میری موت سے پہلے
سارے پنجرے کھول کے
پرندے اُڑادو
میرے اطراف شمعوں کی اِک کہکشاں سجادو
میرے اندر جو سرگوشیاں ہیں
اُنہیں آواز دے دو
میں نے پھولوں کے سارے بیج اور پودے
زمین میں بودیے ہیں
میری موت پہ جو رم جھم بارش برسے گی
تو ساری زمیں پہ پھول ہی پھول اُگ جائیں گی
چراغوں کی لَو دھیمے نہ ہونے دینا
کہ تاریکیوں میں، مَیں نے جو دِیپ جَلائے ہیں
وہ یُوں ہی روشنی کرتے رہیں
میں تمہارے سارے غموں اور دُکھوں کو
اپنے ساتھ مدفن میں اُتارلوں گی
بس تم سب کو خوش رہنا ہے
کوئی اداسی کوئی ناامیدی
تمہیں ز ندہ درگور نہیں کرسکتی
کیوں کہ تم میرے اندر کی آس ہو
اندھیروں سے اُبھرتے
نئے سُورج کا احساس ہو