آج میں دس برس پرانی ڈائری۔۔۔ہاتھ میں اٹھائے
ماضی کے دریچے واکیے بیٹھی ہوں
ایک ایک حرف۔۔۔چاہت کی خوشبوں اپنے وجود میں سمیٹے
مجھے سپنوں کی رنگینی میں ڈبوئے جاتا ہے
یوں لگتا ہے جیسے میں!۔۔۔میں نہیں تھی
کوئی ہیر،کوئی سسّی ،کوئی لیلیٰ تھی
جس کے لیے تم دنیا سے ٹکرا کر۔۔۔مجھے اپنا نے کا عہد کرچکے تھے
اور آج۔۔جب میں تمہاری اور تم میرے ہو
ہمارے درمیاں محبت کا کوئی رشتہ نہیں
نہ کوئی سسی رہی نہ لیلیٰ نہ ہیر
بس ایک فریاد ہے۔۔۔جو تیشہ ہاتھ میں لے کر
ہر لمحے میرے حسّاس جذبوں کو کچلنے کو بے قرار ہے
اب میں کچھ بھی کرلوں۔۔۔دس برس پیچھے نہیں پلٹ سکتی
میرے سامنے ڈائری کھلی پڑی ہے
لیکن!۔۔۔کاغذ کی سفیدی مرے وجود میں اُترتی جاری ہے