"محترمہ آپ اپنی راہ لیجیے نجانے کس پاگل خانے سے بھاگ کر آئی ہیں اور اب بلاوجہ ہی میرے کام میں ٹانگ اڑا رہی ہیں"
تبریز سامنے کھڑی زاشہ کو دیکھ کر شدید بے زاری سے بولا تھا،لہجہ بمشکل قابو میں رکھا تھا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ سامنے کھڑی بظاہر معصوم نظر آنے والی اس چڑیل کو کچا چبا جائے جس نے اسکی پورے دن کی محنت کو لمحوں میں ضائع کر دیا تھا۔
what۔۔۔۔۔۔۔۔! "
تم نے مجھے پاگل کہا
تم دو نمبر گلی کے غنڈے تمہاری اتنی ہمت کہ مجھ سے ایسے بات کرو،ایک تو غلطی کرتے ہو اور اگر کوئی دوسرا روکے تو الٹا اسکے ہی گلے پڑ جاتے ہو،میں تمہاری پولیس میں کمپلین کروں گی "
زاشہ تو خود کو پاگل بولے جانے پر غصے سے تلملا ہی گئی تھی۔
" اوہ ہیلو میڈم! ایک تو تم نے میرا نقصان کر دیا اور میں شریف آدمی پھر بھی تم سے تمیز سے بات کر رہا ہوں مگر تم مسلسل بدتمیزی کیئے جا رہی ہو،جاٶ کر لو جا کر پولیس میں کمپلین۔۔۔۔۔بلکہ میں بھی تمھارے ساتھ ہی چلتا ہوں "
تبریز اسکی باتوں پہ تنگ آ کر بولا تھا۔
" کیا کہا تم نے ۔۔۔۔ میں نے تمہارا نقصان کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ میں نے،،،،،،،،، ارے نقصان تو تم اس غریب کا کرنے والے تھے اسکی کوئی ہڈی پسلی توڑ کر وہ تو شکر ہے اللہ کاکہ میں وقت پہ پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ تم تو اسکو مارنے والے تھے "
زاشہ نے اسکی نقصان والی بات کا بڑا ٹکا کر جواب دیا دیاتھا۔
" مجھے تو تم سچ میں کوئی پاگل ہی لگتی ہو،اور پاگلوں کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔۔۔۔
So plzz carry on۔۔۔ "
تبریز اکتا کر بولا تھا۔
”ہنہہ۔۔۔۔۔ تم سے تو بات کرنا ہی بے کار ہے فضول انسان۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پاگل کہہ رہے ہو اور خود پاگل سے بھی اوپر کی کوئی چیز ہو تم
just like Aliens"
زاشہ خفگی سے بولتی ہوئی جانے کے لیے آگے بڑھی تھی پر۔۔۔۔۔۔۔۔ برا ہو اس پتھر کا جو عین مادام زاشہ کے پیر کے نیچے آ گیا تھا ، اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی تبریز نے غیرارادی طور پہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گرنے سے پچایا تھا۔
ایک لمحے کیلئے دونوں کے دل کی دھڑکن تھمی تھی اگلے ہی لمحے زاشہ نے اپنا ہاتھ تبریز کے ہاتھ سے کھینچا تھا اب وہ سنبھل چکی تھی،پھر وہ بنا اسکی جانب دیکھے آگے بڑھ گئی تھی پیچھے سے تبریز اپنے دل کی تسلی کے لیئے چلایا تھا
”محترمہ جتنی تیزی سے زبان چلاتی ہو اسی سپیڈ سے اپنی آنکھوں کا بھی استعمال کر لیا کرو ہو سکتا ہے اگلی بار یہ گلی کا غنڈہ تمہیں نہ بچانے کیلئے موجود نہ ہو “
لیکن زاشہ بنا پیچھے دیکھے آگے بڑھ گئی تھی۔
تبھی تبریز کا سیل فون بج اٹھا تھا تیمورکی کال تھی اب وہ اسے ساری رام کتھا سنا رہا تھا۔
ذرا دور کھڑے سکندر نے سارا معاملہ دیکھا تھا آج یونیورسٹی سے واپسی پہ زاشہ اکیلی ہی جنگل والی سائيڈ پہ آ گئی تھی سکندر احتیاطاً اسکے پیچھے آیا تھا جب اس نے یہ سارا منظر دیکھا تھا۔
زاشہ ابھی اپنے کمرے میں پہنچی ہی تھی کہ بوا دروازے پہ دستک دے کر اندر داخل ہوئیں تھیں۔
” زاشہ بیٹی۔۔۔ آغا زرداب تشریف لائے ہوئے ہیں وہ کھانے پہ تمھارا انتظار کر رہے ہیں تم جلدی سے فریش ہو کر باہر آ جاٶ “
”جی بوا آ رہی ہوں “
زاشہ نے مری مری آواز میں جواب دیا تھا۔
بوا کے جانے کے بعد زاشہ نے اپنا سر تھام لیا تھا۔
آج کا تو دن ہی منحوس ہے پہلے یونی کا فضول چکرلگا نہ کوئی خاص کلاس ہوئی اور نہ ہی نور کی بچی تشریف لائی رہی سہی کسر اس مسٹر مار پیٹ نے پوری کر دی اور اب مجھے جہنم میں پہنچانے کیلئے یہ جن تشریف لے آیا ہے ۔۔۔۔۔۔ یا اللہ مددفرمانا “
زاشہ بڑبڑاتے ہوئے منہ ہاتھ دھو چکی تھی اگلے پانچ منٹ میں وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ آغا کے سامنے بیٹھی تھی۔
” کیسی ہو زاشہ؟۔۔۔۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے نا ۔۔۔۔ کوئی کسی بھی قسم کا مسئلہ تو نہیں ہے نا “
زرداب نے پوچھا تھا۔
” جی آغا سب ٹھیک ہے “
زاشہ آہستگی سے بولی تھی چہرہ ابھی بھی پلیٹ پہ جھکا رکھا تھا۔
” تو پھر تم نے پچھلے ہفتے میں ایک بار بھی مجھ سے بات کیوں نہیں کی اور اب بھی جب سے تم یہاں آ کر بیٹھی ہو میری جانب نہیں دیکھا تم نے ۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے تمھیں میرے آنے کی خوشی نہیں ہوئی زاشہ۔۔۔ ”
زرداب گھمبیر آواز میں بولا تھا۔
تبھی زاشہ نے نظراٹھا اپنے سامنے بیٹھے بھرپور وجاہت کے مالک وجود کو دیکھا تھا۔
اس بار وہ تین ماہ بعد پاکستان آیا تھا سرخ و سپید رنگت مزید نکھر چکی تھی شہد رنگ آنکھیں اس وقت زاشہ پہ جمی تھیں ترک تیکھے نقوش کا حامل آغازرداب علی خان بلاشبہ چھا جانے والی پرسنالٹی کا مالک تھا جو کسی کو بھی اپنا دیوانہ بنا سکتا تھا لیکن زاشہ اچھی طرح جانتی تھی کہ بظاہر بہت خوبصورت نظر آنے والا یہ شخص حقیقت میں کس قدر سفاک تھا۔
” نہیں آغا ایسی تو کوئی بھی بات نہیں ہےمیں بس گینگ کے ہی کاموں میں مصروف تھی جبھی آپ سے بات نہیں ہو سکی “
زاشہ نے زرداب کو مطمئن کرنا چاہا تھا جو گہری نگاہوں سے اسکا جائزہ لےرہا تھا۔
” ہنہہ ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے تم کھانا کھا کر میرے کمرے میں آٶ کچھ ضروری بات کرنی ہے “
زرداب اسے کہتے ہوئے اٹھ کر ڈائيننگ ہال سے باہر نکل گیا تھا۔
اور زاشہ کی جان حلق میں آ اٹکی تھی آغا کے کمرے میں جانے کا سوچ کر۔۔۔۔۔۔!
” او ہو ۔۔۔۔۔۔ تو جناب آج کسی حسینہ سے چونچ لڑاکر آئے ہیں ۔۔۔۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ چونچ تڑوا کر آئے ہیں “
وہ دونوں اسوقت ایک ریسٹورنٹ میں موجود تھے اور جب سے تبریز نے آج والا سارا قصہ تیمور کو بتایا تھا وہ تب سے اسکی ٹانگ کھینچ رہا تھا۔
” شٹ اپ یار ۔۔۔۔۔ بس کر دے اب ۔۔۔۔۔۔۔ بی سیرئیس ۔۔۔۔۔ میں پہلے ہی شدید غصے میں ہوں اس پاگل لڑکی کی وجہ سے وہ کمینہ راجو میرے ہاتھ سے نکل گیا “
تبریز عاجز آ کے بولا تھا۔
” ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا اسے کہتے ہیں کھسیانی بلی کھمبا نوچے ۔۔۔۔۔ قصور تو تیرا ہے جو ایک لڑکی سے ڈر گیا اور مجرم کو بھاگنے دیا اب اس میں اس بے چاری لڑکی کا کیا قصور ہے ۔۔۔۔۔ وہ تو اپنی طرف سے ایک معصوم انسان کو ایک غنڈے سے پچا رہی تھی “
تیمور بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے بولا تھا۔
تبریز نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔
” تیرے جیسے دوست کے ہوتے ہوئے دشمن کی بھلا کیا ضرورت ہے ۔۔۔۔ میرے بجائے تجھے وہ چڑیل معصوم لگ رہی ہے جس نے تیرے اتنے ہینڈسم یار کو گلی کا غنڈہ بنا دیا “
وہ شدید قسم کے صدمے سے بولا تھا۔
” ہا ہا ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ “
تیمور کی ہنسی ایک بار پھر سے بے قابو ہوئی تھی۔
” اچھ۔۔۔اچھا نا ۔۔۔ غصہ کیوں ہو رہا ہے میں تو بس مذاق کر رہا تھا “
تبریز کے ہاتھ چھری کی طرف بڑھے دیکھ کر وہ فوراً سیدھا ہوا تھا۔
” اچھا تو اپنا موڈ ٹھیک کر ۔۔۔۔۔۔ میرے پاس ایک اچھی خبر ہے“
” کیا۔۔؟ “
تبریز نے پوچھا تھا۔
” جس کام کیلئے تو نے اس راجو کو پکڑا تھا وہ کام ہو گیا ہے “
” وہ کیسے؟ “
تبریز نے پوچھا تھا۔
” میں نے معلوم کر لیا ہے ان لوگوں کا ٹھکانہ “
تیمور کے بتانے پہ تبریز فوراً سیدھا ہوا تھا۔
”مجھے ڈیٹیل سے بتاٶ سب “
تبریز کے کہنے پہ اب وہ اسے ساری تفصیل بتا رہا تھا،اور تبریز غور سے سن رہا تھا۔
زرداب کے کمرے کے کےسامنے پہنچ کر زاشہ نے ایک طویل سانس اندر کھینچی اور دروزے پہ دستک دی تھی۔
“Yes۔۔۔۔Come in۔۔۔”
زرداب کی آواز پہ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی۔
پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا وہ سامنے راکنگ چيئر پہ آنکھیں موندے بیٹھا تھا ہاتھ میں سلگتا ہوا سیگریٹ تھا۔
زاشہ نے آگے بڑھ کر ساری لائٹس آن کردی تھیں پورا کمرہ روشنی سے نہا گیا تھا۔
یوں تو پورا سفید محل ہی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا لیکن آغا زرداب کا کمرہ اس محل کا سب سے خوبصورت اور پرتعیش کمرہ تھا دیواروں پہ وائٹ پینٹ کیا گیا تھا جس میں سلور کلر کی آمیزش اور دلکش نقش و نگار نے چار چاند لگا دیئے تھے اسی طرح فرنیچر سے لیکر قالین تک ہر شے کا رنگ سفید تھا سامنے ہی ایک سلائیڈنگ گلاس ڈور تھا جسکے پار ایک چھوٹا سا سوئمنگ پول بنا تھا اس کے ایک سائیڈ پہ مصنوعی لان بنایا گیا تھا جس میں رکھے ان ڈور پلانٹس اسکی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے تھے۔
” آغا۔۔۔ آپ نے بلایا تھا “
جب کافی دیر گزرنے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں بولا تو زاشہ نے خود اسے مخاطب کیا تھا۔
” ہممم۔۔۔۔بیٹھو “
وہ سیگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے سیدھا ہوا اور ایک ترچھی نظر زاشہ پہ ڈالی جو اب سامنے بیڈ کے ایک سرے پہ ٹک گئی تھی۔
” تمھیں یاد ہے زاشہ آج کیا تاریخ ہے “
اسکے پوچھنے پہ زاشہ کی جان ہوا ہو گئی تھی وہ آجکا اہم دن کیسے بھول گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
” جی پندرہ جنوری ہے آج۔۔۔۔۔ بڑے آغا کی برسی کا دن “
اس نے بتاتے ہوئے زرداب کیطرف دیکھا تھا جو اپنی سرخ آنکھوں سے اسی کو
کو دیکھ رہا تھا زاشہ نے نےگھبرا کر نگاہ چرائی تھی۔
” بہت خوب تو تمہیں یاد ہے “
” مم مم مجھے معاف کر دیں آغا پتہ نہیں کیسے ذہن سے نکل گیا ۔۔۔ میں ابھی سارے انتظامات کرواتی ہوں “
وہ فوراً اٹھتے ہوئے بولی اسے اب سمجھ آئی تھی کہ زرداب یوں اچانک کیسے واپس آیا،اسے اپنے بابا سے بہت محبت تھی اسی لیئے انکی برسی پہ وہ چاہے دنیا کے جس بھی کونے میں ہوتا اکی قبر پہ فاتحہ پڑھنے ضرور آتا۔
” بیٹھ جاٶ زاشہ سکندر سب سنبھال چکا ہے تم بس مجھے اپنی اس مصروفیت کے بارے میں بتاٶ جس نے تمھیں ہر چیز سے بے خبر کر دیا ہے “
وہ سرد آواز میں بولا تھا۔
اس کے انداز پہ زاشہ تھوڑی پریشان ہوئی تھی اس کو آغا کا لب و لہجہ تشویش میں مبتلا کر رہا تھا وہ آج جب سے آیا تھا تب سے ہی عجیب طرح سے بات کر رہا تھا ورنہ زاشہ کیلئے اسکے لہجے میں محسوس کی جانے والی نرمی ہوتی تھی جو آج مفقود تھی۔
” آغا ! آخر بات کیا ہے آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے “
زاشہ نے الجھ کر بولا۔
” یہ سب دیکھنے کے بعد میں ٹھیک کیسے رہ سکتا ہوں مادام زاشہ “
وہ ایک دم سے اسکے سامنے آیا اور اپنے فون کی سکرین اسکی آنکهوں کے سامنے کی جہاں ایک تصویر تھی جس میں تبریز اور زاشہ ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے یہ تصویر تب لی گئی تھی جب تبریز نے زاشہ کو گرنے سے بچایا تھا۔
تصویر دیکھ کر زاشہ کا رنگ فق ہوا
زرداب نے بغور اسکی حالت دیکھی۔
” تم دھوکہ دے رہی ہو مجھے ۔۔۔ ہاں
میں تمھاری معصوم صورت پہ بھروسہ کرتا آیا ہوں اور تم مجھے یہ صلہ دے رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے تمھاری نئی مصروفیت جس نے تمھیں سب بھلا رکھا ہے ۔۔۔۔ اس ایس پی کی وجہ سے تم ہر اہم بات بھول جاتی ہو “
وہ زاشہ کے بازو کو دبوچ کر غرایا تھا۔
” نن نہیں آغا ۔۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں “
وہ روتے ہوئے بولی،زرداب کا فولادی ہاتھ اسکے بازو میں گڑا تھا۔
” خاموش۔۔۔۔ میں کچھ نہیں سنوں گا آج سکندرنے خود دیکھا ہے تمہیں ۔۔۔۔ تم نجانے کب سے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو “
وہ اسکے منہ کو سختی سے پکڑ کر بولا۔
” میرا یقین کریں میں اسکو نہیں جانتی آغا “
اس نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تھی۔
زرداب نے ایک دم سے اسکو پیچھے کی جانب دھکا دیا جس سے وہ سنبھل نہیں سکی اور کمر کے بل فرش پہ گری بیڈ کی پائنتی کا کونا اسے سر میں لگا تھا ۔۔۔۔ سر میں درد کی ٹیس اٹھی تھی۔
اس نے بمشکل سر اٹھا کر زرداب کو دیکھا جو اب کمرے کی ہر چیز کو تحس نحس کرتے ہوئے چلا رہا تھا۔
پھر وہ اچانک پلٹ کر زاشہ کے پاس آیا اور پنجوں کے بل زمین پہ اسکے پاس بیٹھا۔
” یہ ہاتھ پکڑا تھا نا اس نے تمھارا ۔۔۔۔ “
وہ اسکا دایاں ہاتھ پکڑ کہ بولا۔
زاشہ اسکا انداز دیکھ کر سہم چکی تھی وہ اسوقت بالکل بھی حواسوں میں نہیں تھا۔
اور اگلے ہی لمحے زاشہ کے حلق سے نکلنے والی چیخوں سے در و دیوار دہل گئے تھے۔
سفید محل کا سفاک شہزادہ زاشہ کا ہاتھ کلائی کے پاس سے توڑ چکا تھا۔
زرداب کی نگاہ جیسے ہی اسکے چہرے کیطرف گئی فوراً ہی اسکا ہاتھ چھوڑ کر اسکے چہرے پہ جھکا تھا زاشہ نے خوف سے آنکھیں بند کیں۔
”زاشی میری جان ! تم تو جانتی ہو نا میں تم سے کتنی محبت کرتاہوں ۔۔۔۔۔ میں ہمیشہ تمھیں غیر مرد تو کیا غیر عورت کے سائے سے بھی بچاتا آیا ہوں مگر آج اس ایس پی نے پانچ منٹ سے زیادہ تم سے بات کی اور تمھیں چھوا بھی۔۔۔۔۔“
زرداب نرمی سے کہتے ہوئے اچانک زور سے چلایا اور اسکا زخمی ہاتھ دبا ڈالا۔ زاشہ نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کا گلا گھوٹا تھا۔
” اُس ایس پی کو بھی اس سب کا حساب دینا ہو گا “
زرداب ایک سلگتی نگاہ اسکے سسکتے وجود پہ ڈال کر کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔