تیمور اس کو مال میں موجود کافی شاپ میں لے آیا۔
"کیا یہ وہی لڑکی تھی جو تجھے کل ملی تھی "
اس نے سامنے بیٹھے تبریز سے پوچھا جس کاغصہ ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔
تبریز نے جواب میں صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
تیمور نے ایک ٹھنڈی سانس کھینچی۔
"پھر بھی یار تمھیں خود پر کنٹرول رکھنا چاہیے تھا میں تجھ جیسے انسان سے یہ سب بچوں والی حرکتیں ایکسپکٹ نہیں کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں اتنے سارے لوگوں کے سامنے تو نے اس بیچاری لڑکی کے ساتھ مس بہیو کیا ۔ ۔ "
تیمور کی بات سن کر تبریز کو تو پتنگے ہی لگ گنے جیسے ۔۔۔
"ہاں ہاں ساری غلطی میری ہی ہے وہ تو بہت معصوم ہے میں نے ہی لڑائی شروع کی تھی وہ تو چپ چاپ کھڑی تھی ۔ ۔ ۔ بیچاری جو ہوئی ۔ ۔ ۔ "
وہ تپ کر بولا تھا۔
"میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا یار ۔۔۔۔ اچھا چل چھوڑ اس بات کو ۔ ۔ ۔ دفع کر ۔ ۔ ۔ تو بس موڈ ٹھیک کر اپنا۔"
تیمور نے اسکا موڈ بگڑتا دیکھ کر جلدی سے بات سمیٹی۔
تبریز کے تاثرات کچھ ڈھیلے پڑے ۔ ۔ ۔ تیمور اب اسکا دھیان دوسری باتوں کی طرف موڑ چکا تھا۔
""""""""''''''''''''"""""""""""""""""""""""""""""
مال سے نکل کر وہ دونوں گاڑی میں آبیٹھیں ۔
" یہ سب کیا تھا زاشہ ۔۔"
نور نے گاڑی روڈ پہ ڈالتے ہونے ساتھ بیٹھی زاشہ سے سوال کیا جو اس وقت منہ ونڈو کی جانب کیے بیٹھی تھی۔نور کا سوال سن کر بس اسکو ایک نظر دیکھا اور دوبارہ اپنا رخ باہر کی جانب کر لیا۔
نور جانتی تھی کہ وہ اس وقت ڈسٹرب ہے جبھی ایسی جذباتی حرکت کر بیٹھی تھی۔
"اگر یہ وہی ایس پی تھا جس کی وجہ سے اس جلاد نے تمہارا یہ حال کیا ہے تو تمھیں محتاط رہنا چاہیے تھا زاشہ ۔ ۔ ۔ "
"آئی نو مجھے ایسے بہیو نہیں کرنا چاہیے تھا پر پتا نہیں نور اسے دیکھ کر مجھے کیا ہو گیا تھا اپنی ساری تکلیف دوبارہ سے یاد آ گئی تھی جبھی میرے منہ میں جو آیا میں بولتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ویسے بھی اس نے کون سا کوئی کم بدتمیزی کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے حساب برابر ہی ہے۔"
زاشہ نے بولتے ہونے آخر پر لاپرواہی سے سر جھٹکا۔
"ویسے بندہ تو خاصا ہینڈسم ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے تمہارا اس بارے میں۔۔"
نور نے شرارت سے ایک آنکھ دبا کر زاشہ کو کہا۔
زاشہ نے اسکی بات پر اسے ایک زبردست سی گھوری سے نواز۔جبھی نور بےساختہ کھل کر ہنس دی تھی اسکو گھورتی زاشہ کی بھی ہنسی نکل گئی۔
تبھی سامنے روڈ پر دیکھ کر نور نے گاڑی کو بریک لگائی تھی کیوں کہ سامنے ہی کوئی بےحس شخص ایک خاتون کو بائیک سے ٹکر مار کر بھاگ گیا تھا اور وہ عورت زخمی حالت میں پڑی تھی۔
وہ دونوں جلدی سے گاڑی سے نکل کر وہاں پہنچیں آس پاس اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔
"اوہ نو ۔ ۔ ۔ ۔ نور ان کا تو بہت خون بہ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ہمیں انکو فورا ہسپتال لے کر جانا ہو گا ۔"
زاشہ نے اپنا دوپٹہ فوزیہ بیگم کی پیشانی سے بہتے خون پر رکھ کر نور سے کہا۔
" آنٹی آپ بس تھوڑی ہمت رکھیے ہم آپ کو ابھی ہسپتال لے جاتے ہیں آپ فکر مت کریں ۔"
نور نے نیم بیہوش فوزیہ بیگم سے کہا۔
پھر وہ دونوں ان کو سہارا دے کر گاڑی تک لائیں اور نور نے ان کو اندر بیٹھا کر گاڑی زن سے آگے بڑھا دی۔
زاشہ فوزیہ بیگم کا سر اپنی گود میں رکھے بیٹھی تھی اور ان کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ بائیک والےکی بے حسی کو خوب کوس رہی رہی تھی جس نے ایکسیڈنٹ کر کے مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا۔
ڈاکٹر نے فوزیہ بیگم کی بینڈیج کر دی تھی ان کے سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی اور پاؤں میں بھی موچ تھی لکین وہ اس وقت ہوش میں تھیں تبھی روم کا دروازہ کھلا زاشہ اور نور اندر آئیں ۔
"آنٹی کیسی ہیں اب آپ زیادہ پین تو نہیں ہو رہا نا! ۔ "
زاشہ نے ان کے قریب آتے ہونے پوچھا۔
"نہیں بیٹا کوئی پین نہیں ہے اب تو میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ ویسے بھی تم دونوں نے بہت مدد کی ہے میری بہت بہت شکریہ بیٹا ۔ ۔ ۔ اللّه تم دونوں کے نصیب اچھے کرے "
فوزیہ بیگم نے دل سے انھیں دعا دی۔
"آنٹی آپ شکریہ بول کر ہمیں شرمندہ مت کریں یہ تو ہمارا فرض تھا۔"
نور کے کہنے پر زاشہ نے اسکی تائید کی۔
" اچھا آپ اب یہ جوس پی لیں آپ بہتر فیل کریں گی اور یہ لیں میرا فون اپنے گھر کسی کو انفارم کر دیں۔ ہم تب تک آپ کی میڈیسن لے آتے ہیں ۔"
زاشہ نے ان کو جوس دے اور کر اپنا فون پکڑایا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دوا لے آئیں تھیں۔
"آنٹی ہو گئی آپ کی گھر بات۔۔"نور نے انکو دواؤں کا شاپر پکڑاتے ہونے پوچھا۔
" جی بیٹا میں نے اپنے بیٹے کو بتا دیا ہے وہ بس آتا ہی ہو گا۔"
تبھی زاشہ کا فون بج اٹھا اس نے دیکھا تو گھر سے کال تھی مطلب بوا اسکو گھر واپس بلا رہی تھیں۔
"آنٹی آئی ایم رئیلی ویری سوری ابھی مجھے جانا ہو گا ورنہ آپ کے بیٹے کے آنے تک ہم ضرور رکتے۔
"زاشہ نے فوزیہ بیگم سے معذرت کرتے ہونے جانے کی اجازت مانگی تھی۔
"ارے بیٹا کوئی بات نہیں تم لوگ پریشان مت ہو ابھی آ جائے گا میرا بیٹا ۔ ۔ بس تم لوگ مجھ سے ملنے ضرور آنا گھر مجھے بہت اچھا لگے گا۔"
فوزیہ بیگم نے اپنا ایڈرس انہیں بتاتے ہونے کہا۔
" جی انشاءاللّه آ نٹی ہم ضرور آیئں گی آپ اپنا خیال رکھیے گا نور نے ان سے اجازت لیتے ہونے کہا اور پھر وہاں سے نکل آئی۔
" نور اب جلدی سے مجھے گھر ڈراپ کر دو میرے خیال سے کوئی ضروری بات ہے جبھی بوا نے مجھے یوں بلایا ہے۔"
زاشہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہونے پریشانی سے کہا۔
"فکر مت کرو ہم ابھی پہنچ جائیں گے۔"
نور اسے تسلی دیتے ہونے بولی اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
آغا زرداب علی خان اس وقت دبئی میں واقع اپنے خان ولا میں موجود تھا چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی تبھی باہر ایک ساتھ کئی گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئی تھی۔وہ جلدی سے لاؤنج کے دروازے کی سمت بڑھا راہداری میں ملازم سر جھکائے کھڑے تھے۔
زرداب نے پورچ میں کھڑی شاندار لمبورگنی سے باہر نکلنے والے شخص کو جھک کر سلام کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ آنے والا کوئی عام ہستی نہیں ہے۔
" ڈیول آپ نے کیوں زحمت کی مجھے ایک اشارہ کیا ہوتا میں خود حاضر ہو جاتا۔"
زرداب نے سامنے موجود ڈھلتی عمر کے شخص کے ہاتھ کا بوسہ لیتے ہونے کہا جو اس وقت قیمتی لباس میں ملبوس تھا سر پر ایک بھی بال موجود نہیں تھا اور پیروں میں پہنے قیمتی جوتے جن پر سونے کے بنے کلپ لگے ہوئے تھے،ہاتھ میں ایک صندل کی لکڑی کی بنی چھڑی جس کے اوپر سونے سے بنا ایک سٹیچو لگا ہوا تھا اور پیچھے موجود گارڈز کی فوج یہ سب چیزیں آنے والے کی حثیت کا خوب پتا دے رہی تھیں۔
زرداب اس شخص جسکو اس نے ڈیول پکارا تھا اپنے ساتھ لئے اندر بڑھ گیا دو گارڈز ان کے پیچھے تھے۔
ڈیول کے بیٹھنے کے بعد زرداب اس کے سامنے بیٹھ گیا۔وہ اب سامنے والے کے بولنے کا منتظر تھا۔
" تم افغانستان میں ہونے والی موجودہ صورتحال سے تو واقف ہی ہو گے۔"
ڈیول نے بھاری آواز میں گفتگو کا آغاز کیا۔
" جی مجھے کل رات ہی خبر مل گئی تھی اور سکندر آج صبح کی افغانستان روانہ ہو گیا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ وہاں سب سنبھال لے گا آپ فکر مت کریں۔"
" بات بہت عام نہیں ہے آغا جبھی میں خود تمھارے پاس آیا ہوں اصل میں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے میں چاہتا ہوں کہ تم کچھ عرصے کے لئے منظر سے ہٹ جاؤ کیوں کہ اس بار افغانستان میں پاکستان آرمی نے آپریشن کیا ہے اگر انکو تمھارے بارے میں ذرا بھی بھنک لگ گئی تو ہم سب خطرے میں آ جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ "
ڈیول کی بات سن کر زرداب کے خوبرو چہرے پر پریشانی جھلکنے لگی تھی۔
"تو اب میرے لئے کیا حکم ہے۔"
" تم فلحال لندن چلے جاؤ وہاں خطرہ کم ہے اور بہتر یہی ہو گا کہ تم پاکستان میں کسی سے بھی رابطہ مت کرو کیوں کہ اس سے تمھارے پکڑے جانے کا ڈر ہے اور میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا ۔ ۔ ۔
آرمی والے تمھارے پیچھے ہیں آغا ۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری ایک غلطی ہم سب پہ بھاری پڑے گی ۔ "
ڈیول نے سرد انداز میں اسکو باور کروایا۔
زرداب نے فقط سر جھکا دیا تھا کیوں کہ سامنے بیٹھے شخص کی بات ماننے کے سوا اس کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ڈیول اس کالی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا مگر اس وقت اس کے لہجے میں پنہاں خوف وہ بخوبی بھانپ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب خطرہ واقعی معمولی نہیں تھا۔
اب وہ دھیرے دھیرے سے مزید کوئی بات کر رہے تھے۔
"ہیلو سویٹی ۔۔۔ کیسی ہو ۔۔۔۔ ہمیں تو لفٹ ہی نہیں کرواتی تم ۔ ۔ ۔ اب ایسی بھی کیا بے رخی آخر کو کزن ہوں تمہارا ۔۔۔''
نور ابھی گھر پہنچی ہی تھی جب اچانک سے نبیل اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔
" جسٹ شٹ اپ ۔ ۔ تم لمٹ میں رہو اپنی تم صرف میرے بابا کی وائف کے بھانجے ہو اس لئے مجھ سے رشتہ جوڑنے کی کوشش مت کیا کرو اب اپنی یہ منحوس شکل گم کرو یہاں سے ۔ ۔ "
نور نے تپ کر جواب دیا ابھی وہ اس کے سامنے سے گزر کر اپنے روم میں جا ہی رہی تھی جب نبیل نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا نتیجے میں وہ اسکے حصار میں چلی آئی۔
"ارے جان من ہم تو اپنی یہ شکل ساری زندگی تمھیں دکھانا چاھتے ہیں اور تم ہو کہ پاس بھی نہیں آنے دیتی۔"
وؤ اپنے دونوں ہاتھ اسکی کمر پہ رکھ کر خباثت سے مسکراتے ہونے بولا۔
نور کا تو خون کھول اٹھا تھا اسکی اس گھٹیا حرکت پر اس کا ہاتھ اٹھا اور نبیل کے چہرے پر اپنا نشان چھوڑ گیا وہ ہکا بکا سا اپنے جلتے گال پہ ہاتھ رکھے اسکو دیکھنے لگا۔
" ذلیل انسان تیری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی ۔ ۔ ۔ آج تو صرف ایک تھپڑ پڑا ہے اگر دوبارہ ایسی حرکت کی تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہو گے۔"
نور شدید غصے سے بولی اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اس کی نظر سامنے سے آتے مسٹر نفیس کرمانی اور اپنی خالہ پر پڑی تبھی اس نے پینترا بدلا اور بولا۔
"نور آخر اپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں میں تو صرف آپ سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور آپ نے مجھے تھپڑ مار دیا۔"
نور نے حیرت سے اسکو دیکھا اور بولی۔
" میرے سامنے یہ ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے نور کرمانی نام ہے میرا اس گھر سے اٹھا کر باہر پھینک دوں گی تمھیں ۔ ۔ ۔ "
"نور یہ کیا بدتمیزی ہے ۔ ۔ ۔ ایسے بات کرتی ہیں آپ گھر آئے مہمانوں سے ۔ "
ابھی وہ مزید کچھ بولتی جب اسکو پیچھے سے اپنے بابا کی آواز سنائی دی۔
"وہ بابا اس نے میرے ساتھ ۔ ۔ ۔ "
ابھی وہ بول ہی رہی تھی جب انہوں نے اسکی بات کاٹ دی۔
" سوری بولو نبیل کو ابھی ۔۔ '''
نور نے دکھ سے اپنے باپ کو دیکھا تھا جو اسکا درد نہیں سمجھتا تھا اور کچھ بھی بولے بغیر وہاں سے بھاگ گئی۔
نور ۔ ۔ ۔ واپس آؤ ۔ ۔ "
"ارے انکل کوئی بات نہیں میں نے ان کی بات کا مائنڈ نہیں کیا شاید وہ تنہائی پسند ہیں میں نے ہی انکو ڈسٹرب کر دیا۔"
نبیل کی ایکٹنگ اس وقت عروج پر تھی مسز كرمانی نے فخر سے بھانجے کو دیکھا۔
"نہیں بیٹا میں جانتا ہوں نور بہت بد تمیزی کر جاتی ہے خیر میں سمجھاؤں گا اسکو تم برا مت ماننا "
مسٹر کرمانی کے کہنے پر اس نے مزید معصوم بن کر سر ہلایا۔
"ارے واہ بیٹا بہت خوب جا رہے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے ہی لگے رہو گے تو ہمیں اپنی منزل ضرور ملے گی۔"
نفیس کرمانی کے جانے کے بعد مسز کرمانی شاطرانہ مسکراہٹ لئے ہونے بولیں تھیں۔
"بس خالہ آپ دیکھتی جائیں میں کیسے اس کبوتری کے پر کاٹتا ہوں سالی ۔۔۔(گالی ) بہت اڑ رہی ہے۔"
نبیل تھپڑ کو یاد کر کے غصے سے بولا۔
" ذرا دھیان رکھنا اس ساری دولت کی اکیلی وارث ہے یہ کلموہی۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھ سے نکل جائے ۔ "
وہ جاتے ہونے دھیرے سے بولیں تھیں۔
"ہاتھ سے تو نہیں نکلنے دوں گا اب تو اسکو قابو کرنا ہی پڑے گا۔"
نبیل نے پرسوچ نگاہیں نور کے کمرے کے دروازے پر جما کر کہا۔
زاشہ عشاء کی نماز پڑھ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے بیٹھی تھی اس کا دل بے ساختہ ہی بھر آیا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
سچ کہتے ہیں اللّه کبھی بھی اپنے بندے پر اسکی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اسکا دل بھی آج اپنے رب کے حضور مزید جھک گیا تھا وہ پروردگار کی عنایتوں اور پھر اپنی نا شکری کو یاد کر کے خوب روئی تھی ابھی کل ہی اس نے خدا سے اپنی قسمت پہ ڈھیروں شکوے کیے تھے اور آج اس مالک نے اسے اس جہنم سے نکلنے کی راہ سجھائی تھی۔آج جب وہ واپس آئی تبھی اسکو سکندر کے خاص آدمی کے آنے کی اطلاع ملی جس نے اسے بتایا کہ نامعلوم عرصہ کے لئے سکندر اور آغا روپوش ہو گنے ہیں اب یہاں کا سارا کام زاشہ کو ہی سنبھالنا ہے۔وہ آدمی تو پیغام دے کر چلا گیا مگر زاشہ اپنی جگہ سےہل بھی نہ سکی ۔
اللّه کس قدر مہربان ہے اور انسان اتنا ہی نا شکرا ۔
وہ آنسو صاف کرتے ہونے جائ نماز سمیٹ کر اٹھ گئی اب وہ یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی اسے جو بھی کرنا تھی ابھی ہی کرنا تھا وہ سوچ چکی تھی۔
"""""""""""""”""""""""""""""""""""""""""
"ماما آپ بستر سے بلکل بھی نہیں اٹھیں گی اور نہ ہی کسی کام کو ہاتھ لگائیں گی ابھی کچھ دیر میں پروین آ کر کر لے گی سارا کام "
تبریز نے ناشتے کے برتن اٹھا کر کچن میں رکھتے ہونے کہا۔
کل فوزیہ بیگم کی کال سن کر دونوں بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے تھے تبریز ان کے یوں اکیلے باہر جانے پر کافی ناراض بھی ہوا تھا پر پھر فوزیہ بیگم کے یہ کہنے پر کہ اچانک کام پڑ گیا تھا اسی لئے چلی گئی تھی اور ویسے بھی دو بچیوں نے بہت مدد کی میری اس لئے تم پریشان مت ہو۔۔۔۔وہ کچھ ٹھنڈا ہوا تھا۔
"اور ہاں آج اگر وہ لڑکیاں آئیں تو آپ انکو میڈیسن اور بل کے پیسے ضرور دے دیجئے گا۔"
وہ جانے سے پہلے انکو پیار کرتے ہونے بولا ۔
" ٹھیک ہے میں دے دوں گی تم زیادہ مت سوچو کل سے ایک ہی بات کر رہے ہو۔"
فوزیہ بیگم اسکو ڈپتی ہوئی بولیں۔
" آپ بھی تو کل سے ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ انکو دیکھ کر بھول ہی جائیں ۔"
وہ جاتے ہونے شرارت سے بولاتھا۔
وہ اسکی بات پر مسکرا پڑی تھیں۔پتہ نہیں کیوں انھیں زاشہ سے بہت اپنائیت محسوس ہوئی تھی جیسے وہ ان کی اپنی ہو اسکو دیکھ کر انکو شدت سے کسی کی یاد آئی تھی مگر وہ یہ سب تبریز سے نہیں کہ سکیں۔
زاشہ کے لئے تو یہ دن عید اور ہر رات شب برات کی مانند تھی ہر خوف ہر بندش سے آزاد زاشہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی مرضی کی مالک زاشہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کی نگرانی کے خوف سے بلکل آزاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سارا سارا دن تتلی کی طرح اڑتی پھرتی ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ایک مہینے سے کوئی میٹنگ نہیں کی تھی کسی سے نہیں ملی تھی بس اپنے لاسٹ سمسٹر کے کے پپرز میں مصروف رہی باقی ہر ٹینشن اس نے دماغ سے نکال دی تھی۔
آج کی صبح بہت خوشگوار تھی ۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر اسکو ہی لگ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پپرز ختم ہو گنے تھے اب وہ آرام سے اپنا کام کر سکتی تھی اسے آغا کے خلاف ٹھوس ثبوت ڈھونڈنے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی اس عارضی آزادی کو مستقل کرنے کے لئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ابھی فلحال اسے اور نور کو فوزیہ بیگم کی طرف جانا تھا انہوں نے بہت پیار سے دونوں کو لنچ پہ انوائٹ کیا تھا وہ انکو انکار نہیں کر پائی تھی ویسے بھی پپرز کی وجہ سے وہ ان سے ملنے نہیں جا پائی تھی بس فون پہ ہی انکی خیریت پوچھ لیتی تھی۔
"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
"آنٹی آپ کی تیاریاں دیکھ کر تو ایسے لگ رہا ہے جیسے آپ نے اپنی بہو کو لنچ پہ بلایا ہے۔"
تیمور فوزیہ بیگم کو دیکھتا ہوا شرارت سے بولاجو بوکھلائی ہوئی بار بار ہر چیز چیک کر رہی تھیں کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
" تم جب ان سے ملو گے نا تو تب تمھیں معلوم ہو گا کہ میں اتنی ایکسائٹڈ کیوں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کل کہاں ملتی ہیں اتنے اچھے اخلاق کی لڑکیاں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بہت اچھے سے یاد ہے کہ مجھے زخمی دیکھ کر دونوں کتنی پریشان ہو گئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کیا تم مجھے باتوں میں لگا رہے ہو ذرا میری اولاد کو فون کر کے پوچھو کہ گھر کب تک آئے گا یاتھانے میں ہی رہنے کا ارادہ ہے اسکا۔"
فوزیہ بیگم کو بولتے ہوئے ایک دم سے تبریز کا خیال آیا۔
"آنٹی میری بات ہوئی ہے اس سے ۔ ۔ ۔ ۔ بس تھوڑا سا کام آ گیا ہے وہ لنچ کے بعد ہی پہنچ سکے گا۔"
"میں جانتی تھی یہ نہیں سدھرنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ بس کام کام کام ۔ ۔ ۔ "
انھیں تو غصہ ہی آ گیا تھا۔جبھی بیل کی آواز پہ وہ چونکیں ۔ ۔ ۔ ۔
"مجھے لگتا ہے وہ آ گئی ہیں ۔ ۔ "
آپ رکیں میں دیکھتا ہوں"
تیمور بولتا ہوا دروازے کی جانب آیا ۔ ۔ ۔ جونہی اس نے دروازہ کھولا سامنے کھڑی نور اور اس کے پیچھے زاشہ کو دیکھ کر اسے جیسے سکتہ ہی ہو گیا یہی حال ان دونوں کا بھی تھا۔
"کیا ہوا تیمور بیٹا دروازے میں ہی کیوں رک گئے ۔ ۔ ۔ ۔ "
فوزیہ بیگم بولتی ہوئی سامنے آئیں۔
"ارے بیٹا آؤ آؤ وہاں کیوں کھڑی ہو دونوں ۔ ۔ "
تیمور نے سامنے سے ہٹ کر ان کو اندر آنے کا راستہ دیا۔وہ دونوں فوزیہ بیگم سے مل کر اندر جا رہی تھیں وہ بھی حیران پریشان سا ان کے پیچھے ہی چلا آیا۔
"تیمور بیٹا ان سے ملو ۔ ۔ ۔ ۔ یہی دونوں مجھے ہسپتال لے کر گئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نور ہے اور یہ زرش ۔ ۔ ۔ اور بیٹا یہ تیمور ہے میرے بیٹے کا دوست اور میرا دوسرا بیٹا۔"
انہوں نے مسکراتے ہونے تعارف کروایا۔۔
" بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر ۔ ۔ ۔ ۔ اور دوبارہ دیکھ کر ۔ ۔ "
آخری بات تیمور نے نور کو دیکھ کر آہستہ سے کہی ۔ ۔ ۔ جسے سن کر وہ بس اسے گھور ہی سکی۔
کھانا بہت اچھے ماحول میں کھایا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ساتھ ہی تیمور نے فوزیہ بیگم کو شاپنگ مال میں ہونے والی ملاقات کا بھی بتایا (زاشہ اور تبریز کی لڑائی کا سین نکال کر) جسے سن کر وہ دیر تک ہستی رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تیمور بار بار کوئی نا کوئی چٹکلہ چھوڑ دیتا تھا جسے سن کر کوئی بھی اپنی ہنسی قابو نہیں کر پا رہا تھا۔
"تیمور آپ کو پولیس میں نہیں کامیڈی شوز میں ہونا چاہیے تھا کافی ترقی کرتے آپ۔"
نور نے سامنے بیٹھے تیمور سے کہا ۔ ۔ ۔
جبکہ زاشہ فوزیہ بیگم کے ساتھ کچن میں تھی۔
"جناب ترقی تو ہم ادھر بھی بہت کریں گے کافی روشن مستقبل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آپ غور کیجیے گا ۔ ۔ ۔ "
تیمور ہنستے ہونے بولا۔
اسکی اتنی ڈائریکٹ بات سن کر نور کے چہرے پر گلال بکھر گیا ۔۔۔۔ تیمور نے دلچسپی سے اس منظر کو دیکھا تھا۔
جبھی زاشہ وہاں چلی آئی ساتھ ہی فوزیہ بیگم بھی تھیں۔
ارے اس لڑکے کو پوچھو تو آخر کب آئے گا گھر ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی فوزیہ بیگم بول ہی رہی تھیں کہ تبریز کی گاڑی کی آواز سن کر خاموش ہو گئیں ۔
زاشہ تھوڑی پریشان ہوئی تھی کیوں کہ تیمور کو دیکھ کر وہ جان گئی تھی کہ فوزیہ بیگم کا بیٹا کون ہے۔
"آپ پریشان مت ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بہت اچھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن بس غصے میں تھا۔"
تیمور نے اسکی پریشان صورت دیکھ کر اسکو تسلی دی۔
اندر داخل ہوتے تبریز کی پہلی نظر سامنے بیٹھی کنفیوز سی زاشہ پڑی ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا فوزیہ بیگم نے اسکو دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور ان کا تعارف کروایا۔
تبریز سرسری سا ان سے مل کر اپنے کمرے میں فریش ہونے چلا آیا۔
فوزیہ بیگم شرمندہ ہوئی تھیں۔
" بیٹا تم لوگ بڑا مت ماننا وہ تھکا ہوا ہے اسی لئے ایسے چلا گیا۔"
" ارے آنٹی آپ پریشان مت ہوں چلیں چھوڑیں سب ہم چائے بناتے ہیں چل کر۔ "
زا شہ اور نور ان کو لے کر کچن میں چلی گئیں۔
"یہ کیا طریقہ تھا تابی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیمور اس کے کمرے میں آ کر پوچھ رہا تھا جو بلکل فریش سا سامنے کھڑا تھا ۔"
" کیا کیا ہے میں نے میں بس فریش ہونے آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی نیچے ہی آ رہا تھا کہ تو آ گیا تھانے دار بن کر ۔ ۔ ۔ "
تبریز نے بالوں میں برش کرتے ہونے جواب دیا۔
"تو پھر چل ۔ ۔ ۔ ۔ "
تیمور اسکو پکڑ کر ساتھ لے آیا۔
جبھی نور اور زاشہ چائے لے آئیں ساتھ فوزیہ بیگم بھی تھیں۔
آئی ایم سوری میں بس فریش ہونے گیا تھا آپ لوگوں کو برا تو نہیں لگا ۔ ۔ ۔
تبریز نے ماما کی گھوریوں کو دیکھ کر کہا۔
Its okay ۔ ۔ ۔ we don't mind۔
زاشہ نے ہلکے سے جواب دیا۔
فوزیہ بیگم نے سب کو چائے بنا کر پکڑائی۔
"اچھا تو مس زرش ۔ ۔ آپ نے اپنی فیملی کا ذکر نہی کیا کبھی ماما اکثر آپ کے بارے میں بات کرتی رہتی ہیں "
تبریز کی بات سن کر اسے زبردست اچھو لگا تھا اور کچھ چائے اس کے کپڑوں کو رنگین کر گئی ۔
فوزیہ بیگم نے جلدی سے اسکی پیٹھ سہلائی۔
زاشہ کپڑے صاف کرنے کا بہانہ کر کے وہاں سے باہر چلی آئی ۔ ۔ ۔ ۔ پیچھے ایس پی صاحب کی پولیس والی حس جاگ اٹھی ۔
"ایکچولی بات یہ ہے کہ زرش کی کوئی فیملی نہی ہے اس کے پیرینٹس کی بچپن میں ڈیتھ ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔ اس کے لالچی رشتے داروں نے اسے یتیم خانے بھیج دیا اور جب سے یہ خود کو سنبھالنے لائق ہوئی ہے تب سے وومن ہاسٹل میں رہتی ہے ساتھ میں جاب بھی کرتی رہی ہے اور پڑھائی ساری سکالرشپ پہ ہوئی ہے اسکی۔"
نور کی بات سن کر ایک دم سے خاموشی چھائی تھی۔فوزیہ بیگم کا تو دل بھر آیا۔۔۔۔۔۔۔تبریز کو بھی شرمندگی نے آن گھیرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چائے چھوڑ کر باہر نکل آیا سامنے ھی لان میں وہ اس کو نظر آئی ۔ ۔ ۔ ۔
وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے سامنے آیا جہاں وہ منہ نیچے کیے رونے میں مصروف تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چہرہ رونے کی وجہ سے لال ہو رہا تھا بالوں کی کچھ لٹیں سامنے چہرے پہ گری تھیں سیاہ پیروں کو چھوتے فراک میں اسکا گورا رنگ دمک رہا تھا۔
بے اختیار ہی تبریز نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں کو چہرے سے ہٹایا ۔ ۔ ۔ زاشہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور یہ دیکھنا غضب ڈھا گیا ۔ ۔ ۔ ۔
تبریز کا دل سیاہ پانی سے بھرے دو نین کٹوروں میں ڈوب ڈوب گیا ڈھلتے سورج کی نارنجی شعاوں نے اسکے چہرے کو عجب روپ بخشا تھا وہ نگاہ نہیں ہٹا پایا۔
I am sorry۔۔۔۔۔sorry for hurting you
اس نے خود کو کہتے سنا۔
اسکی آواز زاشہ کو ہوش میں لائی تھی وہ چونک کر دو قدم پیچھے ہوئی وہ اس کے بے حد نزدیک کھڑا تھا اسکے کلون کی دلفریب مہک مدہوش کن تھی زاشہ نے نگاہ اٹھا کر کچھ کہنا چاہا مگر وہ اسکی بھوری دلکش آنکھوں میں اترتے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ زیادہ دیر وہ ان ساحر آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی اور نگاہ جھکا گئی ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں کے درمیان معنی خیز خاموشی تھی صرف دل دھڑکنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
" آہم آہم ۔ ۔ ۔ ۔ اگر معافی تلافی ہو گئی ہو تو پلیز اندر تشریف لے آئیے چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔"
تیمور کی شرارتی آواز نے اس فسوں کو توڑا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایک دم سے پلٹ کر اندر بھاگ گئی۔
تبریز بھی جیسے ہوش میں آیا تھا۔وہ تیمور کی شرارتی نظروں کو اگنور کرتا ہوا اندر بڑھ گیا۔
اک نئی کہانی شروع ہونے کو تھی ۔