طارق مرزا کا اندازِ تحریر اتنا سادہ ، بے ساختہ اور دلچسپ ہے کہ اس پر اہلِ زبان بھی اسے داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ مرزا صاحب اردو شناس ضرور ہیں، مگر اہلِ زبان نہیں۔ ان کے اسلوب میں لفظوں کی تراش خراش ، مطالب کی گہرائی اور طنز و مزاح کا امتزاج ان کے قدررتی اندازِ بیاں کا شاہد ہے۔ اپنی تحریر میں طارق مرزا گاہے بگائے’ پوٹھوہاری تڑکا ‘
لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔جو میری نظر میں انتہائی مناسب اور اچھی اختراع ہے۔ان کی تحریر میں شوخی، سنجیدگی، دُکھ،محبت اور عمیق مشاہدہ نظر آتا ہے۔ یہ مشا ہدہ ان جیسے دیدہ ور صحافی اور بے باک قلم کار کاہی ہوسکتا ہے ۔ عام آدمی جہاں سے آنکھ بند کر کے گزر جاتا ہے مرزا صاحب کوو ہیں دلچسپ کہانی نظر آجاتی ہے اور یہ کہانی جب وہ صفحہ قرطاس پر بکھیرتے ہیں تو انسان ان کے گہرے مشاہدے پر حیران رہ جاتا ہے۔ اپنی منظر کشی سے مرزا صاحب قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ یہ فن خدا کسی کسی کو ہی عطا کرتا ہے ۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ تلاشِ رہ‘‘ نہ تو ترقی پسندوں کی لہر میں لکھے گئے افسانوں کی طرح صرف روٹی ،کپڑے اور مکان کے گرد چکر لگاتا ہے۔ نہ ہی ان کے افسانے خیال افروز کہانیاں ہیں بلکہ مرزا صاحب کا قاری سوچ کے گرداب میں غرق ہونے کے بجائے احساس کے حسیں سبزہ زاروں میں اتر جاتا ہے۔ جہاں اسے سب انسان ایک جیسے نظر آتے ہیں۔چاہے وہ آسٹریلیا کا برُوس ،سوئٹرز لینڈ کی میری یا پاکستان کی شبانہ ہو۔گویا مرزا صاحب کی دُنیا دلوں کے اندر بسنے والی دنیا ہے ۔’’ تلاشِ راہ‘‘ اسی دُنیا کا نام ہے۔
مجھے امید ہے کہ میری طرح آپ بھی طارق مرزا کی اس اُچھوتی کاوش سے لطف اندوز ہوں گے۔
عباس گیلانی
صدر ۔ اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا
12 ستمبر2013