"ہیلو... ہادی.! ہیلو...!! "سگنلز ایک دم سے گرے تھے، سعدیہ تک اس کی آواز پہنچ ہی نہ سکی.
" کیا کہہ رہے تھے تم؟"ذرا سگنلز بحال ہوئے تو اس نے سعدیہ کو کہتے سنا. اس نے بات دہرائی
"مجھے صوفیہ خالہ کی بیٹی موتیا بہت اچھی لگی ہے عدی بھائی کے لیے. "قسمت کی ستم ظریفی کہیے یا کیا؟ کہ سعدیہ آخری کے تین الفاظ "عدی بھائی کے لیے" سن ہی نہ پائیں. کال اچانک ختم ہو گئی اور سکرین پہ صرف ایمرجنسی کال لکھا دکھائی دینے لگا تھا، لیکن وہ مطمئن تھا کہ ماما جان تک بات پہنچ چکی ہے، وہ خود ہی عدی بھائی سے بات کر لیں گی.
**...**...**...**...**..**
"یہ ہادی تو میری توقعات سے بڑھ کر تیز نکلا." صبح جب سعدیہ نے ابراہیم سے ہادی سے ہونے والی بات دہرائی تو وہ ہنس کر کہنے لگے تھے،
"اچھا ہے اپنے لیے لڑکی خود ہی تلاش کر لی، میری مشکل آسان کی ہے. عدی تو مان کر نہیں دیتا شادی کے لیے، اب جلدی ہی صوفیہ سے بات کرتی ہوں." ناشتے کے دوران، سٹور پہ جانے سے پہلے دونوں کے درمیان اسی قسم کی گفتگو ہوتی تھی، ابراھیم کا شہر میں الیکٹرانکس کا بڑا چلتا ہوا سٹور تھا.
" مجھے یقین ہے صوفیہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا. میں آج ہی اسے فون کروں گی"
" ارے بیگم صاحبہ! ذرا حوصلے اور صبر سے کام لیجیے، کیوں ہتھیلی پر سرسوں جمانے چلی ہیں." ابراهيم ان کی جلد بازی پہ بوکھلا سے گئے. "پہلے ایک بار اپنے بیٹے سے دوبارہ بات کرکے اچھے سے تصدیق کر لیجیے گا."
"کمال کرتے ہیں آپ! ہادی نے خود مجھ سے کہا ہے کہ اس نے موتیا کو پسند کیا ہے. میں نے خود اپنے کانوں سے سنا تھا." وہ برا مان کر بولی تھیں.
" مانتی ہوں کہ ہادی جہاں ہوتا ہے وہاں موبائل نیٹ ورک کا بہت مسئلہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی میں نے یہی سنا تھا." چائے کا خالی کپ ہاتھ سے رکھتے انھوں نے شوہر کو اپنا حتمی فیصلہ سنایا:
"صوفیہ کے ہاں نیٹ ورک کا مسئلہ نہیں ہوتا، میں آج ہی اسے فون کرتی ہوں، اپنے ہی خاندان کی بات ہے، چھان بین کی تو نوبت نہیں آئے گی، بس جیسے ہی ہادی چھٹی پر آئے گا، میں اس کی شادی کر دوں گی. عدی بھی تب تک آ جائے گا." ابراهيم منھ کھولے حیرت سے انھیں دیکھ رہے تھے.
"تم عورتوں کا بھی عجیب معاملہ ہے ویسے، پہلے بہو لانے کے لیے اتنی خوش اور پرجوش ہوتی ہیں، اور جب بہو آ جاتی ہے تو وہی بری لگتی ہے." وہ اپنا وقت یاد کرنے لگے تھے کہ شادی کے شروع کچھ سالوں میں ان کی اپنی مرحومہ اماں اور بیگم کی آپس میں نہیں بنتی تھی.
"بھئی یہ تو ہر دوسرے گھر کا معاملہ ہے ابراھیم صاحب! رشتہ ہی ایسا ہے." وہ بھی ان کی بات کا پس منظر سمجھ گئی تھیں.
"آپ کو یاد نہیں کہ شادی کے تین ہی سال بعد میں اور اماں باہم کیسے شیر و شکر ہوئے تھے."
"جی جی...!! کیسے بھول سکتا ہوں جب آپ اور اماں آپس کی اس شکر شیری میں مجھے اور میرے معصوم ابا جی کو فراموش کر دیا کرتی تھیں."ان کے جلے بھنے انداز پہ سعدیہ کا قہقہہ بےساختہ تھا.
"اچھا تو میں نکلتا ہوں، یقیناً شام کی چائے کے ساتھ مٹھائی کا ڈبہ لازمی ہو گا." وہ کرسی گھسیٹتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے
"ان شاء اللہ.!" وہ خوشی سے بولیں. اور انھیں چھوڑنے دروازے تک آئی تھیں. برسوں سے یہی معمول تھا.
**...**...**...**...**..**
کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اچانک ہی بڑھ گئے تھے، ساتھ ہی لائن آف کنٹرول پہ وقفے وقفے سے فائرنگ بھی جاری تھی، حالات ایک دم تناؤ کا شکار ہو گئے تھے. ہادی اور اس کے ساتھ کے چار ساتھیوں کو لائن آف کنٹرول پہ بھیجے جانے کے آرڈر آ گئے تھے. آرڈر ایمرجنسی کے تحت ہی آئے تھے. ہادی کو صبح سویرے بازار کی طرف کچھ سامان لینے جانا تھا، وہ جلدی میں خالہ کے گھر ر بھی سلام کرنے چلا آیا، کہ مبادا پھر نجانے کب ملاقات ہو، ملاقات ہو بھی یا نہیں؟
صوفیہ کو کھڑے پاؤں سلام کرکے واپس آیا اور ایک جگہ بیٹھ کر سعدیہ کو فون ملایا. جانے سے پہلے ماں کو فون کرنا چاہتا تھا اور یہاں سگنل کا کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا.
"کیسی ہیں ماما جان.؟" ماں کا حال چال پوچھا،
"اتنی صبح فون، رات ہی تو بات ہوئی تھی." وہ ماں تھیں، اور شاید فطرت نے ماؤں میں پریشانی کو بھانپ لینے والی حس الگ سے ودیعت کی ہوتی ہے.
"جی ماما جان.! ابھی خیریت ہی ہے، بس آپ کی دعا چاہیے، میں آج لائن آف کنٹرول پہ جا رہا ہوں.."
"کیااا..؟؟؟" ان کا دل دھک سے رہ گیا، ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ شادی کا ذکر کر رہی تھیں، اور اب... لائن آف کنٹرول پہ پاک بھارت کے تعلقات سے کون واقف نہیں تھا؟ نیوز چینل سارا دن یہی تو چیختے رہتے تھے، آئے دن کسی فوجی جوان کی شہادت کی خبر سماعتوں سے ٹکراتی تھی.
" ماما جان! کیوں پریشان ہوتی ہیں؟ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، آپ بس مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے گا." اگرچہ وہ خود اس اچانک افتاد پہ بری طرح گھبرا گیا تھا لیکن جب اس کارزار میں قدم رکھ دیا تھا تو ڈر کس بات کا.. رہی بات اس جان کی، تو اسی جان پہ آفرین ہے جو وطن پہ قربان ہو جاتی.
"ماما جان! اب میں نہیں جانتا کہ کب فون پہ رابطہ کر سکوں گا یا کب گھر آؤں گا؟ آپ بس میرے لیے دعا کرتی رہیے گا. بابا جان اور عدی بھائی سے بات کرنے کا اب وقت نہیں ہے، انھیں میرا سلام کہیے گا." نم آنکھوں سے ماما جان کا الوداعی سلام لے کر اس نے فون بند کیا تھا. سعدیہ کے دل کو عجب سے اندیشوں نے گھیر لیا تھا. یہ سچ تھا کہ زندگی کا تو کوئی بھروسہ نہیں، موت کہیں بھی آ جاتی ہے، لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھیں. ابھی تو انھوں نے خوشیوں کے شادیانے بجانے کا سوچا تھا. وہ سارا دن اسی سوچ میں غلطاں رہی تھیں، عدی کا فون آیا تو انھیں موقع ملا کہ دل میں آنے والے خدشات کا اظہار کر سکیں، عدی نے تحمل سے سنا تھا اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی.
"ماما جان.! فوجی بندہ ہے آپ کا بیٹا، ایسے مختلف علاقوں میں آنا جانا لگا ہی رہے گا، آپ پلیز اس بات کو دل پہ سوار مت کریں. رہی بات اس کی شادی کی، تو آپ خالہ صوفیہ سے بات کر لیجیے، باقی جو اللہ کو منظور ہوا."
"ارادہ تو تھا کہ پہلے تمھاری شادی ہوتی.." انھوں نے آہستگی سے کہا مبادا وہ غصہ ہی نہ ہو جائے.
" اووو ماما جان.! شادی زندگی کے ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی. فی الحال مجھے ایک طرف ذہن مرکوز رکھنے دیں، جب موڈ بنا کر لوں گا شادی بھی." اس نے سبھاؤ سے منع کیا.
" ابھی آپ سے ہادی نے شادی کی بات کی ہے تو اسی کی بات چلائیے. میں بھی بس تین ماہ تک آ جاؤں گا پاکستان."
عدی سے بات کرکے ان کا دل کافی حد تک مطمئن ہو چکا تھا، وہ صوفیہ کو فون کرنے کا پکا ارادہ کر چکی تھیں.
**...**...**...**...**..**
جب سے ہادی ملنے آنے لگا تھا، سعدیہ سے رابطوں میں تسلسل بڑھ گیا تھا، لیکن آج آنے والی فون کال صوفیہ کے اندازوں سے ہٹ کر تھی. سعدیہ نے ان سے ہادی کے لیے موتیا کا ہاتھ مانگا تھا. خوشی کی کوئی حد ہی نہیں تھی، شادی کے بعد دوریاں آئی تھیں لیکن اتنی بھی نہیں کہ دل دور ہوتے، بس بالمشافہ ملاقات ہی نہیں ہو پاتی تھی ورنہ ٹیلی فونک رابطے تو بہرحال قائم ہی تھے، ہادی انھیں خود بھی پسند آیا تھا، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اپنی بیٹی کے لیے پسند نہ ہوتا.. اپنی طرف سے تو ان کی ہاں ہی تھی، لیکن حیدر اور پھر موتیا کی رائے لینا بھی ضروری تھا.
"یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ لائن آف کنٹرول پہ ہے، اور وہاں کے حالات... تم پھر بھی موتیا کی شادی اس سے کروانا چاہتی ہو؟" ان کی بات سن کر حیدر نے صرف اتنا کہا. اور بغور ان کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا.
"زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے حیدر، مجھے توقع نہیں تھی کہ آپ ایک بے بنیاد بات کو بنیاد بنا کر اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے جانے دیں گے."صوفیہ نے ناراضی کا اظہار کیا.
"سعدیہ اور اس کے گھرانے سے واقف ہیں، اچھا سلجھا ہوا گھرانہ ہے، ہادی سے بھی مل چکے ہیں، اچھی پوسٹ پہ اور شریف لڑکا ہے، ہمیں اور کیا چاہیے؟"
"اچھی بات ہے، میں بس یہی جاننا چاہ رہا تھا کہ تم خود بھی دل سے یہ سب باتیں مانتی ہو یا پھر وقتی جوش ہے، کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے. آخر کو ایک ہی اکلوتی اولاد ہے." حیدر نے بھی اپنا نکتہ نظر واضح کیا تھا. وہ مطمئن ہو گئیں، اب صرف موتیا کی رائے جاننا باقی تھا.
"تمھیں ہادی کیسا لگتا ہے موتیا؟" وہ رات کے کھانے کے لیے چاول چن رہی تھی، جب صوفیہ کی بات پہ اس کے کان کھڑے ہو گئے.
"کیسا لگتا ہے مطلب؟؟؟ انسان ہے تو انسان ہی لگے گا نا امی جان." اب وہ ان کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھی یا اداکاری کر رہی تھی، یہ صوفیہ بھی سمجھ نہ سکیں.
"موتیا..!!"انھوں نے اسے گھورا
"ہاں نا امی جان! مجھے تو ٹھیک ہی لگتا ہے." ان کا دل چاہا اس کا یا اپنا سر پیٹ لیں. ایسے ہی زچ کر دیا کرتی تھی وہ لڑکی انھیں. اس سے صاف الفاظ میں بات کی جاتی تو ہی ٹھیک رہتا.
"سعدیہ نے ہادی کے لیے تمھارا ہاتھ مانگا ہے."
"ارے واااہ..! میں نہیں دینے والی اپنا ہاتھ...." اپنی دھن میں بولتے ایک دم اس کی زبان کو بریک لگا تھا.
"کک... کیا.. مطلب.!!؟؟" چاول چننا تک بھول گئی، انھوں نے اس کے چہرے کا ہر رنگ ملاحظہ کیا، شرم، حیا اور گریز... کیسی شرم آمیز سرخی گھل گئی تھی اس کے رخساروں پہ، انھوں نے دل ہی دل میں اس کی بلائیں لیتے، بات دہرائی. کچھ لمحے تو وہ بول ہی نہ سکی..
"تم چاہو تو اچھی طرح سوچ لو، کوئی زبردستی نہیں ہے. جیسا چاہو..." اس نے تیزی سے ان کی بات قطع کی:
"مجھے آپ کا اور بابا جان کا ہر فیصلہ قبول ہو گا امی جان! آپ کو جو بہتر لگتا ہے کیجیے."بات مکمل کرکے وہ مزید وہاں نہیں رکی تھی. انھیں اس سے یہی امید تھی. ایک گہری طمانیت بھری سانس خارج کرتے وہ باورچی خانے کی طرف چل دی تھیں. کھانے سے فراغت کے بات سعدیہ کو فون کرنے کا ارادہ تھا، گھر کی بات تھی. انھیں فکر نہیں تھی کہ کوئی کیا سوچے گا جب سنے گا کہ ایک ہی دن میں رشتہ مانگا گیا اور ہاں بھی کر دی. چھان بین اور سوچنے کے لیے وقت مانگنے جیسے تکلفات میں تب پڑا جاتا جب سامنے والے پہ اعتبار نہ ہوتا. سعدیہ پہ انھیں بہت اعتماد تھا. انھیں یقین تھا کہ موتیا اس گھر میں بہت خوش رہے گی. جلد ہی انھوں نے فون کرکے سعدیہ کو ہاں کہہ دی تھی سر سے جیسے بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا.
"میں جلد ہی منگنی کی رسم ادا کرنے آؤں گی." سعدیہ کی بات نے ان کی خوشی کو دوبالا ہی تو کر دیا، برسوں سے ان سے ملنے کی دیرینہ آرزو پوری ہونے والی تھی.
**...**...**...**...**..**