پورے کمرے میں اس وقت خاموشی چھائی ہوئی تھی اتنی ہی خاموشی باہر بھی تھی،کبھی کبھار کسی کُتے کے بھونکنے کی آواز اس سرد سناٹے کو چیرتی تھی-یہ اوائل جنوری کی ایک سرد رات تھی-
یہ منظر ایک پوش علاقے میں موجود "سفید محل" کا تھا-محل کے پورچ میں کھڑی۸ شاندار گاڑیاں اس بات کی نشاندہی کرنے کو کافی تھیں کہ آج محل میں باہر سے کوئی مہمان تشریف لائے ہوئے ہیں-
سفید محل کے اس کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا حالانکہ اس وقت کمرے میں آٹھ لوگ موجود تھے لیکن ان کےسانس لینے کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی- کمرے کی فضا میں واضح تناؤ تھا،سب لوگ دم سادھے سربراہی کرسی پر بیٹھے وجود کو دیکھ رہے تھے-وہ وجود مکمل سیاہ لبادے میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔چہرہ بھی سیاہ نقاب میں چھپا تھا صرف آنکھیں ظاہر تھیں، میز پہ رکھے ہاتھ بھی سیاہ دستانوں میں چھپے تھے-
"شاکر!جو خبر سکندر نے ہمیں دی ہے کیا وہ سچ ہے؟"
سناٹے کو چیرتی ہوئی پاٹ دار نسوانی آواز کمرے میں گونجی-
شاکر کا چہرہ بالکل سفید پڑ گیا۔
"ج۔۔۔۔ج۔۔۔۔ج۔۔جی مادا۔۔مادام زاشہ"
سوکھے حلق سے بمشکل آواز نکلی تھی-
"ہنہہ۔۔۔۔مطلب تم اپنے جرم کا اقرار کر رہے ہو۔۔۔۔۔تم نے دو معصوم لڑکیوں کا دامن داغدار کیا ہے،بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔ تم نے اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد انکو موت کے گھاٹ اتار دیا"
کڑک دار آواز نے سب کا دل جکڑا-
اگلے ہی لمحے شاکر اپنی کرسی سمیت پیچھے گرا تھا،آنکھیں پوری کھلی تھیں ،چہرے پہ تکلیف کا تاثر تھا،عین دل کے مقام پہ لگنے والی گولی نے اسے منٹوں میں ٹھنڈا کر دیا-
کمرے میں موجود باقی نفوس نے دم سادھ لیا۔
زاشہ نے ایک کٹیلی نگاہ سب پر ڈالی ۔۔۔۔۔۔
"امید ہے کہ سب کو نصیحت مل گئی ہو گی۔۔۔۔آئندہ اگر کسی نے ایسی جرات کی تو انجام درد ناک ہو گا۔۔۔ ۔۔۔۔۔سکندر اسکی ناپاک لاش ٹھکانے لگاؤ"
پھر وہ میز کے گرد بیٹھے دیگر نفوس کی جانب متوجہ ہوئی،آنکھوں سے اس وقت شرارے پھوٹ رہے تھے
"آپ سب لوگ اپنے اپنے علاقے کی رپورٹ کل مجھے پہنچائیں گے"
تحکمانہ انداز میں وہ کہہ کراٹھی اور پروقار قدموں سے چلتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی-
یہ سٹی تھانے کا منظر تھا جہاں اس وقت ہڑبونگ مچی ہوٸ تھی ایس ایچ او سے لیکرخاکروب تک سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں بری طرح سے مصروف تھے ۔۔ جیسے سالوں کا کام آج ہی ختم کر کہ دم لیں گے۔۔۔ اور اس سب کی وجہ تھی ایک نام " تبریز لاشاری" اس تھانے کا نیا ایس پی ،،،،جو بس کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچنے والا تھا۔
"اوۓ نادر !کیا ہوا تجھے اسطرح شکل لٹکاۓ کیوں بیٹھا ہے؟"۔۔۔۔
ہیڈ کانسٹیبل ناصر نے حولدار نادر سے پوچھا جو اداس صورت لیکر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
" کچھ نہیں جناب بس ایک سوچ پریشان کر رہی ہے کہ بیٹی کی شادی سر پہ ہے اور پیسے جو تھےوہ ختم ہو چکے ہیں "
نادر نے ٹھنڑی آہ بھر کہ جواب دیا۔
" ہاں کہہ تو ٹھیک رہے ہو تم یہ واقعی پریشانی کی بات ہے،اب تو اوپر کی کماٸ بھی بند ہی سمجهو "۔۔۔۔
ناصر نے افسوس سے کہا۔
" پہلے تو ایس ایچ او حنیف صاحب کی وجہ سے ہمیں بھی مدد مل جاتی تھی مگر اب۔۔۔۔۔ "
نادر نے افسوس سے سر جھٹکا۔
" ہاں بھٸ سنا ہے نیا ایس پی کوٸ جوان جہان بندہ ہے یہاں اس کی پہلی تقرری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جوان خون میں جذبہ بھی تو جوان ہی ہو گا نا! دیکھنا تم یہاں آتے ہی ایمانداری پہ ایک خوب لمبا چوڑا لیکچر دے گا "
38سالہ خوب موٹی تازی انسپکٹر نازیہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
اس سے پہلے کہ نادر اور ناصر میں سے کوٸ کچھ بولتا باہر گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔تینوں جلدی سے باہر کی جانب دوڑے جہاں ایس ایچ او حنیف چیمہ اور دیگر لوگ سر کے ویلکم کے ليئے موجود تھے۔
تبریز نے قدم گاڑی سے نکالے اور سن گلاسز کو پاکٹ میں اٹکایا ، عقابی نگاہیں سب کا جائزہ لے رہی تھیں وجیہہ چہرے پہ بلا کی سختی چھاٸ تھی۔
نپے تلے قدم اٹھاتا وہ سامنے آ کر رکا،سب نے زوردار سلیوٹ مارا تھا۔
ایس ایچ او جلدی سے آگے بڑھا ہاتھ میں پھولوں کا ہار تھا۔۔۔۔"
ویلکم سر " ۔۔۔۔
" سٹاپ " ۔۔۔۔
اسکے بڑھتے قدموں اور چلتی زبان کو تبریز کی پاٹ دار آواز نے روکا ۔۔۔۔
" یہ سب کیا ہو رہا ہے آپ لوگوں کو کوٸ کام نہیں ہے کیا جو سب لوگ یہاں جمع ہیں "۔۔
تبریز نے غصے سے استفسار کیا۔
سب لوگ فوراً مٶدب ہوۓ۔
تبریز نے سبکی سہمی شکلیں دیکھیں ۔۔۔۔
""""""""""""""""""""""""
" آپ سب کے بارے میں انفارمیشن میں پہلے ہی لے چکا ہوں اور میرے بارے میں بھی آپ لوگ تھوڑا بہت جانتے ہی ہوں گے مزید میں بتا دیتا ہوں "
وہ گلا کھنکھار کر گویا ہوا۔
" میرے کام کرنے کے دو اہم اصول ہیں۔۔۔۔اصول نمبر ایک۔۔۔۔میرے ہوتے ہوۓ کوٸ بھی کام ایمانداری(انسپکٹر نازیہ نے جتاتی نظروں سے نادر اور ناصر کو دیکھا تھا)۔۔۔۔۔کوٸ بھی کام ایمانداری سے نہیں ہو گا۔"
تبریز نے بات مکمل کی،اسکی بات سن کر سب کو زوردار جھٹکا لگا (بھٸ حیرت کا جھٹکا )
سب کے منہ حیرت کے مارے کھل گۓ ،اس سے پہلے کہ کوٸ کچھ بولتا وہ مزید گویا ہوا۔۔۔۔
" اصول نمبر دو ۔۔۔۔ہم آئيندہ سب سے ڈبل وصولی لیں گے اور سبکو برابر حصہ ملے گا،علاقے کے تمام غنڈوں سے بھی اپنا حصہ باقاعدگی سے لیں گے اور بدلے میں ان کو پروٹیکٹ کریں گے "۔۔۔۔
تبریز نے آرام سے اپنی بات مکمل کی۔
سب سے پہلے حنیف شاک سے نکلا اور جلدی سے آگے بڑھ کر سر کے گلے میں ہار ڈالا۔
نادر اور ناصر نے بھی آگے بڑھ کر اپنے دیوتا جیسے سر کو متشکرانہ نگاہوں سے دیکھا
" سر،،آپ پہلے افسر ہیں جنہوں نے ہم بےچاروں کے بارے میں بھی سوچا ہے،ورنہ ہر کوٸ اپنے بارے میں ہی سوچتا ہے۔" ۔۔۔
انسپکٹر نازیہ نے بولتے ہوۓ ٹیڑھی نظروں سے ایس ایچ او کو دیکھا۔
" ارے یہ تو ہمارا حق ہے آخر تنخواہ میں ہم کیسے گزارا کر سکتے ہیں " ۔۔۔۔
تبریز نے ریلیکس اندازمیں کہا۔
" اچھا چلیں بہت ہو گیا انٹرو اب سب لوگ کام پہ لگ جائيں اور حنیف صاحب آپ ذرا میرے آفس میں آئيں "
وہ سنجیدگی سے بولتے ہوۓ آگے بڑھا لیکن پھر ذرا رک کر ناصر کو کافی لانے کا بول کر آگے بڑھ گیا۔
باقی سب بھی اپنی خوشی سنبھالتے ہوۓ کام سے لگ گۓ۔۔۔۔پہلی بار انکو کوٸ اپنے جیسا افسر ملا تھا جو ان کا احساس کرے گا(یہ سارے عملے کا خیال تھا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔