وہ رات کے دو بجے پاکستان پہنچا تھا۔
آہہہہہ آٸ مِس یو سو مچ۔۔۔۔
ڈراٸیور اسے لینے آیا تھا۔
وہ گھر جا رہا تھا کہ سامنے سے گاڑی گزری اسے لگا اس میں ھُدا تھی۔
مگر اسکے ساتھ بیٹھے شخص کی وجہ سے اسے یقین نہ آرہا تھا۔
شاید مجھے غلط فہمی ہوٸ ہو۔۔۔
وہ اپنے خدشات جھٹک رہا تھا مگر وہ منظر اسکے ذہن سے چپک گیا تھا۔
وہ لاکھ جھٹلاتا رہا مگر اسکا لاشعور اسکے بدترین خدشات کی تصدیق کر رہا تھا۔
اپنے وہم جھٹلانے کے لیے وہ اگلے دن ہی ھُدا سے ملنے چلا گیا۔
اسکے گھر سے پتا چلا کہ ھُدا سی ساٸیڈ گٸ ہے۔ اپنی کسی دوست کی برتھ ڈے سیلیبریشن کے لیے۔
ھُدا وہاں سے پارکنگ کی طرف بڑھ رہی تھی تبھی وہ اسکے پاس جا پہنچا۔
ھُدا ماٸ لَو۔۔۔۔
زز زکی تم اتنے ٹاٸم بعد۔۔۔۔۔
چلو میرے ساتھ۔۔۔۔اسے دیکھ کر وہ پرسکون ہو گیا تھا سارے شکوک ختم ہو گۓ تھے۔
پر زکی۔۔۔۔
پر ور کچھ نہیں تم سے ڈھیروں باتیں کرنی ہیں اور بہت کچھ دکھانا بھی ہے آپو کی شادی کی وجہ سے میں بزی ہو گیا تھاتمہیں بتا بھی نہیں پایا۔
زکی لِیو۔۔۔۔۔
زکی اسے ساتھ لے جا رہا تھا تبھی ھُدا اپنا آپ چھڑاتے ہوۓ چیخی۔۔۔۔
ھُدا۔۔۔۔۔
زکی شاکڈ ہوا تھا۔
بس زکی تم تین ہفتوں بعد اچانک سے آ گۓ ہو اور اب محبت دکھا رہے ہو۔۔۔ اتنے ٹاٸم تک لاپرواہی سے پودے بھی چھوڑ دو تو وہ بھی مرجھا جاتے ہیں۔
مگر وہ پودے ہوتے ہیں ھُدا۔۔۔۔ پودوں اور انسانوں میں فرق ہوتا ہے۔
اگر میں تم سے کانٹیکٹ نہیں کر پایا تو کیا تمہارے دل سے محبت ختم ہو گٸ۔ لوگ تو سالوں انتظار کرتے ہیں تم چند دن نہیں کر پاٸ۔۔۔۔
ہاں نہیں کر پاٸ اور میں اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں اب پلیز میری لاٸف خراب کرنے کی کوشش مت کرنا تم۔۔۔۔۔۔
میں آج شام ہی ابراڈ جا رہی ہوں خوش رہو تم بھی اور رہنے دو مجھے بھی۔
وہ جا چکی تھی سب ختم کر کے۔۔۔۔
زکی وہیں کھڑا رہ گیا تھا جبکہ ھُدا اٸیر پورٹ کے لیے نکل گٸ تھی جہاں وہ اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔
ھُدا جا چکی تو زکی کو ہوش آیا۔
نہیں وہ یقیناً ناراض ہے اسلیے ایسا بول کر گٸ ہے۔ ورنہ وہ کیوں جاتی۔
ہممم تو ھُدا میڈم اب آپ ایسے کریں گی کیا کوٸ بات نہیں ابھی منا لیتے ہیں آپکو۔
وہ فوراً سے اسے کال کرنے لگا مگر ھُدا کال ریسیو نہیں کر رہی تھی۔
اس نے ٹریکر آن کر کے اس کی لوکیشن نکالی اور گاڑی لے کر نکل گیا۔
تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے کچھ ہی دور جا کر اسکی گاڑی کے آگے لا کر گاڑی کھڑی کر دی۔
واٹ دا ہیل از دِس؟؟؟؟
وہ غصے سے باہر نکلی تب تک زکی بھی آرام سے اتر کر اب گاڑی سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔
ناراض ہو نہ جانتا ہوں میں مگر چلیں میڈم آج آپکی ساری ناراضگی دور کر دیتا ہوں۔
چلو آٶ اب غصہ بعد میں کر لینا تم اوکے۔
اس کے لیے اس نے فرنٹ ڈور کھولا جب کہ ھُدا اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں۔
یار کم آن ھُدا کیا ہو گیا ہے اب آ بھی جاٶ بول تو رہا ہوں سوری۔
وہ کان پکڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اب تو مان جاٶ یار۔۔۔۔
مگر ھُدا پلٹ کر اپنی گاڑی کی طرف جانے لگی۔
ھُدا پلیز۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔
اس کے پلٹ کے زکی کے منہ پہ تھپڑ رسید کیا جب کہہ دیا کہ نہیں تو مطلب نہیں۔
زکی کو تو کچھ سمجھ ہی نہ آیا پہلے کبھی کسی لڑکی سے دوستی تک نہ کی اسے کیا معلوم کہ ناراض محبوبہ کو کیسے ہینڈل کیا جاۓ۔
ھُدا۔۔۔۔
دوبارہ مجھے ہاتھ مت لگانا۔۔۔وہ غصے سے بولی۔
ھُدا مت جاٶ میں میں نہیں جی سکوں گا آٸ سویر ھُدا۔
اسے اس وقت اپنی عزتِ نفس کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ وہ کسی بھی قیمت پہ ھُدا کو منا لینا چاہتا تھا۔
کوٸ کسی کے لیے مر نہیں جاتا سمجھے تم۔ اور نہ ہی کوٸ کسی ایک کے لیے اپنی زندگی برباد کر لیتا ہے دوبارہ میرے راستے میں مت آنا تم۔
وہ اسکے تمام خدشے درست ثابت کر چکی تھی۔
کہتے ہیں جب مرد ہاتھ چھڑا چاہے تو اسے روکا جا سکتا ہے مگر جب عورت ہاتھ چھڑانا چاہے مطلب وہ جا چکی ہوتی ہے۔
**********************************
رمشا بیٹا اب جلدی کرو تمہاری فلاٸٹ مِس ہو جاۓ گی۔
بس مما نکل رہی ہوں اللہ حافظ۔۔۔
جاٶ اللہ کی امان میں۔۔۔
رمشا اسلام آباد جا رہی دی موسٹ فیمس موٹیویشنل سپیکر ڈاکٹر قاسم شاہ کا لیکچر تھا جو وہ اٹینڈ کرنے جا رہی تھی۔
کراچی اٸیرپورٹ پہ فلاٸٹ کا انتظار کرتے اس نے تیمور کو دیکھا تھا۔
یہ کہاں جا رہا ہے؟؟؟ رضا انکل نے تو کچھ نہیں بتایا کہ وہ اسے کہیں بھیج رہے ہیں۔
مگر یہ انتظار کس کا کر رہا ہے؟؟؟
ہمممم لگتا ہے شاید پھر سے دوستوں کے ساتھ گھومنے پِھرنے کا پلان ہے یونہی تو انکل اس سے خفا نہیں رہتے۔
اسکی فلاٸٹ کی اناٶنسمنٹ ہوٸ تو وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوٸ۔
ایلیویٹر سے چڑھتے اس نے ایک نظر تیمور پر ڈالی تھی اور وہ وہیں ساکت ہو گٸ تھی۔
تیمور کسی لڑکی کے ساتھ تھا۔
اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا تیمور یہ کن چکروں میں پڑ گیا ہے اوہ گاڈ رضا انکل پہ کیا گزرے گی۔
وہ انہیں گلے ملتے دیکھ کر سوچ رہی تھی۔
**********************************
ھُدا نے اٸیر پورٹ پہنچنے سے پہلے اپنا موڈ ٹھیک کیا اور اندر داخل ہو گٸ۔
اب وہ اش شخص کو ڈھونڈ رہی تھی جو اسکی زندگی بدلنے والا تھا جس کے لیے وہ زکی کی محبت کو ٹھکرا کر آٸ تھی۔
جلد ہی وہ اسے مل گیا۔
ہاۓ بےبی۔۔۔۔
تبھی وہ انسان پلٹا تھا وہ کوٸ اور نہیں تیمور رضا تھا۔
زکی کا بیسٹ فرینڈ۔۔۔۔۔
وہ اسکے گلے لگ رہی تھی اور وہ سرشار سا اسے لیے آگے بڑھ گیا۔
تیمور کو ھُدا پہلی نظر میں ہی بھا گٸ تھی۔
اس نے پہلی دفعہ اسے رضا صاحب کے ہاسپٹل میں دیکھا تھا جب وہ زکی سے بات کر رہی تھی۔
وہ جان بوجھ کر اسکے برتھ ڈے پر اتنا مہنگا تحفہ لے کر گیا تھا۔
اور ھُدا تو اسکے سامنے بچھ بچھ گٸ تھی۔
وقت شاید تیمور کا تھا تبھی اسے موقع ملتا گیا ھُدا زکی سے ناراض تھی وہ یہ اچھی طرح جانتا تھا اور پھر زکی کا اتا پتا نہیں تھا۔
ھُدا فوراً ہی تیمور کی طرف ماٸل ہو گٸ تھی۔
ھُدا کو حاصل کرنے کے لالچ میں اس نے اپنی دوستی کا بھی خیال نہ کیا۔
اور آج وہ دونوں ہی زکی کو دھوکہ دے کر اپنی نٸ زندگی کا آغاز کرنے چلے تھے۔
***************************************
زکی جانے کتنی ہی دیر وہاں بیٹھا رہا۔
پھر بمشکل خود کو سنبھالتے وہ ڈراٸیونگ سیٹ تک آیا ابھی بیٹھا بھی نہ تھا کہ ایک تیز رفتار ٹرک نے اسکی گاڑی کچل دی۔
گاڑی کو زور دار ٹکر لگنے کے باعث زکی اچھلا ہوا دوسری روڈ پر جا لگا۔
پھر کراچی کا ٹریفک بھی سبحان اللہ ایک تیز رفتاری سے آتی گاڑی اسے ٹکر مارتی ہوٸ نکل گٸ۔
زکی لہو لہان فٹ پاتھ پر جا پڑا تھا۔
لوگ اکھٹے ہو گۓ تھے ایسا خوفناک ایکسیڈنٹ تھا اسکے بچنے کے کوٸ چانسز نہ تھے۔
اور لوگ بس کانوں کو ہاتھ لگاتے تماشا دیکھنے میں مصروف تھے۔
**************************************
الطاف یہ رش کیسا ہے؟؟؟؟ ڈاکٹر رضا نے لوگوں کی بھیڑ دیکھتے کہا۔
سر جی لگتا ہے کوٸ حادثہ ہوا ہے۔
حادثہ۔۔۔ تو پھر یہ کھڑے کر کیا رہے ہیں فوراً گاڑی روکو ادھر۔۔۔۔
ڈاکٹر رضا لوگوں کو ہٹاتے وہاں پہنچے۔
ہٹیں آپ لوگ ساٸیڈ پر ہوں۔۔۔۔ زکی۔۔۔
جو انسان وہاں پڑا تھا انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
الطاف اٹھاٶ اسکو۔
رضا صاحب کے ہاتھوں سے جان نکل رہی تھی۔
فوراً اسے گاڑی میں ڈال کر انہوں نے ہاسپٹل کال کر دی۔
سرجنز کو فوراً بلا لیا گیا۔
انکے پہنچنے سے پہلے سب الرٹ ہو چکے تھے۔
وہ پاکستان کیا ایشیا کے جانے مانے بزنس مین اظہر علی کا بیٹا تھا وہ اس کے لیے اپنا بیسٹ دے رہے تھے۔
صرف اتنا ہی نہیں وہ تیمور کا دوست تھا انہیں اپنے بیٹے کے جتنا ہی عزیز تھا۔
ملک کے نامور سرجنز بلواۓ گۓ تھے۔
ڈاکٹر رضا اٹس ٹوو ٹریٹیکل کیس آٸ ڈونٹ تھنک وی سیو ہِم۔ اس کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ ہم ذیادہ ٹاٸم تک اسے زندہ نہیں رکھ پاٸیں گے۔
کچھ کیجیے ڈاکٹر پلیز اسے بچا لیں۔۔۔۔
ڈاکٹر رضا آپ بھی تو ڈاکٹر ہیں یہ بات اچھے سے جانتے ہیں کہ ہمارے بس میں صرف کوشش کرنا ہی ہے آپ اس کے گھر والوں کو انفارم کر دیں۔
مم میں ابھی کرتا ہوں۔۔۔۔
ہیلو ڈاکٹر رخسانہ کوشش کیجیے گا کہ زکی کے ایکسیڈنٹ کی خبر میڈیا تک نہ پہنچے۔
اوکے سر آپ بے فکر رہیں میں سٹاف کو سمجھا دوں گی۔
ہہ ہیلو۔۔۔۔
ہیلو ہوز دَٸیر؟؟؟؟
مم میں ڈڈ ڈاکٹر رضا بات کر رہا ہوں پاکستان سے زکی کے فرینڈ تیمور کا فادر۔۔۔
اوہ اوکے انکل میں زکی کی سسٹر حمنہ بات کر رہی ہوں کہیے آپ نے اس وقت کال کی۔ سب ٹھیک ہے نہ؟؟؟؟
نہیں بیٹا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے وہ زکی۔۔۔۔۔ انہوں نے ساری بات اسے بتاٸ۔ بیٹا ہم کوششوں میں لگے ہوۓ ہیں مگر کوٸ حوصلہ افزا خبر نہیں ہے۔
زکی کا بچ پانا۔۔۔۔۔
وہ بات مکمل نہ کر سکے تھے۔
اور حمنہ کی حالت تو مانو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی تھی وہ سکتے میں تھی۔
کیا ہوا حمنہ سب ٹھیک ہے نہ؟؟؟؟
خرم۔۔۔۔ زکی۔۔
وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔
حمنہ حمنہ۔۔۔۔
ڈاکٹر اسکا چیک اپ کر گۓ تھے شاک کی وجہ سے بے ہوش ہوٸیں ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ہوش آ جاۓ گا۔
تھینک یو ڈاکٹر۔۔۔۔
حمنہ ہوش میں آتے ہی رونے لگی خرم زکی میرا بھاٸ وہ وہ مر جاۓ گا خرم مجھے اسکے پاس جانا ہے اسے میری ضرورت ہے۔
ریلیکس ریلیکس مجھے بتاٶ کیا ہوا؟؟؟
پھر حمنہ نے اسے روتے ہوۓ ساری بات بتاٸ۔
تم پریشان نہیں ہو میں ٹکٹس کرواتا ہوں پاکستان کی رونا نہیں اوکے۔
وہ اسے تسلی دے کر ٹکٹس کروانے لگا۔
دو گھنٹے وہ لگا رہا تھا مگر کوٸ ٹکٹ نہ ملی تھی۔
حمنہ سبھی فلاٸٹس کی ٹکٹس پہلے سے ہی بکڈ ہیں پرسوں سے پہلے کی کوٸ ٹکٹ نہیں ہے۔
خرم میرا بھاٸ۔۔۔۔۔ وہ بے تحاشہ رو رہی تھی۔
تم پریشان نہیں ہو میں پاکستان بات کرتا ہوں۔
وہ ڈاکٹر رضا سے بات کر چکا تھا اسکے بعد اس نے تمام جانے مانے ڈاکٹرز سے بات کی تھی صبح تک وہ زکی کی رپورٹس منگوا چکا تھا۔
اس نے آسٹریلیا کے بہترین سرجنز کو وہ رپورٹس دکھاٸ تھیں۔
انہوں نے بھی کوٸ حوصلہ افزا جواب نہیں دیا تھا۔
وہ حمنہ کو چپ کروانے کے قاصر تھا وہ اسکی اذیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔
وہ اپنی بیوی کے لیے یہ ساری دوڑ دھوپ کر رہا تھا۔
آخر دو دن بعد وہ ڈاکٹرز کی بیسٹ ٹیم کے ساتھ پاکستان میں موجود تھا۔
زکی کی حالت بہت بری تھی۔ وہ وینٹی لیٹر پر تھا۔
ڈاکٹرز اپنی پوری کوشش کر رہے تھے مگر کچھ نہیں بن پا رہا تھا۔
چار دن تک زندگی اور موت کی جنگ لڑتے وہ ہار گیا تھا۔
زکی کومہ میں چلا گیا تھا۔
حمنہ کی حالت بھی ٹھیک نہ تھی اس نے گھر پر کسی کو بھی کچھ نہ بتا یا تھا۔
***************************************
رمشا اسلام آباد میں ہی تھی جب اسے زکی کے بارے میں پتا چلا۔
وہ جلد از جلد کراچی پہنچی تھی۔
ڈاکٹر رضا نے اسے فون پہ ساری صورتحال بتاٸ تھی۔
اسے یقین ہی نہ آیا تھا اور جب اسے اپنی آنکھوں سے اس حال میں دیکھا تو اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔
وہ زندگی سے بھرپور لڑکا آج موت کے بستر پر پڑا زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا۔
پٹیوں اور مشینوں سے جکڑا منہ پہ آکسیجن ماسک چڑھاۓ وہ زکی لگ ہی نہ رہا تھا۔جو اسکا دماغ کھاتا رہا تھا۔
رضا انکل یہ سب کیسے۔۔۔؟؟؟؟
پتا نہیں بیٹا پانچ دن مسلسل اسکی حالت ایسی تھی کہ اب مرا کہ تب مرا اتنی سیریس کنڈیشن ہے اسکی اور تیمور کا بھی کچھ پتا نہیں ہے اسکی فیملی دو دن بعد پہنچی تھی۔
ہم سب پوری کوشش کر رہے اپنی مگر یہ کومہ میں جا چکا ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ سرواٸیو کر بھی پاۓ گا یا نہیں۔۔۔۔
ڈاکٹر رضا جا چکے تھے مگر رمشا وہیں بیٹھی رہ گٸ۔
کیا وہ لڑکی اور تیمور اس ایکسیڈنٹ کی وجہ ہیں۔۔۔؟؟؟
نہیں تیمور اتنا نہیں گر سکتا۔
اف خدایا یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟
وہ سر ہاتھوں میں گراۓ بیٹھی تھی۔
زکی کی بہن کی حالت بہت خراب تھی خرم اسکے پاس چلا آیا تھا۔
ہیلو ڈاکٹر میں زکی۔۔۔ وہ پیشنٹ جو کومہ میں ہے۔۔۔
جی میں جانتی ہوں۔۔۔
ایکچوٸلی میں اسکا بہنوٸ ہوں اسکی بہن کی حالت بھی بہت خراب ہے وہ مجھ سے نہیں سنبھل رہی اور پھر مجھے ایسی سچویشنز کا کوٸ آٸیڈیا بھی نہیں ہے۔
میری ڈاکٹر رضا سے بات ہوٸ تھی انہوں نے کہا آپ سنبھال لیں گی تو۔۔۔۔
اوکے میں دیکھ لوں گی آپ بے فکر رہیں۔ پروفیشنل انداز میں اسکو تسلی دے کر وہ اسکے ساتھ ہی اٹھ گٸ تھی۔
وہ حمنہ کا بھرپور خیال رکھ رہی تھی۔ اسکے سیشنز کا ہی نتیجہ تھا کہ حمنہ کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔
زکی کو کومہ میں گۓ ایک مہینہ ہو گیا تھا جب اسکے والدین کو زکی کا پتا چلا۔
وہ فوراً پاکستان آۓ تھے۔
************************************
حمنہ ہم کیا مر گۓ تھے جو تم نے بتانا ضروری نہ سمجھا۔ زکی ہمارا بیٹا ہے اور اسکی حالت کا ہمیں اپنے سمدھیوں سے پتا چل رہا ہے۔
اس ایک مہینے میں تم نے ایک بار بھی ہمیں کال کرنے کی زحمت نہیں کی۔
ٹینا بیگم حمنہ پہ برس رہی تھیں جبکہ اظہر صاحب ڈاکٹر نیل سے زکی کے بارے میں پوچھنے گۓ تھے۔
تم بتاٶ آخر تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں۔۔۔؟؟؟
کیوں بتاتی میں آپکو مام آخر کیوں؟؟؟ آپکو ہمارا خیال ہی کب رہا ہے مام۔۔۔
دیکھو تم۔۔۔۔
نہیں مام آج آپ دیکھیں آٸیں میرے ساتھ وہ انہیں زبردستی آٸ سی یو لے گٸ دیکھیں میرے بھاٸ کو۔
آپ کہتی ہیں میں نے کال نہیں کی مگر کیا اس ایک مہینے میں آپ نے جاننے کی کوشش کی کہ آپ کی اولاد کس حال میں ہے زندہ بھی ہے یا نہیں۔۔۔
باۓ گاڈ مام اگر زکی خدانخواستہ مر جاتا تو یقیناً آپ اسکی قبر کی مٹی سوکھنے کے بعد ہی جان پاتے کہ آپکا بیٹا نہیں رہا۔
آخر کیا چاہیے آپکو کیا کریں گے اس دولت کا آپ ہاں کیا کریں گے جس کے پیچھے آپ اولاد کو بھلا بیٹھے ہیں۔
ہمارے لیے کماٸ ہے نہ یہ دولت تو اٹھاٸیں میرے بھاٸ کو لگاٸیں نہ اپنی دولت اور کریں اسکو پہلے جیسا۔
وہ ٹینا بیگم کو جھنجوڑ رہی تھی مگر وہ بت بنی کھڑی تھیں۔
حمنہ نے آج انہیں آٸینہ دکھایا تھا اور اس میں دیکھتے انہیں اپنے آپ سے گھن آٸ تھی۔
کیا ماں بھی اپنی اولاد سے اس قدر بے خبر رہتی ہے۔۔۔؟؟؟؟
انہوں نے زکی کو ملک سے باہر لے جانے کا کہا تھا مگر ڈاکٹرز نے ٹریول سے منع کر دیا۔
وہ اپنی ساری دولت بھی لگا دیتے تو بھی زکی کو بھلا چنگا نہیں کر سکتے تھے۔
یہ انکے لیے سزا ہی تو تھی ساری زندگی انہوں نے دنیا کے پیچھے بھاگتے لگاٸ تھی اور اب وہ اتنے دور نکل آۓ تھے کہ انکی اولاد ان کے بغیر جینا سیکھ گٸ تھی۔
انکی اولاد کو انکی ضرورت نہ رہی تھی اب۔۔۔۔
وہ سب چھوڑ کر پاکستان آ بیٹھے تھے مگر حمنہ کا رویہ اس قدر تلخ تھا کہ مجبوراً وہ دو ہفتے بعد واپس امریکہ چلے گۓ تھے۔
حمنہ بھرپور کوشش کے باوجود ان کو معاف کرنے کو تیار نہ تھی۔
اگر ڈاکٹر رضا حمنہ سے بھی کانٹیکٹ نہ کر پاتے تو زکی۔۔۔۔
اس سے آگے وہ سوچنا نہ چاہتی تھی۔
ڈاکٹر رضا اسے بتا چکے تھے کہ انہوں نے اظہر صاحب اور ٹینا بیگم سے کانٹیکٹ کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر وہ نہیں مل پاۓ تھے۔
بعد میں حمنہ نے خود ہی انہیں بتانے سے انکار کر دیا تھا۔
وہ بچپن سے ہی زکی کو پالتی آٸ تھی وہ اب بھی خود ہی سنبھال لینا چاہتی تھی اسے اظہر صاحب اور ٹینا بیگم کی
ضرورت نہ تھی۔۔۔۔