خیال کی زندگی، ان کے کارناموں سے واقفیت اور ان کے عہد کے عظیم آباد اور کلکتہ کے علمی، ادبی، معاشرتی حالات سے واقفیت کے لئے ان کی خود نوشت ’تزک خیال‘ بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی حیثیت عظیم آباد اور کلکتہ کے ایک معاشرتی کرونیکل کی بھی ہے۔ اس کی اشاعت ڈھاکہ سے خواجہ محمد عادل کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالہ ’جادو‘ کے جنوری۔ فروری، مارچ، اپریل اور مئی 1926ء کے شماروں میں ہوئی تھی۔ خیال کے سلسلے میں جو بنیادی معلومات ادھر ادھر بکھری ملتی ہیں ان سب کی بنیاد یہی خودنوشت ہے۔ شائق احمد عثمانی اور اقبال سلیم نے بالترتیب ’مغل اور اردو‘ اور ’داستان اردو‘ میں اسی کی روشنی میں خیال کا زندگی نامہ ترتیب دیا ہے۔ ان دونوں حضرات کی پیش کردہ معلومات ہی بعد میں اوروں کے ذریعہ دہرائی گئی ہیں، مثلاً قدوس صہبائی، سالک لکھنوی، پروفیسر اعجاز حسین یا عبد الخالق وغیرہ نے جو تفصیلیں پیش کی ہیں وہ تمام کی تمام ’مغل اور اردو‘ میں شائق عثمانی کے دیباچہ سے ماخوذ ہیں۔ وہیں عطا ء الرحمن عطا کاکوی (1981) ، نقی احمد ارشاد (2003) ، اور کلیم سہسرامی (1991) نے خود نوشت کے ان مطبوعہ حصوں کو ہی دوبارہ شائع کیا تھا۔
’’جادو‘‘ کے جنوری۔ فروری 1926 کے شمارے میں خود نوشت کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ اس شمارے کی ترتیب میں اسے پہلی تحریر کا مقام حاصل ہے۔ عنوان کا اندراج یوں ہے: ’تزک خیال۔ یعنی عالیجناب نواب سید نصیر حسین خان خیال کی خود نوشت سوانح عمری‘۔ یہ خودنوشت مئی 1926 کے شمارے تک قسطوار چھپی تھی۔ مطبوعہ صفحات کی کل تعداد اکہتر ہے۔ خیال نے اس میں ذیلی ابواب بھی قائم کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے ذاتی معاملات کا تذکرہ شادی کے بعد کلکتہ میں مقیم ہونے تک کے مرحلے پر ختم کر دیا ہے۔ یہ تفصیل خود نوشت کی پہلی قسط میں ہی موجود ہے۔ دیگر اقساط میں ان اصحاب فکر و نظر کا تذکرہ ہے جن سے کلکتہ میں قیام کے دوران خیال کی صحبتیں رہیں، ساتھ ہی کلکتہ میں مقیم ان ’حضرات مغلیہ‘ کا ذکر ہے جن کے روابط کلکتہ اور عظیم آباد دونوں ہی شہروں میں خیال اور ان کے خاندان سے تھے۔ بایں لحاظ، یہ تحریر انیسویں صدی کی اولین دو دہائیوں میں عظیم آباد اور کلکتہ میں ادبی نیز معاشرتی سطح پہ سرگرم و فعال تعلیمیافتہ طبقۂ اشرافیہ کی چند سر بر آوردہ شخصیات کا تذکرہ بھی ہے۔
خود نوشت کی پہلی قسط میں شامل ذیلی عناوین میں خاندان، تعلیم، تربیت، مذہب، معاشرت و تہذیب، زبان، ادب و شعر و شاعری، ادب اردو، اور شادی کے تحت انھوں نے اپنے خاندان کی تفصیل پیش کی ہے جس کے دوران حسب و نسب، علم دوستی، علم پروری، شعر و ادب سے گہرے شغف، زبان اردو کے فروغ، صحت زبان، رئیسانہ شان و شوکت، دولت و ثروت، معاشرتی جاہ و جلال اور سیاسی قدرو منزلت کی با وقار انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ خاندان کی وجاہت ونجابت و سر بلندی کا تذکرہ کرنے کے بعد اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے بیان کے دوران انھوں نے لکھا ہے کہ ان کی تعلیم اس سے بہتر نہ ہو سکی جو ایک خوش حال مگر زوال پذیر خاندان کے لڑکوں کی ہوا کرتی ہے۔ ان کی بسم اللہ ہوئی تو انھیں شیخ آغا خان کے حوالے کر دیا گیا جو خیال کے بزرگوں کے بھی استاد تھے۔ انھوں نے یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ اوائل عمری سے ہی وہ زبان کے معاملے میں مخصوص صلاحیتوں کے مالک تھے۔
’شیخ آغا خان مرحوم کی وفات کے بعد میر عبد اللہ شاہ کشمیری جو میرے بزرگوں اور شہر کے اکثر رؤسا کے استاد تھے ہمارے اتالیق و استاد مقرر ہوئے۔ اخلاق کی اکثر کتابیں مثل اخلاق جلالی اور کیمیائے سعادت وغیرہ میں نے ان سے پڑھیں۔ فقہ و عقائد کی بعض کتب بھی انھوں نے پڑھائیں۔ اور جب فارسی میری قابل اطمینان دیکھی تو عربی شروع کرا دی... اس وقت میری عمر دس یا گیارہ سال کی ہو چکی تھی۔ میرے ہم سنوں میں اردو و فارسی میں میرا مدمقابل کوئی نہ تھا۔ ہم بے تکلف فارسی بولتے اور لکھ پڑھ سکتے تھے۔ عربی ادب پر چونکہ زیادہ زور دیا گیا تھا اس لئے اس زبان میں بھی اس وقت میری استعداد بری نہ تھی۔‘ (تزک خیال اول 1926، 7)
پٹنہ میں شمس العلما مولوی محمد حسین نے 1888ء میں محمڈن سکول قائم کیا تھا۔ اس سکول سے اپنی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کولونیل عظیم آباد کے بدلتے ہوئے حالات کے دوران وہاں کے مسلمان شرفا اور رؤسا کے درمیان موجود انگریزی تعلیم سے وابستہ ایجاب و قبول کے مراحل کا ذکر یوں کیا ہے:
’شمس العلما مرحوم مولوی محمد حسین غیر مقلد تھے اور غدر میں ان کا مشہور خاندان برباد ہو چکا تھا۔ یہ خاندان اس وقت گورنمنٹ اور عام نظروں میں بھی بہت مشتبہ تھا۔ مرحوم نے یہ انگریزی اسکول قائم کر کے اپنے خاندان سے مخالفت بلکہ دشمنی مول لی اور اہل شہر سے الگ اختلاف شروع ہو گیا۔ مگر ان کے ارادہ و استقلال میں فرق نہ آیا۔ ... اسی زمانہ میں سر سید عظیم آباد آئے۔ شہر کے مختلف مقامات میں ان کا لکچر ہوا۔ وہاں کے رؤسا سے ملے۔ انگریزی تعلیم کی طرف سب کو متوجہ کیا۔ اور یوں یہ تعلیم وہاں ذرا آگے بڑھی۔‘ (تزک خیال اول، 8)
خیال نے چار برسوں تک اس سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا، مگر ’’گھر میں مطالعہ جاری رہا۔‘‘ (تزک خیال اول، 9) خیال نے اپنے گھر کے ماحول کے بیان کے دوران جو امور کو پیش کیے ہیں ان سے بھی عظیم آباد کے تعلیمیافتہ گھرانوں اور ان کی معاشرت کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ ان کے گھر کی شامیں علمی اشغال کے لئے وقف تھیں۔ کبھی تفسیر کبیر کے معانی و نکات سمجھائے جاتے، کبھی تفسیر حسینی کا درس ہوتا، کبھی نہج البلاغت کو سمجھنے سمجھانے کی مجلسیں آراستہ ہوتیں۔ ان کے علاوہ مثنوی معنوی، تاریخ شاہنامہ اور دیوان آتش سے بھی اسرارو رموز کائنات و حیات اور فصاحت و بلاغت کی باریکیوں کا درس دیا جاتا تھا۔ ان تمام صحبتوں میں حکیم مولوی عبد الباری، مولوی سید محمد عسکری شاہ صاحب، علامہ مولوی حکیم سید محمد جواد، شیخ علی باقر آباد اور شاد عظیم آبادی جیسی ہستیاں افہام و تفہیم میں فعال کردار ادا کرتیں۔ ان تربیتوں کے سبب ہی ان کے گھرانے کی زبان مستند اور قابل تقلید سمجھی جاتی تھی۔ اس زمانے کا عظیم آباد اہل زبان اور زبان دانوں سے خالی نہ تھا۔ خیال نے ایک خاص زبان کے سیکھنے سکھانے کا ذکر بھی کیا ہے۔
’دو ایک ایسی زبانیں بھی سکھائی جاتی تھیں جو رمز میں شمار ہوتی تھیں۔ یعنی خواص کے سوا عوام بلکہ معمولی لوگ انھیں سمجھ نہیں سکتے تھے۔ ان میں سے ایک زرزری بھی تھی۔ شاہان مغلیہ میں سے کسی بادشاہ نے اس زبان کو ایجاد کیا جو ضرورت کے وقت قلعۂ معلی میں بولی جاتی تھی۔ خاص امرا و وزرا کے سوا یہ زبان دوسرے بول نہ سکتے تھے، اور جن کے گھروں میں اس کا رواج تھا وہ اول نمبر کے امرا میں شمار ہوتے تھے۔ یہ زرزری ہمارے گھر میں دلی سے ساتھ آئی اور احتیاط کے ساتھ ہم لوگوں کو بھی سکھائی گئی۔‘ (تزک خیال اول، 14)
’زر زری‘ کے سلسلے میں خیال پہ لکھنے والوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔ ممکن ہے کہ اس رمزی زبان سے خیال کا اشارہ اس زبان زرگری کی جانب ہو جو ایران کے ایک مخصوص حصے میں رائج تھی۔
’’تربیت‘‘ کے عنوان سے بچوں کی گھریلو تربیتوں کی روایتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر مذہب، معاشرت و تہذیب، زبان، ادب و شعرو شاعری کا تذکرہ ہے۔ خیال نے لکھا ہے کہ ان کی یاد تک عظیم آباد اور خصوصاً ان کے گھر میں پرانی تہذیب و معاشرت جاری تھی۔ صحبت کا قرینہ بھی وہی اگلا اور امیرانہ بلکہ شاعرانہ تھا۔ اس تہذیب کے تحفظ کے لئے جتنی احتیاط برتی جاتی تھی اسے ملاحظہ فرمائیے۔
’درستگی و اصلاح زبان کا خیال بھی میرے خاندان میں بدرجۂ اتم تھا۔ دادی صاحبہ اور نانی صاحبہ کی زبان پرتو دلی کا خاص اثر تھا، اور وہ قائم رہا۔ ان کے وقت میں پیش خدمتوں اور اصیلوں کو نوکر رکھنے میں بڑی احتیاط کی جاتی تھی کہ بچوں کی زبان خراب نہ ہو۔ زنانہ میں عموم اً راتوں کو بچے اکٹھا کیے جاتے اور گھر کی بڑی بوڑھیاں وہاں آ بیٹھتیں۔ مکرنیاں، نسبتیں، پہیلیاں اور دو نسخے وغیرہ کہے اور بجھائے جاتے، بلکہ یاد کرائے جاتے اور پھر کہانیاں شروع ہوتیں۔ ان سے بھی زبان آتی اور محاورات کی تعلیم ہوتی ہے۔ مردانے میں بھی یہ شغل رہا کرتا تھا۔ مسئلے مسائل کے ساتھ مثلیں بھی یاد کرائی جاتیں اور ان کا محل استعمال بتایا جاتا اور لفظوں کے معنی و مطلب کو ذہن نشیں کرایا جاتا تھا۔‘ (تزک خیال اول، 13-14)
بقیہ حصوں میں خیال نے اپنے مذہبی اعتقادات، خاندان کے افراد کی امارت و ثروت اور ان کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی، مجالس کے انعقاد کا ذکر کیا ہے۔ ’’شادی‘‘ کے عنوان سے ایک الگ باب قائم ہے جس میں انھوں نے اپنی شادی اور کلکتہ روانہ ہونے کی تفصیلیں پیش کی ہیں۔ خیال نے صرف محل اولی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے آخری حصے میں چھ صفحات پہ شجرۂ نسب کے مختلف سلسلے درج ہیں۔
’’تزک خیال‘‘ کی دوسری قسط کا آغاز ’کلکتہ میں قیام‘ سے ہوتا ہے۔ اس قسط کے ساتھ ہی اپریل اور مئی کی قسطوں میں کلکتہ اور عظیم آباد کی ادبی، معاشرتی، سیاسی انجمنوں اور سرگرمیوں، سرکردہ شخصیتوں اور ان سے خیال کے تعلقات کا ذکر موجود ہے۔ ان میں پیش کردہ تفصیلات کلکتہ اور دوسرے ادبی مراکز سے کسی نہ کسی طور وابستہ اس زمانے کی علم پرور اور اردو دوست ذی حیثیت شخصیات کا بھر پور تعارف بھی ہیں۔ مثلاً کلکتہ میں اپنے قیام کو اپنی عملی زندگی کے لئے سنگ میل تصور کرتے ہوئے وہ محمڈن لٹریری سوسائٹی، محمڈن سنٹرل ایسو سی ایشن کے قیام کی تاریخ، ان کی خدمات اور ان کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار پیش کرتے ہیں تو وہیں نواب بہادر عبد اللطیف خان، ان کے برادر خورد عبد الغفور نساخ، نواب بہادر سید امیر حسین، سید امیر علی، نواب سید محمد بہادر، مولوی عبد الغفور شہباز، خان بہادر مولوی دلاور حسین، مرزا جان تپش دہلوی، خان بہادر محمد یوسف، ابو الحسن خان بیرسٹر، نواب سراج الاسلام، نواب سر سید شمس الہدی، نواب عبد الجبار، پرنس فرخ شاہ، پرنس سر جہانقدر میرزا بہادر، نواب اصغر علی خان، نواب احمد علی خان اور نواب خواجہ سر سلیم اللہ، جی سی آئی ای اور ان سے وابستہ بعض دیگر اصحاب سے اپنے تعلقات کی تفصیل بتانے کے ساتھ ہی ان کے اختصاص و مشاغل کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ’’تزک خیال‘‘ خیال کا زندگی نامہ ہونے کے پہلو بہ پہلو عظیم آباد اور کلکتہ کی بیسویں صدی کے ابتدائی دود ہوں کی لسانی، ادبی، دانشورانہ اور کسی حد تک سیاسی سرگرمیوں کا آئینہ خانہ بھی ہے۔ زبان و بیان اور اسلوب نگارش شگفتہ اور صاف و سادہ تو ہے ہی، خیال کی رواں دواں شگفتہ اور با محاورہ نثر کی بہترین مثال بھی ہے۔ وکیل محمد یوسف کے احوال پیش کرنے کے دوران خیال کی عبارت آرائی کی سادگی کا حسن ملاحظہ فرمائیں:
’وکیل محمد یوسف خان بہادر بِہار کے رہنے والے اور ایک موقر برہمن کے فرزند تھے۔ وکیل ہو کر کلکتہ ہائی کورٹ میں وکالت کرنے لگے۔ وہ زمانہ کچھ اور تھا، بہار کے کل مقدمات ان کے پاس آتے تھے۔ وہ ایک مرنج و مرنجان بزرگوار اور کلکتہ میں بیحد ہر دلعزیز تھے۔ ہمارے خاندان سے ان کے تعلقات عزیزانہ تھے۔ وہ حضرت یعقوب کی طرح جہاں اپنے بچوں پر فدا تھے، وہاں مجھے بھی عزیز ہی نہیں رکھتے بلکہ اپنا یوسف ثانی سمجھتے تھے۔ ورزش کا ان کو بیحد شوق تھا۔ اپنے محل کے ایک وسیع ہال کو اکھاڑا اور اور دوسرے کو تلاؤ بنا رکھا تھا۔ وہاں ورزش ہوتی اور یہاں پیراکی۔ سنگ لہسنیا کے پہننے کا انھیں بیحد شوق تھا۔ چاندی اور سونے کی پتیلیوں میں ان کا کھانا پکتا اور وہ پہلوان اس میں سے ایک وقت میں سیر بھر نوش کرنے میں تکلف نہ کرتا۔‘ (تزک خیال دوم 1926، 18-19)
ابو الحسن خان بیرسٹر کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’وہ بھی ہمارے زمانہ کے آدمی اور کلکتہ کے موقر لوگوں میں سے تھے۔ باقی پور پٹنہ کے رہنے والے، اور مشہور خدا بخش خان کے بھائی اور صلاح الدین خدا بخش بیرسٹر چچا اور خسر تھے۔ انھوں نے کلکتہ میں بیرسٹری شروع کی۔ یہاں اتنے ہر دل عزیز ہوئے کہ تھوڑے ہی دنوں میں ’عدالت خفیہ‘ کلکتہ کے جج مقرر ہو گئے۔ وہ کلکتہ کے مسلمان تجار میں بڑے با رسوخ تھے۔ ان کی مدد سے مرحوم نے یتیم خانہ اسلامیہ قائم کیا جو اب تک موجود اور جج صاحب کو یاد کرتا ہے۔‘ (تزک خیال دوم، 19)
نواب بہادر عبد اللطیف خان کے سلسلے میں خیال کا بیان ہے کہ:
’نواب صاحب مرحوم کلکتہ میں مجسٹریٹ تھے اور اس لحاظ سے بظاہر گرفتار، مگر ایسی گرفتاری خدا ہر آزاد کو نصیب کرے!ً وہ شہر کے ایک رکن اور مسلمانوں کے سردار اور نہ صرف کلکتہ اور بنگالہ بلکہ تمام ہندوستان میں مشہور تھے اور ہر کہ و مہ پر ان کا خاص اثر و وزن تھا۔ اس زمانہ میں جبکہ ہندوستانی انگریزوں سے مرعوب اور ان میں ربط و ضبط نا مرغوب ہی نہیں بلکہ معیوب تھا، نواب صاحب کے تعلقات اس قوم کے ساتھ بھی بے تکلفانہ و دوستانہ تھے۔ ولایت تک ان کی شہرت و وقعت تھی۔ نواب بہادر نے یہاں سنہ 1863ء میں ایک اسلامی علمی انجمن قائم کی تھی جس کا انگریزی نام محمڈن لٹر ری سوسائٹی تھا۔ یہ انجمن ہندوستان میں پہلی انجمن تھی جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کی گئی۔ اس کے ممبر نہ صرف کلکتہ و بنگالہ کے موقر حضرات تھے بلکہ ملک بھر کے ذی اثر مسلمان اس کے رکن تھے۔ اس سوسائٹی کا آوازہ بہت بلند ہوا۔ اس کا سالانہ جلسہ کلکتہ کی وہ تقریب تھا جو عید کی طرح منایا جاتا تھا۔ ٹاؤن ہال میں یہ جلسہ ہوتا اور مسلمانوں کے ساتھ ہندو، بنگالی، یہودی، پارسی اور انگریز تک شریک ہوتے۔ لفٹننٹ گورنر اور وائسرائے بھی آتے اور سب سے ملتے۔ یہ انجمن گو ایک عالمی انجمن تھی مگر اس وقت کے پولیٹکل اور خصوصاً مسلمانوں کے سیاسی معاملات بھی اس کے ذریعہ طے ہوتے تھے۔ انڈین ایسو سی ایشن اور نیشنل کانگرس کی سی موقر انجمنیں اس سوسائٹی کے بہت بعد اور گویا اس کی تقلید پر قائم ہوئیں۔ اس انجمن نے سوتوں کو جگایا اور ہمارے سرداروں کو اٹھایا۔ سر سید نے بھی نہ صرف اس کی ممبری ہی قبول کی بلکہ اس کے ایک خاص جلسہ میں اپنا ایک مشہور فارسی خطبہ ابلاغ کیا ، اور جب سے اس انجمن کا نام سرحد بنگالہ سے نکل کر دور دور پھیل گیا۔ … نواب مرحوم تدبر و فراست کے ساتھ اپنے اخلاق و آداب میں بھی مشہور اور اپنی وضع کے ایک ہی بزرگوار تھے۔ ان کے یہاں صبح اور شام کی صحبت یادگار اور وہ دربار تھی جس کی شرکت پر فخر کیا جاتا تھا۔ ان کی وضع بھی خاص اور بڑی شاندار تھی۔ ایک زمانہ میں کٹ دار، مخملی، چو گوشیہ کیچلی پر کی سچی سنہری بیل والی ٹوپی پہنتے اور کمر پٹکے سے کسی رہتی۔ اس وقت کے اکثر عمائدین اور خصوصاً نوابان مرشد آباد و خاندان چیت پور کی یہی وضع تھی۔ مگر یہ لباس جوانی کے ساتھ اتر گیا۔ اخیر میں مغلئی عمامہ زیب سر، برمین، پردے دار و بوتام دار چپکن، اس پر شیرازی دامن و فراخ آستین، عبا بر دار، پیجامہ اور پاؤں میں سیاہ وارنشی ولایتی ہاف بوٹ، داڑھی باریک کتری ہوئی اور مونچھیں شرعی حدود کے اندر۔‘ (تزک خیال دوم، 9-10)
نساخ کے بیان میں یہ الفاظ موجود ہیں:
’نواب مرحوم نواب بہادر عبد اللطیف خان کے چھوٹے بھائی عبد الغفور خان نساخ بھی نہ صرف بنگالہ بلکہ ہندوستان بھر میں مشہور اور بحیثیت شاعر و ادیب مانے جاتے تھے۔ ان کی اردو مستند اور ان کی تحریر زمانہ کے لحاظ سے بہت ہی قابل قدر تھی۔ اس صوبہ میں انھوں نے اور ان کے خاندان نے ہندوستان کی اس راشٹر بھا شا اردو کی جو خدمت کی وہ اس زبان کی تاریخ میں یادگار ہے۔‘ (تزک خیال دوم، 11)
نواب بہادر امیر حسین کے ذکر میں لکھتے ہیں:
’نواب صاحب کی وضع میں بھی ایک امتیاز اور شان تھی۔ وہ ان کی مخملی، گول بے کٹ کے چندوے کی ذرا اونچی ٹوپی جس پر بنارسی بیل ٹکی ان کے سر پر زیب اور بلند پیشانی کے ساتھ بھرے رخساروں کو جلوہ دیتی تھی۔ عموماً پارسی نما ڈھیلا گھیر دار اور گھٹنوں سے کچھ نیچا سیاہ کوٹ پہنتے تھے اور وہ ان کے بھاری بھرکم جسم پر نہایت مزیب معلوم ہوتا تھا۔ بڑی پارٹیوں یا دربار و لیوی میں جاتے تو کوٹ پر پیٹی لگا لیتے تھے اور اس سے ان کی شان دوبالا ہو جاتی تھی۔ ڈاڑھی ہمیشہ مورچہ پے یا خشخشی رہی اور مونچھیں اوسط۔ اس پر مازو کا خضاب ہوتا اور بھلا لگتا تھا۔ آواز بھاری مگر پاٹ دار وزن دار تھی۔ سواری میں ہمیشہ جوڑی رہی۔ اور ریٹائر ہونے کے بعد بھی کہ تنخواہ نصف ہو گئی پہ جوڑی کبھی فرد نہ بنی! پنشن کے بعد بھی کئی سال کلکتہ میں مقیم رہے اور اسی اگلی شان و دبدبہ کے ساتھ۔ اخیر میں اپنے آبائی وطن بھاگلپور چلے گئے اور وہیں مرحوم ہوئے۔‘ (تزک خیال دوم، 15)
خیال نے ان حضرات کا ذکر بھی اہتمام کے ساتھ کیا ہے جو ایرانی تھے اور کلکتہ نیز عظیم آباد میں اپنی علمی صلاحیتوں کی وجہ سے معروف تھے۔ ان میں وہ حضرات ہیں جن کا خیال کے گھرانے سے گہرا تعلق بھی تھا اور جو خود اپنے علمی مرتبوں کی وجہ سے بلند مقام کے حامل تھے۔ اس سلسلے میں خیال کا درج ذیل بیان کلکتے میں ان کے تعلقات اور عظیم آباد میں خاندانی عظمت و رفعت کی بہترین تصویر کشی کرتا ہے اور بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ان حضرات کی زبوں حالی کی جانب واضح اشارے بھی:
’کلکتہ میں حضرات مغلیہ تقریباً سوا سو برس سے مقیم ہیں اور اب یہاں ان کی ایک چھوٹی سی نو آبادی کولونی ہو گئی ہے۔ شروع میں یہ حضرات بحیثیت تاجر ادھر آئے اور جب تک یہ سلسلہ قائم رہا، ان کی یہ حیثیت درست رہی۔ اور اب ان پرانے خاندانوں کا نام و نشان بھی گم ہوا جاتا ہے۔
عظیم آباد میں غالباً صرف میرا ہی وہ گھر تھا جہاں یہ حضرات بے تکلف چلے آتے اور بے غل و غش رہتے۔ دادا صاحب میر محمد محسن کے وقت میں تو جب کوئی نووارد ایرانی بمبئی سے کلکتہ آنے لگتا، یا کلکتہ کا کوئی مغل پچھاں جانے لگتا تو اس پر عظیم آباد میں اترنا اور میرے گھر میں دو چار ہی دن کے لئے سہی، رہنا واجب تھا۔ یہ ایرانی میرے دادا کو محسن آغا کہا کرتے اور ان سے بے انتہا مربوط تھے۔ یہ سلسلہ اور ربط میری یاد تک قائم تھا۔ آج بھی اگر کوئی پرانا مغل مل جائے اور اس کے سامنے عظیم آباد کا نام لو تو وہ اتنے بڑے شہر کو صرف میرے گھر کے اندر محدود بتائے گا۔‘ (تزک خیال چہارم 1926، 12)
ان اصحاب میں آغا سید حسین شوستری، حاجی سید صادق شوستری، آقا سید محمد علی، آقا میر احمد، میر اکرام علی، حاجی مرزا امامی، آقا شیخ محمد جیلانی مجتہد، آقا محمد علی شیرازی عرف چیناوی صاحب، آقا محمد کاظم صاحب، آقا سید طہٰ کاظمینی اور آقا سید جلال الدین تہرانی وہ اہم شخصیتیں ہیں جو کسی نہ کسی طور خیال کی شخصیت پہ اثر انداز ہوئی ہیں۔ حاجی میرزا امامی کے متعلق خیال کا پر لطف بیان ملاحظہ فرمائیں:
’نام بھی ایرانی اور وضع و معاشرت بھی ایرانی۔ فارسی اہل زبان کی طرح بولتے اور ہندیوں سے زیادہ ایرانیوں سے مانوس تھے۔ اس لئے ہندی نہیں بلکہ مغل سمجھے گئے۔ مگر تھے در اصل عظیم آبادی... اہل علم میں سے تھے اور رمل میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے۔ ان کا حکم مانا جاتا اور اکثر درست ہوتا تھا۔ اس فن کے معتقد ان کے گرویدہ تھے اور بغیر ان کے حکم کے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ ہر قوم اور ملت سے ربط تھا۔ یہودی بھی کثرت سے آتے اور ان کے مرید تھے۔ ایک یہودی کی چار بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ انھوں نے عقد کیا۔ دوسری پرنس فرخ شاہ ٹالی گنج کی بیگم صاحبہ بنیں۔ تیسری آغا میرزا بابر کی خانم تھیں۔ یہ وہی میرزا بابا ہیں جن کی مرغی ہٹے کلکتہ والی مسجد ایرانیوں کی مسجد کہلاتی ہے۔‘ (تزک خیال چہارم، 9-10)
ان حصوں میں ہی خیال نے یہ بھی لکھا ہے کہ ماموں شاد عظیم آبادی کی دوسری بیگم جو کلکتہ کے آقا میر نواب کی صاحبزادی تھیں، فارسی پہ ماہرانہ دسترس رکھتی تھیں۔ فارسی میں گفتگو کرنے کے شوق میں خیال ہر وقت ان کے آس پاس ہی رہا کرتے تھے۔ اور اسی صحبت نے انھیں فارسی میں لکھنے کے لئے بھی آمادہ کیا۔ نقی احمد ارشاد لکھتے ہیں کہ جتنی تفصیل خیال نے درج کی ہے وہ کسی اور تذکرہ میں موجود نہیں ہے۔ (2003، 37) کلکتے میں مقیم ایرانیوں میں آقا سید میر نواب کے دو صاحبزادوں آقا میر احمد اور میر اکرم علی کے ذکر کے دوران خیال فرماتے ہیں کہ:
’ماموں صاحب (خان بہادر شاد) کی پہلی اہلیہ نے قضا کی تو انھیں دوسری شادی کرنے کا خیال ہوا۔ نسبت کلکتہ میں قرار پائی اور اس کے لئے آقا میر نواب مرحوم کی صاحبزادی تجویز ہوئیں کہ وہ خاندان سیادت و نجابت میں بلند نام ہے اور یوں قدیم تعلقات کی تجدید بھی ہوتی ہے۔ میر احمد مرحوم بڑے خوش اور میر اکرم علی کے سے نک چڑھے بھی راضی تھے کہ بہن کی شادی ایک ایسے خانوادے میں ہو گئی۔۔ ۔ ہماری مومانی پڑھی لکھی اور خوب فارسی بولتی تھیں۔ اس وقت تک مغلوں کی عورتیں اپنی زبان بھولی نہ تھیں۔ میں اس وقت بہت کم عمر تھا مگر فارسی کے شوق میں ہر وقت ان کے پاس رہتا اور زبان سیکھتا تھا۔ یہ بی بی بہت کم دن زندہ رہیں۔ عظیم آباد میں علیل ہوئیں۔ کلکتہ لائی گئیں اور یہیں انھوں نے قضا کی۔‘ (تزک خیال چہارم، 9)
خیال کا بیان ہے کہ وہ جب فارسی اخبار ’حبل المتین‘ سے متعارف ہوئے تب ان کا سِن پندرہ سال سے زیادہ نہ تھا۔ اس کے مدیر آقا سید جلال الدین کے تئیں انھوں نے بے پناہ عقیدت کا اظہار بھی کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’قاچاریوں کا ظلم جب ایران میں حد سے سوا ہوا اور جمال الدین افغانی کی گرفتاری کی خبر گرم ہوئی تو انھوں نے ایران کو وداع کہا۔ آقا سید جلال الدین بھی اسی زمانے میں شورش میں اپنے ملک سے عراق چلے گئے۔ مگر وہاں بھی جائے امان نہ دیکھ کر ہندوستان کا رخ کرنا پڑا اور آخر بمبئی پہنچے۔ وہاں چند دن قیام کر کے حیدر آباد چلے آئے۔ دل کے حوصلے دکن میں کیا نکلتے۔ آخر علی گڑھ آئے کہ وہاں کم از کم علمی مذاق اس وقت تک تھا۔ سر سید حیات تھے۔ ان سے مل کر خوش ہوئے اور کالج میں فارسی کا پروفیسر مقرر کرنا چاہا۔ مگر ان دونوں صاحبوں کے خیالات میں سخت اختلاف تھا۔ سر سید انگریز دوست پرو انگلش اور یہ اپنے استاد سید جمال الدین افغانی کے مقلد۔ اور اس لئے فرنگی دشمن۔ نباہ مشکل تھا۔ اس کا احساس کر کے علی گڑھ سے رخصت ہوئے۔ عظیم آباد آئے، اور وہاں سے کلکتہ۔ تیس یا پینتیس برس ادھر کا کلکتہ اور تھا۔ ایرانی سلامت تھے۔ اور ہندی مسلمان بھی اتنا گرے ہوئے نہ تھے۔ فارسی کا مذاق علم اور اس بادۂ شیراز کا دور علی الدوام تھا۔ ضرورت اور مذاق کو سمجھ کر انھوں نے اخبار ’حبل المتین‘ یہاں سے شائع کیا۔‘ (تزک خیال چہارم، 15)
سوانح کا ایک جز، جس کا تعلق حکیم سید قاسم علی لکھنوی سے ہے، رسالہ ’’خیابان‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ حکیم صاحب کلکتے کے نامور طبیب تھے جنھیں انتقال کیے ہوئے کوئی بیس پچیس سال ہو چکے تھے۔ ان کے سلسلے میں خیال کی تحریر رسالہ ’خیابان‘، لکھنؤ میں شائع ہوئی تھی جس میں انھوں نے حکیم صاحب کے عادات و خیالات اور ان کی خاص خاص صحبتوں کے نقشے کھینچے ہیں۔ ان میں ایک خاص صحبت کی کیفیت یہ ہے کہ حکیم صاحب حلقۂ احباب میں بیٹھے ہیں اور مولانا شبلی کی کتاب موازنہ انیس و دبیر پر گفتگو ہو رہی ہے۔ خیال لکھتے ہیں کہ:
’موازنہ… اسی زمانہ میں شائع ہوا تھا۔ … مولوی صاحب نے جس عقیدت و ارادت سے یہ موازنہ ترتیب دے کر اپنی خوش مذاقی کا ثبوت دیا، اس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ مگر یہ ان مرحوم کا خاص فن نہ تھا۔ اس صنف [مرثیہ] میں وسعت نظر نہ ہونے کی وجہ سے بعض جگہ کچھ لغزش بھی ہو گئی ہے۔ میر انیس کا مصرع ہے، سنتے ہی اس خبر کے خوشی ہو گئی شیریں۔ جناب مرحوم کا خیال تھا کا اس مقام پر خوشی کی جگہ خوش ہونا چاہیے، اور اسے انھوں نے لغزش اور زبان انیس کی کمزوری پر محمول کیا ہے۔ اس صحبت میں اس مصرع کا ذکر بھی آیا۔ حکیم صاب نے فرمایا کہ حال کے فصحا کا علم نہیں مگر ہماری زبان پر تو خوشی بھی ہے۔‘ (حکیم سید قاسم علی مرحوم لکھنوی 1927، 198)
حسرت فرماتے ہیں کہ انھوں نے ’’خیابان‘‘ میں یہ مضمون پڑھ کر خیال سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے حکیم سید قاسم علی بڑے صاحب علم بزرگ تھے۔ کہنے لگے ’’ہاں!ً ان کے صاحب علم ہونے میں کیا شک ہے؟‘‘ لیکن ان کی اس ہاں سے میری تسلی نہ ہوئی۔ پھر کہا ’’مرحوم نے اساتذہ کے ہزاروں شعر یاد کر رکھے ہوں گے جہاں کسی نے ٹوکا سند میں فوراً شعر پڑھ دیا۔‘‘ یہ سن کر مسکرائے اور کہنے لگے:
’معلوم ہوتا ہے کہ تم بات کو پا گئے۔ خیر تم سے کیا پردہ؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا سارا خاندان انیس کا معتقد ہے اور میں اس عقیدت مندی میں سب سے آگے رہا ہوں۔ ’موازنہ انیس و دبیر‘ شائع ہوئی تو اس میں انیس پر اعتراضات دیکھ کر طبیعت بہت بے چین ہوئی۔ کئی مرتبہ سوچا کہ ان اعتراضات کا جواب ضرور ہونا چاہیے لیکن شبلی مرحوم میرے بزرگ اور بزرگوں کے ملنے والے تھے اس لئے خون کے گھونٹ پی کے خاموش ہو رہا۔ آخر یہ خلش پچھلے دنوں دور ہوئی یعنی حکم سید قاسم علی کے حالات لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ شبلی کے اعتراضات کا جواب ان سے کیوں نہ دلوایا جائے۔ حکیم صاحب شبلی مرحوم کے ہم سن اور عزت اور رتبہ میں ان کے برابر تھے۔ میں نے ان کی زبانی شبلی مرحوم کے متعلق جو باتیں کہلوائی ان میں سوئے ادب کا پہلو کہیں نہیں نکلتا۔ حالانکہ یہی باتیں اگر میں کہتا تو انگلیاں اٹھتیں۔ سب کہتے کہ کل کا لڑکا مولانا شبلی کی برابری کرنے چلا ہے‘‘۔‘ (حسرت 1939، 52-53)
1898ء میں جب ’حبل المتین‘ کے مدیر موید الاسلام سید جلال الدین کلکتہ سے عظیم آباد تشریف لائے تو خیال کے مہمان ہوئے۔ نقی احمد ارشاد کا بیان ہے کہ وہ شاد عظیم آبادی کے ہمراہ 1925ء میں کلکتہ کے سفر کے دوران مارسڈن اسٹریٹ میں ان کی رہائش گاہ پہ ایک شام خیال اپنے ساتھ موید اسلام کو لے کر آئے تھے۔ شاد، خیال اور موید اسلام تینوں فارسی میں ہی گفتگو کرتے رہے۔ (شاد کا عہد اور فن: حصۂ دوم 1988، 47) ’’حبل المتین‘‘ کی عظیم آباد نیز بہار میں توسیع اشاعت خیال کے ذمے کی گئی تھی۔ ’’حبل المتین‘‘میں شاد عظیم آبادی کے فارسی میں لکھے مراسلات و قطعات کی اشاعت ہوئی تھی۔ (ا۔ م۔ ہاشمی 2021) خیال کے فارسی مضامین کی اشاعت کا ذکر بھی ملتا ہے جس سے شہادت ملتی ہے کہ وہ زبان و ادب کے ساتھ ساتھ فلسفہ، تاریخ اور مذہب کی بھی بیش بہا معلومات رکھتے تھے۔
یہ خیال کی مکمل سوانح عمری نہیں ہے اور نہ ہی 1925ء تک کے مکمل حالات کا احاطہ کرتی ہے۔ شادی کے ذکر کے بعد اس میں ذاتی کوائف پیش نہیں کیے گئے ہیں۔ یہ حصہ بھی بہت ہی مختصر ہے۔ اسے شادی اور پھر محل اولی کی رحلت کے ذکر پہ ختم کر دیا گیا ہے۔
’سنہ 1897ء میں، یعنی جبکہ میری عمر 19 برس کی تھی، کلکتہ مٹیا برج کے ایک مشہور خوشحال خاندان میں میری شادی ہو گئی۔ میری بی بی کنیز ام سلمی نواب انتظام الدولہ مرزا احمد بیگ کی بیٹی تھیں۔ انھوں نے سنہ 1922ء میں قضا کی۔ ہمارا ان کا ساتھ 25 برس رہا۔ ہمارے ان کے تعلقات معمولی زن و شو سے بہت زیادہ، یعنی، عاشقانہ و معشوقانہ تھے۔ انھوں نے اپنی خوشی کو میری خوشی و مرضی پر ہمیشہ قربان کیا۔ ہمارے ان کے کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ ہم نے ان کی سی نیک اور شریف بی بی نہیں دیکھی۔ اللھم اغفرہا!‘ (تزک خیال اول، 16-17)
قاضی عبد الودود نے اس خود نوشت کے ایک حصہ پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
’’’تزک خیال‘‘ میں جو رسالہ جادو، ڈھاکہ میں کچھ دنوں بہ اقساط شائع ہوتی رہی تھی، مرحوم نصیر حسین خاں خیال نے لکھ دیا تھا کہ’ امیر مینائی سال میں ایک مرتبہ عظیم آباد ضرور آتے، مشاعرہ ہوتا، اور میرے گھر بھی وہ مرحوم برابر آیا کرتے۔‘ جہاں تک ہر سال عظیم آباد آنے اور مشاعروں کے انعقاد کا تعلق ہے، یہ بیان صحیح نہیں معلوم ہوتا۔‘ (1988، 142)
یہ اعتراض برائے اعتراض تھا۔ بہر کیف، خیال کی نثر نگاری کے سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ قائم کرنے کے سلسلے میں اس خود نوشت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ ’’تزک خیال ‘‘کو دلچسپ پیرائے میں، زبان و بیان کی خداداد خوبصورتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فطری انداز، رواں، بر جستہ، با محاورہ، شگفتہ عبارتوں میں لکھی ہوئی نثر کی کامیاب مثال کے طور پہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، اس کی وجہ سے خیال کی نثر نگاری کے معاملے میں مولانا محمد حسین آزاد کے تتبع کا جو ایک مفروضہ قائم کر لیا گیا ہے، اس کی نفی بھی ہوتی ہے۔
٭٭٭