گورڈن کالج راولپنڈی کی کینٹین اس وقت طالب علموں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔ یہ امتحانات کے دن تھے۔ لڑکے پرچے دے کر سیدھے کینٹین میں چلے آرہے تھے ۔ایک دو پرچے ہی باقی رہ گئے تھے ۔ اس کے بعد چند ہفتوں کے لئے کالج بند ہو رہا تھا ۔ چھٹیوں کے فورا بعد ان امتحانات کے نتائج آنے تھے اور پھر اگلی کلاسز کا آغاز ہونا تھا۔
طالب علموں کے چہروں پر جہاں ان تعطیلات کی خوشی کا عکس نظر آرہا تھا وہاں ایک دوسرے سے چند ہفتے بچھڑنے کا ملال بھی تھا۔ نوجوانی کے اس دور کی دوستیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ بہت جذباتی عمر ہوتی ہے۔ اس وقت ایسے لگتا ہے کہ دوستوں کے بغیر سانس لینا دوبھر ہو جائے گا ۔ جدائی کا ایک ایک دن بھار ی اور ایک ایک رات کٹھن ہوتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ رات پر لگا کر اُڑ جائے صبح ہو اور انسان سیدھا دوستوں کی منڈلی میں پہنچ جائے ۔ ایک بار اس منڈلی میں بیٹھ جائیں تو دل چاہتا ہے یہ زندگی ایسے ہی ہنستے مسکراتے اور دوستوں کے ساتھ قہقہے لگاتے گزر جاتے۔
کالج کی کینٹین میں مختلف میزوں پر لڑکوں کی مختلف ٹولیاں براجمان تھیں۔ ان میں سے ایک میز پر عامر اور اس کے دوست بیٹھے تھے۔ عامر بی کام سال آخر کا طالب علم تھا۔ اس امتحان کے بعد اسے ڈگری ملنی تھی۔ عامر کے دوسرے تین دوست بھی اس کے ہم جماعت تھے۔ آج وہ بہت اداس تھے! کیوں نہ ہوں آج چار سال کا ساتھ ختم ہو رہا تھا۔ ان کے امتحانات ختم ہو چکے تھے ۔ کل سے کالج آنے اور روزا نہ ملاقات کا سلسلہ ختم ہو رہا تھا۔ گذشتہ چار سالوں میں عامر ، ناصر شجاع اور نواز گہرے دوست بن چکے تھے۔ انہیں ایک دوسرے سے محبت تھی، روز ملنے کی عادت تھی اور آپس میں ڈھیروں باتیں کرنے کا چسکا تھا۔ ان کے لئے ویک اینڈ گزارنا مشکل ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو وہ ویک اینڈ پر بھی کہیں اکھٹے ہو جاتے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر جی نہیں پائیں گے ۔
اور آج ! آج وہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو رہے تھے ۔ آئندہ شاید ہی وہ اکھٹے ہو پائیں کیونکہ وقت اور حالات انہیں ایک دوسرے سے دور کر رہے تھے۔
اگرچہ وہ کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں اکھٹے ہونے اور ملتے رہنے کے وعدے کر رہے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ اب یہ ناممکن ہے۔ وہ چاہیں بھی تو یہ نہیں ہو سکتا تھا ۔ روزی روزگار کے چکر میں معلوم نہیں انہیں کہاں اور کس عمارت کی اینٹ بننا پڑے گا ۔ حالات کا اندھارُخ انہیں کہیں بھی لے جا سکتا تھا۔ وہ کل کہاں ہوں گے یہ آنے والے وقت کی دھند میں پوشیدہ تھا۔ یہ سب کہنے کی باتیں تھیں کہ ہر ہفتے کہیں نہ کہیں اکھٹے ہوں گے۔
آج کی اس آخری محفل میں سب دوستوں نے اپنے اپنے مستقبل کے پلان بھی بتائے ۔ ناصر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کرنے لاہور جا رہا تھا۔ نواز کا بڑا بھائی کراچی میں رہتا ہے وہ وہیں جا کر ایم کام کرنا چاہتا تھا۔ شجاع کے چچا ملٹری اکاؤنٹس میں تھے۔ انہوں نے وہیں شجاع کی نوکری کی بات کی ہوئی تھی۔ اس کے ڈائریکٹر نے شجاع کو نوکری دلوانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ اس نوکری کے ساتھ ساتھ شجاع کا دوسرا اور اصل منصوبہ یہ تھا کہ جب موقع ملا وہ امریکہ ، آسٹریلیا یا کسی یورپی ملک کا رخ کرنا چاہتا تھا۔ وہ پاکستان میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ سب دوست انپے مستقبل کے منصوبوں کا گرمجوشی سے اعلان کر رہے تھے لیکن عامر خاموش تھا۔ نواز نے پوچھا’’ عامر کیوں اُداس بیٹھے ہو تم بھی تو بتاؤ کہ آگے کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
عامر نے اُداسی سے کہا’’ یار میں بھی آگے پڑھنا چاہتا ہوں! اگر میرے بس میں ہو تو ایم بی اے کروں لیکن نہیں کر سکتا‘‘
شجاع نے پوچھا’’ وہ کیوں ؟تم تو ہم تینوں سے زیادہ ذہین ہو۔ پھر تم کیوں ایم بی اے نہیں کر سکتے؟‘‘
عامر نے کہا’’ یار میرے گھر کے حالات اجازت نہیں دیتے۔ میرے والد صاحب دو تین ماہ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ تم لوگ جانتے ہو کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ ایک چھوٹی بہن ہے۔ اس کی اور گھر کی ذمہ داری سب میرے اوپر ہے ۔ میرے ایک چچا امریکہ میں رہتے ہیں وہ مجھے امریکہ لے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن میں وہاں نہیں جانا چاہتا۔ میں پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں۔ یہیں کوئی نوکری کرنا چاہتا ہوں۔ نتیجہ آتے ہی نوکری کی تلاش شروع کروں گا۔ دیکھو کیا ہوتا ہے۔مقابلے کے امتحان کی درخواست میں نے پہلے ہی دے رکھی ہے۔ اس کی بھی تیاری کر رہا ہوں‘‘
شجاع نے کہا ’’عامر میں تو کہتا ہوں چھوڑو مقابلے کے امتحان کو! اگر تمہیں امریکہ جانے کا موقع مل رہاہے تو اسے ضائع نہ کرو۔ یہاں کیا رکھا ہے! یار امریکہ چلے جاؤ گے تو تمہاری زندگی سنور جائے گی‘‘
نواز نے بھی وہی بات کی’’ تمہارے چچا امریکہ میں ہیں۔ وہ سپانسر کرکے تمہیں وہاں کا ویزہ دلا دیں گے۔ تمھیں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرنی چائیے فوراََ کاروائی شروع کر دو‘‘
’’ہاں یار میں بھی یہی کہوں گا تمہیں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیئے‘‘ نواز نے بھی اپنا حصہ دا کیا۔
عامر نے تینوں کی رائے سنی اور پھر بولا’’ یار تم لوگ خواہ مخواہ غیرممالک کو اہمیت دے رہے ہو۔ پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے۔ اگر ہم سب ایسا ہی سوچنا شروع کر دیں تو یہاں کون رہے گا۔ میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہیں جیوں گا اور یہیں مروں گا۔ اپنے ملک کی دال روٹی پر دیس کی مرغ بریانی سے بہتر ہے‘‘
’’خیر مرغ بریانی تو پاکستان میں ہی اچھی ملتی ہے امریکہ میں تو برگر کھانے پڑتے ہیں۔ یہ تمہاری نادانی ہے کہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ پاگل جو زندگی امریکہ میں ہے وہ یہاں کہاں ۔ یہاں رہو گے تو ساری زندگی جوتے چٹخاتے رہو گے ۔ چند سال امریکہ میں لگ گئے تو تمہارے گھر والے بھی خوشحال ہو جائیں گے اور تم خود بھی اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہو جاؤ گے‘‘۔ نواز نے اچھا خاصا لیکچر دے دیا۔
’’میں تم سے اتفاق نہیں کرتا ‘‘عامر نے ٹھوس لہجے میں کہا ’’امریکہ میں رہنے والا ہر شخص اچھی زندگی نہیں گزار رہا اور یہاں بسنے والا ہر آدمی سزا نہیں کاٹ رہا ۔اپنا ملک آخر اپنا ملک ہوتا ہے۔ یہاں کے سرد وگرم سب ہمارے اپنے ہیں۔ ہم ان کے عادی ہیں۔ ہمارے باپ دادا اور ان کے آباؤاجداد سب نے یہیں اپنی زندگیاں گزاری ہیں۔ ہم یہاں کیوں نہیں رہ سکتے۔ ہم ان سے الگ تو نہیں ہیں۔ میں تو کہیں نہیں جاؤں گا ۔یہاں رہ کر جو روکھی سوکھی ملی کھا لوں گا۔ مجھے امید ہے کہ مجھے اچھی نوکری ضرور ملے گی اور انشاء اللہ اپنی محنت سے میں یہاں بھی کوئی مقام حاصل کر لوں گا‘‘
عامر ہٹ کا پکا تھا۔ اصول ، راست باز اور کھرا انسان تھا۔ اسے اپنے وطن سے بے حد پیار تھا اور وطن چھوڑ کر باہر جانے کے سخت خلاف تھا۔ اسے یقین تھا اس کی کوششیں رنگ لائیں گی اور یہاں رہ کر ایک دن اپنا مقام حاصل کر لے گا۔
چند ماہ گزر گئے! عامر کے دوست اپنے اپنے پلان کے مطابق مختلف شہروں میں چلے گئے ۔عامر پنڈی میں اکیلا رہ گیا ۔ رزلٹ آتے ہی اس نے ملازمت کے لئے تگ و دو شروع کر دی۔ انہی دنوں اس کا مقابلے کے امتحان کے لئے بلاوا آگیا۔ عامر کو اسی لمحے کا انتظار تھا۔ آج کا دن امیدوں اور امنگوں سے لبریز تھا۔ وہ پورے شوق ،ولولے اور تیاری کے ساتھ اس امتحان میں بیٹھا۔ امتحان بہت اچھا رہا۔ عامر کو قوی اُمید بلکہ یقین تھا کہ وہ اس میں ضرور سرخرو ہو گا۔
لیکن عامر کی امید بار آور ثابت نہ ہوئی۔ اسے جہاں امتحان میں ناکامی کا صدمہ تھا وہاں اس بات کی حیرت تھی کہ ایسے ایسے لڑکے منتخب ہوگئے تھے جو قابلیت میں اس کے پاسنگ بھی نہیں تھے۔ عامر کے کالج کے چند لڑکے جو نقل لگا کر بمشکل ڈگری لے پائے تھے وہ ملک کے اس سب سے بڑے امتحان میں سرخرو ہو کر عامر کی قابلیت اور اہلیت کو چیلنج اور اُس کے یقین کو ڈانوں ڈول کر گئے تھے۔ یہ عامر کے لئے پہلا اور بہت بڑا دھچکا تھا۔ اسے بڑی مشکل سے یقین آیا کہ یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہو چکا ہے۔
دوسری طرف اس کے گھر میں مسائل کھڑے ہوگئے تھے۔ بنیادی مسئلہ معاشی تھا۔ والد صاحب کی پنشن اور پس انداز کی ہوئی رقم سے گھر کا خرچ تو کھینچ تان کر پورا ہو ہی جاتا تھا۔ اصل اور بڑا مسئلہ عامر کی چھوٹی بہن عمیرہ کی شادی کا تھا۔ اس کی منگنی دور پار کے رشتہ داروں میں کافی عرصہ پہلے ہو چکی تھی۔ اب لڑکے والے رُخصتی پر زور دے رہے تھے۔ لڑکا اچھا تھا لیکن اُس کے والدین بہت لالچی تھے۔ انہوں نے اچانک جہیز کی فہرست عامر کے ابا کے ہاتھ میں تھما دی۔ انہیں تو ہارٹ اٹیک ہونے والا تھا ۔ جہیز کی یہ فرمائش پوری کرنا عامر کے ابا کے بس میں نہیں تھا ۔بلکہ ان سب کے بس میں نہیں تھا۔ یہاں تو گھر کا خرچ بمشکل پورا ہو رہا تھا۔ اتنی قیمتی چیزیں کہاں سے خریدتے ۔ عمیرہ کے سسرال والوں کی فرمائش عامر اور اس کے والدین کے لئے لمحہِ فکریہ بن گئی۔ اس مسئلے کا حل کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔
اپنی اور والدین کی پریشانیوں کا کوئی حل نہ دیکھ کر آخر ایک دن عامر بہن کے سسرال والوں سے بات کرنے ان کے ہاں پہنچ گیا۔ پہلے تو اُس کی خوب آؤ بھگت ہوئی لیکن جب
عامر نے اپنی بہن کے ہونے والے سسر سے جہیز کی فہرست میں کمی کی بات کی تو وہ لوگ ہتھے سے اکڑ گئے۔ نہ صرف انہوں نے مطلوبہ جہیز میں کمی سے انکار کر دیا بلکہ دھمکی دے دی کہ اگر آئندہ ایسی بات کی گئی تو وہ رشتہ توڑ دیں گے۔ عامر نے سمجھایاِ ’’انکل آپ جانتے ہیں ہمارے مالی حالات اس قابل نہیں کہ یہ سب ہم کر سکیں ۔ابا ریٹائر ہو چکے ہیں ۔مجھے ابھی تک نوکری نہیں ملی۔،ہم یہ سب کہاں سے لے کر آئیں؟‘‘
عمیرہ کے سسر نے کہا’’ اس کا حل تمہارے پاس ہے۔ تم امریکہ چلے جاؤ ۔سال دو سال میں اتنا کما لو گے کہ یہ سب کچھ آسانی سے کر سکو گے۔ بلکہ وہاں جا کر اپنے بہنوئی کو بھی وہاں بلا لینا‘‘
’’ لیکن میں امریکہ نہیں جانا چاہتا ‘‘ عامر جھنجلا گیا ۔نہ جانے لوگ ملک بدری کو مذاق کیوں سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ سوچتا تھا’’میں یہیں پاکستان میں رہ کر نوکری کروں گا‘‘
عمیرہ کے سسر نے کہا’’ یہاں اول تو تمہیں نوکری ملے گی ہی نہیں۔ اگر مل بھی گئی تو اس سے کیا ہوگا۔ دیکھو میں تمہیں بتائے دے رہا ہوں۔ گھر جاکر باپ کو بھی بتادینا۔ہم اپنے بیٹے کو ساری زندگی کنوارا نہیں رکھ سکتے۔ اگر بہن کی شادی کرانی ہے تو آپ لوگوں کو جلدی بندوبست کرنا ہوگا ۔اب گھر جاؤ اور والدین سے مشورہ کرکے ہمیں جواب دو ۔ہاں ہماری شرائط تبدیل نہیں ہوں گی‘‘
عامر وہاں سے مایوس لوٹ آیا۔ دوسرے دن پھر نوکری کی تلاش میں پہلے سے بھی زور وشور سے جت گیا۔ اب وہ اپنے تعلیمی معیار سے نیچے کی نوکری بھی کرنے کے لئے تیار تھا ۔ وہ کلرک، سیلز مین حتیٰ کہ ڈرائیور بھی بننے کے لئے تیار تھا لیکن اس کا حصول بھی آسان ثابت نہ ہوا۔ کافی دنوں کی تگ و دو اور بھاگ دوڑ کے بعد ایک دوست کے توسط سے اسُے ایک ایم پی اے کے ڈرائیور کی نوکری ملی۔ عامر نے اسے بھی غنیمت جانا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو کچھ تو گھر والوں کی مدد ہوگی۔
نوکری تو مل گئی لیکن عامر کی آزما ئش ختم نہیں ہوئی۔ دراصل وہ ایم پی اے نہ صرف رشوت خور تھا بلکہ اشتہاری مجرموں کو پناہ دینے والا مجرم تھا۔ وہ رشوت ،دھاندلی اور بدمعاشی ہر غلط ہتھکنڈہ استعمال کرکے ناجائز دولت جمع کر رہا تھا۔ اس کے آدمی شریف اور کمزور لوگوں کے گھروں اور پلاٹوں پر ناجائز قبضہ کر لیتے۔ اگر اصل مالک احتجاج کرتا تو اسے زدوکوب کیا جاتا۔ اسے مارنے اور اس کے بچوں کے اغواء کی دھمکیاں دی جاتیں۔ دوسری طرف اس مظلوم کو پولیس سے بھی تنگ کروایا جاتا۔ اس طرح بے چارہ مظلوم اپنی جائیداد کو بھول کر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان بچانے کی فکر میں لگ جاتا۔ علاقے کی پولیس اور انتظامیہ اس ایم پی اے کے ز یرِاثر تھی اور وہاں مظلوم کی داد اور فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔عامر نے جب یہ سب کچھ ہوتے دیکھا تو یہ نوکری چھوڑ دی۔
بے روزگاری کا عفریت ایک بار پھر منہ کھولے اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ ادھر عامر کے والد اکثر بیمار رہنے لگے۔ پہلے کھانسی شروع ہوئی پھر نمونیہ ہوگیا۔ جب چیک اپ کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں ٹی بی ہو چکی ہے۔ وہ بستر کا ہوکر رہ گئے۔ علاج نہ ہونے ، پریشانیوں کے بوجھ، اچھی خوراک کی عدم دستیابی اور بیٹی کے غم نے انہیں چند دنوں میں قریب المرگ کر دیا۔
عامر کی بہن والدین کے ساتھ ساتھ عامر کے لئے ایک آزمائش بنی ہوئی تھی۔ وہ بے زبان لڑکی زبان سے بے شک کچھ نہیں کہتی تھی لیکن اس کی ویران آنکھیں عامر کے لئے ہزاروں سوال لئے ہو تی تھیں جن کے جواب میں عامر کا سر جھک جاتا۔ روزانہ شام کو جب پورے دن کی بھاگ دوڑ کے بعد وہ ناکام گھر لوٹتا تو چولہے کے پاس بیٹھی ماں کی امید بھری نظریں اس پر ٹک جائیں۔ عامر ان نظروں کا مفہوم جانتا تھا لیکن اس کے پاس ان نظروں کا جواب نہ تھا۔
باپ بستر پر لیٹا کھانس رہا ہوتا ۔ عامر گھر پہنچتا تو وہ کوشش کرکے کھانسی روکتا ، بیٹے کے چہرے پر کامیابی کے آثار ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ۔جب اُسے یہ آثار نظر نہ آتے تو اس کی کھانسی لوٹ آتی۔ وہ کھانستے کھانستے نڈھال ہوجاتا۔
عامر اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنی بہن کی امید بھری اور بے بس نظروں کا مطلب سمجھتا تھا۔ پھر ان کے چہروں پر پھیلنے والی نا امیدی کی سیاہی کو بھی جانتا تھا ۔ گھر والوں کی امید کی ڈور ٹوٹتے دیکھ کر اس کی تھکاوٹ کئی گنا بڑ جاتی تھی۔ اسے اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ محسوس ہونے لگتی تھی۔ ناکامی اور مایوسی اس کے اندر گھا ؤسا بنانے لگی تھیں۔ ڈگری لینے کے بعد جو جوش اور ولولہ اس کے دل میں تھا اب ماند پڑ چکا تھا۔
نوکری کی تلاش میں مسلسل ناکامی سے اس کی عزت نفس بھی متاثر ہو رہی تھی۔ ہر انکار اس کی خودی کے جذبے کو ضرب لگا رہا تھا۔ اس کی خوداعتمادی ، توکل اور جذبہ حب الوطنی پر مسلسل چوٹیں لگ رہی تھیں ۔عامر اس وقت خود کو ایک پریشر ککر میں محسوس کر رہا تھا جس پر ہر جانب سے شدید دباؤ بڑھ رہا تھا ۔اسے تازہ ہوا کا ایک جھونکا اور روشنی کی ایک کرن کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
تاہم اس کی کوششیں کم نہیں ہوئیں۔و ہ ہر اس جگہ درخواست لے کر موجود ہوتا ،جہاں سے نوکری ملنے کی ذرہ سی بھی امید ہوتی۔ یہ وہ آسامیاں تھیں جو اس کی تعلیم اور ڈگری کے عین
مطابق ہوتیں۔ لیکن اسے حیرت ہوتی جب اسے انٹرویو تک کے لئے نہیں بلایا جاتا۔ اگر کہیں بلایا بھی جاتا تو انٹرویو لینے والے کے رویے سے صاف لگ رہا ہوتا کہ یہ سب رسمی کارروائی ہے اصل انتخاب پہلے ہی ہو چکا ہے۔
آخر ایک دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا عمیرہ کے سسرال والوں نے عمیرہ سے رشتہ توڑ دینے کا اعلان کر دیا۔ وہ دن عامر کے گھر والوں کے لئے ماتم کا دن تھا۔ اس دن عمیرہ کی آنکھوں کی رہی سہی روشنی بھی بجھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں موتی سے جھلملا رہے تھے۔ ماں کی آنکھیں ساون بھادوں کی برسات کی طرح برس رہی تھیں۔باپ بیماری کی اذیت اور بیٹی کے دکھ سے مزید لاغر نظر آرہا تھا۔ اس دن عامر کو اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنی بہن کی آنکھوں میں امید کی جگہ نفرت نظر آ ئی، عامر کے لئے نفرت!
عامر جو جوان تھا، تعلیم یافتہ تھا، والدین اور بہن کا اکلوتا سہارا تھا۔لیکن انہیں یہ سہارا نہیں مل سکا تھا۔ عامر ان کے لئے کچھ نہیں کر سکا تھا۔ بلکہ ان کے لئے بوجھ بن گیا تھا۔
وہ خود کو واقعی بوجھ سمجھ رہا تھا۔ اسے اپنا کوئی مصرف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ کوئی فرض پورا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ نہ والدین کا فرض ، نہ بہن کا فرض اور نہ ہی اپنی مٹی کا فرض ۔
وہ اس مٹی پر بوجھ بن گیا تھا۔
اگلے روز صبح وہ امریکہ کے سفارت خانے میں ویزے کا فارم بھر رہا تھا۔