گھنے درخت کے نیچے سُلا کے چھوڑ گیا عجیب شخص تھا سپنے دِیکھا کے چھوڑ گیا
یہ اُجڑا گھر تو اُسی اِیک کی نِشانی ہے جو اَپنے نام کی تختی لگا کے چھوڑ گیا
اُٹھائے پھرتے ہیں بچے گلی گلی مُجھ کو کٹی پتنگ ہوا میں اُڑا کے چھوڑ گیا
عشق میں ہم تم میں کیا بتائیں کِس قدر چوٹ کھائے ہوئے ہیں
موت نے ہم کو مارا ہے اور ہم زندگی کے ستائے ہوئے ہیں
اُس نے شادی کا جوڑا پہن کر صرف چُوما تھا میرے کفن کو
بس اُسی دِن سے جنت کی حوریں مجھ کو دولہا بنائے ہوئ ہیں
سُرخ آنکھوں میں کاجل لگا ہے رُخ پہ غازا سجائے ہوئے ہیں
ایسے آئے ہیں میت پہ میری جیسے شادی میں آئے ہوئے ہیں
اے لحد اَپنی مَٹی سے کہہ دِے دَاغ لگنے نہ پائے کفن کو
آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے آج ہی ہم نہائے ہوئے ہیں
زِندگی میں نہ راس آئی راحت چین سے سونے دو اب لحد میں
اِے فرشتوں نہ چھیڑو نہ چھیڑو ہم جہاں کے ستائے ہوئے ہیں