کتنے ہی لمحے خاموشی کی نذر ہوۓ تھے۔ شاید بات کرنے کے لیے کچھ بچا ہی نہ تھا۔
دونوں ہی اپنی اپنی سوچوں میں غلطاں تھے۔
آخر ھُدا نے ایسا کیوں کیا؟؟؟اور تیمور۔۔۔۔وہ تو تمہارا دوست تھا۔
وہ طنزیہ مسکرایا۔
جانتی ہو وہ کیا ہے جو لوگوں کو دوسری طرف جانے پہ مجبور کر دیتا ہے کیوں لوگ محبت کو چھوڑ جاتے ہیں؟؟؟؟
وہ اس سے پوچھ رہا تھا اور رمشا کو لگا تھا زندگی نے اپنا سبق اسکو سکھا دیا ہے۔ وہ سانس روکے اسے سن رہی تھی۔
وہ ”لالچ“ ہے جو انسان کو کہیں کانہیں چھوڑتا۔
اور رمشا حیران رہ گٸ اتنی سی بات وہ کیوں نہ سمجھ پاٸ۔
دراصل رمشا نے کتابوں سے سیکھا تھا اور زکی نے زندگی سے اور زندگی سے سیکھنے والے اکثر ہی کتابوں والوں کو مات دے دیتے ہیں۔
مگر کس چیز کا لالچ۔۔۔۔؟؟؟؟
اور ذیادہ کا لالچ۔۔۔۔ ذیادہ پیسوں کا، ذیادہ محبت کا، مارکس کا لالچ۔۔۔۔یہ لالچ لوگوں کو دنیا مافہیا سے بے خبر کر دیتا ہے۔
بچپن سے ہی میرے مام ڈیڈ مجھ سے آپو سے دور رہے ذیادہ پیسوں کے لالچ میں پھر اور کے لالچ میں یہاں تک کے صرف کراچی سے نکل کر انکا بزنس دنیا میں پھیل گیا مگر یہ لالچ ختم نہ ہوا وہ ہم سے دور ہوتے گۓ انہوں نے گوارا کر لیا۔
محبت کا لالچ کیسے؟؟؟؟اب کہ وہ بولی تھی۔
جب ہمیں لگتا ہے کہ دوسرا ہمیں ذیادہ خوشیاں محبت عزت دے گا تو ہم پہلے کو چھوڑ جاتے ہیں کچھ لوگ حسن پرست ہوتے ہیں یہ پتا ہے کون لوگ ہوتے ہیں جن کو حسین چیزیں جمع کرنے کا انکی ملکیت کی لالچ ہوتا ہے۔
سٹوڈنٹس گھر والوں سے خاندان سے دوستوں سے یہاں تک کہ زندگی سے دور ہو جاتے ہیں تبکہ انکے مارکس اچھے آٸیں۔ یہ بھی لالچ ہی تو ہوتا ہے۔
اب ایسا بھی نہیں ہوتا۔ وہ انکاری ہو گٸ۔ وہ بھی تو ایسی ہی سٹوڈنٹ تھی صرف پڑھاٸ کو عزیز رکھنے والی۔
ایسا ہی ہوتا ہے اور پتا ہے یہ وہی سٹوڈنٹس ہوتے ہیں جو پھر خود کشی کر لیتے ہیں کچھ نفسیاتی ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر وقت کتابیں نظر کے سامنے ہونے سے انکا دماغ وہ چاٹ لیتی ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ کتابیں نہ پڑھو مگر ایک حد تک دماغ کو زنگ مت لگاٶ۔
مگر کتابیں تو ہمیں دنیا گھماتی ہیں۔
یہی تو مسٸلہ ہے یہ کتابیں ہمیں عرش تک پوری کاٸنات گھما لیتی ہیں مگر جب ہم خود کو ویسا نہیں کر پاتے تو ہم ساٸیکو ہو جاتے ہیں۔ ہم بہت پڑھتے ہیں اور ہمیں یقین ہوتا ہے کہ میڈیکل کی کتابیں حفظ کر لیں گے تو ہم ڈاکٹر بن جاٸیں گے یا پھر پہاڑوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو یقین کرنے لگتے ہیں کہ ہم ساری دنیا کے پہاڑ چڑھ جاٸیں گے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو سٹوڈنٹس پھر کیا کرتے ہیں تم اچھی طرح جانتی ہو تم نے ایسے کیسز ضرور نپٹاۓ ہوں گے۔ کہ ٹاپر ہو کے بھی ایڈمیشن نہیں ہوا جاب نہیں ملی اتنی محنت کی مگر کم محنت والے بازی لے گۓ۔
جب انکا لالچ پورا نہیں ہو پاتا تو پھر انہوں نے ساٸیکو کیس ہی بننا ہے نہ یا سوساٸیڈ کیس۔
پتا ہمارے کالج میں ایک ٹیچر تھیں وہ ہمیشہ کہتی تھیں پڑھاٸ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ میرا بی ایس سی کا پیپر پھا اور اس دن میرے ماموں کی ڈیتھ ہو گٸ۔ میں ان کے جنازے میں نہیں گٸ میں پیپر دینے گٸ۔
انہیں اپنا پیپر اپنے ماموں کے جنازے سے ذیادہ ضروری لگا۔
اگر وہ مِس کر دیتیں تو اگلے سال دے سکتی تھیں مگر وہ مرا ہوا انسان تو دوبارہ نہیں آ سکتا تھا نہ۔ ان کے لالچ نے ان کو بے حس کر دیا تھا۔
ہم شادیاں اٹینڈ نہیں کرتے جنازوں پر نہیں جاتے اپنے ٹاٸم کی ہر خوشی کو فراموش کر دیتے ہیں تو آخر میں ہمارے پاس کیا بچتا ہے۔۔۔؟؟؟؟
وہ لوگ جو پڑھاٸ کو اتنا سیریس نہیں لیتے انکے لیے پاس ہو جانا بہت ہے وہ ہر لمحے کو انجواۓ کرتےہیں آخری عمر میں پھر انکی یاداشت میں فارمولے نہیں بلکہ خوشیوں کے پل ہوتے ہیں۔
پڑھاٸ سےمحبت ضرور کرو مگر لالچ سے نہیں۔
تو ڈاکٹر مشا۶ آپ کہاں کھو گٸیں؟؟؟؟
تھینکس تھینکس آ لاٹ پتا ہے تم نے میرے سارےسوالوں کے جواب دے دیے۔ میں جو اتنے عرصے تک نہ جان پاٸ تم نے اتنے اچھے سے سمجھا دیا۔
وہ تو مجھے پہلے ہی پتا تھا۔۔۔۔وہ مسکراہٹ چھپاتا بولا۔
کیا پتا تھا؟؟؟؟
یہی کہ تمہاری ڈگری جعلی ہے صرف کتابیں رٹ کر پاس ہونے والی جعلی ڈاکٹر ہو۔ تبھی تو وہ پولیس والا تمہیں لے گیا تھا۔۔۔
زکی کے بچے۔۔۔۔
کتنے پیارے ہوں گے ہے نہ۔۔۔۔
مطلب؟؟؟؟ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی پھر جو سمجھ آیا تو دونوں کے قہقہے لوگوں کو انکی طرف دیکھنے پہ مجبور کر گۓ۔
********************************
تو تم آج ڈسچارج ہو رہے ہو۔ گڈ۔۔۔۔
زکی کافی ٹھیک ہو گیا تھا اب چلنے پھرنے بھی لگا تھا۔
تو ڈاکٹر مشا۶ آپ کو کیا لگتا ہے ادھر ہی رہ جاٶں کیا میں۔
ایک سال تو تم لوگوں نے مجھے ادھر رکھا ہے اب تو میں آنکھیں بند کر کے بھی اس ہاسپٹل میں گھوم سکتا ہوں۔
اوہ اچھا مگر تمہیں ہی شوق تھا ادھر رہنے کا۔۔۔
توبہ کتنا بولتی ہو تم لڑکیاں تھکتی نہیں ہو کیا؟؟؟
چلو میرے ڈسچارج ہونے کی خوشی میں ڈنر کرواٶ مجھے۔۔۔
ابھی تو ڈنر ٹاٸم نہیں ہے۔۔۔۔
ہاں تو کیا ہوا تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے رات ہی نہیں ہونی۔ رات آٹھ بجے تمہیں گھر سے پِک کروں گا اور پلیز یہ چڑیل بن کر منہ اٹھاۓ مت آجانا اچھا نہ۔۔۔۔
زکی تم۔۔۔اس نے پیپر ویٹ اٹھا لیا۔۔۔
کیا کر رہی ہو پاگل لڑکی ابھی تو ڈسچارج ہوا ہوں میں۔
چلو باۓ۔۔۔
گڈ لک۔۔۔۔
وہ ہاسپٹل سے جلدی اٹھ گٸ تھی۔
زکی کا تو پتا نہیں مگر اس کے لیے یہ خاص دن تھا۔
وہ دل سے تیار ہوٸ تھی۔
اب زکی کا انتظار کر رہی تھی۔
آٹھ بج گۓ پھر ساڑھے آٹھ پھر نو۔۔۔۔ شاید وہ بھول گیا۔۔۔
وہ اداس ہو گٸ اٹھ کر چینج کرنے لگی تبھی ہارن کی آواز آٸ۔
وہ ہارن پہ ہاتھ رکھے شاید ہٹانا بھول گیا۔
زنیرہ اپنی بہن کے گھر گٸ تھیں وہ بھاگتی ہوٸ نیچے اتری۔۔۔
زکی کیا سارے محلے کو جگاٶ گے؟؟؟؟
تم اتنی دیر سے کیوں آٸ؟؟؟
میں دیر سے آٸ یا تم ہاں۔۔۔ الٹا مجھے کہہ رہے ہو۔۔۔
ہاں وہ اتنے ٹاٸم بعد گاڑی چلاٸ تو۔۔۔۔
کیا تم خود ڈراٸیو کر کے آۓ ہو۔۔۔۔ کس نے تمہیں ایسا مشورہ دیا۔۔۔
مشا۶ مشا۶ آٸ ایم آل راٸٹ اب چلو۔۔۔۔ وہ خود جا کر پہلے بیٹھ گیا۔
لڑکی کے لیے دروازہ کھولتے ہیں۔۔۔
ارے میری گاڑی کا دروازہ آرام سے کھل جاتا ہے تم نے کھول لیا۔ وہ اسے چڑاتے ہوۓ بولا۔
تمہیں کہا تھا کہ اچھی سی تیار ہو کر آنا پھر بھی چڑیل بن کر آ گٸ ہو۔
تم نے بھی آٹھ بجے آنے کا کہا تھا مگر آۓ تم سوا نو بجے ہو۔
اچھا چلو کوٸ بات نہیں۔
********************************
ھُدا ھُدا بے بی مجھے تین چار دن میں پاکستان جانا ہے۔
پاکستان مگر کیوں؟؟؟؟؟؟
یار ڈیڈ نے بلایا ہے کسی ضروری کام سے تو جانا پڑے گا۔۔۔۔
اوہ اچھا بے بی کیا میں بھی چلوں تمہارے ساتھ۔۔۔
ہاں کیوں نہیں چلو ضرور چلو۔۔۔
اوہ بے بی یو آر ٹو گڈ۔۔۔
تو اب وقت آگیا تھا وقت کے طمانچے کا۔۔۔۔
*************************************
تم نے اپنے گھر والوں کو اپنے ٹھیک ہونے کا نہیں بتایا کیا؟؟؟؟
نہیں بتایا۔۔۔
کیوں؟؟؟؟
میں انکو پاکستان بلا رہا ہوں۔۔۔۔ سرپراٸز کے لیے۔۔۔
اوہ تو کب دے رہے سرپراٸز۔۔۔؟؟؟
جلد ہی مگر اس سے پہلے کسی اور کو بھی سرپراٸز دینا ہے۔
کس کو؟؟؟
اتنی بھی جلدی کیا ہے؟؟ جلد ہی پتا چل جاۓ گا۔
****************************
تیمور اور ھُدا پاکستان آ گۓ تھے۔
ڈاکٹر رضا نے ناچار بہو کا ویلکم کیا تھا۔
انہوں نے تیمور کو کچھ لیگل ڈاکومنٹس پہ ساٸن کے لیے بلایا تھا۔
تیمور بے شک جانا مانا فٹبالر بن چکا تھا مگر اب وہ اپنی فٹبال ٹیم بنا رہا تھا اور اسکے لیے اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔
ھُدا کو اس نے خوب ہی آساٸشات میں رکھا ہوا تھا۔
اسے ھُدا سے محبت تھی وہ اسے ہر خوشی دینا چاہتا تھا۔ اپنی فیملی بنانا چاہتا تھا اسکے ساتھ مگر ھُدا نے بعد کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
ھُدا خود کو مینٹین رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اور اس میں کوٸ شک نہ تھا کہ وہ پہلے سے ذیادہ حسین ہو چکی تھی۔
انگلینڈ میں وہ ایک پرتعیش فلیٹ میں رہتے تھے۔ مگر تیمور کا گھر دیکھ کر ھُدا کی آنکھیں نکل آٸ تھیں۔ اس کے ماں باپ کا گھر بھی کسی محل سے کم نہ تھا مگر تیمور کے گھر جتنا شاندار نہ تھا۔
وہ اپنی قسمت پہ رشک کرتی تھی۔
تیمور ہاسپٹل آیا تھا۔
وہ واپس گھر جا رہا تھا کہ رمشا سے ٹکرا گیا۔
آٸ ایم سوری میڈم میرا دھیان نہیں تھا۔
گری فاٸل اسے تھماتے بولا تھا۔
اوہ ڈاکٹر رمشا۔۔۔ واٹ آ پلیزنٹ سرپراٸز۔
وہ اسکی خوبصورتی دیکھ کر مسمراٸز ہوا تھا ایک پل کو تبھی خوش اخلاقی سے بولا۔ وقت نے رمشا کو اور خوبصورت کر دیا تھا۔
تیمور کو وہ دنیا کی حسین لڑکی لگی تھی وہی حسین چیزوں کا لالچ جبکہ رمشا کا اسے دیکھ کر حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔
اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ دو چار تھپڑ جڑ دے اس کے منہ پہ۔
ایکسیوز می۔۔۔ اپنی ناگواری پہ قابو پاتے وہ وہاں سے نکل گٸ۔
ہمممم ویسے ڈیڈ کی چواٸس بھی اتنی بری نہیں تھی۔
چلیے ڈیڈ ذرا یہ ضروری کام نپٹا لوں پھر آپکی برسوں کی یہ خواہشں بھی پوری کر دوں گا رمشا کو آپکی بہو بنا کے۔۔۔۔
وہ کمینگی سے سوچتا گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔