جامنی اور نارنجی شرارے میں پھولوں کا زیور پہنے نیچرل کلر کی لپسٹک لگائے بنا کسی میک اپ کے اس کا روپ حوروں کو بھی مات دے رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اندر داخل ہوتی نور بھی پل بھر کو مبہوت رہ گئی تھی۔
" آج تبریز بھائی تو گئے کام سے ۔ ۔ "
زاشہ نور کی شرارتی آواز سن کا پلٹی تھی وہ ابھی بھی بے حد گھبراہٹ کا شکار تھی۔
" پلیز یار ریلیکس ہو جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ دل سے ہر خوف مٹا دو ۔ ۔ ۔ ۔ بھول جاؤ تھوڑی دیر کے لئے سب کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس اپنا اور تبریز بھائی کا رشتہ یاد رکھو۔"
نور اس کے ٹھنڈے ہاتھ پکڑ کر اسکو سمجھاتی ہوئی بولی تبھی فوزیہ بیگم وہاں چلی آئیں۔
" ماشاءاللّه ماشاءاللّه ۔ ۔ ۔ ۔ اللّه نظر بد سے بچائے میری بچی کو ۔ ۔ "
وہ اسکی بلائیں لیتی ہوئی بولیں ۔
" نور بیٹا زرش کو رسم کے لئے باہر لے آؤ ۔ ۔ ۔ میں لڑکیوں کو بھیجتی ہوں "
" جی میں لے کر آتی ہوں اب چلیں۔"
نور نے فوزیہ بیگم کو کہا تھا۔
فنکشن بڑے پیمانے پہ نہیں کیا جا رہا تھا گھر کے لان میں ہی سارے انتظامات کیے گئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ مہمان بھی کچھ زیادہ نہیں تھے بس دوست احباب اور کچھ جاننے والے مدعو تھے۔
زرش کی طرف سے تو کوئی رشتے دار نہیں تھے اور نہ ہی تبریز کی طرف سے تبریز کے بابا اکلوتے تھے انکی وفات کے بعد باقی رشتے داروں نے بیوہ عورت اور یتیم بچے کی کفالت کے خوف سے منہ موڑ لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ فوزیہ بیگم کی صرف ایک بہن تھی جس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی اسکا بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا اس لئے اس موقعے پر صرف دوست ہی ساتھ تھے۔
جب زاشہ کو باہر لا کر تبریز کے ساتھ پھولوں سے سجے جھولے میں بٹھایا گیا تو ہر نظر نے انکی بلائیں لیں تھیں بلاشبہ دونوں کی جوڑی چاند سورج کی جوڑی لگ ربی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ تبریز ڈارک پرپل کرتے اور وائٹ شلوار میں گلے میں رنگین چنری ڈالے ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔
زاشہ کو دیکھ کر کئی پل کے لئے تو وہ مبہوت ھی رہ گیا تھا اس نے ہمیشہ اسے بلیک کلر میں ھی دیکھا تھا آج شوخ رنگوں میں پھولوں سے سجی دلہن کے روپ میں اسکا دل دھڑکا گئی تھی وہ۔
" بھائی صاحب ذرا خیال سے ۔ ۔ ۔ ۔ اب آپ کی ہی ہیں ۔ ۔ ۔ آرام سے دیکھتے رہنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلحال منہ سامنے کرو بھابھی نروس ہو رہی ہیں۔"
مسلسل زاشہ کو تکتے پا کر تیمور نے اسے ٹوکا تھا۔
سب کی شرارتوں اور تبریز کی شوخ جسارتوں نے زاشہ کو بوکھلا دیا تھا۔
تبریز جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہا تھا کبھی ۔ ۔ ۔ کبھی اسکا ہاتھ پکڑ لیتا ۔ ۔ ۔ ۔ اور کبھی اسکے نزدیک جھک کر کوئی شوخ جملہ اسکی سماعتوں میں ڈال دیتا ۔ ۔ ۔ ۔ قوس قزح کے سارے رنگ اس وقت زاشہ کے چہرے پہ سجے تھے۔
نور رسم ختم ہونے کے بعد ابھی ابھی اسے روم میں چھوڑ کر گئی تھی اس نے ریلیکس کرنے کے لئے صوفے کی پشت سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں تبھی کچھ دیر بعد اسے اپنے چہرے پر کسی کی نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا تھا اور وہی دلفریب مہک چار سو پھیلی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ نےگھبرا کر آنکھیں کھولیں توعین نظروں کے سامنے اسے موجود پایا۔
دھیرے سے وہ آ کر اس کے ساتھ بیٹھا ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ نے اٹھنا چاہا تھا مگر اس نے زاشہ پہ جھکتے ہوئے اسے لاک کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب حالت یہ تھی کہ زاشہ صوفے کی کنارے سے لگی بیٹھی تھی اور ارد گرد تبریز کی بانہوں کا حصار تھا اگر ذرا سا بھی ہلتی تو اسے چھو جاتی۔
" تمہارا یہ قاتل روپ دیکھ کر صبر نہیں کر سکا اسی لئے ساری مصلحت بالائے طاق رکھ کر چلا آیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم ہو کہ دور بھاگ ربی ہو۔"
وہ اس کے چہرے پہ جھکتا ہوا بولا تھا۔
" آ آ آپ پلیز چلے جائیں یہاں سے ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی آ جائے گا تو کیا سوچے گا۔"
زاشہ کو الگ ہی فکر ہلکان کر رہی تھی۔
" ایک شرط پہ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے اظہار محبت کرو۔"
اسکی فرمائش سن کر زاشہ سہی معنوں میں بوکھلا گئی تھی۔
تبھی باہر دروازے پر فوزیہ بیگم کی آواز سن کر اسکا رنگ فق ہوا جبکہ تبریز ایسے تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
" آپ جائیں ۔ ۔ ۔ ہم یہ باتیں پھر کریں گے ۔"
وہ اسکو سمجھاتی ہوئی پریشانی سے بولی۔
" نہیں پہلے اقرار کرو میرے سامنے تبھی جاؤں گا۔"
اسکی وہی ضد تھی۔
باہر فوزیہ بیگم اور اندر انکا بیٹا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
تبریز تو اسکو روتا دیکھ کر گھبرا ہی گیا اسکا ارادہ بس ذرا سا تنگ کرنے کا تھا مگر یہاں تو کام ہی الٹا ہو گیا۔
" ارے ارے رو نہیں تم جا رہا ہوں میں آج تو چھوڑ رہا ہوں لیکن کل نہیں سنوں گا کچھ بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
وہ ہلکے سے اس کے گال کواپنے لبوں ںسے چھوتا ہوا بولا اور ٹیرس کی کھڑکی سے باہر نکل گیا۔
دروازے پہ دوبارہ دستک ہوئی تھی زاشہ چونک کے اس کے سحر سے نکلی اور دروازے کی جانب بڑھی تا کہ فوزیہ کو مطمؐین کر سکے۔
"""""""'"""""""""""""""""
نور مسلسل کام کی وجہ سے کافی تھک چکی تھی ابھی بھی وہ زاشہ کو کھانا کھلا کر برتن کچن میں رکھنے آئی تھی گھر وہ انفارم کر چکی تھی آج رات اسکا زاشہ کے پاس رکنے کا ارادہ تھا۔
شام کے بعد تیمور کو وہ کہیں بھی اکیلی نہیں ملی تھی ابھی جب اسکو کچن کی طرف جاتے دیکھا تو چپکے سے اس کے پیچھے چلا آیا۔
نور کچن کی لائٹ بند کرتی ہوئی جیسے بی مڑی اپنے پیچھے کسی بھاری وجود سےٹکرا گئی ۔ ۔ ۔ اچانک لگنے والے دھکے سے تیمور سنبھل نہیں سکا اور پیچھے زمین پہ رکھے پھولوں کے ٹوکرے پہ گرا تھا ساتھ ھی نور بھی اس پہ آ رہی۔
پنک سٹائلش ڈریس میں سجی سنوری نور تیمور کے ہوش اڑا ربی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جلدی سے اوپر اٹھی تھی مگر بھلا ہو دوپٹے کا جس میں اٹک کہ وہ دوبارہ تیمور پہ گری تھی اب کی بار اس کے ہونٹ تیمور کے گال سے ٹکرائے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک پل کو دونوں کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔
نور فوراْ سنبھل کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ ۔ ۔ ساتھ بی وہ بھی اٹھ گیا۔
" یہ کوئی طریقہ ہے کسی کو ڈرانے کا ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کوئی چوٹ لگ جاتی تو ۔ "
نور کچھ دیر پہلے ہوئے واقعے کے اثر کو زائل کرنے کے لئے بولی ۔
" میں نے کب ڈرایا تم خود ہی ڈر گئی تھی میرا کیا قصور ۔ ۔ ۔ "
وہ حیرت سے اسکو دیکھتا ہوا بولا جو الزام اسی پہ لگا رہی تھی۔
وہ آگے سے کچھ بولنے ہی والی تھی جب اسکی نظر تیمور کے گال پہ پڑی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
نور جلدی سے ٹشو لے کر اسکی جانب آئی۔
" آپ کے چہرے پہ مہندی لگی ہے لائیں میں صاف کر دیتی ہوں۔"
تیمور نے مشکوک نظروں سے سامنے کھڑی نور کو دیکھا اور پھر جلدی سے پلٹ کر لاؤنج میں لگے قدآدم آئینے کے سامنے آن کھڑابوا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھی گھبرا کر اس کے پیچھے لپکی مگر تب تک تیمور دیکھ چکا تھا اس کے دائیں گال پر نور کی پنک لپسٹک کا مارک تھا۔
نور اس سے نظریں چرا گئی۔
" نور نظر ۔ ۔ ۔ پیار کا پہلا تحفہ مجھے بہت پسند آیا۔"
اس کی بوجھل آواز سن کر نور وہاں کھڑی نہیں رہ پائی جلدی سے نکل آئی پیچھے تیمور دل پہ ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔
زرداب اس وقت لندن کے مشہور نائٹ کلب میں موجود تھا سامنے ہی ڈیول دو نیم برہنہ لڑکیوں کے درمیان بیٹھا تھا۔
وہ یہاں ڈیول سے بات کرنے آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا دل کل رات سے بہت بےچین تھا وہ ایک بار زاشہ کو دیکھنا چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکی چھٹی حس اسکو کسی گڑبڑ کا احساس دلا ربی تھی۔
وہ شروع سے ہی زاشہ کو لے کر بہت پوزیسو تھا۔
حالانکہ اس کے باپ نے زندگی میں ایک نصیحت کی تھی اسے کہ عورت ذات پہ کبھی بھروسہ نہ کرنا اور نہ ہی اسے اپنی کمزوری بننے دینا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھروسہ تو وہ نہیں کرتا تھا کسی کا بھی مگر زاشہ کو وہ اپنی کمزوری ضرور بنا بیٹھا تھا۔
اسکی ماں ایک نہایت خوب صورت ترک عورت تھی اسکا باپ کام کے سلسلے میں ترکی گیا تھا جب اسے حلیمہ خاتون پسند آ گئی تھی دونوں نے شادی کر لی تھی حلیمہ اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان چلی آئی۔
پہلے پہل تو وہ بہت خوش تھی مگر آہستہ آہستہ وہ اپنے شوہر کے کالے دھندوں کے بارے میں سب جان گئی اس کے لاکھ سمجھانے پر بھی جب آغا وجدان علی خان نہیں مانا تو اس نے پولیس کو سب بتا دیا۔
وجدان تو پولیس سے بچ گیا لیکن حلیمہ کو اس نے ابدی نیند سلا دیا زرداب اس وقت 5 سال کا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ باپ کے ساتھ رہتا تھا جبھی شروع سے ہی باپ کے ہر کام میں مشورہ دیتا تھا۔
وہ دس سال کا تھا جب اسکے چچا آغا زمان علی خان امریکہ سے پاکستان آ گئے وہ اور انکی بیوی بلکل اس کی ماں کی طرح تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس کے چچا کو اپنے بڑے بھائی کے کاموں کا پتہ چلا تو انہوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی بھائی کو سمجھانے کی گھر کا ماحول خاصا تلخ ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہی دنوں میں آغا زمان علی خان کو اللّه نے رحمت سے نوازا تھا جس کا نام انہوں نے زرش علی خان رکھا مگر اس دوران انکی جان سے پیاری بیوی انھیں اس جہان میں اکیلا چھوڑ گئیں اگر چھوٹی بچی کا سہارا نہ ہوتا تو شاید وہ بھی مر ہی جاتے۔
زرداب کو وہ گلابی کمبل میں لپٹی گڑیا بہت پسند آئی تھی وہ ہر پل اس کے ساتھ رہتا تھا اس کے چھوٹے چھوٹے کام خود کرتا تھا۔
ان دنوں زرش کے ساتھ مصروف ہو کے وہ اپنے باپ سے تھوڑا دور ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تبھی ایک خوفناک حادثہ ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ آرمی والوں نے اسکے بابا کو پکڑ لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 ماہ کیس چلتا رہا اور آغا وجدان علی خان کو آرمی ایکٹ کے تحت پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔
تب آخری ملاقات میں اسکے باپ نے اسے نصیحت کی تھی کہ عورت قابل بھروسہ نہیں ہے تم کسی سے دل نہ لگانا پر وہ تو دل لگا بیٹھا تھا۔
اس مشکل وقت میں ڈیول نے اسکو سہارا دیا تھا وہ اس کے باپ کا دوست تھا اسی نے زرداب کو بتایا تھا کہ اصل میں آغا زمان ہی اس کے باپ کی موت کا ذمہ دار ہے اس نے وہ فائل پولیس کو دی تھی جو حلیمہ نے وجدان کے خلاف تیار کی تھی مگر پولیس تک پہنچا نہیں سکی تھی۔
ڈیول چاہتا تھا کہ زمان کا کام تمام کر دیا جائے مگر زرداب نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تب اس نے آغا زمان کو قید تنہائی میں ڈال دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ زمان کو پل پل تڑپانا چاہتا تھا اسے آغا وجدان سے بے حد محبت تھی اسکی موت کو کتنا عرصہ قبول ہی نہیں کر پایا تھا اور جب سنبھلا تھا تب اس نے سوچ لیا تھا کہ اپنے بابا کی موت کے ذمہ دار کو وہ کڑی سزا دے گا۔
آغا زمان اس کے خفیہ لاک اپ میں قید تھا جہاں اسے بس زندہ رہنے کے لئے خوراک ملتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 48 ، 48 گھنٹے مسلسل اسے جگائے رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شدید مینٹلی ٹارچر کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زرداب خود باقاعدگی سے اس کے پاس جاتا تھا اور اسے زرش کے سب کاموں کی تفصیل بتاتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ کیسے آج اس کی بیٹی کی وجہ سے بے قصور لوگ مارے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنے معصوم نشے کی لعنت میں پڑ گئے ساتھ ہی اسکو میٹنگ کی ویڈیوز دکھاتا تھا جس میں زاشہ اس کے ہمراہ ہوتی تھی ۔
اس وقت آغا زمان کی آنکھوں میں در آنے والی تکلیف اسکو بہت سکون پہنچاتی تھی۔
اور جب اس نے زمان سے یہ کہا تھا ۔ ۔
" تم دیکھتے جاؤ آغا زمان ۔ ۔ ۔ ۔ تمھارے خون کو میں اس اندھیری دنیا میں ایسے پھنسا دوں گا کہ وہ چاہ کر بھی یہاں سے واپس نہیں جا پائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم اپنی بیٹی کو اس مقام پر دیکھو گے جہاں میرے باپ کو دیکھ کر تم نے انھیں موت کا تحفہ دیا تھا تب میرے تڑپتے دل کو سکون ملے گا"
تو بےبسی سے زمان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے اس نے زرداب کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ظالم شہزادے کو رحم نہیں آیا تھا۔
زرداب نے زرش کو پوری طرح سے ٹریننگ دی تھی وہ شروع سے اسے زاشہ بلاتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ وہ اسے زاشہ بنا دینا چاہتا تھا۔
زاشہ اطالوی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے " اکیلا ' بھٹکا ہوا ' تنہا چاند "
وہ زرش کو اس مقام تک لے جانا چاہتا تھا جہاں پہ زمان اسے دیکھ کر تڑپ جائے۔
" زرداب آر یو اوکے ! ۔ ۔ "
ڈیول کی نشے سے بھاری ہوتی آواز اسکو سوچوں کی دنیا سے باہر لائی تھی۔
" ہنہہ ۔ ۔ ۔ ۔ آئی ایم فائن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایکچولی میں پاکستان کال کرنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اٹس ارجنٹ "
وہ سیدھا مدعے پہ آیا۔
" یہ جانتے ہوئے بھی کہ خطرہ کتنا گہرا ہے "
" ہاں "
اس کے فیصلہ کن انداز کو دیکھ کر ڈیول نے اسے 5 منٹ کی کال کی اجازت دی تھی۔
زرداب کی کال بوا نے اتٹینڈ کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب اس نےزاشہ سے بات کرنے کا کہا تو بوا نے بتایا کہ وہ سو رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بوا اس کو جگانے کے لئے گئی تھیں تبھی وقت ختم ہو گیا اور گارڈ نے اس سے فون واپس لے لیا تھا۔
زرداب کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ ضبط کر گیا ابھی اسکو یہی تسلی کافی تھی کہ زاشہ سفید محل میں ہی موجود ہے۔
نکاح کے سفید سمپل ڈریس پہ سرخ بھاری کامدار دوپٹہ اوڑھے بیوٹیشن کے نفاست سے کیے گئے میک اپ میں زاشہ بے حد جسین لگ رہی تھی۔
نکاح نامے پہ سائن کرتے وقت اسکا دل پل بھر کو لرزا تھا مگر جب تیمور نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو اس نے سائن کر دئیے۔
ہر طرف مبارک سلامت کا شور اٹھا تھا تبریز وائٹ قمیض شلوار میں بلیک واسکٹ پہنے کوئی دیومالائی شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔
نکاح گھر میں سادگی سے ہی کیا گیا تھا ریسیپشن البتہ دھوم دھام سے کرنے کا ارادہ تھا۔
نور نے آج تبریز کو خوب لوٹا تھا پہلے سالی بن کر دودھ پلائی کی اور اب اس کے کمرے کے دروازے پہ ناکہ لگائے کھڑی تھی۔
" پچاس ہزار سے ایک روپیہ کم نہیں ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ اب آپ کی مرضی ہے اندر جانا ہے یا ساری رات ادھر ہی گزارنی ہے۔"
نور نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
" یار سارے پیسے تو لوٹ چکی ہو تم اب صرف 30 ہزار بچے ہیں والٹ میں ابھی یہ رکھ لو باقی پھر لے لینا۔"
ابھی نور مزید بحث کے موڈ میں تھی لیکن سامنے آتے تیمور کو دیکھ کر جلدی سے پیسے لے کر کھسک گئی۔
تبریز شکر مناتا آہستہ سے دروازہ دھکیلتاہوا اندر داخل ہوا دروازہ لاک کر کے وہ پلٹا تو سیدھی نظر سامنے وائٹ اور پنک روزز کے درمیان بیڈ پہ بیٹھی زاشہ پہ گئی جو اتنے سارے پھولوں کے درمیان خود بھی ایک پھول ہی لگ رہی تھی۔
کمرے کی سجاوٹ بہت سمپل مگر خوبصورت تھی صرف وائٹ اور پنک فلاورز کا استعمال کیا گیا تھا جو دیکھنے میں بے حد بھلا لگ رہا تھا۔
وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اپنی بھاری گھمبیر آواز میں اسکو سلام کیا۔
زاشہ نے ہلکی سی آواز میں جواب دیا۔
تبریز اپنی واسکٹ سائیڈ پہ رکھتا ہوا عین اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
زاشہ اس وقت شدید نروس تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صبیح پیشانی پہ پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔
تبریز نے وارفتگی سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے ہاتھوں کو تھاما جو اس وقت بےحد ٹھنڈے ہو رہے تھے۔
" اس روئےارض کی سب سے حسین عروس کو نکاح مبارک ہو"
تبریز کی بات سن کر اس کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئیں تھیں۔
" آپ کو بھی مبارک ہو "
وہ لبوں پہ شرمیلی مسکان سجائے بولی۔
" زندگی کے اس نئے سفر کے آغاز میں، میں تم سے بہت زیادہ وعدے اور دعوے نہیں کروں گا کیوں کہ وعدے ٹوٹ جاتے ہیں اور دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری محبت میری شدت تمھیں میرے ہر عمل سے ظاہر ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جان لو گی کہ میرے لئے کتنی خاص ہو تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بس ایک چھوٹا سا وعدہ کروں گا تم سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کبھی بھی کسی بھی مشکل وقت میں تمھیں تنہا نہیں چھوڑوں گا اور بدلے میں مجھے تمہارا ساتھ اور اعتماد چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی کے کسی موڑ پر بھی مجھ سے جھوٹ مت بولنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی کچھ مت چھپانا زرش ۔ "
تبریز کی آخری بات پہ زاشہ کے دل نے دہائی دی تھی کیوں کہ وہ اپنی نئی زندگی کی بنیاد ہی جھوٹ پہ رکھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے ساختہ اسکی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر بکھرے تھے۔
تبریز اسکے آنسو دیکھ کر بے چین ہوا۔
" ارے ۔ ۔ ۔ کیا میں اتنی خوفناک باتیں کرتا ہوں کہ تم ایسے رو پڑی ہو۔۔۔"
" نہیں ایسا کچھ نہیں ہے میرا بس یونہی دل بھر آیا تھا"
وہ آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھتے ہونے بولی۔
" مانا کہ تمھیں روتے دیکھ کر ہی میں تمہارا اسیر ہوا تھا مگر اب میں کبھی بھی ان خوبصورت آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھنا چاہتا۔"
زاشہ کے آنسو مزید بے اختیار ہوئے تھے جنہیں زرداب نے نہایت آہستگی سے اپنے لبوں سے چن لیا۔
زاشہ کا دل پسلیاں توڑ کر سینے سے باہر آنے کو تھا۔
تبریز نے پیچھے ہوتے ہوئے اپنی جیب سے ایک پینڈٹ نکال کر زاشہ کے سامنے کیا۔
" حسن کی نذر اک حقیر سا نذرانہ ہے ۔ ۔ ۔ اگر اجازت ہو تو پہنا دوں "
زاشہ دھیرے سے پلکوں کی چلمن گرا گئی۔
چند لمحوں کے بعد اسے اپنی گردن پہ لطیف سااحساس ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ تبریز پینڈٹ پہنانے کے بعد اسکی گردن پہ جھکا ہوا تھا۔
زاشہ ایک دم گھبرا کر پیچھے ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب اچانک ہوا تھا۔
تبریز نے بوجھل آنکھیں اٹھا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
" وہ مم ۔ ۔ میں چینج کر لوں پہلے "
وہ گھبرا کر بولی۔
" ہر گز بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کل ہی بتایا تھا کہ آج کوئی بہانہ نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔ ۔تھوڑی دیر بعد کر لیں گے چینج۔''
تبریز ایک آنکھ کا کونا دبا کر بولتا ہوا دوبارہ اس کے قریب ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ ابھی کچھ بولنے ہی والی تھی کہ وہ اس کے چہرے پہ جھکتا اس کے لبوں کو قید کر گیا۔
زاشہ نے کمزور سی مزاحمت کی مگر جلد ہی ہار گئی۔
تبریز پوری رات اس پہ اپنی محبت اور شدت نچھاور کرتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ سامنے کھڑی محبت دودلوں کے ملن پہ مسکرائی اور آگے بڑھ گئی۔
صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو تبریز کی پناہوں میں پایا وہ اسے مکمل اپنے حصارمیں لے کر کے سویا ہوا تھا۔
تبریز کو دیکھ کر زاشہ کو گزشتہ رات کی اسکی ساری وارفتگیاں یاد آئیں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکے ہونٹوں پہ شرمیلی مسکان بکھر گئی۔
وہ غور سے تبریز کو دیکھنے لگی وہ سویا ہوا بہت معصوم اور پیارا لگ رہا تھا حلانکہ حقیقت میں اسکی معصومیت وہ رات کو دیکھ چکی تھی
زاشہ کے ہونٹوں نے آہستہ سے تبریز کی پیشانی کو چھوا اور اپنے ہاتھوں سے اسکی بند آنکھوں کو ڈھانپ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" یہ کس کا دست حنائی ہے میری آنکھوں پر
میرے خوابوں کے سارے نگر ۔ ۔ ۔ گلابی ہیں "
تبریز کی آواز سن کر وہ چونکی تھی اسکا ہاتھ تبریز نے اب اپنے ہونٹوں سے لگا رکھا تھا۔
" آپ کب جاگے ۔ ۔ ۔ "
" جب کوئی چپکے چپکے مجھے پیار کر رہا تھا "
اسکی بات پہ زاشہ گلابی پڑ گئی۔
تبریز نے اسکے چہرے پہ بکھرتی دھنک کو بہت دلچسپی سے دیکھا اور اسے کھینچ کے خود پہ گرایا۔
" یار ۔ ۔ ۔ آج صبح کچھ جلدی نہیں ہو گئی ۔ ۔ ہمیں کچھ دیر اور سونا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے بھی آج ہمارا ریسیپشن ہے ہمارا اسپیشل ڈے ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا۔"
اس سے پہلے کہ زاشہ اسکی بات کا کوئی جواب دیتی دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں نے حیران ہو کر دروازے کی جانب دیکھا ۔
" ایس پی صاحب صبح ہو کر دوپہر ہونے والی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ولیمہ کروانا ہے تو اٹھ جائیے ۔ ۔ ۔ ۔ بہت سے کام آپ کے منتظر ہیں "
تیمور کی آواز اور اس پہ تبریز کے منہ کے بگڑتے زاویے ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ کو زوروں کی ہنسی آئی جسے اس نے بلکل بھی نہیں دبایا تھا۔
" ایس پی صاحب اٹھ جائیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ ڈسٹرب کرنے والے دروازہ توڑ دیں "
زاشہ ہنستی ہوئی بولی تھی ۔
" یہ گدھا کبھی نہیں سدھرے گا "
وہ بگڑے موڈ کر ساتھ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ فریش ہونے چلی گئی۔
""""""""""""""""""""""