یوں تو میں نے اخباری کالم، سماجی، سیاسی، معاشرتی، فکاہیہ اور طنزیہ مضامین،سفرنامہ ،ڈرامہ اور شاعری سمیت مختلف ادبی میدانوں میں طبع آزمائی کی ہے ۔ لیکن بنیادی طور پر میں کہانی نویس ہوں۔ سب سے پہلے میں نے کہانیاں ہی لکھناشروع کیا تھا۔ میرے سفرنامہِ یورپ ’’ خوشبو کا سفر‘‘ میں بھی روایتی سفرناموں سے ہٹ کر مختلف کردار اور اُن کی کہانیاں شامل ہیں ۔( ان میں سے چند کہانیاں اس کتاب میں بھی شامل کی گئی ہیں)۔جس سے یہ سفر نامہ عام سفرناموں سے مختلف اور مقبول ثابت ہوا۔کہانی اصنافِ ادب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اور سب سے قدیم صنف ہے۔جب کتابیں نہیں ہوتی تھیں تو اُس وقت بھی کہانیاں سنی اور سنائی جاتی تھیں۔جو صدیوں تک سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل آگے منتقل ہوتی رہتی تھیں۔ اب بھی بڑی بوڑھیوں کے پاس بیٹھ کر ایسی کہانیاں سنی جا سکتی ہیں جو کسی کتاب میں نہیں ملتیں۔ شاید اسی لئے برِ صغیر پاک و ہند کے نامور افسانہ نگار انتظار حسین کہتے ہیں کہ میں نے کہانی نویسی اپنی دادی سے کہانیاں سن کر سیکھی ہے۔
یہ اُردو ادب کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ادیب مختلف گُروپوں میں بٹ کر صرف محدود موضوعات پر قلم آزمائی کرتے رہے ۔ اس سے ان کو اپنا کوئی پیغام دینے میں تو شاید کوئی آسانی ہوئی ہو لیکن بحیثیت مجموعی کہانی کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ اسی لئے آج کا قاری مستند ادیبوں کو پڑھنے کے بجائے ڈائجسٹوں سے دِل بہلاتا ہے۔میں مانتا ہوں کہ ادیب معاشرے کے مسائل سے بے بہرہ نہیں رہ سکتا لیکن قاری تک پہنچنے کے لئے اس کی دلچسبی کا سامان یعنی حقیقت سے قریب، اچھی اور دلچسپ کہانی لکھنا ضروری ہے۔وہ بھی سادہ اور عام فہم زبان میں۔عربی اور فارسی کے نامانوس اور ناقابلِ فہم ثقیل الفاظ کی بھر مار سے شاید ادیب کا قد بلند ہوتا ہو لیکن قاری تک رسائی نہیں ہوتی۔ اس ادب کا کیا فائدہ جو الماریوں میں سجا رہے لیکن قاری کوتسکین نہ پہنچا سکے۔
اسی طرح لکھاری کے مشاہدے،تجربے اور سوچ میں جتنی زیادہ گہرائی ہوتی ہے وہ اس کی تحریر میں جاذبیت اور اثر آفرینی پیدا کرتی ہے۔ ’ تلاشِ راہ، میں شامل افسانے میرے مشاہدے یا تجربے پر مبنی ہیں۔ان کہانیوں کے موضوعات ، کردار اور مسائل عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں۔ ان میں ملکی اور بین الاقوامی کردار اور ان کی کہانیاں شامل ہیں۔میری نظر میں کہانی سے زیادہ اہم اس کا کردار ہے ۔ کہانی اس کے لئے لکھی جاتی ہے وہ کہانی کے لئے نہیں ہوتا ہے۔میں ان کرداروں سے ملاہوں۔ ان سے باتیں کی ہیں ۔ ان کے جذبات اور احسات سنے ہیں۔ ان کے دلوں میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ پھر جو تصویر مجھے نظر آئی ہے اس کو ہو بہو اور من و عن صفحہِ قرطاس پر بکھیر نے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اس میں کمی بیشی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لئے یہ کہانیاں موضوعات اور موادکے اعتبار سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور جدا ہیں۔ایسے کردار اور ایسی کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری ہوتی ہیں۔انہیں سمیٹنے اور مربوط کرنے کے لئے عمیق مشاہدہ کرنے والی آنکھ ،حساس دل اور سوچنے والا ذہن درکار ہو تا ہے۔ خود کو کہانی کے کردار کی جگہ رکھ کر اس کا درد اپنے دل میں محسوس کرنا پڑتا ہے۔یہ کہانیاں لکھتے ہوئے کئی دفعہ میرے ہی آنسوؤں نے میری تحریر کو بھگو دیا۔
کہانیوں کا حجم چھوٹا بڑا ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں مختلف ادبی رسائل میں اشاعت کے لئے رسالے کے مزاج کے مطابق ترتیب دینا پڑا ۔یہ کہانیاں اُردو ڈائجسٹ،نوائے آسٹریلیا،بنیاد، زاویہ اور دیگر ادبی رسالوں اور ویب سائیٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔’چاچا ٹیکسی‘ نامی کہانی کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ دوسری کئی زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔اس کتاب میں شامل کرنے کی غرض سے صرف دو کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ’ بازگشت‘ اور دوسری ’تلاشِ راہ‘ ہے۔’تلاشِ راہ‘ میری اپنی سرگزشت ہے جس میں مرکزی کردار کوئی اور ہے ۔میں مدتوں سے اس کہانی پر ناول لکھنا چاہتا تھا لیکن تنگیِ وقت آڑے آتا رہا ۔ بالآخر تین ماہ پہلے میں نے اسے کہانی کی شکل د ے کر اس کتاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ بھی آسان کا م نہیں تھا۔ اس کہانی کو مکمل کرنے کے لئے تین ماہ صرف ہوئے اور کئی راتوں کی نیند قربان کرنی پڑی ۔
اس کتاب کو طباعت کی منزل تک پہنچانے کے لئے کئی احباب کی کاوشیں شاملِ حال رہیں۔ ان میں محترم عارف صادق،محترم عباس گیلانی،محترم ڈاکٹر شبیر حیدر، محترم آصف ڈار شامل ہیں۔سڈنی میں موجود تمام ادبی حلقوں کا ہمیشہ مجھے تعاون حاصل رہا۔ میری شریکِ حیات اور میرے بچوں نے ہمیشہ کی طرح ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی۔ ان سب احباب کی محبتیں میرے اُوپر قرض ہیں اورسدا میرے لوحِ دِل پر نقش رہیں گی۔
آخر میں لیکن سب سے زیادہ شکریہ میں اپنے قارئین کا ادا کروں گا۔جو میری کتاب ’ خوشبو کا سفر‘ اور دیگر کہانیوں کو پڑھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر کے مسلسل میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔’خوشبو کا سفر‘ کے حوالے سے مجھے پشاور اور کوئٹہ سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے خطوط اور ای میل موصول ہوئے جو میں نے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔یہ خطوط میرا اثاثہ ، میری اسناد اور میرے ایوارڈ زہیں۔میں ان قارئین کی محبتوں کو سدا اپنے دل میں پھول میں خوشبو کی طرح بسا کر رکھوں گا۔ میری خدائے بزرگ و برتر سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں محبتیں بانٹنے اور محبتیں سمیٹنے کا سلیقہ عطا فرمائے ۔ آمین
طارق محمود مرزا
سڈنی۔ آسٹریلیا
۲۷ ستمبر ۲۰۱۳
Email : [email protected]