ٹیکسی ڈرائیور چند منٹ تک خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا پھراچانک گویا ہوا ’’آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟ ‘‘
لب ولہجے اور رنگت سے وہ بھی ایشیائی نظر آرہا تھا لہذا میں نے آسٹریلیا کے بجائے اسے پاکستان بتایا۔ اس نے اُردو میں کہا ’’میرا تعلق بھی پاکستان سے ہے‘‘
میں نے انگریزی اور اُردو کا تکلف برطرف رکھتے ہوئے پنجابی میں کہا’’ بھئی! یہاں شدھ گوروں کے دیس میں اپنے ہم وطن سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔میرا نام طارق مرزا ہے اور آپ؟‘‘
’’ جی ! اسد ملک‘‘
’’ اسد! کب سے یہاں ہیں؟ ‘‘
’’ جی پاکستان چھوڑے تو دس سال ہو گئے ہیں ۔لیکن یہاں لیوژرن میں پچھلے چھ سا ل سے رہ رہا ہوں۔ میں پانچ سال سے یہاں ٹیکسی چلا رہا ہوں لیکن آپ میرے پہلے پاکستانی پیسنجر ہیں ۔یہاں دنیا بھر کے سیاح آتے ہیں لیکن میں نے کبھی کوئی پاکستانی نہیں دیکھا‘‘
’’ اچھا! ہو سکتا ہے کچھ اور پاکستانی بھی یہاں آئے ہوں لیکن آپ کی ان سے ملاقات نہ ہوئی ہو؟ ‘‘میں نے کہا
’’جی! ہو سکتا ہے‘‘
’’ اسد آپ کے علاوہ یہاں اور پاکستانی بھی رہتے ہیں ‘‘
’’پانچ چھ لوگ ہیں ۔ان میں سے دو فیملیاں ہیں اور ایک صاحب کنوارے ہیں ۔اچھا ہے جی! یہاں زیادہ پاکستانی نہیں رہتے اور نہ گھومنے کے لئے زیادہ آتے ہیں‘‘ اسد نے کچھ عجیب سے لہجے سے کہا۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر اداسی کا رنگ بکھرا نظر آیا۔ میں نے اسے کریدنے کے لئے پوچھا’’ آپ کیوں نہیں چاہتے کہ یہاں زیادہ پاکستانی آکر رہیں یا پاکستانی سیاح یہاں آئیں ۔کیا آپ اپنے ہم وطنوں کو پسند نہیں کرتے؟ ‘‘
اسد نے جیسے تڑپ کر کہا’’ نہیں جی! یہ بات نہیں ہے۔ کسی پاکستانی کو دیکھ کر میرا سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ مجھے آپ سے اپنے وطن کی خوشبو آرہی ہے۔ میں تو یہاں رہ بھی مجبوراً رہا ہوں۔ اگر میرے بس میں ہو تو ایک دن بھی یہاں نہ رُکوں اور اُڑکر وطن پہنچ جاوٗں‘‘
’’ میرا سوال تو ابھی تک وہیں ہے کہ آپ پاکستانیوں کو یہاں کیوں نہیں دیکھنا چاہتے ؟ ‘‘
’’جی! مجھے ڈر لگتا ہے‘‘ اس نے کہا
میں نے مزید حیراں ہو کر پوچھا’’ کس سے؟ پاکستانیوں سے؟‘‘
’’نہیں جی! اپنی قسمت سے! ‘‘
’’میں سمجھ نہیں سکا! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا
’’ چھوڑیں مرزا صاحب ! یہ لمبی کہانی ہے۔ آپ یہاں گھومنے پھرنے آئیں۔خوشگوار وقت گزارنے آئے ہیں ۔میں اپنی کہانی سے آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا ‘‘
’’ مائی ڈیئر اسد ملک ! آپ مجھے نہیں جانتے۔ میں دنیا گھومنے ضرور نکلا ہوں لیکن میری دلچسپی کا اصل مرکز انسان ہے عمارتیں، پہاڑ اور دریا نہیں۔ انسان اور اس کے اندر پوشیدہ کہانیاں ہی مجھے دوسرے جہانوں کی سیر کراتی ہیں۔ نئے نئے جہانوں اور نئے نئے کرداروں کے ذریعے میری سیاحتی حس کوتسکین مہیا کرتی ہیں۔ اگر ایسا کوئی کردار مجھے نظر آجائے تو ان پتھروں اور جنگلوں سے زیادہ اس کے دل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اصل سیاحت ہی یہی ہے کہ دلوں کی دنیا میں جھانک کر نئے نئے جذبوں اور تجربوں سے خود کو روشناس کر ا یا جائے ۔ دلوں کی اس دنیا سے زیادہ دلچسپ چیز کوئی نہیں ہے‘‘
اسی دوران ٹیکسی ایک بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے فارم کے مرکز میں بنے مکان کے سامنے جا کر رک گئی۔ یہ فارم کم از کم پانچ ایکڑ کا تھا۔ جس میں پھول، پودے اور پھلدار درخت ہر طرف بہار دکھا رہے تھے۔ فارم کے ایک حصے میں مجھے چند گھوڑے ، گائیں اور بھیڑیں بھی نظر آرہی تھیں۔ گاڑی رکتے ہی اسمتھ اور میری باہر نکل آئے۔ اسد ملک نے گاڑی سے اتر کر ہولے سے کہا’’ آپ کے سوال کا جواب کافی طویل ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہاں کب تک رکیں گے؟ مجھے وقت بتا دیں میں آپ کو لینے آجاوٗں گا اور باقی باتیں پھر ہوں گی‘‘
میں نے کہا’’ یہ ٹھیک ہے۔ آپ نو بجے آجائیں میں تیار ملوں گا‘‘
میں نے جب اسے کرایہ دینا چاہا تو اسد نے میرا ہاتھ روک دیا اور بولا’’ مجھے شرمندہ تو نہ کریں۔ آپ نو بجے تیار رہیں میں پہنچ جاوٗں گا‘‘
اس نے یو ٹرن لیا اور ہاتھ ہلاتا ہوا واپس چل دیا۔
میں ان دنوں یورپ کی سیاحت پر نکلا ہوا تھا۔ لندن سے میں نے ایک گروپ میں شمو لیت اختیار کر لی ۔ہم اس دن سوئزر لینڈ کے انتہائی پر فضا پہاڑی شہر لیوزرن پہنچے تھے۔وہاں اتفاق سے ایک سوئس جوڑے سے ملاقات ہو گئی جو پاکستان اور پاکستانیوں کے عاشق تھے ۔ اسمتھ اور میری نامی اسی جوڑے کی دعوت پر اس شام میں شہر سے قدرے باہر ان کے فارم ہاؤس جارہا تھا۔ یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ میرا ٹیکسی ڈرائیور پاکستانی نکلا۔
اسد ملک نے پورے نو بجے ہارن دیا۔ میں اسمتھ اور میری سے اجازت لے کر باہر نکل آیا۔ دونوں میاں بیوی نے بہت پیار سے مجھے رخصت کیا۔ میں نے بھی ان کی محبت بھری دعوت اور ان کے خلوص کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔ میری اور اسمتھ کو خدا حافظ کہہ کر میں دروازہ کھول کر اسد کے برابر پیسنجر سیٹ پر جا بیٹھا۔ اسد نے پوچھا’’ کہیے ! کیسی رہی آپ کی دعوت ؟ ‘‘
’’اچھی ! بہت اچھی! ‘‘
’’ان گوروں کی خوراک توبہت مختلف ہے۔ وہاں آپ کے کھانے کے لائق کیا ہوگا؟‘‘ اس نے کہا
’’ ہاں! ہمارے ہاں سے بہت مختلف ۔ دیکھا جائے تو ہمارے حساب سے یہ کھانا نہیں تھا۔ اسے صرف اسنیکس کہا جا سکتا ہے۔ ہم دو گھنٹے تک کچن میں ہی بیٹھے رہے۔ وقفے وقفے سے سوپ، سلاد ، مکئی کے بھٹے ،کیک اور کافی سے گپ شپ کے درمیان شغل کرتے رہے‘‘
’’ یہی کل ڈنر تھا ؟‘‘ اسد نے پوچھا
’’ اس کے علاوہ پیار، خلوص اور محبت بھی اس میں شامل تھی۔ بہرحال ان کے کھانے پاکستان کی طرح نہیں۔ جہاں بیک وقت مختلف ڈشیں سامنے رکھی جاتی ہیں۔ بیک وقت سب سے انصاف کرنا پڑتا ہے اور دس منٹ کے بعد ہاتھ دھو کر ڈکار لیتے ہوئے گھر کی جانب چل پڑتے ہیں۔ پاکستان میں دعوتوں میں کھانا اتنا زیادہ کھایا جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ زندگی کا پہلا اور آخری کھانا ہے۔ اس کے بعد کولڈ ڈرنک یا پانی کے تین چار گلاس غٹاغٹ حلق میں انڈیل کر کھانے کو نیچے اتارا جاتاہے۔ اگلے دس بارہ گھنٹے بلکہ ایک آدھ دن کے لئے پیٹ میں ایک تنکے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ بعض صاحبان کا تو یہ فارمولہ ہے کہ کھانااتناکھانا چاہئیے کہ یا تو میز پر کچھ باقی نہ رہے یاپیٹ میز سے ٹکرانا شروع ہو جائے۔ دعوتوں اور پارٹیوں میں سب سے پہلے کھانا لینے اور انتہائی سرعت سے کھانے کا تو جیسے مقابلہ ہوتا ہے۔ پارٹیوں میں کھانا لگتے ہی لوگ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ایک منٹ کی تاخیر ہو گئی تو کھانے کے لئے کچھ بچے گا ہی نہیں۔ اس وقت لوگ اپنے ساتھ آئے ہوئے دوستوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مرغی کی ٹانگوں اور بھنے ہوئے گوشت کے علاوہ میز پر اور بھی بہت ساری ڈشیں سجی ہیں۔ ایسی دعوتوں میں سبزی یا دال کو ہاتھ لگانا تو جیسے گناہ سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ روٹی اور چاول لینے کی بجائے صرف گوشت کھاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک دعوت میں ہم چند دوست موجود تھے۔ ایک صاحب نے جب ایک بڑی سی پلیٹ صرف گوشت سے لبا لب بھر لی تو ایک دوسرے دوست نے اسے ٹوکا کہ یہاں دوسری ڈشیں بھی رکھی ہیں۔ اس نے منہ بنایا، ہاتھ جھٹکا او کہا’’ ہٹاوٗ! دال اور سبزی کون کھاتا ہے‘‘
تیسرے بے تکلف دوست نے کہا’’ تم تو ایسے کہہ رہے جیسے گھر میں بھی صرف گوشت ہی کھاتے ہو‘‘
ایک اور دوست کو بھی موقع مل گیا۔ اس نے بھی اسے رگیدنے کے لئے کہا’’ ہاں! گھر میں تو جیسے روز بکرا ذبح ہوتا ہے‘‘
ایک دو اور دوستوں نے بھی اس پر طنزیہ فقرے کسے۔ لیکن وہ صاحب سب دوستوں کے مذاق کو نظر انداز کر کے گوشت سے بھری ہوئی پلیٹ سے انصاف کر تے رہے۔ جب پلیٹ خالی ہوئی تو انہوں نے اسے دوبارہ بھر لیا۔ واپس میز پر آکر بیٹھے اور بولے’’ بس یا کسی اور کو بھی کچھ کہنا ہے۔ اب آپ سب توجہ سے میری بات سنیں کہ میں گھر میں کیا کھاتا ہوں۔ تو
بھائی گھر میں روزانہ دال یا سبزی پکتی ہے۔ وہی کھاتا ہوں۔ ایسی دعوتوں اور پارٹیوں میں ہی تو گوشت کھانے کو ملتا ہے۔ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں کہ یہاں آکر بھی دال ہی کھاوٗں‘‘ پھر انہوں نے مزید اضافہ کیا ’’آخر ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق جسم کو پروٹین کی مطلوبہ مقدار بھی تو مہیا کر نی پڑتی ہے۔ وہ مہینے میں ایک دو بار پارٹی میں ہی جا کر پوری ہوتی ہے‘‘
سڈنی میں میرے ایک دوست ڈاکٹر ہیں۔ وہ مجھے ہمیشہ موٹاپے اور کولیسٹرول سے ڈراتے رہتے ہیں۔ مسالے دار کھانوں سے پرہیز کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اکثر پارٹیوں میں ان ڈاکٹر صاحب کو بھی میں نے کھانا کھاتے دیکھا ہے ۔ وہ صاحب گوشت والی ڈشوں سے پلیٹ بھر بھر کر خود ایسے کھا رہے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ جسم میں پروٹین کی مطلوبہ مقدار سال بھر کے لئے جمع کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو دن سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ انہیں کھاتے دیکھ کر لگتا ہے کہ اگلے دو دن بھی ان کو کھانے کی حاجت نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود ان کی سرجری میں جب بھی جاؤ ہمیں سبزیاں اور سلاد کھانے کی تلقین کرتے ہیں۔ گوشت اور موٹاپا بڑھانے والے دوسرے کھانوں سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے ڈاکٹر صاحب ہیں وہ ہمیشہ مجھے سگریٹ نوشی ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ سگریٹ نوش اپنی قبر خود کھودتا ہے۔ لیکن یہ ڈاکٹر صاحب خود ہر تین مریضوں کو دیکھنے کے بعد سرجری کے پیچھے بنے صحن میں جا کر سگریٹ کا دھواں اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ پارٹیوں میں جتنی سگریٹ فری ملیں، پی لیتے ہیں۔ ہاں اتنا پرہیز ضرور کرتے ہیں کہ اپنے پیکٹ سے نہیں پیتے ۔ برانڈ کی پروا کئے بغیر ہر دوست کے پیکٹ سے سگریٹ لے کر ایسے کش لگاتے ہیں جیسے مریضوں کو دئے گئے مشورے کے مطابق صبح کی تازہ ہوا میں لمبے لمبے سانس لے رہے ہوں۔ یہ ڈاکڑ صاحب کافی دوست دار اور گپ شپ کے شوقین ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ سگریٹ نوشی ترک کر رہے ہیں۔لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک پارٹی میں جب انہوں نے مجھ سے سگریٹ طلب کی تو میں نے پوچھا ’’ڈاکڑ صاحب! آپ نے ابھی تک سگریٹ چھوڑے نہیں‘‘
کہنے لگے ’’خرید کر پینے چھوڑ دیئے ہیں‘‘
کھانے اور سگریٹ نوشی کی میری باتوں کے دوران پتا ہی نہیں چلا اور ہماری گاڑی ایک دو منزلہ عمارت کے کار پورچ میں جا رکی ۔ اس عمارت میں اُوپر نیچے آٹھ فلیٹ تھے۔ اسد نے گاڑی کا انجن بند کرتے ہوئے کہا’’ آئیے‘‘
میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ دراصل میں یہ توقع کر رہا تھا کہ اسد مجھے کسی کافی شاپ وغیرہ میں لے کر جائے گا ۔ لیکن یہ تو اس کا گھر لگتا تھا۔ اس نے میرا دروازہ کھولتے ہوئے پھر کہا’’ آئیے‘‘
اسد ملک کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا ۔ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔ اسد نے ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکٹایا تو اندر سے سوئس زبان میں کچھ پوچھا گیا۔ جس کا مطلب میں نے اخذ کیا کہ کون ہے؟ اسد نے پنجابی میں کہا ’’میں ہوں دروازہ کھولو‘‘
اسد کی بیوی نے دروازہ کھولا اور ہم نفاست سے سجے ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے۔ اسد کی بیوی جس کا نام شبانہ تھا۔ اسد نے اس سے میرا تعارف کروا یا۔ اس نے بیوی کو میرے بارے میں بتایا کہ میں آسٹریلیا سے یورپ کی سیر کے لئے آیا ہوں ۔ اسد پنجاب کی دھرتی کا روایتی گبرو جوان تھا۔ گھنگریالے بال ، کالی آنکھیں، دراز قد اور مضبوط ہاتھ پاوٗں۔اسد کی طرح قدرت نے شبانہ کو بھی مثالی حسن سے نوازا تھا۔ شبانہ حسن و نزاکت کا مرقع تھی۔ حسین کتابی چہرہ ، بڑی بڑی آنکھیں، چہرے پر دودھ کی ملائی کا پر تو ، گوری رنگت اور صراحی دار گردن۔ قدرت نے اس جوڑی کو فرصت میں تخلیق کیا تھا۔ اسد اور شبانہ کی جوڑی خوب تھی۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ خدا اس جوڑے کو نظرِ بد سے بچائے۔
اس وقت اگرچہ رات کے دس بجے تھے۔ لیکن ابھی تک دن کی روشنی باقی تھی۔ رسمی علیک سلیک اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد اسد نے بیوی سے کہا’’ بھئی ! خالی باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا ۔کچھ کھانے پینے کا بندوبست بھی کریں‘‘
میں نے اسد سے کہا’’ آپ کو تو معلوم ہے کہ میں ابھی کھانا کھا کر آرہا ہوں۔ اس لئے میرے لئے کسی تکلف کی ضرورت نہیں‘‘
اسد ہنس کربولا ’’مجھے علم ہے آپ کیا کھا کر آئے ہیں ۔میں نے خود بھی کھانا ابھی تک نہیں کھایا۔ آپ گوروں کا کھانا تو کھا کر آئے ہی ہیں اب کچھ دیسی کھانوں سے زبان کا ذائقہ بدل لیں‘‘
لگتا تھا اسد نے شبانہ کو میری آمد سے پہلے ہی مطلع کر دیا تھا ۔تھوڑی ہی دیر میں وہیں ڈرائنگ روم کی کافی ٹیبل پر ہمارے آگے گرم گرم بریانی اور لذیذ شامی کباب موجود تھے ۔ساتھ میں قورمہ اور چپاتیاں بھی تھیں۔ میں اگر واپس ہوٹل گیا ہوتا تو اسمتھ اور میری کے ہاں کھائے ہوئے مکئی کے بھٹوں اور سلاد کو ہی پورا کھانا سمجھ کر اب سونے کی تیاری کر رہا ہوتا ۔لیکن ا یک پردیسی ہونے کی حیثیت سے اس اجنبی ملک اور اجنبی شہر میں گھر کے بنے ہوئے ان ذائقے دار کھانوں سے انصاف نہ کرناکفرانِ نعمت تھا۔ میں تھوڑا کھا کر ہاتھ
کھینچتا تو اسد اور شبانہ اصرار کر کے میری پلیٹ میں کچھ اور ڈال دیتے۔ خصوصاً شبانہ بھائی کہتی تو بہت اچھا لگتا۔ بہت دنوں بعد گھر کا ماحول اور کھانا نصیب ہوا تھا۔ جس میں اہلِ خانہ کے خلوص اور محبت کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ میں اس حسین جوڑے کے خلوص اور محبت سے بہت متاثر ہوا ۔لگتا تھا کہ قدرت نے انہیں ظاہر ی حسن کے ساتھ ساتھ باطنی خوبصورتی اور محبت کرنے والے دلوں سے بھی نوازا ہے۔ کھانے اور چائے کے ساتھ ساتھ باتوں کا دور چل نکلا ۔میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا او ر اسد سے اس کی کہانی سننے کی خواہش ظاہر کی۔ اسد نے مجھے بتایاکہ پچھلے دس سال سے یورپ میں رہتے ہوئے میں پہلا شخص ہوں جسے وہ اپنی کہانی سنا رہے ہیں۔
میرا تعلق پنجاب کے وسطی علاقے کے ایک چھوٹے سے شہر سے ہے۔ میری آنکھ ایک نچلے درجے کے زمیندار گھرانے میں کھلی۔ ہماری چند ایکڑ زمین تھی جس کی دیکھ بھال میرے والد صاحب کر تے تھے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ ان کے تمام پیار، ساری محبتوں اور توجہ کا واحدمرکز ۔میں بارہ سال کا تھا جب میری ماں چل بسی ۔ ماں کی جدائی میری زندگی کا بہت بڑا المیہ تھا ۔ ماں کی رحلت لڑکپن کی لااُبالی عمر کے باوجو میرے دل و دماغ پر ایک گہرا صدمہ ثبت کر گئی۔ میری ماں جو پیار اور ممتا کا خزانہ تھی جیسے مجھے تہی دامن کر گئی۔پیشتر اس کے کہ میں بالکل ہی بکھر جاتا میرے والد نے مجھے اپنی محبت اور شفقت کی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ والد صاحب پہلے ہی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ماں کے جانے کے بعد تو جیسے مجھے ایک پل کے لئے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے ۔ وہ چاہتے تو دوسری شادی کر سکتے تھے لیکن میری وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ مجھ پر سوتیلی ماں کا سایہ نہیں پڑنے دینا چاہتے تھے۔ ان کی ساری توجہ میری تعلیم و تربیت پر مرکوز ہو گئی۔ وہ خود برائے نام ہی پڑھے ہوئے تھے لیکن ان کے دل میں علم کا شوق بہت تھا۔ وہ علم اور اہل علم کی بہت قدر کرتے تھے۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ایک کامیاب اور اچھا شہری بنوں اور علم و فکر کی شمع سے اپنے دل و دماغ کو منور کروں ۔ دنیا میں نام کماوٗں اور ان کا نام بھی روشن کروں۔ والد صاحب کی اس خواہش کا مجھے بہت احترام تھا۔میں نے بھی اس مد میں کوئی دقیقہ فردگزاشت نہیں کیا۔ پوری محنت اور جانفشانی سے تحصیلِ علم میں جُت گیا۔
پڑھنے کا مجھے خود بھی شوق تھا اور میرا دماغ بھی اچھا تھا۔ گھر میں مجھے کوئی پڑھانے والا نہیں تھا۔ بلکہ مجھے گھر آکر والد صاحب کا زمینداری کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے آسانی سے میڑک سائنس کے ساتھ فرسٹ دویژن میں پاس کر لیا۔
میٹرک کے بعد مجھے والد صاحب سے دُور لاہور جانا پڑا ۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہیں ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔ ہفتے کے ہفتے گھر جاتا جہاں والد صاحب جیسے میرا راستہ دیکھ رہے ہوتے۔ ایک دن اور دو راتیں اکھٹی گزا ر کر میں واپس لاہور چلا آتا ۔ والد صاحب اگلے ویک اینڈ کا انتظار کرنے لگتے۔ مجھے ان سے جدائی اور ان کی تنہائی کا بہت احساس تھا۔ لیکن اس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں تھا ۔ میرا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا ۔یہ خواب مجھے میرے والد نے ہی دیا تھا۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے ہم باپ بیٹا عارضی طور پر جدا ہوئے تھے۔ میں تو ہوسٹل میں دوستوں کے ساتھ رہتا تھا مگر والد صاحب گھر میں اکیلے سوچوں اور انتظار میں گھلتے رہتے۔
گھلنے کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ وہ تنہائی ، شریک حیات کی دائمی جدائی ، شب و روز کی مشقت سے بیمار رہنے لگے تھے ۔میں جب بھی انہیں ملنے جاتا تو ان کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوجاتا ۔ وہ میرے سامنے اپنی بیماری کو ظاہر نہ ہونے دیتے بلکہ میرے سامنے ہنستے بولتے اور خوش رہنے کی پوری کوشش کرتے۔ مجھے اس وقت نہ اتنی سمجھ تھی اور نہ میرے پاس کوئی طریقہ تھا جس سے ان کی بیماری کے بارے میں جان سکوں۔ اس وقت میں ایم بی بی ایس کے چوتھے سال میں تھا جب والد صاحب کی بیماری کا مجھے علم ہوا۔ وہ بھی اس طرح کہ میں زبردستی انہیں اپنے ساتھ لاہور لے کر گیا جہاں میرے ایک استاد ڈاکٹر نے اپنے کلینک میں ان کا چیک اپ کیا ۔
مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ والد صاحب کے پھیپھڑے تقریباً جواب دے چکے ہیں۔میں اپنی پڑھائی اور باقی سب کچھ بھول کر والد صاحب کا علاج کرانے میں جت گیا۔ اس کے لئے میں کئی دوستوں کا مقروض بھی ہو گیا۔ ان کا علاج میں نے اچھے ڈاکٹروں سے کرا یا۔ لیکن جب موت آتی ہے تو ڈاکٹر اور دوائیاں اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ میرے والد صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ایک دن دنیا میں میرا واحد سہار ا،میرا باپ ، میری ماں ، میرا دوست، میرا سب کچھ، میری بانہوں میں دم توڑ گیا۔ میں اس بھری دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا۔ محبتوں کا گھنا اور سایہ دار درخت یکلخت میرے سر سے اٹھ گیا۔ میں دنیا کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے سر کھڑا رہ گیا۔
یہ صدمہ میرے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ لیکن میرے دوستوں اور اساتذہ نے مجھے بہت سہارا دیا۔ والد صاحب کی علالت کے دوران اور ان کے انتقال کے بعدذہنی یکسوئی کی عدم موجودگی کی وجہ سے میری پڑھائی بھی متاثر ہوئی۔ لگتا تھا کہ میں اس سال کا امتحان نہیں پاس کر سکوں گا۔ لیکن آخری تین ماہ میں نے سر توڑ کوشش کی کیونکہ میں والد صاحب کے خواب کو شرمندہِ تعبیر کر نا چاہتا تھا۔ خدانے میری مدد کی اور اس امتحان میں بھی سرخرو ہوا۔ اب ڈاکٹر بننے کے لئے صرف دو سال کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے میں نے زمین کا کچھ حصہ فروخت کر دیا۔ میرا اور والد صاحب کا مشترکہ خواب عنقریب پورا ہونے والاتھا اور منزل سامنے نظر آرہی تھی۔ لیکن بعض اوقات انسان کی زندگیوں میں وہ کچھ ہو جاتا ہے کہ جو اس نے خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ منزلیں اور راستے اچانک تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی قسمت پر کس کا اختیار ہے۔ میرے ساتھ بھی
کچھ ایسا ہی ہوا۔
شبانہ میری کلاس فیلو تھی۔ وہ ہمارے ہی علاقے کے ایک بہت بڑے زمیندار کی بیٹی تھی ۔ اس زمیندار کی زرعی زمین لامحدود اور دولت بے حساب تھی۔ زمینوں کے علاوہ فیکٹریاں اور دوسرے کاروبار بھی تھے۔ وہ نہ صرف اپنے علاقے بلکہ قومی سطح کے سیاستدان تھے۔ علاقے کے لوگوں پر ان کی سیاست سے زیادہ ان کی زمینداری اور دہشت کا اثر تھا۔ ان کے خلاف انتخابات میں کھڑا ہونا تو درکنار کوئی ایسا سوچ تک نہیں سکتا تھا۔ پولیس اور دیگر سرکاری انتظامیہ جیسے ان کی مٹھی میں تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ اور دارلحکومت میں بادشاہ گر کہے جا سکتے تھے۔ باپ کے مزاج کے برعکس شبانہ جتنی خوبصورت تھی اتنا ہی دردِ دل رکھنے والی لڑکی تھی۔ اسے باپ کی سیاست اور زمینداری کے طور طریقوں سے سخت اختلاف تھا۔ لیکن ظاہر ہے اس کی باپ کے آگے کیا چل سکتی تھی۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ اس کے بے انتہا شوق کو مد نظر رکھ کر اس کے باپ نے اسے میڈیکل کالج میں داخلہ دلوادیا تھا۔ تاہم وہ اپنی بیٹی کو نوکری کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے تھے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی پذیرائی کے پیش نظر انہوں نے بیٹی کے شوق میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور اسے ڈاکٹر بننے کا موقع دے دیا۔
وہی شبانہ میری کلاس فیلو ، پھر دوست اور پھر جانِ جاناں بنی۔ سب کچھ خود بخود ہوتا چلا گیا۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب کب اور کیسے آئے اس کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ایسے لگتا تھا کہ قدرت نے ہمیں یکجا کرنے کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی ۔ ورنہ اس انتہائی امیر گھر کی لڑکی کا میرے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا۔ میرا کوئی آگے تھا نہ پیچھے ۔ اس کے مقابلے میں شبانہ کو ایک بہت بڑے زمیندار اور سیاسی خاندان کی نورِ نظر ہونے کی وجہ سے اپنے جیسے کسی بڑے خاندان میں ہی بیاہ کر جانا تھا۔ محبت اور محبت کی شادی کا شبانہ کے خاندان میں کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ خاص طور پر لڑکی کی ایسی جسارت تو ناقابلِ معافی تھی۔ اس حقیقت کا شبانہ اور مجھے بخوبی علم تھا ۔لیکن دل پر کس کا زور ہے ۔ ہم دونوں بھی دِل کے ہاتھوں مجبور تھے ۔ پھر بھی ہم ہر ممکن احتیاط برت رہے تھے ۔کالج سے باہر نہیں ملتے تھے۔ کالج میں بھی ہماری ملاقاتیں محدود اور مختصر وقت کی ہوتی تھیں ۔ ہم مستقبل کے سنہرے خواب بھی دیکھتے، جو ہر انسان کا حق ہے۔ ان خوابوں میں بکھرے جا بجا زہریلے کانٹوں پر بھی ہماری نظر تھی۔ اس کشمکش کے ساتھ میڈیکل کالج کی شبانہ روز پڑھائی بھی جاری تھی۔مستقبل کے شوق اور اندیشوں اور آس نراس کے جذبوں کے ساتھ زندگی کی نیا کبھی ڈوبتی اور کبھی اُبھر تی دکھائی دیتی تھی۔
اچانک اس میں ایک ایسا زبردست طوفان آیا، جس میں سب کچھ بہہ گیا۔ ہم دونوں کے ڈاکٹر بننے کا خواب ، میرا مستقبل ، میرے مرتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں سجے سپنے، انسانیت کی خدمت کا خواب اور اپنی مٹی، سب کچھ چھن گیا اور ہم دربدر اور ملکوں ملکوں کی خاک چھانتے ہوئے آج یہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ میں ڈاکٹرکے بجائے ٹیکسی ڈرائیور بن گیا ہوں اور شبانہ جو سونے کا چمچہ لے کرپیدا ہوئی تھی، جو ایک درد دل رکھنے والی ڈاکٹر بن رہی تھی، ایک ریسٹورنٹ میں ویٹرس کا کام کر رہی ہے۔ ہم اپنی زمین، اپنی مٹی، اپنے لوگوں اور اپنے ملک کی ہواؤں کو ترس گئے ہیں۔ اس مٹی تک رسائی ہمارے لئے نا ممکن بنا دی گئی ہے۔ بلکہ ہماری موت کے ہر کارے پاکستان سے ہمارے تعاقب میں یورپ تک چلے آئے۔ خوش قسمتی سے اب تک ہم زندہ ہیں ۔لیکن کل کا علم کس کو ہے۔ کسی وقت بھی موت کے وہ ہر کارے ہماری شہ رگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
دراصل شبانہ اور میری محبت کی خبر کسی نے شبانہ کے باپ تک پہنچا دی۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان آگیا۔ شبانہ کو میڈیکل کے آخری سال میں کالج چھڑوا کر زبردستی گھر میں بٹھا دیا گیا ۔میرا گاؤں کا گھر اور فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ مجھے قتل کرنے کے لئے کرائے کے قاتل میرے پیچھے لگا دیئے گئے۔دشمنوں نے ایک رات میرے گھر پر حملہ کر دیا ۔ وہ تو میر ی قسمت اچھی تھی کہ مجھے چھت کے راستے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔میڈیکل کالج کے دروازے پر بھی قاتل پہرہ دینے لگے۔ وہ شکاری کتوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایئرپورٹ ، ٹرین اسٹیشن اور لاریوں کے اڈے پر ہر جگہ موت کے ہر کار ے تعینات تھے۔ قریب تھا کہ ان کے ہاتھ میری شہ رگ تک پہنچ جاتے میں ایک دوست کی مدد سے لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی دوست نے کسی طرح شبانہ کا فون نمبر مجھے مہیا کر دیا۔ میں نے کراچی جا کر شبانہ سے فون پر رابطہ کیا۔ ایک رات شبانہ بھی ان کڑے پہروں کی قید سے فرار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی ۔ اس کے بعد ہم فوری طور پر پاکستان سے فرار ہو کر پہلے دبئی اور پھر لندن پہنچے۔ لندن جاکر ہم نے شادی کر لی ۔
اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کو کسی قدر سمیٹ کر محبت کے سائے میں زندگی گزارنا شروع کی ہی تھی کہ ہماری زندگیوں کے دشمنوں کو لندن میں ہماری موجودگی کا علم ہو گیا۔ ان کے اثروروسوخ کی انتہا دیکھئے کہ ان کے بھیجے ہوئے موت کے فرشتے لندن میں ہمارے گھر تک پہنچ گئے۔ وہ تو شبانہ نے فلیٹ کی نگرانی کرنے والوں میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ شخص شبانہ کے باپ کا سیاسی غنڈا تھا۔ ہم نے لندن پولیس کو خود سے درپیش خطرے سے آگاہ کیا ۔ پولیس ان لوگوں کو گرفتار تو نہ کر سکی لیکن ہمیں ایک دوسرے محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ برطانیہ میں ہم دشمنوں کی نظروں میں آچکے تھے اسی لئے ایک دن ہم نے خاموشی سے برطانیہ کی سرحدیں عبور کیں اور دنیا کے اس جنت نظیر خطے میں آکر پناہ لی ۔
اس چھوٹے سے شہر میں رہنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا دھیان شاید یہاں تک نہیں آئے۔ یورپ کے تمام بڑے شہروں میں ہماری تلاش کافی عرصے تک جاری رہی ۔ کچھ عرصہ قبل شبانہ کے والد کا انتقال ہوا تو یہ سلسلہ بند ہوا۔ شبانہ کا پاکستان میں ایک سہیلی سے رابطہ ہے۔ اسی نے بتایا کہ شبانہ کے بھائیوں نے والد کا جاری کردہ ہماری موت کا حکم منسوخ کر دیا
ہے۔وہ شبانہ اور مجھے معاف کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن ہم یہ خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شکاریوں کا بچھایا ہوا ایک اور جال ہو۔
زندگی نے ہم سے جہاں بہت کچھ چھینا ہے وہاں دیا بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمارا باہمی پیار ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ جہاں ہمارے اتنے خواب شرمندہِ تعبیر ہونے سے رہ گئے وہاں ایک دوسرے کو پانے کا سب سے مشکل بلکہ نا ممکن خواب سچا ثابت ہوا ۔اس لیے ہمیں زندگی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ اگر ہم ڈاکٹر نہیں بن سکے تو کم ازکم پڑھے لکھے اور باشعور شہری تو ہیں ۔ قدرت نے ہمیں ایک پھول سی بیٹی سے بھی نوازا ہے۔ ہم اپنی زندگیوں میں جن خوابوں کا رنگ نہ بھر سکے وہ اپنی بیٹی کے ذریعے پایہِ تکمیل تک پہنچا ئیں گے ۔ ہم اسے ڈاکٹر بنائیں گے۔ تا کہ وہ ماں اور باپ دونوں کے خوابوں کی مشترکہ تعبیر بن سکے۔