معصوم پرندے
ظالموں کی آنکھ سے بچنے بچاتے
ادھر اُدھر بھٹکنے لگے
موت کی تیز وتند ہوائیں سسکنے لگیں
پھول شاخیں پتیاں بکھرنے لگیں
زندگی گھنے درختوں، جھاڑیوں میں چھپتی پھری
گِدھو کا گھیرا تنگ ہوا
بھیڑیے بھی شکار کی بُو سونگھتے
آگے بڑھنے لگے
ملبوسات اجسام سے روٹھ گئے
زمیں پہ دم توڑتی
چوڑیاں پھانکتیں دوشیزائیں
پتوں پہ اپنے خون سے لکھ گئیں
فاختہ بے حرمت ہونے سے پہلے
زندگی کی حدوں سے نکل گئی تھی