اس لڑکے نے ہماری ناک کٹوانے میں کوٸ کسر نہیں چھوڑی۔آخر کیا ضرورت تھی اسے ایسی چیپ حرکت کرنے کی۔۔۔؟؟؟
ٹینا سخت غصے میں لگ رہی تھیں۔
ویل مام ایسی بھی کوٸ قیامت نہیں آ گٸ۔ ایک گانا گا لینے سے آپکی ناک نہیں کٹے گی۔
تم تو خاموش ہی رہو حمنہ تمہاری شہ پر ہی یہ اتنا بگڑ گیا ہے۔
تم نے جب ذمہ داری لی تھی اسکی تو کیا تم اسے ہماری سوساٸٹی کے طور طریقے نہیں سکھا سکتی تھی۔۔
فار گاڈ سیک مام میں اسکی بہن ہوں ماں نہیں یہ کام ماٶں کے ذمہ ہوتے ہیں۔
حمنہ یہ کیا طریقہ ہے مام سے بات کرنے کا۔
اظہر صاحب درشتگی سے بولے۔
طریقہ سکھایا ہی کب ہے مام ڈیڈ آپ نے جانتے ہی کتنا ہیں آپ ہمیں۔۔۔
آپو۔۔۔۔
حمنہ آج شاید ساری بھڑاس نکالنے کے درپے تھی۔ تبھی زکی گھر میں داخل ہوا۔
مام ڈیڈ اگر آپکو ایسا لگتا ہے کہ میری وجہ سے آپکو امبیریسمنٹ اٹھانی پڑی ہے تو آٸ ایم سوری۔۔۔
مجھے بالکل اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ آٸندہ میری طرف سے کوٸ شکایت نہیں ہو گی آپکو۔ بس آپ آپو کو یہ کہنا چھوڑ دیں کہ وہ میری تربیت اچھی نہیں کر سکیں۔
چلیں آپو آپ تھک گٸ ہوں گی ریسٹ کر لیں۔
زکی حمنہ کو کندھوں سے تھامے وہاں سے لے گیا۔
جبکہ ٹینا بیگم دانت پیس کر رہ گٸیں۔
تم نے مجھے چپ کیوں کروا دیا بولنے دیتے نہ۔ مام ڈیڈ کو پتا تو چلتا کہ وہ اپنی اولاد سے کس کدھر دور ہیں۔
آپو آپو آپ کیوں نہیں سمجھتی جو آپکی فیلنگز نہیں سمجھ سکتے ان پر الفاظ ضاٸع کرنے کا بھی کچھ فاٸدہ نہیں ہوتا۔
مام ڈیڈ پریکٹیکل ہیں ان کے لیے یہ رشتے محبتیں وقت کا ضیاع ہیں بس۔۔
کیوں پھر آپ خود کو تکلیف دے رہی ہیں۔
اب ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟؟؟؟
دیکھ رہی ہوں میرا چھوٹا سا بھاٸ کتنا سمجھدار ہو گیا ہے۔
وہ تو میں ہمیشہ سے ہی ہوں بس آپ کو ہی قدر نہیں۔ وہ اسے چھیڑتے ہوۓ بولا۔
کبھی مت سدھرنا تم بدتمیز انسان۔۔۔
صد شکر آپ نے مجھے انسان تو مانا۔۔۔ وہ چڑانے سے باز نہیں آیا۔
زکی کے بچے پِٹو گے مجھ سے تم۔۔۔۔
وہ اس کی طرف کشن پھینکتے ہوۓ بولی۔
ناٸس شاٹ۔۔۔۔ وہ کشن کیچ کر کے اب اس پہ اچھال رہا تھا۔
ڈھیٹ۔۔۔۔
تھیکنس فار دا کمپلیمنٹ گڈ ناٸٹ۔۔۔۔
پاگل۔۔۔۔
یہ دونوں بہن بھاٸ ہی ایک دوسرے کی خوشیوں کا سامان تھے۔ انہوں نے ماں باپ کی محبت کو ایک دوسرے سے ہی پورا کر لیا تھا۔
*******************************
مشی تمہیں کیا سوجھی ساٸیکاٹرسٹ بننے کی اگر بننا ہی تھا تو ڈاکٹر بن جاتی۔
میڈیسن پڑھ لیتی مگر نہیں تمہیں تو پاگلوں کا علاج کرنا ہے نہ۔۔۔۔
خالہ ساٸیکاٹرسٹ پاگل لوگوں کا علاج نہیں کرتے۔
مجھے مت سکھاٶ تم جانتی ہوں میں نفسیاتی لوگوں کا علاج کرتی ہو ہوتے تو وہ بھی پاگل ہی ہیں نہ۔
اور ویسے بھی میں نے تو جہاں تک سنا ہے ماہرِ نفسیات خود بھی نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔
یہ آپکو کس نے کہا خالہ۔۔۔
ہم لوگ باقی لوگوں کی نسبت زندگی کو لوگوں کے رویوں کو گہراٸ تک محسوس کرتے ہیں شاید اس لیے آپ کو نفسیاتی لگتے ہیں۔
جبکہ آجکل کے دور میں تو ہر انسان کو ساٸیکاٹرسٹ سے کنسلٹ کرنا چاہیے یہ آپکو سٹریس سے نکال کر زندگی کی طرف لاتے ہیں۔ آپ بھی ایک دو سیٹنگز۔۔۔
کہنے کا مطلب کیا ہے تمہارا ہاں۔۔۔ میں نفسیاتی مریضہ ہوں؟؟؟ کیا یہی پڑھتی رہی ہو تم اتنی بڑی یونیورسٹی میں اور پھر ملک کے سب سے بہترین ہسپتال میں اگر تم کام کر رہی تو اسکا کیا مطلب ہے تم کچھ بھی کہتی پھرو گی۔
کیا یہی سیکھا ہے کہ اگر بڑے کوٸ سیدھی راہ دکھاٸیں تو انہیں ساٸیکو کہ دو۔
نن نہیں خالہ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ رمشا گبھرا گٸ۔
چھوڑیں نہ آپا مشی کا وہ مطلب نہیں تھا۔
ہاں ہاں زنیرہ تم تو بیٹی کو ہی صحیح کہو گی نہ۔
نہیں آپا آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ مشی تو بس۔۔۔
رہنے دو زونی تمہیں بھی یہی لگتا ہے کہ تمہاری بہن ساٸیکو ہے۔۔۔ انکا رونا شروع ہو چکا تھا۔
جبکہ رمشا افسوس سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔
جو ان پڑھ لوگ تھے ان کا بحث کرنا تو سمجھ آنا تھا مگر پڑھے لکھے لوگوں کا یہ رویہ اسکی سمجھ سے باہر تھا۔
وہ انہیں کیا سمجھاتی جو کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔
********************************
ویسے حمنہ زکی کے معاملے میں تو تم صحیح ذمہ داری نہیں نبھاٸ مگر پھر بھی امید کر رہی ہوں کہ تم اب ہمیں مایوس نہیں کرو گی۔
آج انکی واپسی تھی وہ سارا قصور حمنہ پہ ڈال کر خود کو بری کر چکی تھیں۔
فلاٸٹ کا ٹاٸم ہو گیا ہے ہم چلتے ہیں۔
کاش مام ڈیڈ آپ کبھی ہمیں صرف وارث سمجھنے کے بجاۓ اولاد سمجھیں۔
وہ دکھ سے انہیں جاتا دیکھ رہی تھی جنہوں نے پیچھے پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا تھا۔
زکی کو تو وہ کمی محسوس نہیں ہونے دیتی تھی مگر خود کیا کرتی خود یہ خلا کیسے پر کرتی۔
********************************
ہےے زیک بڈی کہاں ہے یار تُو۔۔؟؟؟
گھر پر ہوں کیوں خیریت؟؟
دس منٹ میں آرہا ہوں تجھے پِک کرنے تیار ہو جا۔۔۔۔
مگر کہاں جانا ہے۔۔؟؟؟
ایک تو تُو سوال بہت کرتا ہے یار ڈیڈ کے سٹرکٹلی آرڈرز ہیں کے آج میں ہاسپٹل آٶں ورنہ وہ مجھے عاق کر دیں گے۔۔۔ تیمور ہنستا ہوا بولا۔
ٹھیک ہے میں ریڈی ہوتا ہوں۔
مسٹر تھامس مسٹر تھامس۔۔۔۔
یس سر۔۔۔
میرے کپڑے نکالیں مجھے دس منٹ میں نکلنا ہے۔
اوکے سر۔۔۔
دس منٹ بعد وہ تیار تھا تیمور اسے پِک کرنے آیا تھا۔
اور اب وہ ہاسپٹل میں موجود تھا۔
تم یہیں رکو میں ڈیڈ سے مل کر آتا ہوں۔
مگر میں یہاں کیا کروں۔
جو تمہیں اچھا لگے وہی کر لو۔۔۔
ارے لیکن تیمور۔۔۔
اوہہہ اب میں کیا کروں پیشنٹس دیکھوں کیا؟؟؟
وہ ادھر اُدھر دیکھتا جا رہا تھا کہ کسی سے ٹکرا گیا۔
آٶچ۔۔۔۔
اوپس ام سو سوری۔۔۔
مسٹر کیا آپ نے یہ قسم کھاٸ ہوٸ ہے کہ جب ملیں گے ٹکراٸیں گے ہی۔۔۔
ھُدا سنبھل چکی تھی تبھی مصنوعی غصے سے بولی۔
سوری میم میں نے سچ میں آپکو نہیں دیکھا۔
کیوں کیا میں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے؟؟؟
ننن نہیں میں تو۔۔۔ زکی کو سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا کہے۔
آآ آپ یہاں پہ کیسے آٸ سب ٹھیک ہے نہ؟؟؟
ہاں سب ٹھیک ہے ڈیڈ کی رپورٹس لینے آٸ تھی۔
زکی نے اسکا مزاج نرم دیکھ کر بات چھیڑی تھی شاید وہ بھی فرصت سے کھڑی تھی تبھی جواب دے دیا۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟؟؟
وہ میں فرینڈ کے ساتھ آیا تھا۔
اسکے ڈیڈ کا ہاسپٹل ہے یہ۔۔۔
اوہ رٸیلی لگتا ہے آپکے فرینڈ کافی امیر ہیں آٸ مین اس ہاسپٹل کے مالک ہیں وہ سچ میں امپریس ہوٸ تھی۔ ظاہر ہے کٸیر ہاسپٹل کا نام ہی کافی تھا اس کا مالک ہونا کوٸ عام بات نہ تھی۔
وہ اگر امپریس ہوٸ تھی تو یہ بھی متوقع تھا یہ ہاسپٹل تھا ہے اتنا شاندار۔۔۔۔
جی وہ تو ہے۔۔۔
چلیں میں چلتی ہوں پھر ملیں گے۔
مگر پھر کیسے ملیں گے میرے پاس تو آپکا کانٹیکٹ نمبر ہی نہیں ہے۔۔
زکی جلدی سے بولا۔
میرا نمبر نوٹ کر لیں۔ اسکو نمبر لکھوا کر وہ چل دی وہ سرشار سا مڑنے لگا۔ اوہ نو میں نے تو اسکا نام ہی نہیں پوچھا۔
چلو کوٸ بات نہیں کال پہ پوچھ لوں گا۔
*************************************
چلیں۔۔۔ سوری یار لیٹ ہو گیا۔
کوٸ بات نہیں چل۔۔
آگے جا کر وہ ایک کمرے کے باہر رک گیا۔۔۔
ایک منٹ یار۔۔۔
اف تیمور یار اب یہاں کیا کام ہے۔
بس ایک منٹ۔۔۔
ہیلو ڈاکٹر مشی ہاٶ آر یو۔۔۔؟؟؟؟
ام فاٸن گڈ ٹو سی یو۔۔۔
کاش میں بھی یہی کہہ سکتا۔۔
رمشا کا چہرہ تاریک ہوا تھا۔ مگر پھر سنبھلتے ہوۓ بولی۔
کوٸ بات نہیں انسان اپنی سوچ کے مطابق ہی لوگوں کے بارے میں راۓ قاٸم کرتا ہے۔۔۔
ویسے کافی بولنے لگی ہیں آپ۔۔۔۔ وہ طنزیہ بولا۔
صد شکر میرا بولنا کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔
کیا یار تم لوگ لڑتے ہی رہو گے کیا اب؟؟؟؟
زکی انکی بحث سے عاجز آکر بولا۔
اوہ زکی یہ ہے ڈیڈ کی فیورٹ ڈاکٹر۔۔۔۔ ڈاکٹر رمشا عرف مشی۔۔۔ ساٸیکا ٹرسٹ ہے۔
اوہ ناٸس ٹو یو مس رمشا عرف مشی۔۔ زکی خوبصورت سی مسکراہٹ سے بولا۔
مگر میں تمہیں مشا۶ بلاٶں گا اوکے۔۔۔
ہممم اوکے۔۔۔
زکی رمشا کو تھوڑا بہتر لگا اسلٸیے مسکراتے ہوۓ بولی۔
ویل مشا۶ اگر کبھی بھی مجھے ساٸیکا ٹرسٹ کی ضرورت پڑی نہ تو تم مجھے اٹینڈ کرنا اوکے۔
زکی مذاقاً بولا۔
چلو زکی ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔
ہاں ہاں چلو۔۔۔
کیا یار اچھی خاصی لڑکی ہے تم اس سے چڑتے کیوں ہو؟؟؟؟
کیونکہ یہ ڈیڈ کی فیورٹ ہے اس لیے مجھے پسند نہیں ہے۔
تیمور غصے سے بولا۔
دیکھ لینا بعد میں کہیں تمہیں پسند ہی نہ آ جاۓ۔
ہونہہہ اٹس امپاسِبل۔۔۔
اچھا بھاٸ چل موڈ خراب مت کر۔۔۔۔
ہمممم چل ریس لگاتے ہیں۔
نہیں میچ کھیلیں گے چل میرے ساتھ۔۔۔۔۔
تیمور اسے ساتھ لے گیا۔۔۔۔
******************************
وہ سب دوست رات کو کلب میں بیٹھے تھے کہ زکی کے فون پر کال آٸ۔
وہ فون لے کر باہر چل دیا واپس آیا تو ایک الگ ہی چمک اس کے چہرے پہ تھی۔
کیا ہوا کس کی کال تھی۔
کچھ خاص نہیں یونہی۔
بھاٸ کچھ خاص نہیں والی کال ہی سب سے خاص ہوتی ہے۔ چکر کیا ہے ہمممم۔۔۔۔
پھر سب کے اصرار پہ اس نے ھُدا کے بارے میں ان کو بتایا تھا۔
اوہو ویر میرا گھوڑی چڑھنے کی تیاری میں لگا ہے۔
ارے نہیں یار پتا نہیں وہ مجھے پسند بھی کرتی ہے یا نہیں اور پھر بمشکل تین دفعہ تو ہم ملے ہیں۔
تُو تین کہہ رہا ہے بھاٸ یہاں ایک ہی ملاقات میں لوگ دل ہار جاتے ہیں۔۔۔
تیمور خوب اسے چھیڑ رہا تھا۔
اب بس بھی کرو تم لوگ کیا پتا ایسا ہے بھی یا نہیں۔
اچھا تو مسٹر زکی ابھی بھی شیور نہیں ہیں۔۔۔۔ بیٹا وہ تجھے یونہی اس ٹاٸم کال نہیں کر رہی۔
وہ سب اسے چھیڑ رہے تھے اور وہ سچ میں اس لے پہ سوچنے لگ گیا تھا۔
پہلی بار کوٸ لڑکی اسکی زندگی میں آٸ تھی جس کی طرف وہ خود سے بڑھا تھا۔ وہ خوش تھا بے انتہا خوش۔۔۔۔۔
***************************
انکی محبت جلد ہی پروان چڑھی تھی۔
زکی سے پیار بھری باتیں کرنا اسکا خیال رکھنا یہ سب ھُدا کا معمول بن گیا تھا۔
اب وہ پہلے کی طرح نک چڑھی نہ رہی تھی زکی کے لیے وہ بھی بدل گٸ تھی۔
زکی نے اس اپنے بارے میں سب کچھ بتایا تھا اگر وہ کسی بات سے انجان تھی تو وہ زکی کا سٹیٹس اسکا بیک گراٶنڈ تھا۔ شاید یہ زکی کے لیے غیر ضروری تھا سو اس نے بتانا ضروری نہ سمجھا۔
اور ھُدا بھی کچھ جاننے کی کوشش نہ کی تھی۔
پہلی پہلی محبت کا سرور ہی اتنا تھا کہ انہیں باقی سب باتیں بے معنی لگنے لگی تھیں۔