جناب طارق مرزا کا نام ادبی اور صحافتی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی پہلی کتاب’’ خوشبو کا سفر‘‘ 2008 ء میں اسلام آباد سے شائع ہوئی ۔ یہ کتاب یورپ کے پانچ ملکوں کی سیاحت کا سفرنامہ ہے۔ بقول ڈاکٹر محمود الرحمان .............. گوجر خان کے سپوت نے آسٹریلیا کے وسیع و عریض براعظم میں اپنی افسانہ نگاریُ کالم نویسی اور صحافتی فنکاری سے اردو زبان کا پھریرا تو لہرا ہی دیا تھا ۔ اب دیگر مغربی ملکوں کی خاک چھان کر ایسا سفرنامہ پاکستان کی قومی زبان کی جھولی میں ڈال دیا۔ جو ضخیم بھی ہے، پراثر بھی ہے مسبوط بھی ہے اور پربہار بھی ۔
کچھ عرصہ سے طارق مرزا اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے کالم نویسی اور صحافت کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے پائے مگر افسانہ نگاری کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آپ کے کچھ افسانے پاکستان کے ادبی رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔ ’’ تلاشِ رہ‘‘ طارق مرزا کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو اشاعت کے بعد قارئین تک پہنچ رہا ہے۔ اس کتاب میں کل گیارہ کہانیاں شامل ہیں ۔ تمام کہانیاں پاکستان، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کے حالات اور ان کی رداروں پر مشتمل ہیں، سوائے دو گز زمین کے ۔ اُجلے چہرے ،جرمِ وفاُ اور ذرا نم ہو تو ......... تینوں کہانیاں طارق مرزا کے سفرنامے 249 خوشبو کا سفر، میں شائع ہو چکی ہیں۔
طارق مرزا کا طرز تحریر سادہ اور زبان عام فہم ہے ۔ ان کی کہانیوں کے کردار جانے پہچانے اور زندگی کے بہت قریب ہیں ۔ اسی لئے ان کا ہر افسانہ سچی کہانی لگتا ہے۔
طارق مرزا اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ انہیں پاکستان کے علاوہ مشرق وسطی یورپ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں رہنے اور وہاں رہنے والوں کی سماجی اور معاشرتی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کے کردار بڑی احتیاط کے ساتھ منتخب کئے ہیں اور ہر کہانی کی جزئیات میں اہم سماجی مسائل کو بڑی سہولت اور روانی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کہانیوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ عام قاری ان کے ساتھ Relate کر سکتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے بہت سے رنگوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں یکسانیت نہیں تنوع ہے جو پڑھنے والے کو لطف دیتا ہے۔
ان کہانیوں کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ طارق مرزا ایک درد مند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ انسان کی عزت اور اخلاقی قدروں کا احترام ان کی کہانیوں میں جا بجا نظر آتا ہے ۔ ان کا انداز فکر مثبت اور تعمیری ہے اور ان کے بیشتر کردار249 بعض کمزوریوں کے باوجود اس تعمیری کردار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ طارق مرزا کوئی اچھی بات کہنے کے لئے تقریر نہیں کر سکتے ۔ کسی پر تنقید نہیں کرتے بلکہ اپنے کرداروں کی زبان اور عمل سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔
طارق مرزا کی تحریر کی ایک خوبی ان کی اپنے وطن اور اہل وطن سے محبت کا اظہار اور ان کی بھلائی کا جذبہ ہے۔ اس کا اظہار بھی انہوں نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے حوالے سے کیا ہے۔ اجلے چہرے کا افضل خان 249 ذرا نم ہو تو 249 کے گل خان ، روشنی کی کرن کا نوجوان ہیرو انور اور واپسی کے مرکزی کردار سرمد علی 249 سبھی کردار ایسے ہیں جن سے پاکستان کا ایک مثبت اور مضبوط امیج سامنے آتا ہے۔
مجھے طارق مرزا کے سفرنامے’’ خوشبو کاسفر‘‘ کا مسودہ پڑھنے اور اپنی رائے دینے کا موقع ملا اور اب پانچ سال کے بعد ان کے افسانوں کے مجموعہ’’ تلاشِ راہ ‘‘کے بارے میں لکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں دونوں کتابوں میں شامل کہانیوں 249 ان کے کرداروں اور طارق مرزا کے تعمیری انداز فکر سے متاثر ہوا ہوں۔ مجھے امید ہے’’ تلاشِ راہ‘‘ کو بھی علمی اور ادبی حلقوں میں وہی پذیرائی ملے گی جو ان کی پہلی کتاب’’ خوشبو کا سفر‘‘ کو ملی تھی۔
پروفیسرصادق عارفؔ
سڈنی 249 آسٹریلیا
3 ستمبر 2013 ء