میں گھومتا گھماتا دریائے لیوژرن کے بازو میں واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں بہت سے سیاح جمع تھے۔ وہاں شیر کا ایک بڑا سنگی مجسمہ نصب تھا ۔اس شیر کے جسم میں کئی تیر پیوست تھے او ر وہ مرا پڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پتھر نصب تھا ۔جس پر تحریر تھا کہ یہ شیر جنگ عظیم میں بے شمار انسانی جانوں کے زیاں کی علامت کے طور پر مردہ دکھایا گیا ہے۔ شیر سے مراد بنی نوع انسان تھا جو اپنے جیسے دوسرے انسان کے ہاتھوں سینے پر تیر کھا کر گھائل ہوا ۔ پھر اپنی ہزاروں حسرتوں اور خواہشوں سمیت دنیا سے قبل از وقت رخصت ہو گیا۔ سیاح ہر زاویے سے اس مردہ شیر کی تصویریں اتار رہے تھے۔سوئزر لینڈ پوری دنیا میں جنگ و جدل کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی فوج نہیں ہے۔
سوئزر لینڈ کے اس چھوٹے سے لیکن انتہائی دلکش شہر لیوژرن میں ان دنوں سیاحوں کا جیسے تانتا سا بندھا ہوا تھا۔ مقامی لوگ کم اور سیاح زیادہ نظر آرہے تھے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب سردیاں آتی ہیں اور سیاحت کا سیزن ختم ہو جاتا ہے تو پھر یہ شہر کیسا لگتا ہو گااور یہاں کے لوگ جن کا ذریعہ معاش زیادہ تر سیاحت سے ہی جڑا ہوا ہے وہ کیا کرتے ہوں گے۔ یہی سوال میں نے ایک چھوٹے سے کیفے کے بوڑھے مالک سے کیا۔ اس کا جواب تھا’’ سردیوں میں تقریباً یہاں کے سب کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ جن دکانوں پر اب چار پانچ لوگ کام کر رہے ہیں، اُن دنوں وہاں صرف ایک شخص کافی ہوتا ہے۔ بعض دکانیں ، ریستوران اور ہوٹل تو مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ لیکن سیاحوں کا سلسلہ مکمل طور پر بند نہیں ہوتا ۔سردیوں میں اور برف باری میں بھی تھوڑے بہت سیاح آتے رہتے ہیں۔ لیکن جو گہما گہمی اور چہل پہل اب نظر آرہی ہے سردیوں میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہو تا‘‘
اس کیفے کا بوڑھا مالک جب یہ باتیں کر رہا تھا تو ایپرن باندھے ایک عورت کچن سے نکل کر اس کے ساتھ آکھڑی ہوئی۔ اس عورت کی عمر ساٹھ کے لگ بھگ ہو گی ۔ اگر کسی غریب ملک کے غریب گھر کی ہوتی تو وہ بوڑھی کہلاتی۔ لیکن اس کی صحت اتنی اچھی تھی کہ میں نے اُسے بوڑھی نہیں کہا۔ سفید بالوں اور سرخ و سفید چہرے والی اس مہربان شکل عورت نے پوچھا ’’ آپ کا تعلق کہاں سے ہے‘‘
میں نے اسے بتایا’’ بنیادی طور پر میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ لیکن آج کل آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہوں‘‘
پاکستان کا نام سن کر وہ دونوں میاں بیوی (مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ میاں بیوی ہیں) بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے یورپ کے رواج کے برعکس مجھ سے کافی کے پیسے بھی نہیں لئے۔ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا’’ آنٹی! کافی کے پیسے تو لے لیں۔ یہ آپ کا کاروبار ہے‘‘
میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ کاوٗنٹر سے باہر نکل آئی۔ دونوں ہاتھ میرے گال پر رکھے اور بولی ’’کیا کہا تم نے! پھر کہو! ‘‘
میں قدرے گھبرا سا گیا کہ شاید میرے منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی ہے۔ اسی گھبراہٹ میں میں نے کہا’’ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھ سے کافی کی قیمت لے لیں‘‘
اس نے کہا’’ نہیں! میں کافی کی بات نہیں کر رہی۔ تم نے مجھے آنٹی کہا! یہی کہا تھا نا؟ ‘‘
’’ہاں‘‘ میں اب بھی نہیں سنبھلا تھا۔
اس نے میرے گال سہلاتے ہوئے کہا’’ تمھیں شاید احساس نہیں ہوا ۔لیکن مجھے تمھارا آنٹی کہنا بہت اچھا لگا ۔یہاں کوئی کسی کو ایسے نہیں پکارتا ۔نہ ایسے سمجھتا ہے ۔ہمیں تو اپنے بچوں کی آوازیں سنے ہوئے بھی ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ تمھار ا یوں اپنائیت سے آنٹی کہنا جیسے میرے دل کے تاروں کو چھیڑ سا گیا۔ بیٹے تم کب تک یہاں ہو؟‘‘
اس عورت کی اپنائیت دیکھ کر اور بیٹے کا لفظ سن کر میرا دل بھی کچھ بھر سا آیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگلی صبح ہم وہاں سے چلے جائیں گے۔ اس مہربان عورت کے خاوند نے میری طرف ہاتھ بڑھایا’’ میرا نام اسمتھ ہے اور یہ میری بیو ی مَیری ہے۔ ہم پاکستان کی سیر کر کے آئے ہیں اور وہاں سے بہت اچھی یادیں لے کر آئے ہیں۔ آج اتنے عرصے بعد ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی تو جیسے وہ اچھی یادیں پھر لوٹ سی آئیں۔ تم آج شام ڈنر ہمارے گھر میں کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘
میں یورپ میں تھا جہاں اس طرح کے جذباتی سین بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی اس شام میں فارغ تھا۔ اس لئے میں نے بلا تردد حامی بھر لی ۔ اسمتھ نے اپنا پتہ لکھ کر دیا اور پوچھا’’ اگر آنے میں کوئی مسئلہ ہو تو ہمیں بتا دو۔میں تمھیں ہوٹل سے پِک بھی کر سکتا ہوں ‘‘
میں نے اُسے تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا’’ آپ فکر نہیں کریں میں ٹیکسی لے کر آجاؤں گا‘‘
ساڑھے چھ بجے کا وقت انہوں نے دیا تھا۔ وقت پر پہنچنے کا وعدہ کر کے میں وہاں سے نکل آیا۔
بقیہ وقت میں نے دریا کے کنارے واقع اس خوبصورت علاقے میں گھومتے گزارا۔ دریا کے اوپر ایک پرانا مگر پھولوں سے لدا پل واقع تھا ۔ پل کی ریلنگ پر رنگ برنگ پھولوں کے اتنے زیادہ گملے تھے کہ ان کا شمار مشکل تھا ۔یہ پل چھتا ہوا تھا ۔ چھت کے نیچے خوبصورت اور رنگا رنگ روشنیوں والے لیمپ نصب تھے۔ پل کے کناروں پر کھڑے ہونے کے لئے خصوصی ریلنگ تھیں ۔ جہاں کھڑے ہو کر لوگ تصویریں بنوارہے تھے۔ پل کے نیچے صاف اور شفاف پانی پہاڑوں سے میدانوں کی طرف بہہ رہا تھا۔ دریا کے کنارے دور دور تک ریستوران ، چائے خانے ، بار اور خوبصورتی سے سجی دکانیں تھیں۔ ان ریستورانوں،چائے خانوں اور دکانوں کے سامنے بڑی بڑی رنگین چھتریاں نصب تھیں۔ جہاں دیدہ زیب پھولوں کے درمیان ترتیب و تزئین سے کرسیاں اور میز لگے تھے۔ ان پر بیٹھے لوگ خوردو نوش میں مشغول تھے۔
ایسے لگتا تھا کہ بے فکروں ،شاہ خرچوں اور زندگی کا ہر خوبصورت رنگ چرا لینے والے لوگوں کا یہاں میلہ لگا ہوا ہے۔ میزوں پر رنگا رنگ مشروبات اورانواع وا قسام کے کھا نے رکھے تھے۔ ہر طرف خوشیوں اور قہقہوں کا راج نظر آ رہا تھا۔ یہ ایسا ماحول ہے، جہاں کوئی اداس نہیں۔ کوئی بجھے دل والا نہیں۔ جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ غم کا کوئی شائبہ نہیں ۔ جہاں ہر سو قہقہوں اور مسکراہٹوں کا راج ہے۔ چھٹیاں اسی لیے منائی جاتی ہیں کہ آدمی سال بھرکے کام کاج کی تھکن کو ایک حسین ماحول اور خوشگوار قہقہوں میں مٹا ڈالے اور پھر سے تازہ دم ہو کر دنیا کی دوڑ میں شامل ہو جائے۔
پل کے دوسرے کنارے پر بھی سیاح اسی طرح گھوم رہے تھے۔میرے سامنے قدیم چرچ کی ایک بلند و بالا اور عظیم الشان عمارت کھڑی تھی۔ جس کے ماتھے پر کسی بہت اچھے فنکار کے ہاتھوں سے بنے خوبصورت مناظر عجب بہار دکھا رہے تھے ۔ یہ مناظرچوبی تختوں پر تراشے گئے تھے۔ان میں رنگوں کا اتناخوبصورت استعمال کیا گیا تھا کہ بے اختیار داد دینے کو دل چاہتا تھا۔ پتھروں اور لکڑی کے امتزاج سے بنے قدیم زمانے کے اس چرچ کی عمارت فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ تھی۔ میں چرچ کے اندر داخل ہوا تو درجنوں سیاح پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انتہائی اونچی چھت والے اس چرچ کی مختلف دیواروں پر فنِ مصوری کے بیش بہا نمونے آویزاں تھے۔ یہ تصاویر بظاہر ماربل کے پتھروں پر بنی نظر آرہی تھیں۔ لیکن چرچ کی ایک میزبان خاتون نے بتایا کہ دراصل ماربل نظر آنے والی یہ پینٹنگزچوبی ہیں۔ ان پر رنگوں کا اس خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے کہ وہ ماربل نظر آتی ہیں۔ اس عورت نے بتایا کہ جب یہ چرچ بنا تھا تو سوئٹزرلینڈ اتنا امیر ملک نہیں تھا ۔ ہم اس وقت ماربل جیسے گراں قدر پتھر کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ لیکن ہمارے بڑھئیوں اور خصوصاً مصوروں نے سوئٹزرلینڈ میں وافر مقدار میں پائی جانے والی لکڑی کا اتنا اچھا استعمال کیا ہے کہ ان تصاویرکو زندہ جاوید فن پارے بنا دیا۔ اس چرچ میں ہمیں پائیداری، حسنِ تعمیر اور فنِ مصوری کا خوبصورت امتزاج نظر آیا۔ لیکن اس کے اندر کا ماحول بقول جولی پراسرار سا تھا۔ میں اس پر اسرار ماحول سے باہر رنگ و خوشبو کی دنیا میں نکل آیا۔
باہر نکلا تو بارش شروع ہو چکی تھی۔ اگرچہ زیادہ تیز نہیں تھی پھر بھی کپڑے بھگونے کے لئے کافی تھی۔ میں سیدھا اپنی کوچ کے پاس پہنچا۔ وہاں میرے گروپ کے چند اور سیاح پہلے سے موجود تھے۔ وہ بھی واپس ہوٹل جانا چاہتے تھے ۔ ہماری بس کا ڈرائیور ہمیں ہوٹل ڈراپ کر کے واپس چلا گیا۔ اس نے بقیہ سیاحوں کو بھی ہوٹل واپس لانا تھا۔
ہوٹل کی مالکہ شین نے میرے لئے ٹیکسی بُک کر ا دی تھی۔ سوا چھ بجے ٹیکسی ہوٹل کے دوراز ے پر موجود تھی۔ میں نے اسمتھ کا دیا ہوا کاغذ کا پرزہ نکال کر ٹیکسی ڈرائیور کو پتا بتایا۔ اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور چل پڑا۔آگے چل کر علم ہوا کہ ٹیکسی ڈرائیور پاکستانی ہے اور اس کا نام اسد ملک ہے۔ اس دفعہ ہم شہر کے مرکزی حصے کی بجائے مضافاتی علاقے کی طرف جا رہے تھے۔ جُوں جُوں شہر سے دور ہورہے تھے کھلے پن کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہر کے اندر زیادہ بڑی تو نہیں لیکن چار پانچ منزلہ عمارتیں تو تھیں۔ وہاں سے باہر نکلنے کے بعد کہیں دو منزلہ عمارت بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ زیادہ ترایک منزلہ مکانات تھے جو بڑے بڑے پلاٹ کے ایک حصے پر بنے ہوئے تھے۔ بقیہ خالی حصہ پھولوں اور پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ مکانوں کا درمیانی فاصلہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ اکا دکا مکانات تھے جو بڑے بڑے فارموں کے درمیان بنے تھے۔ یہ فارم پھولوں ، پودوں ، پھلدار درختوں اور مویشیوں کے باڑوں پر مشتمل تھے۔
میں نے جب اسے کرایہ دینا چاہا تو اسد نے میرا ہاتھ روک دیا اور بولا’’ مجھے شرمندہ تو نہ کریں۔ آپ نو بجے تیار رہیں۔میں پہنچ جاوٗں گا‘‘
اس نے یو ٹرن لیا اور ہاتھ ہلاتا ہوا واپس چل دیا۔
اس دوران اسمتھ اور میری میرے پاس پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے شاید اسد سے میرا آخری مکالمہ سن کر اندازہ کر لیا تھا کہ وہ بھی پاکستانی ہے۔ میری نے کہا’’ تم نے اپنے دوست کو کیوں واپس کر دیا۔ اسے بھی ساتھ لے آتے‘‘
اصل میں لیوژرن میں بغیر سائن کے ٹیکسیاں چلتی ہیں۔اس لیے اسمتھ اورمیری نے سمجھا کہ میں کسی دوست کے ساتھ پرائیویٹ کار میں آیا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کے وہ میرا ہم وطن ضرور ہے۔ لیکن اس سے یہ میری پہلی ملاقات ہے اور اس کی ٹیکسی میں یہاں آیا ہوں۔ اسمتھ نے پوچھا ’’لیکن اس نے تم سے کرایہ کیوں نہیں لیا ‘‘
’’ کیونکہ اسے میرے پاکستانی ہونے کا علم ہو گیا تھا اس لیے‘‘
اسمتھ اور میری نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کے چہروں پر ایک پر اسرار سی چمک دکھائی دی۔ میری اور اسمتھ کا گھر اندر سے سادہ مگر صاف ستھرا اور قرینے سے سجا ہوا تھا۔ وہ دونوں میاں بیوی باتیں کرتے ہوئے مجھے ڈرائنگ روم کی بجائے سیدھا کچن میں لے گئے ۔کچن اتنا بڑا تھا کہ کھانے کی میز وہیں لگی ہوئی تھی۔ میری نے فوراََمیرے آگے سبزیوں کا گرم گرم سوپ لا کر رکھ دیا۔ میں نے اسمتھ سے کہا’’ تمھارا گھر بہت بڑا ہے۔ یہ فارم کتنے ایکڑ کا ہے؟‘‘
’’ پانچ ایکڑ! یہ ہم نے اپنی جوانی کے دور میں خریدا تھا۔ اب تو یہاں بھی زمین کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں‘‘ اسمتھ نے بتایا
’’ کیا اُس وقت بھی آپ ریسٹورنٹ چلاتے تھے یا کوئی اور کاروبار تھا ‘‘میں نے پوچھا
’’ میری ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتی تھی اور میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا تھا۔ میرے کئی ٹرک تھے جو یورپ کے مختلف ملکوں کے درمیان چلتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ سب ختم ہو گیا۔ اب ہم نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے یہ چھوٹا سا ریسٹورنٹ کھول رکھا ہے جس سے کچھ آمدنی بھی ہو جاتی ہے‘‘
’’ اس فارم اور مویشیوں سے بھی تو آپ کچھ نہ کچھ کما رہے ہوں گے‘‘میں نے سوال کیا
’’ کچھ خاص نہیں! دو گھوڑے ، چند گائیں اور چند بھیڑیں ہیں ۔یہ بھی شوقیہ پال رکھے ہیں ۔ورنہ ان سے کچھ نہیں ملتا‘‘ اس دفعہ اسمتھ کی بجائے میر ی نے میرے سامنے بیٹھتے ہوئے جواب دیا ۔
میں نے اپنی جرح جاری رکھتے ہوئے پوچھا’’ آپ دونوں تو ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہیں۔ انہیں کون سنبھالتا ہے؟‘‘
میری نے کہا’’ ان کی دیکھ بھال زیادہ تر میں ہی کرتی ہوں۔ ویسے ان چند جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ ان کی خوراک کا ذخیرہ ہر وقت ہمارے پاس موجود رہتا ہے۔ تازہ گھاس ہمارے اپنے فارم میں کافی ہوتی ہے۔ روزانہ صبح شام تھوڑا ساوقت ان کے لئے نکالنا پڑتا ہے۔ کچھ وقت میں گھر کی دیکھ بھال میں صرف کرتی ہوں۔ کبھی کبھار ریسٹورنٹ جا کر اسمتھ کی مدد بھی کر آتی ہوں۔ میں ریسٹورنٹ میں روزانہ نہیں جاتی‘‘
دراصل جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے جو سوال میں نے کیا تھا اس کے پسِ منظر میں پاکستان کا کسان ہے۔ جو چند گائیوں، ایک آدھ بھینس یا چند بکریوں کے چارے کے لئے سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔ ان کے پینے کے پانی کا بندوبست کرتا ہے اور سردی گرمی اور دن رات کے حساب سے انہیں کمروں کے اندر یا باہر باندھتا ہے۔ وہ ایک یا دو جانوروں کے لئے صبح سے شام تک مصروف رہتا ہے۔ لیکن میں یہ بات بھول گیا تھا کہ یورپ اور آسٹریلیا کے کسان ان تمام مسائل سے مبرا ہیں ۔ یہاں بڑے بڑے فارم ہوتے ہیں جہاں جانور کھلے پھرتے رہتے ہیں ۔ا نہیں ہانکنے اور کل وقتی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں ہوتا۔ جانور خود ہی کھاتے پیتے ہیں ۔ تاہم سردیوں میں شام کو انہیں ہانک کر ایک بڑے باڑے میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ اس طرح جگہ اور چارے کی فراوانی کی وجہ سے کسان فالتو محنت سے بچا رہتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سڈنی میں میری ملاقات اندرون آسٹریلیا سے آئی ہوئی ایک کسان عورت سے ہوئی۔ میں نے اس سے ذریعہ معاش پوچھا تو کہنے لگی ’’ہمارا مویشیوں کا چھوٹا سا فارم ہے۔ جہاں چھ سو گائیں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑیں ہیں۔انہی سے ہونے والی آمدنی سے ہمارا گزارا ہوتا ہے‘‘
میں نے حیرانی سے کہا’’ چھ سو گائیں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑیں اور چھوٹا سا فارم ؟ ‘‘
وہ اطمینان سے بولی’’ یہ نسبتاً چھوٹا فارم ہے۔ آسٹریلیا میں زیادہ تر فارموں میں ہزاروں کے حساب سے گائیں اور بھیڑ یں ہوتی ہیں‘‘
’’ تو اس’’ چھوٹے سے‘‘ فارم کی دیکھ بھال کے لئے کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟ ‘‘میں نے کہا
’’کتنے لوگ! میں اکیلی کرتی ہوں ۔میرا خاوند ٹریکٹر اور دوسری مشینوں کے ساتھ کھیتی باڑی میں مصروف رہتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال میرے ذمہ ہے‘‘
میں حیرانی سے اس عورت کو دیکھنے لگا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھاکہ چھ سو گائیوں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑ وں کی دیکھ بھال ایک عورت کرتی ہے۔ میری حیرت اس سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ اسی متانت اور سنجیدگی سے بولی’’ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ان جانوروں کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مجھے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بیمار وغیرہ تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خوراک اور پانی ہمارے فارم میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ وہ خود ہی چر کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ جب رات آتی ہے تو سو جاتے ہیں۔ ہاں ایک مخصوص مدت اور عمر کے لحاظ سے انہیں مختلف بیماریوں سے حفاظت کے ٹیکے لگوانے پڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں بھیڑوں کی اون کترنے والوں کو بلانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ زیادہ تر انتظامی نوعیت کے کام ہوتے ہیں اور ان کا شیڈول مقرر ہوتا ہے۔ جسے کوئی بھی شخص بغیر کسی دقت کے انجام دے سکتا ہے‘‘
میں نے پھر پاکستانی پسِ منظر کے تحت دریافت کیا’’ جانوروں کو جب کھلا چھوڑ دیا جاتاہے تو وہ گم نہیں ہو تے یا چوری نہیں ہو تے یا دوسروں کے علاقے میں نہیں چلے جاتے‘‘
وہ کہنے لگی’’ ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔کیونکہ ہر فارم کے ارد گر دباڑ لگی ہوتی ہے۔ لہذا مویشی اپنی حدود کے اندر ہی رہتے ہیں۔ اگر کہیں چلے بھی جائیں تو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا۔ کوئی نہ کوئی
انہیں واپس کر ہی دیتا ہے‘‘
یہ باتیں جب میں نے پہلی دفعہ سنیں تو مجھے پاکستانی اور آسٹریلین کسان کے درمیان بہت بڑے فاصلے کااحساس ہوا ۔ پاکستان میں کسی نے ایک بکری بھی پال رکھی ہو تو پورا گھر اس کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ اسے باہر جا کرچرایا جاتا ہے جس میں پورا پورا دن صرف ہو جاتا ہے۔ گھر میں بھی اس کے چارے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے مزید وقت لگتا ہے۔ پھر صبح شام اور دن رات اسے اندر یا باہر منتقل کرنا، اس کی پھیلائی ہوئی گندگی صاف کرنا ، یہ ایک کل وقتی کام ہے ۔جس میں بعض اوقات دو دو فرد لگے رہتے ہیں۔
دوسری جانب آسٹریلیا کی یہ کسان عورت تھی جو اکیلی ہی چھ سو گائیوں اور ڈیڑھ ہزاربھیڑوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اور جب شہر میں کوئی کام آن پڑے تو پینٹ اور کوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لئے اس طرح جہاز سے اترتی ہے جیسے کسی بڑی فرم کی ڈائریکٹر ہو ۔ایک طرف وہ کسان عورت ہے جسے پوری محنت کے باوجود دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن دوسر ے خطے میں وہی کسان عورت اتنی خوشحال اور پر اعتماد ہے کہ اس کے اور شہر کے بڑے کاروباری فرد کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ آسٹریلیا ہو یا یورپ یہاں کسان جدید مشینوں ، کھلی زمینوں اور وافر وسائل کی بدولت ان مسائل سے نہیں گزرتاجس سے تیسری دنیا کے کسان کو گزرنا پڑتا ہے۔
میری کی باتوں سے میرا دھیان اُس آسٹریلین کسان عورت کی طرف چلا گیا تھا۔ میری اور اسمتھ سے باتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔بیچ بیچ میں میری کوئی ڈش بنا کر لے آتی۔ پھر ہمارے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگتی ۔ آدھ گھنٹے بعد پھر اٹھتی اور کچھ اور بنا کر لے آتی۔ باتوں باتوں میں میری اور اسمتھ نے مجھے اتنے پیار سے ڈنر پر بلانے کی وجہ بھی بتا دی۔ میری نے کہا’’ تم نے اتنے پیار سے آنٹی کہہ کر مجھے بلایا تو مجھے بہت اچھا لگا ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے ہمارا ایک خصوصی تعلق اور اُنس ہے۔ اس تعلق کے حوالے سے ہمیں ہر پاکستانی سے محبت ہے ۔مجھے میری کی باتیں اچھی بھی لگیں اور عجیب بھی۔ کیونکہ پاکستان اتنا مشہور ملک نہیں ہے۔ یورپ اور آسٹریلیا کے بہت کم لوگ وہاں گئے ہیں۔ عام لوگوں کی پاکستان کے بارے میں معلومات ناکافی ہوتی ہیں۔ پُر تعصب میڈیا پاکستان کے حوالے سے اکثر کوئی نہ کوئی منفی خبر ضرورلگاتا رہتاہے۔ عام لوگوں کو پاکستان اور اس کے لوگوں کی اچھائیاں تو معلوم نہیں ہو پاتیں تا ہم منفی باتیں خوب یاد رہ جاتی ہیں۔ اس پسِ منظر میں اسمتھ اور میری کا پاکستان کے بارے میں یہ مثبت بلکہ والہانہ انداز اپنے اندر کوئی کہانی سمیٹے ہوئے تھا۔ میں وہی سننا چاہتا تھا۔ باتوں باتوں میں ہماری گفتگو اسی موضوع کی طرف آنکلی جو میں چاہتا تھا۔ اسمتھ نے بتایا کے آج سے 25سال پہلے ان دونوں میاں بیوی نے پاکستان کی سیر کی تھی۔ اس دوران ان کو جو تجربات پیش آئے وہ اسمتھ کی زبانی ہی سنئے۔
ہم دنیا کی سیر کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ یورپ اور ایشیا کے بہت سے ممالک کا سفر ہم نے بذریعہ سڑک کیا۔ اس مقصد کے لئے ہم نے خصوصی طور پر ایک مضبوط جیپ خریدی تھی جس نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔ لیکن ہر مشین کی طرح ہماری جیپ بھی دورانِ سفر ایک مقام پر دھوکا دے گئی اور یہ مقام پاکستان کا شہر لاہور تھا۔ ہم بھارت کے سفر کے بعد لاہور پہنچے جہاں سے پشاور اور آگے افغانستان جانا تھا۔ لاہور کے نزدیک ہماری گاڑی کا ٹرانسمشن جواب دے گیا۔شا م کا وقت تھا۔ ہم نے لاہور کے ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیا ۔ رات وہاں گزاری۔ صبح کسی اچھی ورکشاپ کی تلاش میں نکل پڑے ۔ ہوٹل والوں کی مدد سے ایک بڑی ورکشاپ میں جا پہنچے۔ ورکشاپ والوں نے گاڑی کی جانچ پڑتا ل کے بعد ہمیں بتایا کہ ٹرانسمیشن باکس ناقابلِ مرمت ہے اور نیا لگانا پڑے گا۔ نئے گیئر باکس اور مزدوری سمیت انہوں نے تیس ہزار روپے کا بِل بنایا۔ ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا۔ لہذٰا ہم نے یہ رقم ادا کرنے کی حامی بھرلی۔
چار پانچ گھنٹے میں ہماری گاڑی تیار ہو گئی اور ہم پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے صدر مقام پشاور کے لئے روانہ ہو گئے۔ پنجاب کے سرسبز میدانوں اور جہلم کے آگے کے سطح مرتفع علاقوں سے گزر کر جب ہم راولپنڈی کے نزدیک پہنچے تو گیئر باکس سے عجیب و غریب آوازیں برآمد ہونا شروع ہو گئیں۔ آدھا دن ضائع کرنے اور تیس ہزار روپے کی رقم خرچ کرنے کے بعد گیئر باکس کی دوبارہ خرابی ہمارے لئے انتہائی پریشانی کا باعث بنی۔ ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے گاڑی کے گیئر بکس میں آوازوں کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا جارہا تھا۔ علاوہ ازیں گاڑی جھٹکے بھی دینے لگی تھی ۔ا س وقت ہم پشاور سے پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں گے کہ گیئر بکس نے مکمل طور پر جواب دے دیا اور گاڑی جھٹکے لے کر بند ہو گئی۔
سردیوں کا موسم تھا۔ شام کے چھ بجے ہی اندھیرا پھیل چکا تھا۔ جہاں ہماری گاڑی خراب ہوئی خوش قسمتی سے وہ جگہ ایک گاؤں سے زیادہ دور نہیں تھی۔ ورنہ کسی ویرانے میں ایسا ہو جاتا تو بہت مشکل پیش آتی۔ ہم دونوں میاں بیوی گاڑی کو وہیں چھوڑ کر تقریباً دو فرلانگ دور اس گاؤں میں پہنچے۔ اندھیرا اچھا خاصا پھیل چکا تھا۔ وہاں ایک چائے خانہ یا چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا ۔جہاں چند میزوں پر کچھ مرد بیٹھے چائے وغیرہ پی رہے تھے۔ ہم نے ان سے کسی ورکشاپ یا مکینک کے بارے میں دریافت کیا۔ لیکن وہاں زبان کا مسئلہ آڑے آگیا۔ انہیں انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی جب کہ ہم پشتو یا اُردو سے نا بلد تھے۔ بہر حال اشاروں کی بین الاقوامی زبان کی مدد سے ہم نے انہیں اپنا مسئلہ سمجھا دیا۔ انہوں نے ہمیں ایک میز پر بٹھایا ،چائے پلوائی۔ اتنی دیر میں ان میں سے ایک جا کر کسی مکینک کو پکڑ لایا۔ خوش قسمتی سے وہ مکینک گزارے لائق انگریزی سمجھ اور بول سکتا تھا۔ اس کے پاس اپنی
گاڑی تھی جس میں بیٹھ کر ہم جیپ کے پاس پہنچے ۔مکینک جس کا نام افضل خان تھا ، نے ٹارچ کی مدد سے گاڑی کو چیک کیا۔ اسے اسٹارٹ کیا، تھوڑی دور تک چلائی اور پھرہمیں بتایا کہ گیئر بکس میں کافی بڑی خرابی ہے۔ جسے دن کی روشنی اور ورکشاپ میں ہی مرمت کیا جاسکتا ہے۔
ہم پریشان ہو گئے کہ اب کیا کیا جائے۔ اس گاؤں میں تو کوئی ہوٹل بھی نہیں تھا۔ ہم اس سردی میں رات کہاں گزاریں گے۔ تیس ہزار روپے خرچ کر کے مسئلہ جوں کا توں باقی تھا۔ ہمیں لاہور کے مکینک پر سخت غصہ تھا اور اپنے خون پسینے کی رقم کے زیاں کا افسوس بھی تھا۔ افضل خان سے ہم نے دریافت کیا ’’کیا یہاں کوئی ہوٹل ہے جہاں ہم رات گزار سکیں؟‘‘
افضل خان جسے ہم نے لاہور میں ہونے والی مرمت اور وہاں ادا کی ہوئی رقم کے بارے میں بھی بتایا تھا ہمارے ساتھ بہت ہمدردی سے پیش آیا۔ میرے سوال کے جواب میں اس نے کہا ’’نہیں ! یہاں کوئی ہوٹل نہیں ہے۔ لیکن آپ فکر نہ کریں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ رات ہمارے ہاں گزاریں۔ صبح دیکھیں گے کہ آپ کی گاڑی کا کیا کیا جا سکتا ہے‘‘
میری اس صورتِ حال سے خوف زدہ سی نظر آرہی تھی۔ اس نے کیفے میں بھی دیکھا تھا کہ مرد اپنے گلے میں پستول لٹکائے ہوئے تھے۔ گاؤں کے راستے میں بھی ہم نے کئی لوگوں کو بندوقیں ہاتھ میں اٹھا ئے دیکھا تھا۔ ویران سا گاؤں تھا۔ بہت کم لوگ اِدھر اُدھر آتے جاتے نظر آرہے تھے۔ جو اکا دکا نظر آتا تھا وہ بھی بڑی بڑی مونچھوں ، لال سرخ آنکھوں، کھلے کھلے کپڑوں اور ہتھیاروں سے سجا’’ خطرناک شخص‘‘ دکھائی دیتا تھا۔افضل خان کے پاس ہمیں ہتھیار تو نظر نہیں آیالیکن اس کا حلیہ بھی باقی پٹھانوں سے مختلف نہ تھا۔ اس صورت حال میں کسی اجنبی ملک کے اجنبی شخص کے ہاں رات گزارنے کا فیصلہ بہت مشکل تھا۔میری نے ڈر کی وجہ سے میرا بازو تھاما ہوا تھا۔ میں بھی اندر سے تو خوفزدہ تھا لیکن میری کو تسلیاں دے رہا تھا۔ افضل خان کو ہماری ہچکچاہٹ سے ہمارے خوف کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے براہِ راست میر ی کے سامنے آکر کہا ’’مجھے آپ کی کیفیت کا اندازہ ہے ۔لیکن آپ ہماری روا یات سے آشنا نہیں ہیں۔ میں نے آپ کو اپنا مہمان بنایا ہے تو آپ کی حفاظت اور تمام ذمہ دار ی میرے اُوپر ہے ۔آپ میری بہن کی طرح ہیں۔ میرے گھر میں بھی بیوی اور بیٹی موجود ہے۔ آپ بے فکر ہو کر میرے ساتھ چلیں‘‘
ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ افضل خان کی باتوں نے ہمارا خوف قدرے کم کر دیا۔ ہم نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ افضل خان نے ہماری گاڑی اپنی گاڑی کے پیچھے باندھی۔ ورکشاپ کے سامنے جیپ پارک کر کے ہم نے ضروری سامان اس سے نکالا اور افضل خان کی گاڑی میں بیٹھ کر اس کے گھر چلے گئے۔ ہم پہلی دفعہ کسی پاکستانی کے گھر کے اندر داخل ہوئے تھے۔ باہر سے یہ گھر بھی عام سا ، سادہ سا بلکہ بوسیدہ سادکھائی دیتا تھا۔ لیکن اندر سے خوب سجا ہوا اور صاف ستھرا تھا۔ افضل خان نے میری کو اندر زنا ن خانے میں بھیج دیا ۔ میں اس کے ساتھ بیٹھک میں جا بیٹھا جہاں زمین پر نر م قالین بچھا ہوا تھا۔ اوپر کڑھی ہوئی چادر یں بچھی تھیں۔ چاروں طرف نرم نرم تکیے رکھے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں افضل خان کی بیٹھک میں لوگ آنا شروع ہو گئے۔ ایک گھنٹے میں قریباً پندرہ مرد میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ افضل خان نے بتایا کہ یہ لوگ اپنا مہمان سمجھ کر مجھے ملنے آئے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ پٹھانوں کا رواج ہے کہ ایک گھر میں مہمان آئے تو وہ پورے محلے اور گاؤں کا مشترکہ مہمان ہوتا ہے۔ سب لوگ اس سے ملنے آتے ہیں۔ باری باری ہر گھر میں اس کی دعوت کی جاتی ہے اور ہر رات گاؤں کے سب لوگ اکھٹے ہو کر مہمان کی دلجوئی کرتے ہیں۔
میں نہ صرف اس روایت اور اس رواج سے لا علم تھا بلکہ یورپین معاشرے سے تعلق کی وجہ سے یہ سب کچھ میرے لئے ناقابلِ یقین تھا۔ جسے ہم انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ کہتے ہیں وہاں پڑوسی کو پڑوسی کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ اکیلے لوگ اپنے گھر میں مر بھی جاتے ہیں تو دنوں اور ہفتوں تک کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ لاش سے بدبو آنے لگتی ہے۔ پھر پولیس یا کسی اور سرکاری محکمے کے کارندے آکر لاش اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ کسی شخص کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہا ہو تو کوئی مدد کو آگے نہیں بڑھتا۔کسی کو اپنے گھر میں رہنے کی دعوت دینے کا تو تصور ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار شادی بیاہ یا مرگ کی تقریب میں شرکت کے لئے یا محض ملنے کے لئے دوسرے شہر یا ملک سے آتا ہے تو اسے اپنے گھر میں کوئی نہیں ٹھہراتا ۔وہ اپنے خرچ پر ہوٹل میں ٹھہرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دن میں کسی ایک کھانے کے وقت اسے گھر یا ریسٹورنٹ میں دعوت دے دی جاتی ہے۔ پھر میزبان اپنے گھر اور مہمان واپس ہوٹل میں چلا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ باپ بیٹے یا بیٹی سے ملنے آئے تو بھی اس کی اس سے زیادہ خدمت نہیں کی جاتی۔لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ، غریب اور انتہائی کم شرحِ تعلیم والے ملک میں ہم جیسے انجان پردیسیوں کی اس طرح عزت افزائی ہو گی۔ یہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
کھانے کا وقت آیا تو ہمارے آگے اتنی ڈشیں سجا دی گئیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں تھا۔ افضل خان نے بتایا کہ اسے ہمارے کھانوں اور پسند کا علم نہیں ہے۔ لیکن پاکستانی کھانوں کی مختلف ڈشیں اس لئے بنوالی ہیں کہ ان میں کچھ تو ہمیں پسند آئیں گی۔ کھانا انتہائی لذیذ تھا۔ ہر ڈش مختلف اور انوکھی تھی۔ لگتا تھا کہ ہم کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے انتہائی ماہر باورچی کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا رہے ہیں۔ کھانے میں ہمارے ساتھ سبھی حاضرین شامل ہو گئے۔ ان میں سے کچھ تھوڑی بہت انگریزی جانتے تھے۔ جبکہ زیادہ تر اس سے نابلد تھے۔ لیکن ان کی آنکھوں میں موجود محبت واضح طور پر پڑھی جا سکتی تھی۔ افضل خان میزبانی کے ساتھ ساتھ ترجمانی کے فرائض بھی ادا کر رہا تھا ۔ غرضیکہ رات گئے تک یہ محفل جاری رہی جس سے میں بے انتہالطف اندوز ہوا ۔اس دوران میں نے پہلے کافی پی۔جو خصوصی طور پر میرے لئے بنائی گئی تھی۔ پھر دوسرے میزبانوں کے ساتھ ساتھ ان کا من پسند قہوہ بھی نوشِ جان کیا۔ جو دراصل کافی سے زیادہ ذائقے دار تھا۔
رات گئے مجھے ایک کمرے میں پہنچایا گیا۔ جہاں صاف ستھرا بستر اور بڑا سا اونی کمبل (رضائی ) موجود تھا ۔ وہاں میں نے میری سے اُس کا حال دریافت کیا ۔ وہ بھی میری طرح اپنے میزبانوں سے بہت متاثر تھی ۔ اس نے دل کھول کر افضل خان کی بیوی اور دیگر عورتوں کی محبت اور خاطر مدارت کی تعریف کی۔ تا ہم زبان کا مسئلہ ان کے درمیان حائل رہا اور وہ ایک دوسرے سے زیادہ بات چیت نہیں کرسکی تھیں۔ ہم دونوں کے دلوں میں افضل خان ااور ان کے اہلِ محلہ کی عزت اور محبت بس گئی۔ شام کو گاڑی خراب ہونے اور پھر ہوٹل کی عدم دستیابی کیے بعد جو پریشانی اور خوف و ہراس ہمارے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا وہ قدرے دور ہو گیا ۔
لیکن اس نئے ملک کے کلچر ،زبان اور رسم و روایات سے لا علمی کی وجہ سے ابھی بھی ذہن میں کئی اندیشے کلبلا رہے تھے۔ کبھی خیال آتا کہ ہمیں قربانی کے بکرے کی طرح کھلا پلا کر ذبح کرنے کی تیاری تو نہیں کی جارہی ۔ رات کے اندھیرے میں اس ویران سے گاوٗں میں ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو جاتا تو کسی کو علم بھی نہیں ہو پاتا۔ ہمارے پاس جو زادِ رہ اور گاڑی ہے وہ چھیننے کے لئے یہ سب ڈرامہ تو نہیں رچایا جا رہا۔ پھر اگلے ہی لمحے افضل خان اور دوسرے پاکستانیوں کے رویے کی طرف دھیان جاتا تو اپنے اندیشے بے بنیاد محسوس ہونے لگتے۔ پھر یہ خیال آتا کہ رہائش ، کھانے پینے اور گاڑی کی مرمت کے معاوضے کے طور پر یہ لوگ نہ جانے کتنے روپے لیں گے۔ اب تو ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ ہر صورت میں افضل خان سے ہی گاڑی مرمت کروانی پڑے گی۔ تیس ہزار لاہور میں دیئے ہیں۔ یہاں نہ جانے کتنا جرمانہ ادا کر نا پڑے ۔ انہی خیالات میں کھو کر جو کبھی مثبت اور کبھی منفی بن کر کبھی ڈراتے اور کبھی دلاسا دیتے رہے ہم نیندمیں گم ہوتے چلے گئے۔
رات خیریت سے گز گئی۔علیٰ الصبح ناشتے کے بعد میری کو افضل خان کے گھر چھوڑ کر میں اور افضل خان ورکشاپ پہنچے۔ وہاں جا کر علم ہو اکہ افضل خان اس گیراج کا مالک بھی ہے۔ اس کے علاوہ چار مزید افراد بھی وہاں کام کرتے تھے جو ہمارے پہنچنے سے پہلے وہاں موجود تھے ۔ یہ ورکشاپ چھوٹی سی اور جدید ٹیکنالوجی سے محروم تھی۔ لیکن افضل خان اور اسکے ساتھیوں نے جب گاڑی کا گیئر باکس کھول کر اس کی مرمت شروع کی تو ان کی مہارت کا قائل ہونا پڑا۔ گیئر باکس کے اندر کافی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی تھی۔ اگر ہم سوئٹزرلینڈ میں ہوتے تو اس کی مرمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ہر صورت میں نیا گیئر باکس ڈالا جاتا ۔ لیکن افضل خان اور اس کے ساتھی مکینکوں نے یہ چیلنج قبول کر لیا۔ انہوں نے گیئر بکس کا قریب قریب ہر پرزہ الگ کر دیا۔ پھر ان پرزوں کو جوڑکر گیئر بکس کو انتہائی مضبوط طریقے سے اسمبل کیا۔ چھ گھنٹے کی محنت شاقہ کے بعد جس میں مجموعی طور پر تین ماہر افراد مسلسل مصروفِ کار رہے ،گیئر باکس دوبارہ کار میں لگا یا گیا۔اس کے بعد جب ہم نے گاڑی اسٹارٹ کر کے چلائی تو گیئر بکس بہترین انداز میں کام کر رہا تھا۔
دراصل افضل خان نے اسے نئے گیئر بکس سے بھی مضبوط بنا دیا تھا۔ سہ پہر تین بجے تک گاڑی بالکل تیار ہوچکی تھی۔ میں افضل خان کے ساتھ اس کے گھر گیا۔ وہاں لنچ کر نے کے بعد میں اور میری اپنی اگلی منزل یعنی پشاور کی جانب روانہ ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ وہاں میں نے اپنی جیب سے پرس نکالا اورافضل خان سے گاڑی کی مرمت کا بِل طلب کیا۔ افضل خان نے کہا ’’بل تو آپ پہلے ہی ادا کر چکے ہیں ۔ہم آپ سے دوبارہ تو نہیں لے سکتے‘‘
میں نے حیرانی سے پوچھا’’ میں نے تو پہلے تمھیں کوئی بل ادا نہیں کیا۔تم کس بل کی بات کر رہے ہو؟ ‘‘
’’میں اس بل کی بات کر رہا ہوں جو آپ لاہور میں ادا کرچکے ہیں‘‘
’’کیا بات کر رہے ہو افضل خان ! لاہور والے بل سے تمھار اکیا تعلق! تم نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ تقریباً پورا دن میری گاڑی پر صرف کیا ہے۔نئے پرزے بھی استعمال کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم تمھارے گھر میں رہے ہیں ۔کھایا ہے ،پیا ہے۔ میں اس بل کی بات کر رہا ہوں ۔مجھے بتاوٗ کل کتنی رقم مجھے ادا کرنی ہے؟‘‘
میں نے دیکھا کہ افضل خان کا چہرہ قدرے سرخ ہو گیا۔ ا س نے کہا ’’مسڑ اسمتھ آپ ہمارے گھر میں رہے اور کھایا پیا ، وہ آپ کی مہربانی ہے۔ کیونکہ مہمان تو خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ اس کے معاوضے کی بات کر کے ہمار ا دل تو نہ دکھائیں۔ جہاں تک گاڑی کی مرمت کا تعلق ہے آپ پاکستان میں ہمارے مہمان ہیں۔ گاڑی کے ایک نقص کے لئے دوبار بل وصول کر کے ہم پاکستانی آپ کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتے۔ لاہور میں آپ نے جو ادا کر دیے ہیں وہی اس مرمت کا معاوضہ ہے ۔میں مزید آپ سے کوئی رقم نہیں لوں گا۔برائے مہربانی مزید اصرار کر کے مجھے شرمندہ نہ کریں‘‘
’’ لیکن مسڑ افضل تم اور تمھارے ساتھیوں نے سارا دن جو محنت کی ہے وہ۔۔۔۔ ‘‘
’’اس کا پھل اللہ دے گا ‘‘افضل خان نے میری بات کاٹ کر کہا ۔اس کے لہجے کی قطعیت سے اس کی انسان دوستی اور اصول پسندی کا اظہار ہو تا تھا’’ روزی رساں وہ ہے۔ ہماری محنت کا پھل یہ ہے کہ آپ پاکستان سے یہ تاثر نہ لے کر جائیں کہ پاکستانی بے ایمان ہیں۔ وہ معاوضہ تو پورا لے لیتے ہیں لیکن کام صحیح نہیں کرتے ۔اگر میرے ایک بھائی نے
لاہور میں اپنے کام میں ذرا سی غفلت دکھائی ہے تو میں نے اس کام کو مکمل کرکے آپ کے دیے گئے معاوضے کا حق ادا کر دیاہے۔ کسی پر احسان نہیں کیا۔ بلکہ کل جو آپ کو زحمت ہوئی ہے میں اس کے لئے بھی آپ سے معذرت خواہ ہوں‘‘
میں افضل خان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہیں۔ غربت میں بھی کتنے غنی ہیں۔کتنے ارفع اصولوں اور دلکش روایات کے مالک ہیں۔ انسانیت کا کتنا درد موجود ہے ان کے عمل اور کردار میں ۔ میں نے دنیا دیکھی ہے۔ کردار کی یہ بلندی مجھے دنیا میں کہیں اورنظر نہیں آئی۔ انتہائی دولت مند اور قبر میں پاوٗں لٹکائے بڈھوں کو بھی ایک ایک ڈالر کے لئے اپنی ہی اولاد کو ترساتے دیکھا ہے۔ کہاں یہ لوگ کہ محدود وسائل کے باوجود دل کے اتنے غنی ہیں۔ افضل خان کا رویہ اور اس کی خوشی دیکھ کر میں اور میری نے رقم دینے پر مزید اصرار نہیں کیا ۔ہم بو جھل دل اور پرنم آنکھوں کے ساتھ افضل خان سے ایسے جدا ہوئے جیسے کوئی انتہائی قریبی عزیز سے جدا ہوتا ہے۔ ہم افضل خان، پاکستان اور پاکستانیوں کے بہترین جذبہِ مہمان نوازی کو اپنے ذہن و دل میں بسا کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔
یہ نہ صرف ہمارے ورلڈ ٹور بلکہ ہماری زندگیوں کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ آنے کے بعد نہ صرف ہم نے یہ واقعہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو سنایا بلکہ میری نے اُسے قلمبند کر کے ایک اخبار کو بھی بھیجا ۔اخبار والوں کی فرمائش پر ہم نے انہیں افضل خان کی تصویر بھی مہیا کی جو اس مؤقراخبار کی زینت بنی۔ اس واقعے کے بعد ہر پاکستانی ہمارے لئے قابلِ عقیدت ہو گیاہے۔ کیونکہ ہر پاکستانی کے چہرے میں ہمیں افضل خان نظر آتا ہے۔