وہ اتوار کی روشن اور خوشگوار صبح تھی۔ میں ہفتے میں ایک دن تسلی سے اور جی بھر کر ناشتہ کرنے کے سنہری موقع سے فائدہ اٹھا کر ابھی ابھی فارغ ہوا تھا۔ ابھی بھی چائے کا کپ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں کھانے والے کمرے سے نکل کربیک یارڈ میں رکھی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر جا کر بیٹھا۔ چائے کے کپ سے دھواں نکل رہا تھا۔ اس کی خوشگوار خوشبو مست کیے دے رہی تھی۔ سورج تھوڑی دیر پہلے طلوع ہوا تھا۔ اس کی آرام دہ دھوپ جسم کو سہلا رہی تھی۔ یہی سنہری دھوپ پودوں اور گھاس پر بھی چمک رہی تھی۔ گھاس پر موجود شبنم کے قطرے جیسے شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے۔ شائد انہیں سورج کی عظمت کے سامنے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو گیا تھا۔ اس لیے اپنی موت آپ مر رہے تھے۔ میرے سامنے ٹیولپ کا سفید پھول جیسے سورج کو سلام کر رہا تھا۔ باغ میں موجود کئی مختلف پھول جنہیں میں عام طور پر نظر انداز کر دیتا تھا آج جیسے اپنا جوبن دُکھانے پر تلے ہوئے تھے۔میں ایک ایک پھول ، اس کی بناوٹ ، اس کے رنگ اور اس کی نزاکت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ادھر صبح کے وقت حسب معمول ہمارے بیک یارڈ میں موجود درختوں پر مختلف پرندے جیسے رات بھر کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اتوار والے دن دنیا اتنی خوبصورت کیوں ہو جاتی ہے اور یہ خوبصورتی کام والے دنوں میں کہاں چلی جاتی ہے۔
میں اپنے ارد گرد کے ان خوبصورت مناظر میں اور اپنی سوچ میں گم تھا کہ اچانک میرے موبائل فون کی گھنٹی گنگنا اٹھی۔ میں نے خفگی بھری نظروں سے فون کو اور پھر اس کی سکرین پر لکھے پرائیویٹ(Private) کو دیکھا۔ بادل نخواستہ فون آن کیا۔ دوسری جانب سے کوئی خاتون خالص آسٹریلین لب ولہجے میں میرا نام لے کر تصدیق چاہ رہی تھی کہ میں ہی طارق مرزا ہوں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے بتایا ’’ میں پرنس آف ویلز اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے سے بول رہی ہوں۔ یہاں پر آپ کے ایک دوست چوہدری محبت علی داخل ہیں۔ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘
اس نام کا میرا کوئی دوست نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اس نرس سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کا مریض مجھ ہی سے ملنا چاہتا ہے اور کیا اس کا نام یہی ہے جو آپ بتا رہی ہیں۔
اس مرتبہ نرس نے باقائدہ میرے نام کے سپیلنگ بتا کر اس کی تصدیق کی اور یہ بھی تصدیق کی کہ میرا نام اور فون نمبر بھی اسی مریض نے دیا ہے۔اس نے بتایا ’’ وہ فوری طور پر آپ سے ملنا چاہتے ہیں ویسے بھی ان کی حالت کافی خراب ہے۔ میرے خیال میں آپ کو فوری طور پر ان سے مل لینا چاہیے ۔ اگر آپ نے دیر کر دی تو پھر شائد اس کا موقع نہ مل سکے۔‘‘
مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ لیکن نرس کے آخری دو جملوں نے مجھے زیادہ سوچے بغیراسپتال جانے پر مجبور کر دیا۔ میں نے گاڑی نکالی اور وسیع وعریض سڈنی شہر کے دوسرے سرے پر واقع اسپتال کی جانب روانہ ہو گیا۔ میرے گھر سے اس کافاصلہ پینتالیس منٹ سے کم ڈرائیو کا نہیں تھا�آ اسپتال پہنچ کر مجھے جس مریض سے ملوایا گیا وہ چوہدری محبت علی نہیں ماجد حسین تھا۔ ماجد حسین سے میری علیک سلیک تو بہت پرانی تھی مگر ہم کبھی بھی دوست نہیں رہے۔ میں نے آخری مرتبہ اُسے چھ سال قبل دیکھا تھا۔ اس وقت کے ماجد حسین اور آج کے ماجد حسین میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اگرچہ چھ برس قبل بھی و ہ بڑھاپے میں قدم رکھ چکا تھا لیکن پھر بھی خاصا صحت مند تھا۔ لیکن اب تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچا تھا جو صاف ستھرے بستر پر ایسے موجود تھا جسے نہ ہو۔ وہ انتہائی لاغر ہو چکا تھا۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی۔ چہرے سے جیسے زردی ٹپک رہی ہو۔ اس کی کئی دنوں سے بڑھی ہوئی سفید داڑھی والے چہرے پر خون اور گوشت کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کی یہ حالت بتا رہی تھی کہ وہ چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ چند دنوں کا مہمان ہے۔ وہ جو دنیا کو فتح کرنے نکلا تھا اپنا سب کچھ یہیں چھوڑ کر اب دنیا سے رخصت ہوا چاہتا تھا۔
ماجد حسین سے میری پہلی ملاقات1993میں ہوئی تھی۔ میں نیا نیا آسٹریلیا آیا تھا۔ اس دن ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لیے روزبری آر ٹی اے ( روڈ اینڈ ٹریفک اتھارٹی) گیا تو میر ا ایک سکھ دوست بھی میرے ساتھ تھا۔ دلجیت سنگھ اندرون آسٹریلیا کے ایک چھوٹے سے قصبے سے سڈنی لائسنس کے سلسلے میںآیا ہوا تھا۔میری اس سے ملاقات آرٹی اے میں ہوئی اور پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔یہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔
میں اور دلجیت پنجابی میں باتیں کر رہے تھے کہ ادھیڑ عمر آدمی نے ہمارے پاس آ کر کہا ’’ میرا تعلق پاکستان سے ہے اگر آپ لوگوں کو لائسنس بنوانے میں کوئی دقت پیش آ رہی ہو یا ٹریننگ کی ضرورت ہو تو مجھے بتاؤ میں آپ لوگوں کی مدد کر سکتا ہوں‘‘
ہم نے اس پیشکش کو ایک پاکستانی کی اپنے ہم وطن کے لیے ایک بے لوث خدمت سمجھ کر اظہارِ مسرت کیا ۔لیکن بعد میں علم ہوا کہ مدد کی یہ پیشکش بے لوث ہر گز نہیں تھی۔ ماجد حسین نامی اس شخص کے یوں تو کئی پیشے تھے۔ اس میں سے ایک پیشہ یہ بھی تھا۔ وہ نئے آنے والوں کی ڈرائیونگ لائسنس بنوانے میں مدد تو کرتا تھا مگر بلامعاوضہ نہیں۔ بلکہ جس حدتک ممکن ہوتا اپنے شکار کی کھال بھی ادھیڑ لیتا۔ جہاں اس کا بس چلتا اپنے ہی ہم وطنوں کو بلیک میل کر کے ان سے رقمیں اینٹھتا تھا۔ غیرقانونی تارکین وطن اس کے خصوصی شکار تھے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے کئی غیرقانونی اورغیراخلاقی دھندے تھے جس کا ذکر آگے آئے گا۔
ان باتوں کا علم مجھے کافی دنوں بعدہوا۔ اس کے کارنامے آہستہ آہستہ سامنے آئے تھے۔ شروع کے ان دنوں میں ہماری رہائش ایک ہی علاقے میں تھے۔ ماجد حسین سے تو نہیں لیکن اس کے فلیٹ میں رہنے والے ایک اور پاکستانی راجہ پرویز سے میری خاصی دوستی ہو گئی۔ میں جب بھی راجہ پرویز سے ملنے جاتا ماجد حسین سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ ماجد حسین نے مجھے بھی اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی مگر میں اس کے جھانسے میں نہیںآیا۔ماجدحسین اپنے غلط اورناجائز دھندوں کو مختلف جواز پیش کر کے جائز قرار دینے کی کوشش کرتا تھا۔ اس کا موقف یہ تھا کہ پردیس میں ہم پیسہ بنانے آئے ہیں۔ ناجائز اورجائز جیسے بھی پیسہ بنتا ہو بناؤ۔ خوب نوٹ اکھٹے کرو اور پھر وطن لوٹ جاؤ اور وہاں جا کر اس پیسے سے خوب عیاشی کی زندگی گزارو۔ میں اور راجہ پرویز اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ۔ دلائل دے کر، دوست بن کر اور قانون سے ڈر ا کر۔مگر ماجد حسین ہماری باتوں کو قہقہوں میں اُڑا دیتا۔ وہ الٹا ہمیں نادان سمجھتا تھا وہ کہتا تھا کہ جب پیسہ بنانے کے اتنے آسان اور مختصر راستے موجود ہیں تو صبح سے شام تک محنت کر کے ایک محدود آمدنی کمانا کہاں کی عقلمندی ہے۔
ماجد حسین کے پاس فراڈ کے ایک سو ایک طریقے تھے۔ کبھی کبھی میں سوچتا تھا کہ یہ شخص جتنا ذہین ہے اگر اپنی ذہانت کو مثبت طریقے سے استعمال کرے تو بھی باآسانی دولت مند بن سکتا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ منفی طریقے سے ہی پیسہ بنانا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں وہ کسی کی بات سننے کا روادار نہیں تھا۔ بلکہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک بات طے تھی کہ وہ سدھر نہیں سکتا تھا۔ ایسے شخص سے دوستی تو درکنار تعلق خاطر بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ لہٰذا میرا بھی اس سے رابطہ کم ہوتا چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد میں اس علاقے سے کہیں اور شفٹ ہوا تو یہ رابطہ بھی ختم ہو گیا۔
ماجد حسین کے بارے میں دوسروں سے خبریں ملتی رہتی تھیں۔کسی نے بتایا کہ اس نے ڈرائیونگ سکول بنایا۔ کچھ عرصے بعداسے ختم کرکے پٹرول پمپ خرید لیا ہے۔ پھر پراپرٹی کا بزنس شروع کیا ہے۔ اسے چھوڑ کر انڈین پاکستانی ریسٹورنٹ کھولا ہے۔چھ ماہ سال کے بعد اسے بھی ختم کر دیا اورمنی ایکسچینچ اور ہنڈی کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ ماجد حسین نے جو بھی کاروبار شروع کیا وہ کاروبار کی خاطر نہیں بلکہ کاروبار کے پردے میں فراڈ کی خاطر کیا۔ اس نے بنکوں سے قرضے لیے جو لوٹانے کے لئے نہیں تھے۔اس نے کئی جعلی انشورنس کلیم کیے۔ اس میں سے کئی جعل سازی سے کامیاب بھی ہو گئے۔ یوں اس نے اس مد میں بھی ہزاروں لاکھوں ڈالر جمع کیے۔ جعلی کریڈٹ کارڈ بنوانے، ہزاروں ڈالر خرچ کرنے اور پھر ان کارڈوں کا پھینک دینے کا سلسلہ تو اس نے کئی سالوں تک جاری رکھا۔ کارڈوں کے علاوہ بھی اس نے کئی جعلی دستاویزات بنائے ہوئے تھے جن کا ذکر آگے آئے گا۔ غرضیکہ فراڈ اور لوٹ مار سے لاکھوں ڈالر جمع کر کے جب اس نے محسوس کیا کہ قانون کا گھیرا اس کے گرد تنگ ہو تا جا رہا ہے تو وہ اچانک غائب ہو گیا۔
وہ بروقت غائب ہوا تھا کیونکہ اس کے جانے کے فوراََ بعد اس کے کارنامے سامنے آ گئے تھے۔ وہ مختلف اداروں سے فراڈ کا مرتکب ہوا تھا جس کی تحقیقات ہو رہی تھیں۔ وہ مختلف مالیاتی اور کاروباری اداروں کا ہزاروں ڈالر کا ناہندہ تھا۔ ماجد حسین نے اپنی درجنوں ٹیکسیوں کا مہینوں سے کرایہ جات، لائسنس فیس اور انشورنس بھی جمع نہیں کروائی تھی۔ تمام ٹیکسیاں بنک سے قرضہ لے کر خریدی گئی تھیں۔ ان کی کئی مہینوں کی قسطیں ادا نہیں کی گئی تھیں۔ٹیکسی لائسنس کے مالکان، بنک ، انشورنس کمپنیاں اور ٹیکسی کاریڈیو آفس سب دیکھتے رہ گئے اور ماجد حسین تمام رقم لے کر فرار ہو گیا۔
ماجد حسین کے جانے کے بعد اس کے فراڈ کی داستانیں کئی دنوں تک اخباروں میں چھپتی رہیں۔ اس سلسلے میں سب سے دلچسپ خبر یہ تھی کہ ماجد حسین آسٹریلیا میں غیر قانونی طور پر مقیم تھا۔ حالانکہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کو بلیک میل کر کے رقمیں بھی اینٹھتا رہا۔ نہ جانے اس نے کیا چکر چلایا ہوا تھا کہ غیر قانونی ہونے کے باوجود اتنے کاروبار شروع کرنے میں کامیاب رہا۔شائد یہاں بھی اس کی جعل سازی اس کے کام آئی تھی۔ اس کے مسلسل فراڈاور جلدی جلدی نوٹ جمع کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ یہاں غیر قانونی تھا ۔کسی بھی وقت حکومت کو اس کی جعل سازی کا علم ہو سکتا تھا۔ اس وقت سے پہلے ہی وہ جیبیں بلکہ بریف کیس بھر کر یہاں سے رخصت ہو جانا چاہتا تھا اور بالآخر اس نے یہی کیا۔
کچھ عرصہ تک اخبارات اور پاکستانی حلقوں میں ماجد حسین کے فراڈ اور آسٹریلیا سے فرار کی خبریں زیربحث رہیں۔ پھر دھیرے دھیرے وقت کی گرد میں ماجد حسین اور اس کے کارنامے دھندلاتے چلے گئے۔ ایک سال میںیہ گرد پوری طرح بیٹھی بھی نہیں تھی کہ ماجد حسین نے آسٹریلیا واپس آ کر سب کو چونکا دیا ۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے فراڈ کرنے کے بعد وہ یہاں واپس آئے گا۔
دراصل آسٹریلیا میں قیام کے دوران ماجد حسین آسٹریلیا میں مستقل سکونت کے حصو ل کے لیے مختلف درخواستیں دائر کرتا رہا جس میں سے اکثر نامنظورہوتی رہیں۔ اس طرح کی
ایک درخواست اس کے جانے کے بعد پروسیس ہوتی رہی۔ ماجد حسین کے آسٹریلیا سے بھاگنے کے ایک سال کے بعد آسٹریلین امیگریشن کا یہ حیران کن فیصلہ سامنے آیا۔ ماجد حسین کو آسٹریلیا کی مستقل سکونت مل گئی تھی۔
یہ خبر دوسروں کے ساتھ ساتھ خود ماجد حسین کے لیے بھی ناقابل یقین تھی۔ اسے جب آسٹریلیا میں مستقل سکونت کی خبر ہوئی تو اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ آسٹریلیا میں مستقل سکونت کا پروانہ ملنا کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔ بعض لوگ ساری زندگی اس کے خواب دیکھتے رہے لیکن وہ اس منزل کو نہ پا سکے۔ بہت سارے لوگوں نے اس مد میں ہزاروں ڈالر بھی ضائع کیے۔ وکیل اور مائیگریشن ایجنٹ سالوں تک ان سے بڑی بڑی رقمیں لے کر بھی انہیں یہاں کی شہریت دلوانے میں ناکام رہے۔ پاکستان ، ہندوستان سمیت دنیا کے بے شمار ملکوں سے آنے والے تارکین وطن کے لیے آسٹریلیا کی شہریت کا حصول ایک سہانے خواب کی مانند ہے۔ کیونکہ کاغذ کے اس ٹکڑے میں نہ صرف ان کا بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کا بھی مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے۔ آسٹریلیا کا شہری بنتے ہی انسان بیک وقت بہت ساری فکروں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ آنے والے کل کا معاشی تحفظ، بچوں کا محفوظ مستقبل، آزادی ، جمہوریت اور جان ومال کا تحفظ کاغذ کے اسی پرزے میں پوشیدہ ہے۔ علاوہ ازیں ریٹائرمنٹ کی عمر کے بعد پنشن اور اگر ضرورت ہو تو چھت اور خوراک کا بندوبست بھی اسی کاغذ میں موجود ہے۔
یہ سب کچھ ماجد حسین سے پوشیدہ نہیں تھا۔ اس کے حصول کے لیے اس نے بہت سے پاپڑ بیلے تھے۔ لیکن جو کچھ وہ آسٹریلیا میں کر کے بھاگا تھا اب وہ اس کے سامنے آ گیاتھا۔ آسٹریلیا پہنچتے ہی اس کی گرفتاریقینی تھی۔ اس کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت ہو گئی تھی۔ وہ آسٹریلیا کی شہریت کی آفر بھی نہیں کھونا چاہتا تھا دوسری طرف قانون اوروہ لوگ اس کی تاک میں تھے جن سے فراڈ کر کے وہ بھاگا تھا۔
بہت سوچ بچار اور وکیلوں سے صلاح مشورے کے بعد بالآخر ماجد حسین نے آسٹریلیا واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے علم تھا کہ وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتاتھا کہ اس طرح کی مالی بے ضابطگیوں کی سزا بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ جہاں تک رقم کی واپسی کا تعلق تھا وہ اس کے پاس ہو گی ہی نہیں تو واپس کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وہی ہوا ماجد حسین آسٹریلیا پہنچتے ہی اےئرپورٹ پر ہی گرفتار ہو گیا۔ چند ہفتوں کے بعد اس کی ضمانت ہو گئی اور وہ رہا ہو گیا۔ کیس چلتا رہا۔ ماجد حسین کو کوئی فکر نہیں تھی۔ مقدمے میں ماجد حسین کی پیروی کے لیے وکیل بھی حکومت نے فراہم کیا تھا کہ اب وہ آسٹریلین شہری بن گیا تھا۔ دوسری طرف آسٹریلیا آتے ہی اسے بیروزگار الاؤنس اور مکان کا کرایہ بھی حکومت کی جانب سے ملنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ مزے سے مقدمہ لڑتا رہا ۔کچھ کمپنیوں نے خود ہی کیس میں زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی۔ اس لیے مقدمے میں جان نہیں تھی۔ بالآخر ماجد حسین کو چھ ماہ کی سزا ہوئی ۔جس کے لیے ماجد حسین ذہنی طور پر تیار تھا ۔
آسٹریلیا میں جیلیں بھی گھر کی طرح آرام دہ اور پرتعیش ہوتی ہیں۔ ماجد حسین کے لیے یہ چھ ماہ بھی عیاشی کے تھے۔ اس کے بعد تو راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ باہر آنے کے بعد اسے کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بے روزگار الاؤنس، ہاؤسنگ کمیشن سے ملاسرکاری گھر اور آسٹریلیا کی پرفضا اور محفوظ زندگی اس کی منتظر تھی۔
جیل سے نکلنے کے بعد ماجد حسین نے سڈنی شہر کے مرکز کے قریب ایک علاقے سری ہلز میں ہاؤسنگ کمیشن کے فلیٹ میں رہنا شروع کر دیا۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ لہٰذا اس کے لئے حکومت نے ریٹائر منٹ پنشن شروع کر دی۔ ماجد حسین سال کے چھ ماہ پاکستان میں گزارتا تھا اور بقیہ چھ ماہ آسٹریلیا میں۔ اس طرح اس کی پنشن نہیں رکتی تھی۔ طویل عرصہ تک ملک سے باہر رہنے کی صورت میں پنشن بند ہو جاتی ہے۔
ایک طویل عرصے تک ماجد حسین سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ہاں اس کے بارے میں خبریں دوسروں سے ملتی رہتی تھیں۔ سری ہلز میں رہتے ہوئے ماجد حسین کی ملاقات کئی پاکستانیوں سے ہوتی رہتی تھی ۔لیکن اس کا دوست کوئی نہیں تھا۔ جان پہچان بہت سے لوگوں سے تھی۔ ماجد حسین نہ کسی کے گھر جاتا تھا اور نہ ہی کسی کو اپنے گھر بلاتا تھا۔ ویسے بھی اس کے کارناموں کی بدولت لوگ اس سے دور رہنا ہی پسند کرتے تھے۔
آج سے تقریباً چھ برس قبل ماجد حسین سے میری ملاقات ہو گئی۔ یہ اتفاقیہ ملاقات سری ہلز اسلامک سینٹر میں نماز جمعہ کے بعد مسجد سے باہر ہوئی۔ اتنے برس گزر گئے تھے لیکن ماجد حسین بالکل نہیں بدلا تھا۔ بڑھاپے کے باوجود چست اور سمارٹ۔ طنزیہ مسکراہٹ اوردوسرں کو کم ترنظر سے دیکھنے کی عادت۔ اس کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ یہ دنیا اوراس میں بسنے والے لوگ کم عقل ، کم ہمت اور ناتواں ہیں۔وہ جب چاہے اپنی ذہانت اور چالاکی سے کسی کو بھی چت کر سکتا ہے۔
مجھے دیکھتے ہی ماجد حسین نے کہا’’کیسے ہو؟ بہت دنوں بعد نظر آئے ہو‘‘
میں نے کہا’’ اللہ کا شکر ہے۔ بس کام کاج میں مصروفیت رہتی ہے۔‘‘
’’کچھوے کی چال چلو گے تو ساری زندگی یہ مصروفیت ختم نہیں ہو گی‘‘ ماجد حسین نے برسوں قبل ہونے والی ملاقات کی گفتگو کا تسلسل جاری رکھا۔ اس وقت بھی ہماری گفتگو اسی
موضوع پر ہوئی تھی۔ ماجد حسین مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ جب تک کوئی شارٹ کٹ نہیں ڈھونڈو گے یونہی کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹتے عمر گزر جائے گی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ دنیا بے وقوفوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کی بیوقوفی سے فائدہ نہ اٹھاناخود بیوقوفی ہے۔ جبکہ میں وہی رٹے رٹائے جملے دہراتا رہا کہ میں محنت اور حلا ل کی کمائی سے مطمئن ہوں۔ حلا ل کی کمائی کا ذائقہ ہی الگ ہوتا ہے۔ ویسے بھی میرے اندر کا آدمی مجھے غلط کام نہیں کرنے دیتا ۔اگر میں ایسا کروں تو چین غارت ہو جاتا ہے اور رات بھر نیند نہیں آتی۔ماجد حسین طنزیہ ہنسی ہنستا رہا اور کہتارہا کہ یہ اندر کا آدمی نہیں تمہاری بزدلی ہے جو تمہیں روکتی ہے جس دن اس بزدلی پر قابو پا لو گے اس دن تمہاری ان نو سے پانچ والی نوکریوں سے جان چھوٹ جائے گی اورعیش کرو گے۔
آج اتنے عرصے بعد بھی ہماری گفتگو کا موضوع وہی تھا ۔میں نے آج بھی ماجد حسین کو وہی جواب دیا ’’میں اپنی چال سے مطمئن ہو ں اور حلال کھاتا ہوں اور بچوں کو حلال کھلاتا ہوں اور چین اور سکون کی نیند سوتا ہوں‘‘
’’میں بتاؤں! تمھارا کچھ نہیں بنے گا۔ اسی طرح صبح سے شام تک کام کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔ ارے یہ دنیا عیاشی کے لیے بنی ہے۔ رہتے آسٹریلیا میں ہو اور سوچ سعودی عرب میں رہنے والوں جیسی ہے۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو یہاں کیوں آئے تھے۔ وہاں اسلام آباد میں کرتے رہتے ٹیچری۔ اتنے بھرپور دنیا والے نظاروں والی دنیا میں آ کر بھی تمھاری آنکھیں ایک گز سے آگے نہیں دیکھ رہیں۔ کیا فائدہ یہاں آنے کا‘‘ماجد حسین نے اپنا لیکچر جاری رکھا۔
’’ماجد حسین کوئی فائدہ نہیں اس بحث کا۔ اس سے پہلے بھی ہم کئی دفعہ اس موضوع پر بات کر چکے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم ایک دوسرے کو قائل کر سکیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی اپنی دنیا میں خوش رہیں‘‘
ہم یہ باتیں مسجد کے قریب ہی واقع ایک کافی شاپ میں بیٹھ کر کر رہے تھے۔ اس دوران میں نے ماجد حسین سے اس کے حالیہ مشاغل اور فیملی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ لیکن حسب معمول اس نے ٹال دیا۔یہ اس کی عادت تھی۔ وہ کسی کو دوست نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی کسی کوذاتی زندگی کی بھنک پڑنے دیتا تھا۔ ہاں اپنے کارناموں کو نہیں چھپاتا تھا،خاص طور پر گذشتہ کارناموں کو۔ شائد یہی اس کی اچیومنٹ تھی جسے وہ میڈل کے طور پر سینے پر سجا کر رکھنا چاہتا تھا۔
اس ملاقات کو بھی چھ برس بیت چکے تھے اور آج چھ برس بعد وہ اسپتال کے انتہائی نگہداشت والے شعبے میں ایک بیڈ پر اس حالت میں موجود تھا کہ اسے پہچاننا مشکل تھا۔ لیکن ماجد حسین نے مجھے پہچاننے میں دیر نہیں کی۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہر ے پرہلکی سے مسکراہٹ آئی اور پھر تھکن سے آنکھیں بند ہو گئیں۔دو منٹ کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو میں نے پوچھا ’’ماجد حسین یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔کب سے بیمار ہو اور پہلے اطلاع کیوں نہیں دی؟‘‘
ماجد حسین جو اسپتال میں چوہدری محبت علی کے نام سے داخل تھا آہستہ سے بولا تو اس کی آواز میں نقاہت تھی لیکن لہجے میں اب بھی طنز تھا ’’میرا حال تمہارے سامنے ہے۔ بیمار تو میں پچھلے چھ ماہ سے ہوں ۔لیکن تم پہلے پاکستانی ہو جسے میری بیماری کا علم ہے۔ حتیٰ کہ میرے بیوی بچوں کو بھی میری اس حالت کا علم نہیں ہے‘‘
’’مگر کیوں ! تم نے انہیں اطلاع کیوں نہیں دی ۔بلکہ بیمار ہوتے ہوئے ہی تمہیں وہاں لوٹ جانا چاہیے تھا۔ تم جانتے تھے کہ یہاں کوئی تمہاری دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے‘‘ میں نے حیرانی سے کہا
’’ وہاں بھی کوئی نہیں۔۔ ‘‘ماجد نے پہلی مرتبہ شکست خوردہ لہجے میں کہا اور نقاہت سے پھر آنکھیں موند لیں۔
اس دوران نر س آ گئی۔ ا س نے ماجد حسین کے بازو سے جڑی ڈرپ میں انجکشن سے کوئی دوا ڈالی ماجد حسین کی نبض چیک کی۔ ماجد حسین نے آنکھیں کھول دیں اور نرس کو پانی پلانے کے لیے کہا۔ نرس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلا۔ ماجدحسین کو پشت سے سہارا دیا۔ ماجد حسین نے ایک دو گھونٹ لیے اور پھر بستر پر ڈھے گیا۔
چند لمحوں بعد پھراس نے آنکھیں کھولیں۔ چند منٹ گفتگو کی اور پھر ہلکان ہو گیا۔ اس کی جسمانی طاقت ختم ہو چکی تھی اورہمت جواب دے گئی تھی۔ وہ ہارا ہوا جواری تھا جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ موردالزام ٹھہراتا ہے۔ اس لمحے اسے جتنا بھی برا بھلا کہو وہ کسی بات کا برا نہیں مانتا۔ جسمانی طاقت کی کمی کو انسان پھر بھی برداشت کر لیتا ہے۔ لیکن انسان ہمت ہار جائے تو پھر سب کچھ ہار جاتا ہے۔ ہمت کے لیے انسان کے اندر کی سچائی اور کھرا پن ضروری ہے۔ ایسے وقت میں اپنوں کا ساتھ انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ماجد حسین ان تمام چیزوں سے محروم تھا۔ اس لیے وہ مکمل طور پرڈھے چکا تھا۔
اس دن کی شام ہونے تک میں اسپتال میں رہا۔ جب ماجد حسین زیادہ نقاہت زدہ ہو جاتا اور اس کی آنکھیں بند ہو جاتیں تو میں کبھی تو وہیں کرسی پر بیٹھا رہتا اور کبھی باہر جا کر بینچ پر بیٹھ جاتا۔ وہ جب ہوش میں آتا تو اپنی بیماری کو بھول کر اپنے اندر کا غبار ہلکا کرنے لگتا۔ یہ غبار اس نے نہ جانے کب سے اپنے اندر بند کر رکھا تھا۔ خدا جانے یہی غبار ہی اس کے خون میں ناسور بن کر اسے موت کے منہ میں لے جار ہا ہو۔ ڈاکٹر نے مجھے یہی بتایا تھا ۔اسے خون کا کینسر تھا۔ بیماری اب اس اسٹیج پر تھی کہ اس کا علاج ناممکن تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے یہ
بھی بتا دیا تھاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دو دن کا مہمان ہے۔
شام ہونے تک بہت سے وقفوں کے دوران ماجد حسین نے مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ وہ جو اپنی ذاتی زندگی کی بھنک بھی کسی کو نہیں پڑنے دیتا تھا آج کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے تھا۔
شام چھ بجے میں اس سے اجازت لے کر گھر جانے لگا تو پہلی دفعہ میں نے ماجد حسین کی آنکھوں میں موت کا خوف بھی دیکھا اور پنے لیے دوستی کا جذبہ بھی نظر آیا۔ اُس کی آنکھوں میں جدائی کا غم بھی تھا اور ہارنے کا دکھ بھی تھا۔ماجد حسین ساری زندگی ان جذبوں سے عاری رہا تھا۔ لیکن تھا تو ایک انسان ہی۔ اور انسان ان جذبوں سے کبھی بھی مکمل عاری نہیں ہو سکتا۔
لاہور گورنمنٹ کالج میں بی کام سال اول کی کلاس میں خوب جوش وخروش تھا۔ زیادہ تر طلبہ دوسرے کالجوں سے آئے تھے۔ کچھ لاہور شہر کے مقامی تھے اور کچھ پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی آئے تھے۔ ان میں سے ایک طالب علم کا نام فرقان چوہدری تھا۔ فرقان کا تعلق گجرات سے تھا۔ اس نے بارہویں تک اپنی تعلیم گجرات سے ہی حاصل کی تھی۔ گریجوایشن کے لیے اس نے گورنمنٹ کالج لاہور کا انتخاب کیا۔ آج اس کا اس کالج میں پہلا دن تھا۔ لہٰذا وہ خوش بھی تھا اور قدرے گھبرایا ہوا سا بھی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ لاہور جیسے بڑے شہر کے اس بڑے کالج میں داخلہ لینا اس کی زندگی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ اسے گھر والوں سے دوری کا بھی سامنا تھا۔جہاں آزادی کی خوشی تھی وہاں ماں اور بہن سے جدائی کا غم بھی تھا۔یہاں اسے ہوسٹل میں رہنا تھا جبکہ ماں اور بہن گجرات میں تھیں۔
وہ انہی خیالوں میں گم تھا کہ ایک پروفیسر نے تمام طلباء سے اپنا اپنا تعارف کروانے کے لیے کہا۔ تعارف میں والد کا نام اور اس کاپیشہ بھی شامل تھا۔ فرقان چوہدری کی باری آئی تواس نے بتایا ’’ میرا نام فرقان چوہدری ہے۔ میرا تعلق گجرات سے ہے۔ میرے والدکا نام چوہدری محبت علی ہے اور وہ آسٹریلیا میں ہوتے ہیں‘‘
اسی طرح دوسرے لڑکے اپنا تعارف کرواتے چلے گئے۔ ایک اور لڑکے نے اپنے تعارف میں کہا ’’ میرا نام ذیشان چوہدری ہے۔ میرا تعلق یہیں لاہور سے ہے۔ میرے والد کا نام چوہدری محبت علی ہے اور وہ آسٹریلیا میں ہوتے ہیں۔‘‘
پروفیسر نے حیران ہو کر کہا ’’ تم دونوں بھائی تو نہیں ہو؟ دونوں کا نام ملتا جلتا ہے۔ دونوں کے والد کا نام ایک ہے اور دونوں کے والد آسٹریلیا میں ہیں‘‘
دونوں لڑکوں نے کہا کہ ہم بھائی نہیں ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ہمارے والد کا نام ایک ہے۔
کلاس ختم ہو گئی۔ کمرہ جماعت سے باہرفرقان اور ذیشان ایک دوسرے سے ملے تو دونوں کے دلوں میں ایک چور سا تھا۔ اتنی مماثلت محض اتفاقیہ نہیں ہو سکتی۔ فرقان نے ذیشان سے پوچھا’’ تمہارے والد آسٹریلیا کے کس شہر میں رہتے ہیں؟‘‘
’’ وہ سڈنی میں رہتے ہیں۔ ‘‘ذیشان نے بتایا
فرقان نے کہا ’’ میرے والد صاحب بھی سڈنی میں ہیں۔ میرے پاس ان کی تصویر ہے۔‘‘ فرقان نے بٹوے سے ایک تصویر نکالی جس میں فرقان اپنے والد کے ساتھ کھڑا تھا۔ تصویر دیکھتے ہی ذیشان نے کہا ’’ یہ تومیرے ابو ہیں؟‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو !یہ میرے ابوہیں‘‘فرقان نے پہلے تو غصے سے کہا پھر کچھ سوچ کر بولا ’’ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ تمہارے بھی ابو ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ان کی کوئی تصویر وغیرہ ہے تمہارے پاس؟‘‘
ذیشان نے کہا ’’تصویر تو میرے پاس اس وقت نہیں ہے۔ لیکن ان کا پتہ میرے پاس ہے‘‘
ذیشان نے وہ پتہ فرقان کو دکھایا تو فرقان نے کہا ’’ میرے ابو کا ایڈریس بھی یہی ہے۔ ذیشان مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ابو نے دو شادیاں کر رکھی ہیں اور ہم دونوں بھائی ہیں۔‘‘
ذیشان نے کہا ’’ ہاں ایسا ہی لگتا ہے۔ تم لوگ گجرات میں رہتے ہواور ہم یہاں لاہور میں ۔ ابو نے ہمیں نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رکھا بلکہ بے خبر بھی۔ قدرت کے کھیل دیکھو کہ ہم کیسے اکٹھے ہو گئے۔ ابو نے ایسا سوچا بھی نہیں ہو گا۔ شاید قدرت نے ہمیں ملانے اور ابو کا برسوں پرانا راز افشا کرنے کا یہ وقت مقرر کررکھا تھا۔ ویسے تمہارے کتنے بہن بھائی ہیں؟‘‘
فرقان نے کہا ’’ میری ایک بہن ہے جو مجھ سے بڑی ہے۔‘‘
ذیشان نے بتایا ’’ میرا ایک چھوٹا بھائی ہے‘‘
’’اس طرح تو ہم چار بہن بھائی ہو گئے‘‘ فرقان بولا
’’ ہاں ! اگر ابو نے اس کے علاوہ بھی کوئی اور شادی نہ کر رکھی ہو تو۔ ویسے انہوں نے ہمیں ساری زندگی دھوکے میں رکھا۔ میری امی کو اس بات کا علم ہو گا تو اسے سخت صدمہ پہنچے گا‘‘ ذیشان کے لہجے سے برہمی عیاں تھی
فرقان نے کہا’’ ظاہر ہے میری امی کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہو گی۔ مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ میرے ماموؤں کو اس بات کی اطلا ع ملی تو وہ ابو کے ساتھ سخت سلوک روا رکھیں گے کیونکہ وہ پہلے ہی ابو کو پسند نہیں کرتے‘‘
ذیشان نے کہا’’ ابو کی یہ حرکت کس کو پسند آئے گی۔ انہوں نے اپنی بیویوں اور اولاد کو کھلونا بنا کر رکھا۔ کم ازکم میں تو ابو کو معاف نہیں کروں گا‘‘
فرقان نے کہا ’’ میرے جذبات بھی تم سے مختلف نہیں ہیں۔ویسے کیا خیال ہے ہم اپنی ماؤں کو ملوا نہ دیں۔ اس طرح ہم بہن بھائی آپس میں مل سکیں گے‘‘
ذیشان نے کہا’’ ٹھیک ہے۔ اس ویک اینڈ پر تم اپنی امی اور بہن کو لے کر ہمارے گھر آ جاؤ۔ میں گھر جاکرامی کو صورتحال سے آگاہ کرتا ہوں‘‘
فرقان اور ذیشان کا والد کوئی اور نہیں بلکہ ماجد حسین تھا۔ اس کا اصل نام چوہدری محبت علی ہی تھا۔ وہ آسٹریلیامیں کسی اور کے پاسپورٹ پرسفر کرکے گیا تھا۔ لہٰذا سے ماجد حسین کا یہ نام اپنانا پڑا۔ پھر وہی ہوا جو دھوکے اور جھوٹ کے انجام پر ہوتا ہے۔ ذیشان اور فرقان کی مائیں آپس میں ملیں توانہوں نے ایک دوسرے سے شکوہ کرنے کے بجائے ماجد حسین سے قطع تعلقی کا فیصلہ کر لیا۔
شومئی قسمت سے انہی دنوں ماجد حسین چھٹیوں پر پاکستان جا پہنچا۔ وہ لاہور ایئرپورٹ پر اترا تو خلاف توقع کسی کو منتظر نہ پا کراس کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ ٹیکسی لے کر لاہور والے گھر جا پہنچا۔ لیکن اس دفعہ اس کا استقبال اس طرح ہوا کہ اس کی بیوی نے اسے گھر میں گھسنے ہی نہیں دیا۔ اس کا بیٹا اور بیٹی پاس کھڑے رہے لیکن انہوں نے باپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ماجد حسین کو پتہ چل گیا کہ اسکا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ پھر بھی اسے اپنی بیوی اور بچوں سے اس سلوک کی توقع نہیں تھی۔ سخت صدمے کی حالت میں وہ گجرات والے گھر میں جا پہنچا۔ وہاں صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب تھی۔ اس کے سالے اس کے گھر میں موجود تھے۔ ان میں سے ایک سیاستدان تھا اور علاقے میں اس کا بہت اثررسوخ تھا۔ ماجد حسین کی ان سالوں سے کبھی نہیں بنی تھی۔اب ان کو موقع مل گیاتھا۔ انہوں نے نہ صرف ماجد حسین کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا بلکہ دھمکی دے دی کہ اگر ماجد حسین دوبارہ وہاں نظر آیا تو وہ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ماجد حسین کے ان بچوں کا رویہ بھی لاہور والوں سے مختلف نہیں تھا۔ فرقان نے اسے اپنی زبان سے جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔
ماجدحسین کے لیے وہ دن یکے بعد دیگرے اور شدید صدمات لے کر آیاتھا۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کا بھانڈا اس طرح پھوٹے گا۔اس نے ساری زندگی بیویوں کو بیویاں نہیں سمجھا بلکہ شہر شہر اور ملک ملک اپنی عیاشیوں میں گم رہا۔ گجرات والی بیوی اس کے خاندان سے تھی۔ وہ خاند ان جو پہلے ہی اس کی حرکتوں کی وجہ سے اس کا دشمن بنا ہوا تھا۔ اب بیوی بچے بھی اس کے خلاف ہو گئے تھے۔
لاہور والی بیوی سے شادی اس نے کئی سال بعد اپنی مرضی سے کی تھی۔ اس بیوی سے اسے اتنے سخت ردعمل کی توقع بالکل نہیں تھی۔ اسے علم نہیں تھا کہ دونوں بیویوں نے باہمی صلاح مشورے کے بعد مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا ہوا تھا۔
ماجد حسین سخت پریشان تھا۔ وہ جو ساری زندگی اپنی ہی اولاد اور بیویوں کو دھوکا دیتا رہا اس کا انجام یہ ہوگا اس نے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں اس کے دو گھر تھے۔ دو بیویاں اور ان کے بچے تھے۔ آج اس کا ایک بھی ٹھکانہ نہیں تھا۔ نہ ہی بیوی بچے اس کے رہے تھے۔ وہ بالکل تہی دامن ہو چکا تھا۔ شرمندگی کی وجہ سے وہ کسی عزیز یا دوست کے گھر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ مجبوراً اسے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے کر رہنا پڑا۔
اس کے بعد اس نے متعدد کوششیں کیں کہ اس کے بیوی بچے مان جائیں یا ان میں سے کم از کم ایک گھر میں رہنے کی اجازت مل جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے بچے اس سے سخت بدظن ہو چکے تھے۔ مجبوراً پندرہ دن ہوٹل میں گزار کر وہ آسٹریلیا واپس چلا آیا۔ادھر آسٹریلیا میں بھی وہ خوش نہیں تھا۔ کیونکہ اسے توآسٹریلیا کی شہریت مل گئی لیکن وہ اپنے بیوی اور بچوں کو آسٹریلیا نہیں لا سکتا تھا۔ اس طرح اس کی خوشی بلکہ زندگی ادھوری تھی۔ اس بڑھاپے میں اکیلا رہنا آسان نہ تھا۔
آسٹریلیا کی شہریت ملتے ہی قدرتی طور پر اسے جو پہلا خیال آیا وہ بیوی اور بچوں کو آسٹریلیا لانے کا خیال تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیسے اور کس بیوی کو وہ آسٹریلیا لائے۔ آسٹریلین قانون کے مطابق ایک مرد بیک وقت صرف ایک بیوی رکھ سکتا ہے۔ ماجد حسین کے لیے یہ ناممکن تھا کہ دونوں بیویوں اور ان کی اولادوں کو آسٹریلیا لا سکے۔
یہ تو شہریت ملتے ہی اس کی شروع کی سوچ تھی۔ ابھی بنیادی مسئلہ باقی تھا جس کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ ماجد حسین کا اصل نام ماجد حسین نہیں بلکہ محبت علی تھا۔
چوہدری محبت علی آسٹریلیا جانے سے پہلے پاکستان میں بھی غیرقانونی دھندوں میں ملوث رہا۔ غیرقانونی امیگریشن ایجنٹ کی حیثیت سے وہ جعلی کاغذات، جعلی پاسپورٹ اور جعلی ویزوں کی مدد سے کچھ لوگوں کو آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ بھجوانے میں کامیاب رہا۔ جس کے بدلے اس نے لاکھوں روپے کمائے۔ یہ لوگ غیرقانونی طریقوں سے بجھوائے جاتے
تھے۔ ان میں سے اکثر پکڑے جاتے اورکچھ عرصہ وہاں کی جیلوں میں گزارتے اور پھر واپس پاکستان بجھوا دیے جاتے۔ کچھ چھپ چھپا کر کام کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ خود کو قانونی بنانے کے لیے تگ ودو جاری رکھتے۔ ان میں سے کچھ کامیاب ہو جاتے اور کچھ یہ بازی ہار جاتے اور چند سالوں بعد پاکستان پہنچ جاتے۔
ان کے علاوہ سینکڑوں وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جائیداد اور ماؤں ، بہنوں اور بیویوں کا زیور فروخت کر کے لاکھوں روپے چوہدری محبت علی کو دیے۔ چوہدری محبت علی ان کی رقمیں ہتھیا کر شہر بدل لیتا اور کسی دوسرے شہر میں جا کر یہ دھندہ شروع کر دیتا۔ برسوں تک اس کا یہ گھناؤنا کھیل جاری رہا۔ ایک دفعہ ایک گروپ کو اس نے جعلی تجارتی گروپ بنا کر آسٹریلیا بھیجا۔ ظاہر ہے ان کا ویزہ تین ماہ سے زائد کا نہیں تھا۔ اس گروپ میں چوہدری محبت علی خود بھی شامل ہو گیا اور آسٹریلیا پہنچ گیا۔ آسٹریلیا پہنچنے کے تین ماہ کے بعد یہ سارے لوگ غیر قانونی ہو گئے اور چھپ چھپا کر مختلف دھندے کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ تو اپنی کوششوں سے کئی سالوں کے بعد آسٹریلیاکی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور کچھ کو واپس جانا پڑا۔
چوہدری محبت علی کو کئی سالوں کے بعد آسٹریلیا کی شہریت کن حالات میں ملی اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ جس طرح دوسرے وہ لوگوں کوجعلی کاغذات پر باہر بھیجتا تھا اسی طرح وہ خود بھی کسی اور کے پاسپورٹ پر آسٹریلیا پہنچا تھا۔ اب یہ معاملہ سفر تک محدود نہیں رہا تھا بلکہ آسٹریلیا میں اس کے تمام قانونی کاغذات اور شہریت ماجد حسین کے نام پر تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ایک اور جھوٹ یہ بولا تھا کہ شہریت کی درخواست میں خود کو اکیلا لکھا تھا۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کا کہیں اندارج نہیں کرایا تھا۔ شاید اس طرح اسے شہریت ملنے کی زیادہ امید تھی۔ لیکن اس کے نتائج پراس وقت اس کی نظر نہیں تھی۔ اب اگر وہ اپنی شہریت کی بنیاد پر بیوی بچوں کو آسٹریلیا لانا چاہتا تو نہیں لا سکتا تھا۔ کیونکہ اس نے مختلف درخواستوں میں خود کو اکیلا(Single)لکھا تھا۔اب کس منہ سے وہ آسٹریلین امیگریشن کو بتاتا کہ اس کی ایک نہیں بلکہ دو دو بیویاں موجود ہیں اور چار بچے بھی ہیں۔اگر وہ ایسا کرتا تو فراڈ کے جرم میں جیل بھیج دیا جاتا اور اس کی شہریت منسوخ بھی ہو سکتی تھی۔ دوسری طرف پاکستان میں موجود اس کی بیویوں کے نکاح ناموں میں بحثیت خاوند اس کا نام چوہدری محبت علی درج تھا ماجد حسین نہیں۔ اس طرح اس کے بچوں کی ولدیت کے خانے میں بھی ماجد حسین نہیں بلکہ محبت علی درج تھا۔ اس طرح تو اس کو پورے خاندان کے تمام کاغذات، نکاح نامے، ڈگریاں ، پیدائشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ سب تبدیل کرنے پڑتے جو ناممکن تھا۔ گویا چوہدری محبت علی نے فراڈ کے جو بیج بوئے تھے وہ جھاڑیاں بن کر اس کے راستے میں آ گئے تھے۔ اب وہ جو قدم بھی اٹھاتا ان کانٹوں سے بچ نہیں سکتا تھا۔ محبت علی کے بوئے ہوئے ان کانٹوں سے اس کا اپنا وجود زخمی ہو گیا تھا۔ یہ زخم اس کی بقیہ زندگی کے ہر قدم پر اس کے ساتھ تھے۔ اس سے اس کا وجود ہی زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی۔
پاکستان سے واپس آنے کے صرف چھ ماہ بعد آج وہ موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا بستر مرگ پر موجود تھا۔ زندگی کے ان مشکل ترین لمحات میں اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔ نہ کوئی دوست نہ رشتہ دار۔ اس کے بیوی بچوں کو بھی اس کی بیماری کی اطلاع مل چکی تھی لیکن وہاں سے اس کی خیریت معلوم کرنے کے لیے کسی نے اسے فون تک نہیں کیا ۔
اپنوں کی بے اعتنائی سے محبت علی پوری طرح ڈھے گیا تھا۔ اس کے اندر جینے کی امنگ ختم ہو چکی تھی۔آج اس سے زیادہ غریب، اس سے زیادہ تہی دامن اور اس سے زیادہ اکیلا دنیا میں کوئی نہیں تھا۔
وہ جو دنیا کو جیتنے نکلا تھا اپنا سب کچھ ہار گیا تھا۔ اس ہار کا اثر اس کے جسم، اس کی جاں، اس کے بدن میں دوڑنے والے لہو، اس کے دل ، اس کے دماغ حتیٰ کہ اس کی روح پر بھی ہوا۔ اس کی اٹکی اٹکی سانسوں سے بھی اس ہار کی بو آتی تھی۔ان سانسوں سے اس کے اعمال کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔
اس دن کی شام ہونے تک محبت علی نے مجھے اپنی زندگی کی کتاب کا ہر صفحہ کھول کر دکھا دیا تھا۔ یہ کامیاب ترین آدمی کی ناکامی کی داستان تھی۔ ایسی ناکامی جس میں اس نے اپنا آپ داؤ پر لگاکر ہاردیا تھا۔آج زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ اس اعتراف سے شاید اس کی اٹکی ہوئی روح پر سے کوئی بوجھ اٹھ گیا تھا۔
اگلے دن صبح چھ بجے پرنس آف ویلز اسپتال سے کال آئی تو ان کی دی ہوئی خبر میرے لیے غیر متوقع نہیں تھی۔ چوہدری محبت علی عرف ماجد حسین کی روح رات کے آخری پہر قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی۔