مجھے صدر نہیں بننا۔۔۔مسند نشیں نہیں ہونا
نہ انعام واعزاز کی خاطر۔۔۔خوشامد اور دولت سے
کوئی منصب، کوئی رتبہ نہیں لینا۔۔۔نہیں لینا
نہ اعلیٰ ایوارڈ واعزازات لینے ہیں
نہ حسرت ہے بیرونی دوروں کی مجھ کو
معمولی سی شہرت، اور دولت کی خاطر۔۔۔نہیں جھکنا۔نہیں گرنا
مجھے اپنی عزت اور شرافت بہت پیاری ہے
خواص الخاص لوگوں سے بہت اوپر
میں اِک عام سی بندی
نہ داد کی طالب نہ حسرت کی ستائش ہے
سالانہ شاعروں کی مانند
مجھے چند اچھی غزلوں سے
شہرت کے سنگھاسن پہ نہیں چڑھنا
نہیں بننا، نہیں بننا، مجھے خاص الخاص نہیں بننا
مجھے مسند نشیں نہیں بننا
مجھے اپنی فکر کو آزاد رکھنا ہے
ہاں عروض وبحور سے میں بھی قدرے واقف ہوں
مگر ہر لحظہ عروض کی تختیا ں لے کر
نوآموز شعراپہ نہیں چڑھ دوڑنا مجھ کو
نہ پل پل شعر پڑھ کر کسی کو مرعوب کرنا ہے
نہ اس شیریں زبانی سے
نہ تلخ کلامی سے ، نہ لن ترانی سے
نہ سفید بالوں سے۔۔۔نہ الھڑاداؤں سے
نہ اس عمر سے، نہ حُسن ودولت سے، نہ عہدے سے
مجھے خود کو منوانا ہے
میرے رب نے مجھے جو علم بخشا ہے
وہ میرا اثاثہ ہے
یہ علم مجھ پہ اک وحی کی مانند اترتا ہے
میرا رب جب بھی مجھ سے بات کرتا ہے
تو میرا قلم وہ لفظ لکھتا ہے
اور میرا رب یہ مجھ سے کہتا ہے
تجھے یہ علم کے موتی کچھ آگے بڑھانے ہیں
نوعِ انساں کے لیے کچھ کرکے جانا ہے
جونائم ہیں انہیں سوتے سے جگانا ہے
نہیں بننا، نہیں بننا مجھے خواص الخاص جیسا نہیں بننا
میں اُن سے بہت اُوپر
بس اِک عام سی بندی
اپنے رب سے راضی ہوں
اور میرا رب مجھ سے
کسی سے کیا مجھے لینا، کسی نے کیا مجھے دینا
مجھے تو جو بھی لینا ہے۔۔۔بس اپنے رب سے لینا ہے