*__یعنی تم بهی بہار جیسے ہو!!
چهوڑ دو گے ہرا بھرا کر کے___*
اسے ہوسپٹل سے آئے دو ہفتے سے اوپر ہو چکے تھے اب وہ بلکل ٹھیک تھی جسمانی زخم بھر چکے تھے کل ہی نفیس صاحب اسے گھر لے آئے تھے۔
ابھی ابھی نفیس صاحب اس کے پاس سے اٹھ کر گئے تھے انہوں نے اسکا نکاح طے کر دیا تھا اپنے دوست کے بیٹے کے ساتھ آج شام کو سادگی سے نکاح تھا ولیمہ البتہ ایک ہفتے بعد دھوم دھام سے ہونا طے پایا تھا۔
نور باپ کے چہرے پہ پھیلی خوشی اور انکے لہجے کے مان کے سامنے ہار گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور آخر وہ انکار کرتی بھی کس کے بھروسے وہ ستمگر تو اس حادثے کے بعد جیسے گم ہی ہو گیا تھا ایک بار بھی اس سے ملنے نہیں آیا اس کی راہ تکتے تکتے نور کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں مگر وہ نہیں آیا اور نہ کسی نے اس کا ذکر کیا۔
وہ قسمت کے فیصلے پہ حیران تھی اور تیمور کے رویے پہ پریشان اگر چہ دونوں میں کوئی وعدہ کوئی عہد نہیں تھا مگر سچے جذبوں کو کب اظہار کی ضرورت ہوتی ہے ان کی مہک تو چار سو پھیل کر اپنے ہونے کا پتہ دیتی ہے۔
"""""""""''""""""""""""
ریڈ شرارہ جس پہ گولڈن تلے اور نگینون کا کام تھا زیب تن کیے دلہن کے روپ میں اس کا سوگوار حسن نگاہوں کو خیرہ کر رہا تھا۔
" تمھارے دلہے کی تو آج خیر نہیں قیامت لگ رہی ہو قسم سے ۔ ۔ ۔ "
زاشہ اسکو پھولوں کے گجرے پہناتی ہوئی بولی۔
نور نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا جو اس کی واقف حال تھی مگر لاپرواہ نظر آتی تھی۔
" میری جان مت تھکاؤ خود کو قسمت کے فیصلے کو دل سے قبول کرو ۔ ۔ ۔ ۔ یقین کرو بہت خوشیاں پاؤ گی "
زاشہ کا انداز تسلی دینے والا تھا۔
"""""""""""""""""""""
تابی یار جلدی کر کتنا ٹائم لگائے گا آخر تو تیار ہونے میں ۔ ۔ میں دلہا ہوں مگر پھر بھی سب سے پہلے تیار ہو گیا اب میری برات تیری وجہ سے لیٹ ہو رہی ہے "
گولڈن شیروانی میں نک سک سا تیار شہزادوں سی آن بان لئے تیمور منہ بسورتے ہوئے دہائیاں دے رہا تھا۔
" بیٹا جی اچھل لے ابھی جتنا اچھلنا ہے تیری ساری طراری تو نور رات میں نکالے گی جب لات مار کے تجھے کمرے سے باہر پھینکے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
تبریز نے ٹائی کی ناٹ لگاتے ہوئے اسے جلانے کی کوشش کی۔
" جی نہیں میری نور بہت اچھی ہے سمجھ جائے گی کہ میں اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا "
تیمور آنکھوں میں محبت کے رنگ لئے جذب سے بولا۔
وہ جان بوجھ کر نور کے سامنے نہیں آیا تھا وہ حلال رشتے میں بندھ کر اسے اپنی محبت کا احساس دلانا چاہتا تھا۔
نفیس صاحب کو فوزیہ بیگم نے منا لیا تھا رشتے کے لئے ہاں مگر سرپرائز والی بات وہ مشکل سے ہی مانے تھے۔
" اب ادھر خواب میں ہی نکاح کروانے کا ارادہ ہے کیا "
تبریز اسے ہلاتے ہوئے بولا جو صوفے پہ آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔
" شکر ہے تو تیار ہو گیا چل اب جلدی میری دلہن کب سے انتظار کر رہی ہو گی "
تیمور چھلانگ لگا کر دروازے کی طرف لپکا ۔ ۔ ۔
پیچھے تبریز اسکی حرکتوں پہ مسکراتا ہوا باہر نکلا۔
زرداب آنکھوں میں غضب لئے سامنے ٹیبل پہ رکھی تصویروں کو دیکھ رہا تھا یہ زاشہ اور تبریز کے ولیمے کی ۔ پکچرز تھیں ۔ ۔ ۔
دونوں کا ہنستا مسکراتا چہرہ اسے آگ لگانے کو کافی تھا پندرہ دن بعد اسے زاشہ کی خبر ملی تھی وہ بھی اس نے بوا سے حقیقت اگلوائی تھی پہلے تو وہ کچھ بتانے کو تیار ہی نہیں تھیں مگر جب اپنے دس سال کے پوتے کی کنپٹی پہ بندوق رکھی دیکھی تو سب سچ بتا دیا۔
سچائی جاننے کے بعد زرداب نے انھیں ختم کر دیا۔
اب مسؐلہ یہ تھا کہ زاشہ ایس پی کی بیوی تھی اور اس کے پاس ثبوت بھی تھے زرداب کے خلاف ۔ ۔ ۔ ۔
وہ جلدبازی میں کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
بہت سوچ سمجھ کر اس نے کچھ ویڈیوز ایک نمبر پہ سینڈ کر دیں۔
اب وہ دھیرے سے فیصل کو کچھ سمجھا رہا تھا۔
فیصل نے اسکی بات سن کر گردن کو خم دیا اور باہر نکل آیا۔
" مادام ۔ ۔ ۔ بہت ہلکے میں لے گئیں آپ آغازرداب علی خان کو ۔ ۔ ۔ ۔ اب آپ کو اپنا اصل روپ دکھانا ہی پڑے گا "
سیگریٹ کا دھواں فضا میں بکھیرتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔
خوبرو چہرہ ہر قسم کے احساس سے عاری تھا۔
۔۔۔کچھ تو ھے تیری آنکھوں میں ورنہ
یوں ہی دیکھنے والے نہیں مرتے ۔۔۔ ۔ ۔
گاڑی میں اس وقت مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی نور نے رخ موڑ رکھا تھا ۔ ۔ ۔
تیمور ڈرائیونگ کرتے کرتے ایک آدھ نظر اپنی روٹھی بیوی پہ بھی ڈال لیتا تھا۔
نکاح کے وقت نور کو معلوم ہوا تھا کہ اسکا ہمسفر تیمور ہی بننے والا ہے کتنے ہی لمحے تو وہ بے یقین رہی تھی پھر زاشہ نے اسے سمجھایا کہ سب لوگ اسے سرپرائز دینا چاھتے تھے مگر وہ ابھی بھی بدگمان تھی۔
رخصتی کے بعد تیمور اکیلا اسے نجانے کہاں لے کر جا رہا تھا۔
" گونگے کا گڑ کھا کے بیٹھا ہے ۔ ۔ ۔ میسنا ۔ ۔ گھنا "
نور اسکی مسلسل خاموشی پہ چڑ کر سوچ رہی تھی ۔
" لگتا ہے مزاج خاصا برہم ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تیمور بیٹا اپنی خیر منا لے "
خاموش بیٹھی نور کو دیکھ کر تیمور نے سوچا۔
ہنہہ ویسے تو بڑا بولتا رہتا ہے آج چپ کا روزہ رکھ لیا ہے شاید ۔ ۔ ۔ ۔
ضرور اس کے ساتھ زبردستی کی ہو گی سب نے ۔ ۔ ۔ ۔
اس شادی سے خوش نہیں لگ رہا ۔ ۔ "
الٹی سیدھی سوچوں نے اس کے دماغ کو گھیرا۔
تبھی گاڑی جھٹکے سے رکی نور کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔
" پہلی رات ہی جان سے مار دینے کا ارادہ ہے کیا "
نور پلٹ کر غصے سے بولی۔
" شکران ۔ ۔ ۔ اپنی ہی ہے ورنہ میں کب سے سوچ رہا تھا کہ شاید میں کسی اور کی بیوی ساتھ لے آیاہوں جو اتنی دیر سے چپ بیٹھی ہے"۔
تیمور شرارت سے مسکراتے ہوئے بولا۔
اس کی بات پہ نور کلس کر رہ گئی مگر کہا کچھ نہیں۔
تیمور نے دروازہ کھول کر اسے باہر آنے کا اشارہ کیا۔
اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ گاڑی سے نکلی۔
یہ جنگل کا علاقہ تھا تیرھویں کے چاند نے ہر چیز روشن کر رکھی تھی۔
وہ حیرت سے یہاں وہاں دیکھ ربی تھی۔
تبھی تیمور نے اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔
" یہ مجھے جنگل میں کیوں لایا ہے ۔ ۔ ۔
ضرور مجھے مار کر یہیں پھینک جائے گا آخر کو اس کی زبردستی کی بیوی جو ہوں "
نور اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑا رہی تھی۔
جبھی وہ ایک جگہ پہنچ کر رک گئے سامنے ہی ایک ہٹ تھا۔
نور نے حیرت سے اس ہٹ کو دیکھا۔
" جنگل میں ہٹ کیسے ۔ ۔ ۔ "
" جیسے دیکھ رہی ہو بلکل ویسے "
تیمور نے جواب دیا۔
" اب اندر چلیں "
تیمور کے کہنے پہ وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔
" نہیں نہیں میں اندر نہیں جاؤں گی تم مجھے جان سے مار کر یہیں پھینک جاؤ گے "
اس کی بات سن کر تیمور کو جھٹکا لگا۔
" تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا یہ کیا بولے جا رہی ہو "
وہ اسے جھنجھوڑتے بوئے پوچھ رہا تھا۔
" میرا دماغ بلکل ٹھیک ہے تم نے سب کے کہنے پہ زبردستی شادی کی ہے مجھ سے ورنہ تمھیں مجھ جیسی لڑکی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے "
وہ روتے ہوئے بولی۔
" یا خدا کتنا غلط سوچ لیا تم نے ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں ادھر دیکھو میری طرف "
وہ اس کے چہرے کو ہاتھ سے اوپر کرتے ہوئے بولا جو مسلسل سوں سوں کیے جا رہی تھی۔
" نور چپ ہو جاؤ میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے تم سے ۔ ۔ ۔ محبت کرتا ہوں یار تم سے ۔ ۔ ۔
اور یہ میرے جیسی لڑکی سے کیا مراد ہے تمہاری ہاں ۔ ۔ ۔ ۔
تم مسز تیمور علی ہو خبردار جو تم نے آج کے بعد ایسا کچھ سوچا تو ۔ ۔
مجھے تو لگا تھا کہ تم میری آنکھوں کے رنگ پہچانتی ہو مگر شاید میں غلط تھا ۔ ۔ ۔ ۔
اگر تمھیں احساس ہوتا میرے پیار کا تو ایسے نہ سوچتیں ۔ ۔ "۔
تیمور آزردگی سے بولا۔
" اگر اتنی ہی محبت تھی تو مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئے ایک بار بھی ۔ ۔ ۔
پتہ ہے کتنا انتظار کیا میں نے تمہارا ۔ ۔ ۔ "
وہ اس کے سینے پہ تھپڑ مارتی ہوئی شکوہ کر رہی تھی۔
" میری جان میں تمہارے مجرم کو سزا دلوانے کے بعد ایک مظبوط رشتے میں بندھ کر تمہارے سامنے آنا چاہتا تھا۔"
وہ اسکو سینے سے لگا کر بولا۔
" نبیل کو اٹیمپ ٹو ریپ اور مرڈر کی وجہ سے بارہ سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ ہوا ہے ۔ ۔ ۔ جو اسکی دھلائی ہوئی وہ الگ کیس ہے "
وہ اس کو ہر ڈر سے آزاد کرنے کو بتا رہا تھا۔
نور نے کرب سے آنکھیں موند لیں اسے پھر سے وہ وقت یاد آیا جب نبیل اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گیا تھا اگر تیمور اور تبریز وہاں نہ پہنچتے تو آج وہ سر اٹھانے لائق نہ ہوتی۔
" مسز اندر چلیں یا ساری رات باہر ہی گزارنی ہے "
تیمور اسے اپنے سامنے کرتے ہوئے بولا۔
" ارے ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو وہ بھی شادی کی پہلی رات ۔ ۔ ۔ جنگل میں ۔ ۔ ۔ ۔ ہاؤ ان رومینٹک ۔ ۔ ۔ "
اب نور نارمل ہو چکی تھی اسی لئے کب سے ذہن میں کلبلاتا سوال زبان پہ آیا۔
" لایا تو تمھیں سرپرائز دینے تھا مگر کب سے خود ہی سرپرائزڈ ہو رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
اور میڈم یہ آئیڈیا ان رومینٹک نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ رومینٹک ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ذرا سوچو ۔ ۔ ۔ یہ جنگل ۔ ۔ ۔ یہ تنہائی ۔ ۔ ۔ ۔ میں اور تم ۔ ۔ "
تیمور بے بسی سے بولتے ہوئے اینڈ پہ ذرا شریر ہوا ۔
اس کا انداز دیکھ کر نور کو زور سے ہنسی آئی۔
تیمور یک ٹک اسے دیکھے گیا۔
کتنے دنوں بعد دیکھی تھی یہ ہنسی اس نے۔
" چلو اندر اب کیا مراقبے میں چلے گئے ہو "
نور بولتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر چلی گئی
تیمور بھی اپنی بیوی کے پیچھے لپکا۔ ۔ ۔ ۔
ارے بھئی اگلے کی گولڈن نائٹ ہے اس نے باہر رہ کر کیا کرنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
خیر اب آپ کا اور ہمارا بھی کیا کام یہاں سو آئیے ہم بھی چلتے ہیں صبح ملیں گے اپنی نور اور شہزادے تیمور سے
میں وہ محرومِ عنایت هوں کہ جس نے
ملنا چاها تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی ۔۔!!
تبریز کی حالت اس وقت ایسے تھی جیسے کسی نے اس کی زندگی چھین لی ہو ۔ ۔ ۔ ۔
اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے پہ وہ ششدر بیٹھا تھا۔
تیمور کی شادی میں اسے ایک میسج رسیو ہوا تھا
آغا زرداب علی خان نے اسے سفید محل بلایا تھا۔
یہ تو وہ جانتا تھا کہ زرداب پاکستان آ چکا ہے مگر فلحال اس کے خلاف کوئی ثبوت پولیس کے پاس نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ایسے میں تبریز کو یہ میسج زرداب کی دنیا میں گھسنے کا ایک موقع لگا تھا جسے وہ گنوانا نہیں چاہتا تھا۔
زرداب نے جان بوجھ کر تبریز کو بلایا تھا وہ جاننا چاہتا تھا کہ تبریز کس حد تک زاشہ کی سچائی سے واقف ہے اور جب وہ جان بوجھ کر تبریز کو محل کے اس حصے میں لے کر گیا جہاں زرداب اور زاشہ کی پکچرز لگی تھیں ۔ ۔ ۔ تب تبریز کی آنکھوں میں در آنے والی حیرت اس سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔
زرداب کا اسے بلانے کا مقصد پورا ہو گیا تھا اب وہ مطمین تھا کہ فلحال زاشہ نے ایس پی کو کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی وہ اس کی حقیت سے واقف تھا۔
دوسری طرف تبریز کی تو دنیا ہی ہل گئی تھی وہ زرداب سے بنا کوئی بات کیے وہاں سے نکل آیا۔
اس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔
سب سے پہلے وہ زاشہ کے بتائے ہوئے ہاسٹل گیا تھا۔
پہلے تو وارڈن نے رات کے اس پہر ملنے اور کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا تھا مگر اس کا کارڈ دیکھ کر فر فر سب بتا دیا۔
وہ شل ذہن کے ساتھ اس وقت گاڑی میں بیٹھا تھا
آخر اتنا بڑا دھوکا کیسے کھا گیا وہ ۔ ۔ ۔ سچ کہتے ہیں محبت انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔
وہ ابھی بھی یقین کرنے میں متامل تھا کہ محبت میں اندھا ہو کر وہ اتنا بڑا دھوکا کھا چکا ہے۔
جب بے یقینی کی فضا چھٹی تو اسکی جگہ شدید غصے نے لے لی۔
" مادام زاشہ تمھیں حساب دینا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ میری محبت کو یوں مجروح کرنے کی اجازت کس نے دی تھی تمھیں ۔ ۔ ۔ میرے ہر سوال کا جواب دینا ہو گا تمھیں۔"
وہ نفرت سے سوچتے ہوئے گاڑی گھر کے راستے پہ ڈال چکا تھا۔
"""""""""""""""""""
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے لیپ ٹاپ کی سکرین کو دیکھ رہی تھی آنسو آنکھوں سے نکل کر تھوڑی سے بہتے ہوئے گریبان میں جذب ہو رہے تھے۔
جب اس نے گھر واپس آ کر فریش ہونے کے بعد اپنا موبائل چیک کیا تو اس کے سامنے دنیا گھوم گئی تھی اسے کسی انجان نمبر سے ایک ویڈیو رسیو ہوئی تھی جب اس نے وہ ویڈیو دیکھی تو کانپ کے رہ گئی زرداب نے بوا اور ان کے پوتے کو مار ڈالا تھا اور ویڈیو زاشہ کو سینڈ کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
آغا زرداب نے اسے اپنی واپسی سے آگاہ کر دیا تھا اور ساتھ ہی اسے وارننگ بھی دے دی تھی ۔
زاشہ کو جھٹ سے اس فلیش کا خیال آیا جسے وہ ان دنوں مصروفیت کی وجہ سے بھولی بیٹھی تھی۔
جب اس نے وہ فلیش اوپن کی تو اسکے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
وہاں کئی ایسی ویڈیوز تھیں جن میں زرداب آغا زمان پہ تشدد کر رہا تھا ساتھ ہی زرداب نے ہر بات سے آگاہ کیا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے اس نے یہ ویڈیوز زاشہ کے لئے ہی بنائیں تھیں تاکہ اسے ہر سچ بتا سکے مگر زاشہ کو یہ سب وقت سے پہلے ہی مل گیا تھا اسی لئے زرداب پریشان تھا۔
زاشہ کو یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ اس کا باپ زندہ ہے مگر یہ بات اسے پریشان کر رہی تھی کہ آغا زمان زرداب کی قید میں ہیں جہاں وہ ان کے ساتھ جانور جیسا سلوک کر رہا تھا۔
وہ لیپ ٹاپ بند کر کے سر ہاتھوں میں گرا گئی۔
جبھی تبریز دروازہ دھکیلتا ہوا اندر داخل ہوا۔
سامنے بیٹھی زاشہ کو دیکھ کر اسے شدید غصہ آیا وہ اسے مخاطب کیے بنا اپنے کپڑے لے کر واش روم میں گھس گیا۔
جب وہ فریش ہو کر باہر آیا تب بھی وہ ایسے ہی بیٹھی تھی۔
" اپنے عاشق سے دوری کا غم منا رہی ہو کیا مادام زاشہ "۔
وہ بالوں میں برش کرتے ہوئے بولا۔
زاشہ نے چونک کر سر اٹھایا۔
" کیا ہوا سکتہ کیوں ہو گیا آپ کو مادام "
وہ خود پہ پرفیوم سپرے کرتے ہوئے بولا۔
زاشہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
وہ جان گیا تھا اس کے بتانے سے پہلے وہ کسی اور سے جان گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر وہ ابھی بھی اسے کچھ نہیں بتا سکتی تھی پہلے اسے اپنے باپ کو بچانا تھا۔
وہ جانتی تھی کہ یہ وقت آئے گا مگر اتنی جلدی آئے یہ اسے امید نہیں تھی۔
" تبریز ۔ ۔ ۔میری بات سنیں آپ پلیز ۔ ۔ ۔ ۔ "
" شٹ اپ ۔ ۔ جسٹ شٹ اپ ۔ ۔ ۔اب اگر ایک لفظ بھی اور جھوٹ نکلا نا تمہاری زبان سے تو میں اسے کاٹ کر پھینک دوں گا "۔
وہ اس کا منہ دبوچ کر غرایا۔
" بتاؤ کس مقصد سے بھیجا ہے تمھیں یہاں آغا زرداب علی خان نے بولو ۔ ۔ ۔ آخر تم دونوں کے مابین رشتے کی نوعیت کیا ہے ''
وہ پھنکار رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ کے دونوں بازو اسکی مضبوط گرفت میں تھے۔
ذلت اور تکلیف کے احساس سے زاشہ مر جانے کو تھی ۔
" نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا کچھ نہیں ہے مجھے کسی نے نہیں بھیجا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں خود وہاں سے بھاگی ہوں میرا یقین کریں آپ "
ہر گز بھی نہیں ۔ ۔میں مان ہی نہیں سکتا کہ تم اتنی معصوم ہو سکتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے ساتھ محبت کا ڈرامہ کیوں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری سچی محبت کا تماشا بنا دیا "
لال آنکھوں سے اسے گھورتے ہوے وہ وحشت سے بول رہا تھا ۔
" میں سچ میں آپ سے پیار کرتی ہوں ۔ ۔ ۔ "
زا شہ نے روتے ہوئے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا۔
" اب میں تمہاری کسی بات پہ اعتبار نہیں کرنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت جلد تمہاری زبان فر فر چلے گی ۔ ۔ ۔
ارے پنجاب پولیس کے سامنے تو بڑے بڑے بولتے ہیں تو تم کیا چیز ہو ۔ ۔ ۔ "
وہ اس پہ جھکتے ہوئے بولا۔
زاشہ نے اس کے نیچے سے نکلنا چاہا مگر تبریز نے اس کی نائٹی گریبان سے پکڑ کر اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
" تم بیوی ہو میری اور خالہ زاد بھی تو میں تمھیں ذرا الگ قسم کی سزا دوں گا ۔ ۔ ۔ تھرڈ ڈگری تو بہت چھوٹی سزا ہے تمھارے لئے ۔ ۔ ۔ "
کہنے کے ساتھ ہی وہ اس کی نائٹی سامنے سے پھاڑ چکا تھا۔
" پلیز تبریز پلیز ۔ ۔ ۔ ڈونٹ ڈو دس ۔ ۔ ۔ "
اس نے روتے ہوئے فریاد کی۔
تبریز نے اسکے ہلتے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے قید کر لیا زاشہ کے منہ میں خون کا ذائقہ گھلنے لگا۔
اس نے ہاتھوں سے تبریز کو دور دھکیلنے کی کوشش کی
جب اس کا سانس بند ہونے کو تھا تب تبریز نے اس کے لب آزاد کیے۔
ابھی اسکا سانس بھی درست نہیں ہوا تھا کہ وہ اس کے دونوں ہاتھ جکڑ کر اس کی گردن پہ جھک گیا۔
اس کے لمس میں محبت اور احترام کے علاوہ سب کچھ تھا۔
زاشہ زلت اور نفرت کے احساس سے مرنے کو تھی۔
جس شخص کی آنکھوں اور لمس میں اس نے ہمیشہ اپنے لئے محبت اور نرمی پائی تھی اسکی یہ درندگی اسے جلا رہی تھی۔
اپنی گردن اور سینے پہ اس کے دانتوں کی تکلیف کو برداشت کرتے اسکی آنکھوں سے آنسو تیزی سے نکل کر بالوں میں جذب ہونے لگے۔
نجانے کتنا وقت بیت گیا تھا تبریز اپنی ساری نفرت اس پہ انڈیل کر اب نیند کی وادیوں میں اتر چکا تھا مگر اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔
زاشہ بمشکل اپنے دکھتے وجود کو چادر میں سمیٹ کر واش روم تک پہنچی تھی۔
شاور کے نیچے کھڑی ہو کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی سارے بدن پہ تبریز کی درندگی کے نشان تھے۔
زمانہ جب ڈھونڈے تُجھے تو خواہش ہے میری
گمشدہ تو میری آنکھوں میں ملے جاناں۔۔۔۔
نور کی آنکھ کسی نرم احساس سے کھلی تیمور گلاب کی کلی اس کے چہرے پہ لگا رہا تھا۔
" صبح بخیر زندگی "
اس نے نور کو وش کیا۔
" گڈ مارننگ "
نور اس کے قریب ہوتے ہوئے بولی۔
" کب اٹھے آپ ۔ ۔ "
نور کے آپ کہنے پہ وہ ہنسا تھا۔
" یار تم مجھے ' تم ' ہی بولا کرو آپ کے تکلف میں مت پڑو میری کوہ نور کے منہ سے تم ہی اچھا لگتا ہے۔"
وہ اس کی ناک کھینچتا ہوا بولا۔
" مطلب تمھیں عزت راس نہیں ہے ۔ ۔ ۔ "
نور شرارت سے بولی۔
" ہا ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ ۔ میری پیاری سی بیوی بات عزت کی نہیں اپنائیت کی ہے "۔
نور اس کی بات پہ مسکرائی۔
" Taimoor Thank you so much"
" Thanks for what?"
نور کے کہنے پہ اس نے حیرت سے پوچھا۔
" Thanks for every thing ۔ ۔ ۔
I' m the luckiest woman in the world to have you as my life partner۔۔"
نور اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں بولی۔
" ویسے بیوی اتنا قریب آ کر اب تم مجھے بہکنے پہ مجبور کر رہی ہو"
تیمور اس کو نارمل کرنے کے لئے اس پہ جھکتے ہوئے بولا۔
" بس بس زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
پہلے ہی پوری رات عمران ہاشمی بنے رہے ہو۔"
نور اسے پرے دھکیلتے ہوئے بولی ۔
تیمور اس کی بات سن کر کھلکھلا کر ہنسا۔
" یار عمران ہاشمی بننے پر مجبور بھی تو تم ہی کرتی ہو نا ۔ ۔ ۔
تمہاری ادائیں پاگل کرتی ہیں مجھے ۔ ۔ "
وہ اس کے بالوں کو سمیل کرتے ہوئے بولا۔
نور ایک دم پیچھے ہٹی۔
" اچھا تیمور ۔ ۔ ۔ ۔ سنو "
وہ انگلیاں مروڑتی ہوئی کنفیوز سی بولی۔
" جی سنائیے ۔ ۔ "
" I'm Serious"
تیمور کے بولنے پہ وہ روہانسی ہوئی۔
" Okay Okay ۔۔۔۔ "
تیمور نے بولتے ہوئے ہاتھ اٹھا دئیے۔
" وہ میں تمھیں کچھ بتانا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
ایکچولی زرش ۔ ۔ ۔ ۔ اصل میں زاشہ ہے ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ۔ ۔ "
" میں جانتا تھا نور ۔ ۔ ۔ سب جانتا ہوں "
تیمور کے بیچ میں بولنے پہ وہ ایک دم حیران ہوئی۔
" کب سے ۔ ۔ ۔ ! "
" پیچھلے ایک مہینے سے ۔ ۔ ۔ "
" وہاٹ ۔ ۔ ۔ !!!! "
نور حیرت سے چلائی۔
" ایک سال سے اوپر ہونے کو ہے میں ہی اس کیس کو ہینڈل کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔
جب مجھے پتہ چلا ۔ ۔ کہ زرش بھابھی ہی زاشہ ہیں تو مجھے حیرت کے ساتھ دکھ بھی ہوا لیکن جب میں نے تحقیق کی تو مجھے پتہ چلا کہ زاشہ زرداب کی قیدی ہے صرف ایک قیدی ۔ ۔ "
" زاشہ اتنی پریشان ہے کچھ دن سے اس نے کچھ کہا تو نہیں بٹ مجھے فیل ہوا ہے۔
ایسا کرتے ہیں ہم پہلے اس کے پاس چلتے ہیں پھر بابا کے پاس چلیں گے۔"
نور کے کہنے پہ تیمور نے سر ہلایا۔
صبح جب تبریز کی آنکھ کھلی تو کتنی ہی دیر وہ کچھ سمجھ نہیں سکا تھوڑی دیر بعد جب حواس بحال ہوئے تو اس کو گزری رات کا ہر واقعہ یاد آیا۔
اس کی نظر سامنے صوفے پہ بیٹھے بیٹھے سوئی ہوئی زاشہ پہ پڑی ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں ایک افسوس سا ابھرا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ رات بہت زیادتی کر گیا تھا وہ اس کے ساتھ ۔ ۔ ۔
اب پتہ نہیں یہ احساس جرم تھا یا کیا وہ فریش ہو کر خاموشی سے روم سے باہر نکل گیا۔
اس کے جانے کے کچھ دیر بعد فون کی آواز سے زاشہ کی نیند ٹوٹی۔
جب اس نے دیکھا تو زرداب کی کال تھی۔
دھڑکتے دل سے اس نے کال رسیو کی اب نجانے کیا کہنے والا تھا وہ ۔ ۔
" ہیلو ۔ ۔ ۔ ''
" زہے نصیب ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری صبح خوش گوار ہو گئی اپنی مادام کی آواز سن کر ۔ ۔ ۔ "
جواب میں وہ خاموش رہی تو وہ بولا۔
ٹھیک ایک گھنٹے بعد یہاں موجود ہو تم اگر تم نہ آئی تو تمھارے باپ کی لاش تمھیں مل جائے گی ٹکڑوں کی صورت ۔ ۔ ۔ "۔
اپنی بات سنا کر وہ فون بند کر چکا تھا۔
زاشہ کے ٹینشن سے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
اس نے تبریز کو کال کرنے کا سوچا مگر اس کا رات کا رویہ یاد آتے ہی اس کی ہمت ٹوٹ گئی۔
اس نے جلدی سے کاغذ پہ چند لائنیں گھسیٹیں اور ٹیبل پر فائل اور فلیش کے ساتھ رکھ دیا۔
اب اس کا ارادہ سفید محل جانے کا تھا۔
""""""""""""""""""""""""""""
" السلام علیکم آنٹی ۔ ۔ ۔ کیسی ہیں آپ "
نور اور تیمور فوزیہ بیگم سے مل رہے تھے۔
" وعلیکم السلام ۔ ۔ ۔ میں ٹھیک ہوں تم دونوں کیسے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ اللّه تمھیں ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے "
ان کی دعا پہ نور مسکرائی۔
" آنٹی زرش اور تبریز بھائی نظر نہیں آ رہے "
" تبریز تو آفس چلا گیا زرش ابھی اوپر کمرے میں ہے "
فوزیہ بیگم نور کو جواب دیتے بوئے بولیں۔
" اچھا آنٹی ہم زرش سے روم میں ہی مل لیتے ہیں پھر بابا کی طرف جانا ہے۔"
نور اور تیمور فوزیہ بیگم کو بتا کر زاشہ کے کمرے کی طرف آئے۔
پورا کمرہ خالی تھا تبھی تیمور کی نظر ٹیبل پہ رکھے کاغذ پہ گئی۔
زاشہ نے نوٹ میں لکھ کر بتایا تھا کہ وہ اپنے بابا کو بچانے جا رہی ہے باقی جو ثبوت تبریز کو چاہیے وہ بھی یہیں چھوڑ کر جا رہی ہے۔
" تیمور اب کیا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کیا کیا زاشہ نے اکیلی چلی گئی وہاں "
نور نوٹ پڑھ کر پریشانی سے بولی۔
" ڈونٹ وری میں یہ فائل اور فلیش لے کر تابی کے پاس جاتا ہوں ہم ہینڈل کر لیں گے تم ادھر آنٹی کےپاس ہی رکو۔"
تیمور اسے تسلی دیتے ہوئے روم سے نکل گیا۔