ’’فیض کا جمالیاتی احساس اور معنویاتی نظام‘‘ مشمولہ گوپی چند نارنگ ، محولہ کتاب۔
۱۵۔ دیکھئے گوپی چند نارنگ کا مضمون ’’ذاکر صاحب کی نثر : اردو کے بنیادی اسلوب کی ایک مثال ‘‘ مشمولہ گوپی چند نارنگ ، محولہ کتاب۔
۱۷۔ گوپی چند نارنگ، محولہ کتاب، ص ۱۱۸۔
۱۸۔ ایضاً ، ص ۱۴۲
۱۹۔ رولاں ویلز (Rulon Wells) ، ۱۹۷۰ء،"Nominal Style and Veral Style"مشمولہ Linguistic and literary Style(مرتبہ ڈونلڈ سی۔ فریمن) ، نیویارک : ہولٹ ، رائن ہارٹ اینڈ ونسٹن۔
۲۰۔ گوپی چند نارنگ ، محولہ کتاب ، ص ۱۵۳۔
۲۱۔ ایضاً ، ص ۱۵۴۔
۲۲۔ ایضاً، ص ۱۷۳۔
۲۳۔ ایضاً، ص ۱۷۴۔