جو شعر کی مضبوطی پردے رہے تھے لیکچر
خودبے ڈھب سے شعر سنا کر چلے گئے
وہ کہہ رہے تھے اتنی کتب کی ہے تخلیق بے سبب
بس ایک شعر کافی ہے
پہچان جو بنادے
سیمابؔ، راغبؔ، جالبؔ، جوشؔ ، قاسمیؔ
اُن کی نظر میں نہ تھے کچھ
اِ ک محفل جمی ہوئی تھی
بحث ولطف وتسکینِ جذبات کی
کچھ شاعروں کے شراب وشباب کے تھے قصے
کچھ شاعروں کے مشاعروں میں بہکنے کا ذکر تھا
کچھ شاعروں کے مہ جبینوں سے محبت کے تھے تذکرے
کچھ افشا تھے شاعروں کے شاعرات سے درپردہ التفات
کیسے ڈاکٹریٹ ہوئے، کیسے صفِ اول کی ناموری ملی
کچھ ایسے شاعروں کا بھی تذکرہ ہوا
ساڑھی میں لپٹی عورتوں کے جو خدوخال بھانپتے ہیں
غالب ،و میر سے جو کم خود کو نہ گردانتے ہیں
مسند نشیں پہ جو تشریف فرماتھے
برسہا برس کے اپنے تجربات ومشاہدات
یوں کررہے تھے بیاں عقل حیران تھی
در پردہ راز وہ کررہے تھے اس طرح بیاں
جیسے وہ خود بھی اس کا رہے ہوں کبھی حصہ
جب شعر پڑھنے کی باری جو ان کی آئی تو وہ کسمسا کے بولے
اقبال کی "زمیں" پہ تو غزل ہی کہہ نہیں سکا
بس موڈ اپنا اس طرف مائل نہ ہوسکا
اقبال کی زمیں میں بس اک شعر ہی کہا تھا
کہ بس میں اٹک کے رہ گیا
سب محفل میں شریک شعرا دم بخود سے ہوگئے
صاحب صدر خود"طرح پہ نہ کہہ سکے
"مضبوط شعر" پہ جو دے رہے تھے لیکچر
جو بڑکیں ماررہے تھے اور کررہے تھے رازافشا
پھر اپنی وہ منحنی سی کتاب نکال کے بولے
پہلے ایک شعر سناتا ہوں
جو بیٹھے بیٹھے ہوا ہے پر
کچھ کاسہ لیس ہم زباں ہوکر یہ بولے
حضور آپ کا اک شعر
ساری محفل کے شعرا پہ بھاری ہے
مسند نشیں پہ دادا کے ڈونگرے پھر برسنے لگے
کچھ دوستی کے تقاضے کیے گئے پوری
ان مسند نشینوں میں کچھ پر وموٹر بھی تھے یہاں
شعر وادب میں نئے تھے
پر وہ بھی یہاں ہوگئے سینئر ومعتبر
فہرست تھی جو شعرا کی اس میں بھی ردوبدل ہوئی
سینئر جونئر اور جونیئر سینئر بنادیے گئے
بس ہم پلہ، ہم پیالہ، کچھ رفیقانِ ادب کے باعث
اور کمزور ومضبوط شعر کی گردان کے سبب
کچھ لوگ مسند نشینی پہ بٹھا دیے گئے
شاعری جو کبھی اصنافِ ادب کا جھومر تھی
ایسے رویّوں کے نتیجے میں آج تو
نادم شرمندہ سی اک کونے میں ہے کھڑی
غالب، اقبال، میر، ذوق جیسے شعرا پہ بھی
اس عہدِ ناپرساں میں آنی تھی بُری گھڑی