حسب و نسب
نصیر حسین خیال کا تعلق انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے اوائل کے عظیم آباد اور کلکتہ سے تھا۔ عظیم آباد کے ان کے خانوادے نے تقریباً دو سو برسوں تک اردو پروری کی تھی۔ اس کی رئیسانہ شان و شوکت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کی بدولت؛ اس کی معاشرتی، تہذیبی اور ٹکسالی زبان کی وجہ سے یہ شہر دہلی کا نمونہ بن چکا تھا۔ خیال کے مورث اعلیٰ عرب سے ایران آئے اور مغلوں کے زمانے میں انھوں نے ہندوستان کا رخ کیا۔ پھر اس خانوادے کے افراد فرخ سیر اور محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں پانی پت اور دہلی سے عظیم آباد تشریف لائے۔ مغلوں کے عہد میں اس خاندان نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ اس کے دو اصحاب (سید برادران) قطب الملک نواب سید عبد اللہ خان (نواب سید میاں ثانی عبد اللہ خان ثانی) اور امیر الامرا نواب سید حسین علی خان، بادشاہ گر کہلاتے تھے۔ اجمیر کے نواب سید عبد اللہ خان اول (سید میاں) کے یہ دونوں صاحبزادے اٹھارویں صدی کی مغل سلطنت کے دوران بے پناہ قوتوں اور اختیارات کے مالک تھے۔
عمدۃ الملک فیروز جنگ سپاہ سردار میر بخشی سید حسین علی خان بارہہ (1666ء تا 1720ء) جب بہار کے صوبہ دار مقرر ہوئے تو ان کا مستقر عظیم آباد ہی تھا جہاں دہلی کے تخت شاہی کی جانب سے انھیں جاگیر عطا ہوئی تھی۔ نواب سید غلام حسین خاں اپنی امارت و علمیت، زبان دانی و تاریخ دانی کے لئے مشہور تھے۔ جب یہ حضرت فرخ سیر کو بادشاہ بنا کر خود اس کے وزیر بن گئے تو یہ جاگیر ان کے چھوٹے بھائی نواب زین الدین علی خاں عرف میر زینا کو ملی، اور انھوں نے اس تقریب سے بہار میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ان کے سلسلے میں خیال کے الفاظ ہیں کہ:
’نواب (سید غلام حسین خاں) دہلی کے ان امیر زادوں میں سے ہیں جن کا دیوان خانہ وہاں (دہلی) اردو کا گھر بنا رہا۔ امرائے پانی پت کے ساتھ ان کے خاندان کی زبان بھی عظیم آباد میں اردوئے معلی مانی گئی۔ صوبۂ بہار میں پرگنہ جَپلا نواب صاحب کی جاگیر تھا۔ وہاں کے محلات کے علا وہ عظیم آباد میں بھی وہ گھر بنا کر رہے۔ محلہ حاجی گنج کی بڑی حویلی اسی خاندان کے نام سے سو برس آباد رہی۔ ہمارے بچپنے میں یہ کھڑی تھی مگر اب گری پڑی ہے۔ نواب بہادر سید ولایت علی خاں مرحوم (پٹنہ کے مشہور رئیس) اور سید الشعرا جناب شاد علیہ الرحمۃ، نواب سید جعفر حسین خاں مغفور اور میرے والد سید نوروز حسین خاں مرحوم اسی حویلی میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔‘ (مغل اور اردو، 52)
خیال کی والدہ سید النسا بیگم اور والد سید نوروز حسین دونوں ہی نواب صاحب بیگم صاحبہ (زوجہ سید تفضل علی تفضل، حاکم کٹرا مانک، الہ آباد) کی اولادوں میں ہیں جو خود نواب میر سید زین الدین علی خاں کے خاندان سے تھیں۔ خیال کے نانا سید محمد عباس اور دادا سید محمد محسن ان کی ہی اولاد تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب محمد نور سے ملتا ہے جن کی اہلیہ خوا جہ بہاء الدین نقشبند کی دختر تھیں۔ (م. احسن 1917، 82) سید محسن خاں کی والدہ، نواب بیگم، نواب میر سید زین الدین علی خاں کی پانچویں نسل سے تھیں۔ میر سید تفضل علی خیال کے پردادا تھے۔ گویا زین الدین علی خاں سے ان کا سلسلۂ پدری و مادری دونوں ملتا ہے۔ میر تفضل علی کے دو صاحبزادوں سید محسن خاں محسن اور سید محمد عباس خاں عباس میں موخر الذکر شاد عظیم آبادی کے والد تھے۔ ان کی دختر، یعنی شاد کی ہمشیرہ سید النسا بیگم، نواب محمد محسن کے دوسرے صاحبزادے سید نوروز حسین کی زوجہ اور خیال کی والدہ تھیں۔ شاد، خیال کے حقیقی ماموں تھے اور چچیرے چچا بھی۔ خیال جب چار برس کے تھے تو والد کی رحلت ہو گئی اور ان کی پرورش و پرداخت دادی نواب فاطمہ بیگم کی نگہداشت میں ہوئی جو نواب محمد عیسیٰ خان رفعت کی صاحبزادی تھیں۔ ان کا تعلق دلی اور پانی پت سے تھا۔ ان کی نانی نواب عارفہ بیگم بنت نواب مہدی علی خاں مہدی بھی دہلی نژاد اور پانی پتی تھیں۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ والدۂ خیال اکثر فرماتی تھیں کہ ان کی والدہ عارفہ بیگم کی پیدائش دہلی کی تھی اور جلال الدین خاں تاثیر (1862ء، شاد کے حقیقی ماموں) کے انتقال کے بعد ان کے چچا حاجی امان اللہ خاں اپنی بھتیجی کو پانی پت لے گئے۔ خیال کے دادا نواب سید محمد محسن خان اور نانا سید محمد عباس بھی دہلوی تھے۔ محمد نور کے صاحبزادے نواب سید دانشمند خان کے بیٹے میر رستم علی دلی سے عظیم آباد آئے اور مغلیہ سرکار سے حاصل جاگیروں کی وجہ سے وہیں کے ہو رہے۔ ان کے نبیروں میں سید مردان علی، سید حیدر علی، سید قنبر علی، سید تفضل علی حکمران کٹرہ مانک پور، سید محمد محسن اور سید محمد عباس شامل ہیں جنھوں نے عظیم آباد کو ہر لحاظ سے آباد رکھنے کی بھر پور سعی کی۔ سادات بارہہ (بارہ) کایہ خاندان حسینی الحسنی سیدوں کا ہے۔ (سادات بارہہ کا تاریخی جائزہ 1980) سید برادران، نواب علی وردی خاں مہابت جنگ، صوبہ دار بنگال و بہار، سے تعلقات اور برادری کی وجہ سے سادات بارہہ کے زوال کے بعد بھی اس خاندان کا دبدبہ قائم رہا۔ اس خاندان کی ایک شاخ پانی پت میں رہ گئی تھی جس کے مورث اعلی شمس الدولہ نواب لطف اللہ خاں بہادر محمد شاہ کے وزیر تھے۔ یہ خاندان بھی اپنی علمیت اور فضیلت میں مشہور تھا۔ خواجہ الطاف حسین حالی کا دادیہالی تعلق اسی خاندان سے ہے۔ اس نسبت سے وہ شاد عظیم آبادی کے ماموں اور خیال کے نانا ہوتے تھے۔
خیال کے سلسلۂ نسب کی ایک شکل یوں ہے: نواب سید زین الدین علی خان بہادر کے پوتے نواب میر سید صفدر علی خان بہادر کی دو صاحبزادیاں تھیں، نواب بیگم صاحبہ اور نواب الٰہی بیگم۔ اول الذکر میر سید تفضل علی سے بیاہی تھیں۔ موخر الذکر کی شادی محمد عیسیٰ خان سے ہوئی۔ ان کی صاحبزادی نواب فاطمہ بیگم کے دو بیٹوں میں ایک سید نوروز حسین، خیال کے والد تھے، اور دوسرے سید جعفر حسین، (تزک خیال اول 1926, 3) خیال کے چچا جن سے خیال کی والدہ کا دوسرا نکاح ہوا۔ اس خاندان کا تیسرا سلسلۂ نسب نواب خواجہ عبد الرزاق خان بہادر سے شروع ہوتا ہے جو گورکھپور کے صوبہ دار تھے۔ ان کے فرزندوں میں شمس الدولہ نواب لطف اللہ خان صادق بہادر امرائے عالمگیر میں شامل ہونے کے ساتھ ہی شاہزادہ معظم کے اتالیق بھی تھے۔ ان کے پسر نواب عنایت خان راسخ بہادر یمین الدولہ والدہ کی نسبت سے خیال کے جد اعلیٰ تھے۔ ان کے نبیروں میں نواب مہدی علی خان بہادر کی صاحبزادی نواب عارفہ بیگم خیال کی نانی تھیں۔ خیال کے حسب و نسب کا چوتھا سلسلہ شاہ عباس صفوی کے وزیر نواب زہر یار خان سے متعلق ہے جن کے صاحبزادہ نواب محمد ابراہیم خان کا نکاح حیدر آباد میں ابو الحسن تانا شاہ کی ہمشیرہ سے ہوا تھا۔ فتح گولکنڈہ کے بعد وہ دلی ہوتے ہوئے عظیم آباد تشریف لائے جہاں ان کے صاحبزادے نواب علی جواد خان بہادر کی شادی حاجی میرزا محمد (برادر نواب علی وردی خان مہابت جنگ صوبہ دار بنگالہ) کی دختر سے ہوئی۔ ان کے صاحبزادہ نواب اسمعیل قلی خان بہادر مونگیر کے صوبہ دار تھے۔ ان کی اولادوں میں نواب احمد حسین خان بہادر فوج بنگالہ کے کمانڈر تھے اور اِن کے بیٹے نواب محمد ابراہیم خان خیال کی نانی نواب عارفہ بیگم کی ماں نواب نور النسا کے والد تھے۔
رسالہ ’جادو‘، ڈھاکہ میں نصیر حسین خیال نے خودنوشت ’تزک خیال‘ میں متذکرہ چار شجروں کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ خیال کے پدری اور مادری سلسلۂ نسب میں صاحب ثروت اور ذی علم و اہل قلم حضرات کی قابل لحاظ تعداد ہے۔ ان کا ذکر ’تذکرۂ شورش‘ اور ’تذکرۂ عشقی‘ میں بھی موجود ہے۔ اس خاندان کے دو قطب، شاد و خیال، اپنے کارناموں کے سبب بہار کے انیس و آزاد کہلائے۔
ولادت
سید تفضل علی عرف میرن صاحب، تحصیلدار، الہ آباد کے دو صاحبزادے تھے، سید علی نقی خاں محسن میر محسن اور سید عباس حسین عرف عباس مرزا یا میر عباس۔ میر محسن کی تین اولادیں تھیں، جعفر حسین، بسم اللہ بیگم اور نوروز حسین۔ میر عباس کی بھی تین اولادیں تھیں: علی محمد شاد، امیر حسن ایجاد اور سید النسا بیگم (عرف جھبو صاحب) ۔ سید النسا بیگم نوروز حسین کی زوجہ تھیں۔ ان کی دو اولادیں تھیں سید نصیر حسین اور سجادی بیگم۔ سجادی بیگم کا نکاح سید محمد نواب یاس (تلمیذ شاد) خلف نواب سید محمد تقی خاں، مظفرپور سے ہوا تھا۔ نواب تقی خاں سائنٹفک سوسائٹی کی مظفرپور شاخ کے صدر ہوا کرتے تھے۔ سجادی بیگم سل و دق سے جانبر نہ ہو سکیں۔ 18جنوری 1906ءکو انتقال ہو گیا۔ شاد عظیم آبادی نے قطعۂ تاریخ رحلت کہا تھا جس سے علم ہوتا ہے کہ علم و ادب کا اچھا ذوق رکھتی تھیں اور شاعری کا شوق بھی تھا۔
سید نصیر حسین کی پیدائش شہر عظیم آباد پٹنہ کے محلہ حاجی گنج کی چھوٹی حویلی میں 21 مارچ 1875ء کو ہوئی تھی۔ سید رضا قاسم کے مطابق ان کی تاریخ ولادت 21 مارچ 1860ء ہے۔ (1938، 21) شائق احمد عثمانی نے بھی یہی تاریخ پیدائش لکھی ہے۔ (داستان اردو 1930، 1) سید بدر الدین احمد (2003، 69) اور محمد اقبال سلیم (داستان اردو 1923، 2) نے سال پیدائش 1878ء لکھا ہے۔ خود خیال نے بھی اپنا سال ولادت 1878ء ہی بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’میں پٹنہ عظیم آباد کے ایک قدیم، مشہور اور خوشحال خاندان میں 21 مارچ 1878ء کو بروز نوروز پیدا ہوا۔ ‘‘ (تزک خیال اول 1926، 1) خیال کا لکھا سنہ پیدائش تو قطعی غلط ہے۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ خیال 21 مارچ 1872ء کو پیدا ہوئے۔ (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال 1981، 1-2) عیسوی اور ہجری تقویم کی مناسبت سے انھوں نے جو توضیحات پیش کی ہیں وہ محل نظر ہیں۔
خیال نے لکھا ہے کہ ان کی پیدائش کے تین برسوں کے بعد والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ ’مغل اور اردو‘ میں رقم ہے کہ خیال سات برس سے زیادہ کے نہ تھے کہ ان کی دادی کا انتقال ہو گیا۔ نقی احمد ارشاد نے خیال کی والدہ کہا کرتی تھیں کہ خیال کے باپ نے انھیں چار برس کا چھوڑا۔ سید نوروز حسین کا انتقال 1296ھ میں ہوا۔ ان کی وفات پہ شاد عظیم آبادی کے لکھے قطعۂ تاریخ رحلت میں سال وفات 1296ھ درج ہے۔ ماہ کا ذکر نہیں ملتا۔ خیال کی دادی کی رحلت 4ربیع الثانی 1300ھ کو ہوئی۔ اس پس منظر میں نقی احمد ارشاد کا یہ بیان درست ہے کہ خیال کی ولادت 1293ھ میں ہوئی ہو گی۔ لیکن عیسوی تقویم کے اعتبار سے اسے ان کا 1871ء یا 1872ء کہنا، یا سید نوروز حسین کے سال وصال 1296ھ کو 1876ء لکھنا مناسب نہیں ہے۔ تاریخوں کے ہجری سے عیسوی تقویم میں منتقلی کے طریقۂ کار سے محض ایک دن کے فرق کے ساتھ یہ تاریخیں اس طرح ہوتی ہیں: خیال کے والد کے انتقال کا سال 1879ء، خیال کی دادی کی رحلت 12 فروری 1883ء۔
اس لحاظ سے خیال کا سال پیدائش 1860ء، 1880ء، 1871ء، 1872ء یا 1878ء نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ اگر سید نو روز حسین کے 1296ھ میں انتقال سے تین سال قبل اور دادی کی رحلت سے سات سال قبل کے اعتبار سے دیکھیں تو 1292ھ میں خیال کی پیدائش ہوئی ہو گی۔ خیال کی تاریخ پیدائش کے معاملے میں 21 مارچ کا ذکر ہر جگہ ہے۔ اس اعتبار سے 21 مارچ 1875ء کو 1292ھ کے ماہ صفر کی 14 ویں یا 13 ویں تھی، اور یہی خیال کی تاریخ پیدائش ٹھیرتی ہے۔
والد کی رحلت اور والدہ کا عقد ثانی
خیال کے والد سید نوروز حسین شاد عظیم آبادی کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے اور ان کی زوجہ یعنی خیال کی والدہ شاد کی چھوٹی بہن تھیں۔ 1296ھ مطابق 1879ء میں سید نوروز حسین کی رحلت کے بعد خیال کی والدہ سید النسا بیگم کا عقد ثانی سید جعفر حسین سے ہوا جن سے انھیں تین اولادیں ہوئیں: سیدہ بیگم، عابد حسین کمال اور صادق حسین نہال۔ گویا سید النسا بیگم کی کل پانچ اولادیں تھیں۔
’والد کے انتقال کے بعد ان (خیال) کی کمسن بیوہ ماں کا عقد ان کے بڑے چچا میر جعفر حسین صاحب سے ہوا تھا۔ میر جعفر حسین مرحوم کو شاد کی ہمشیرہ کے بطن سے ایک صاحبزادی اور دو صاحبزادے تھے۔ میر جعفر حسین مرحوم لکھ لَٹ شخص تھے۔ بہ ترکۂ مادری (فاطمہ بیگم بنت یحیٰ خاں رفعت) ان کو پانچ سو روپے ماہانہ کا ایک ہی موضع بہلاد پور، پرگنہ غیاث پور میں مل گیا تھا۔ اور بہ ترکۂ پدری 110 روپے ماہانہ مالکانہ۔‘ز (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال 1981، 14)
سید جعفر حسین ۹۵ برس کی عمر میں فالج کا شکار ہو کر 1909ء میں قضا کر گئے۔ خیال کی والدہ کا انتقال 15 اگست 1943ء کو ہوا۔ ان کے انتقال سے قبل چار اولادیں سجادی بیگم، سیدہ بیگم، عابد حسین کمال اور خیال بھی اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں۔ پانچویں، صادق حسین نہال، کی رحلت 1945ء میں ہوئی۔
مکمل نام
خیال کا اصل نام سید نصیر حسین تھا۔ ان کے مضامین اور ان سے متعلق تحریروں میں ان کا مکمل نام نصیر حسین، نصیر حسین خان، نصیر حسین خان خیال، نصیر حسین خان خیال عظیم آبادی اور ادیب الملک نواب سید نصیر حسین خان خیال ملتا ہے۔ انگلستان، فرانس، جرمنی، آسٹریا، مصر وغیرہ ملکوں کی سیر سے واپس آئے تو حسن خدمت کے صلے میں نظام کی جانب سے انھیں ادیب الملک نصیر یار جنگ کا خطاب عطا کیا گیا۔ نقی احمد ارشاد کا بیان ہے کہ ’غالباً حیدر آباد سے ادیب الملک کا خطاب ملا تھا، یا کلکتہ کے عوام نے دیا ہو۔ سرکاری خطاب نہ تھا‘۔ خاندان کے کئی بزرگ عہد مغلیہ میں نواب تھے اس لئے ان کے نام کے پہلے بھی نواب لکھا جاتا تھا۔ خود وہ بھی اپنا نام نواب خیال ہی لکھنا پسند کرتے تھے۔ (ارشاد 1981، 1) رئیسانہ شان و شوکت کے مالک تھے مگر ابتلائے زمانہ کی وجہ سے خود صاحب ثروت نہ تھے کہ آمدنی کا مستقل ذریعہ نہ تھا۔ حالانکہ خود نواب نہیں تھے مگر آن بان وہی تھی۔ چونکہ خاندان میں کئی نوابین رہے تھے اس نسبت سے اپنے نام کے ساتھ نواب لکھا کرتے تھے۔ مضامین کی اشاعت کے لئے فرضی ناموں کے استعمال کے شواہد بھی موجود ہیں۔ فرضی ناموں کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ مجھے صرف ایک تحریر میں نام کی جگہ ’ارژنگ‘ لکھا ملا۔
پرورش و پرداخت
والد کی رحلت کے تین برسوں کے بعد جب دادی فاطمہ بیگم، بنت عیسی خاں رفعت، نون گولہ کی وفات بھی ہو گئی تو ان کی پرورش اور تربیت سید جعفر حسین اور شاد نے کی۔ سید بدر الحسن نے ’یاد گار روزگار‘ میں اور بدر الدین احمد نے ’حقیقت بھی کہانی بھی‘ میں خیال کو میر جعفر حسین کا بیٹا لکھ دیا ہے۔ خیال کی والدہ کا نکاح ان سے ہوا تھا، اس لحاظ سے تو یہ کہنا درست ہے۔ لیکن اس سے غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال، سید جعفر حسین اور خیال کے سلسلے میں سید بدر الحسن کی پیش کردہ تفصیلیں اہم ہیں۔ محلہ حاجی گنج کی تفصیلات کے دوران لکھتے ہیں کہ
’میر جعفر حسین صاحب، میر امیر حسن صاحب (تخلص ایجاد) و سید علی محمد شاد خان بہادر (نو روز حسین کو بھی شامل کر لیں۔ ہاشمی) یہ تینوں بھائی تھے۔ میر جعفر حسین بہت حسین اور متین آدمی تھے۔ بہت وجیہ شخص گزرے۔ اخلاق بہت وسیع تھا۔ رئیسانہ زندگی بسر کر گئے۔ ان کے یہاں چار بجے شام سے شرفا اور رؤسا کا مجمع رہتا تھا۔ چائے چلتی تھی۔ رہائش ہندوستانی، فرش و فروش بہت صاف۔ کپڑا بہت صاف رہتا تھا۔ نہایت ہی خوش وضعی اور خوش اسلوبی سے اپنی زندگی گزارتے رہے۔ مذہب ان کا شیعہ تھا۔ مرثیہ کی مجلسیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ ان کا علم بھی اچھا تھا۔ فارسی اردو خوب جانتے تھے۔ بڑے مہذب۔ صحبت ان کے یہاں رہتی تھی۔ ان کے بیٹے (کذا) نصیر حسین خان خیال موجود ہیں۔ (بدر الحسن 1991، 17)
شاد عظیم آبادی اپنی ہمشیرہ کی اولادوں سے ہمیشہ شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے رہے اور ان کی تربیت میں بھی انھوں نے اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میر سید جعفر حسین نے بھی باپ کا حق ادا کیا۔ ان کی حیات میں ہی خیال کی دونوں بہنوں کی شادیاں بھی ہوئیں۔
دو بیٹیوں سجادی بیگم اور سیدہ بیگم کی شادی نہایت دھوم دھام سے ہوئی۔ گھر میں گاڑی، گھوڑے، محرم اور مجالس اعزا میں بے دریغ خرچ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک پیش نماز بھی گھر کی مسجد میں مقرر تھے۔ ملازموں اور دایوں کی تعداد خاصی تھی۔ قرض کا بازار گرم تھا۔ (ارشاد 1981، 14)
جعفر حسین کا جب انتقال ہوا تو ایک لاکھ کے مقروض تھے جبکہ کل جائیداد کی قیمت 80 ہزار روپیوں سے زیادہ نہ تھی۔ میر جعفر حسین اور خیال کے سلسلے میں سید بدر الحسن نے یہ اظہار خیال کیا ہے کہ:
’ان (میر جعفر حسین) کی صحبت و تعلیم کا نمونہ وہ زندہ موجود ہیں جن سے ہزاروں اخبار خواں واقف ہیں۔ کلکتہ بنگالہ ڈھاکہ اور حیدر آباد تک ان سے واقف ہے۔ وہ بھی قدم بقدم اپنے والد (کذا) کی سی طبیعت رکھتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ والد ان کے (کذا) وجیہ اور لحیم شحیم آدمی تھے اور یہ دبلے آدمی۔ انگریزی کٹ اور انگریزی فیشن اور انگریزی طرز معاشرت کے آدمی ہیں۔ ظاہرا صاحب ہیں مگر دل بالکل ہندوستانی اور خیال نوابوں کا ہے۔ نصیر حسین خان خیال اب کلکتہ کے ساکن ہیں۔ شہر کے موجودہ نوجوان ان کو پہچانتے تک نہیں ہیں حالانکہ یہ پرانے خاندان کے اعلیٰ نمونہ ہیں۔‘ (18)
مذہبی عقیدہ
خیال حسینی الحسنی سید تھے۔ ان کے گھر کا ماحول مذہبی اور عقائد و رسوم کا پابند بھی۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ان کا گھر عظیم آباد میں ادب و تہذیب کا مدرسہ سمجھا جاتا تھا۔ اس میں مولویت کا شائبہ تک نہ تھا، اس کے باوجود مذہب اور اس کے ارکان و مراسم پہ سختی سے کار بند تھا۔ فرماتے ہیں کہ:
’محرم کے مراسم و مجالس میں، اپنے گھر میں، بہت کم افراط و تفریط میں نے دیکھی۔ ہاں، اخیر زمانہ میں عشرہ کی ایک تاریخ میں زنجیر کا ماتم ہونے لگا تھا۔ مگر ہمارے بزرگ اس بدعت سے خوش نہ تھے۔ ہمارے یہاں کی مجلسوں میں مسلمانوں کا ہر فرقہ بہ شوق شریک ہوتا اور کسی کو بھی کسی اعتراض کا موقعہ نہیں ملتا تھا۔‘ (تزک خیال اول 1926، 12)
شائق احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ نواب ادیب الملک کے خاندان کا مذہب ہمیشہ شیعہ رہا ہے لیکن ان کی شیعیت وہ شیعیت ہے جس میں ولائے اہل بیت کے ساتھ خواہ مخواہ کسی ذات سے ابرا و تکرار کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ وہ صحبتوں میں یہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو مسلک ان کا ہے وہی مسلک ان کے خاندان کا ہمیشہ سے رہا اور اسلام کے موجودہ اختلافات سے ان کا خانوادہ ہمیشہ دور و نفور رہا ہے۔ (مغل اور اردو 1933، 6) ان کے مذہبی میلان کے سلسلے میں چراغ حسن حسرت کا بھی بیان ہے کہ وہ عقیدہ کے لحاظ سے شیعہ تھے لیکن غلو ان کی طبیعت میں نام کو نہ تھا۔ نہ کبھی محرم کی جالس میں شریک ہوتے اور نہ ہی تعزیہ داری میں شرکت کرتے، اور کہا کرتے تھے کہ ’’ ان چیزوں سے کیا حاصل؟ تعزیہ داری اصل میں پروپیگنڈے کا ایک طریقہ تھا۔ جن لوگوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا جب وہ نہ رہے تو تعزیہ داری کیا ضرورت باقی رہ گئی؟ ‘‘ (مردم دیدہ، 33) عظیم آباد کے زیادہ تر شرفا کے گھرانوں کا یہ حال تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان زمانوں میں وہاں مذہبی تفرقہ کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا ہے۔ اپنے بعض خطوط اور کتاب ’’داستان عجم‘‘ میں انھوں نے ان رسوم کی مخالفت کی ہے جو محرم کی بدعتوں کے طور پہ معروف ہو گئی تھیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ لکھنؤ اور ہندوستان میں نواب سعادت علی خاں سے قبل شیعوں میں وہ بدعتیں اور خلاف مذہب حرکتیں مروج نہ تھیں جو بعد کو سرایت کر گئیں۔ سید مجتبیٰ حسین کے نام اپنے مکتوب میں انھیں کہتے ہیں کہ آٹھویں صدی عیسوی سے قبل شیعوں میں مولویت اور تقلید کا کہیں پتہ نہ تھا۔
’سنیوں کی دیکھا دیکھی ایک شخص احمد بن مکی اسے ایجاد کرتا ہے، پھر علامہ مکی اس کے ایڈووکیٹ بنتے ہیں۔ شاہان صفوی بنی (فارس) عباس اور عراق کی ضد پر پولیٹکل مصالح سے ایرانیوں کو اپنے وطن کی طرف راغب کراتے، مولویوں کے گروہ کو تقویت دیتے، ان سے حدیثیں گڑھواتے اور اسے اشاعت دلوا کر ایک نئے قسم کا مذہب (جو جعفری مذہب سے علاقہ نہیں رکھتا!) ایجاد کراتے اور عراق کی چوٹ پر، اور ایرانیوں کو پھیر کر خود اپنے ملک (حذف) کو ایک دوسری پرستش گاہ بناتے (حذف) ۔ صفیوں کے بعد یہ قصے نادر تک دھیمے رہے مگر قاچاریوں سے پھر مولویت کا دور دورہ بڑھا۔‘ (ارشاد 1981، 238)
ان کے ہی نام ایک مکتوب میں یہ عبارت بھی موجود ہے کہ
’سندھیوں کے عادات و خصلات بالکل بلوچی اور عراقی ہیں۔ جس طرح اسلام و شیعیت سے واسطہ نہیں اسی طرح یہاں بھی مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ محرم جس طرح گزرا اور جو مجھ پر گزری وہ میری زندگی کی تاریخ میں ایک اندوہناک واقعہ ہے۔ لغویات کے پرہیز کی وجہ سے جو شخص 14، 15 برس سے مجالس کی شرکت تک چھوڑ چکا ہو، اسے یہاں اس موقع پر ادنیٰ ترین خیالات و مراسم میں مجبوراً حصہ لینا پڑا۔ اور باتیں تو ایک طرف، عاشورۂ محرم کو ایک قافلہ کا سوانگ بھرا گیا۔‘ (ارشاد 1981، 230)
یہ حالات ان کے لئے سوہان روح تھے۔ خود کو غیر مقلد کہا کرتے تھے اور مذہبی امور کے معاملے میں عقلیت پسندی کے حامی تھے۔ خیال کی مذہبیت کا یہ رجحان ان کے کئی مکاتیب اور مضامین میں بھی عیاں ہے۔ اس ضمن میں علمائے کرام سے بحث و مباحثہ میں بھی انھیں کوئی اعتراض یا پرہیز نہ ہوتا اور وہ ایسے ہر موقع پر اپنے خیالات کا بے کم و کاست اظہار کر دیا کرتے تھے، بلکہ معرکہ آرا ہو جایا کرتے تھے۔ انھوں نے ’رمی الجمرات‘ جیسی اہم کتاب کے سلسلے میں یہ کہنے میں کوئی دریغ نہیں کیا کہ ’ رمی الجمرات آیات بینات کا جواب ہے۔ سوال و جواب دونوں مہمل اور دور از کار‘۔ وہیں انھیں ’آیات بینات‘ کے مصنف محسن الملک سید مہدی علی خاں سے محض اس بنا پر دشمنی بھی منظور نہیں تھی کہ انھوں نے شیعوں کے عقائد کی مخالفت کی تھی۔ گویا مذہب کے معاملے میں انتہا پسند قطعی نہ تھے۔ اوائل عمری سے ہی انھوں نے مذہبی امور پہ مولویت کے کستے شکنجوں کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ بایں سبب، بعد ازاں ان کے ہی فرقہ کے لوگوں کے ذریعہ ان کی تحقیر و تذلیل بھی کی گئی، کافر بھی ٹھیرایا گیا۔ خیال میں بنیادی طور پہ مذہبی رواداری تھی اور وہ غیر متعصب بھی تھے۔
تعلیم و تربیت
خیال کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل ماموں سید الشعرا شاد عظیم آبادی اور چچا سید جعفر حسین کے سایۂ عاطفت میں طے ہوئے۔ اردو، فارسی، عربی اور دینیات گھر پہ ہی پڑھی۔ نقی احمد ارشاد کہتے ہیں کہ ان کے خطوط ان کے تبحر علمی کی واضح دلیل ہیں۔ قرآن حکیم کے علاوہ نہ صرف قدیم مذہبی علوم کا انھوں نے مطالعہ کیا تھا بلکہ سابق صحیفوں اور تواریخ کا ان کو گہرا علم تھا۔ مطالعہ نہایت وسیع تھا۔ (ارشاد 1981، 9) ایک ہندو استاد طوطا رام بھی گھر پہ ہی آ کر انگریزی سکھاتے تھے۔ بعد ازاں گذری محلہ کے محمڈن اسکول میں انھوں نے 1888ء سے 1892ء تک تعلیم حاصل کی۔ نقی احمد ارشاد نے اسکول کی تعلیم کے موقوف ہونے کے سبب سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے دوست میر عنایت حسین امداد کا بیان نقل کیا ہے کہ خیال نے اسکول میں آٹھویں درجہ تک ہی تعلیم پائی تھی۔
’انگریزی نہایت رواں بولتے اور لکھتے تھے، بلکہ اپنے صاحبزادے امیر نواب سے ہمیشہ انگریزی میں ہی باتیں کرتے تھے۔ فرانس میں کئی ماہ رہ کر مرحوم نے فرنچ بھی سیکھی تھی اور فرانسیسی ادب کی کتابیں مثل انگریزی زبان کی کتابوں کے پڑھتے تھے۔ کلکتہ میں رہتے رہتے، انگریزوں سے ملتے جلتے اور مشق و ریاض سے ان کی انگریزی نہایت عمدہ ہو گئی تھی۔ ان کی انگریزی بابو انگریزی نہ تھی بلکہ ادبی۔ ان کے انگریزی اور اردو کے خطوط ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں زبانوں کے حروف نہایت عمدہ ہوتے تھے، شاد کے حروف سے بھی بدرجہا بہتر۔‘ (ارشاد 1981، 9-10)
شاد عظیم آبادی نے اپنے بیٹے سید حسین خاں کے مکتب کے موقع پہ مثنوی ’ثمرۂ زندگی‘ لکھی تھی جس میں انھوں نے اپنے فرزند، بھتیجے اور بھانجے کو خطاب کیا تھا۔ اس کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:
پڑھنے میں ہر ایک کو چاہیے کد
ہوں اس میں نصیر یا محمد
تم میں سے ہر ایک جب ام اے ہو
سمجھو کہ تم ہی پڑھے ہوئے ہو
حالات ایسے ناسازگار ہوئے کہ خیال محض آٹھویں جماعت پاس کر کے رہ گئے۔ لیکن اس کے باوجود ذخیرۂ علم و دانش تھے۔ خانگی تربیتوں اور اپنے ذوق و شوق کے سبب طبیعت تا عمر مطالعات کتب کی جانب مائل رہی۔ ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ وہ مذہبیات کی بھی بیش بہا واقفیت رکھتے تھے اور نظریاتی اعتبار سے التقاطی تھے۔
شادی
’تزک خیال‘ میں خیال لکھتے ہیں کہ’ سنہ 1897ء میں یعنی جبکہ میری عمر انیس برس کی تھی، کلکتہ (مٹیا برج) کے ایک مشہور خوش حال خاندان میں میری شادی ہو گئی‘۔ بدر الدین احمد اوراقبال سلیم نے شادی کا سال 1899ء لکھا ہے۔ نقی احمد ارشاد کا بیان ہے کہ ان کی شادی 1896ء میں ہوئی۔ خیال 1896ء میں نواب واجد علی شاہ کے وزیر انتظام الدولہ مرزا احمد بیگ کی دختر کنیز ام سلمیٰ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ مرزا صاحب کشمیری ترک تھے اور کلکتے میں انٹالی، بنیا پوکھر اور مٹیا برج جیسے علاقوں میں ان کی کوٹھیاں تھیں۔ سید بدر الحسن کا بیان ہے کہ
’ان خیال کی شادی کلکتہ میں عباس بیگ اور غضنفر بیگ و چھوٹن بیگ کی بہن سے ہوئی تھی۔ ان کو سسرالی دولت بھی کافی ملی تھی۔ یہ لوگ مٹیا برج کے لوگوں میں سے تھے۔ عباس بیگ کے والد معزز عہدہ دار خاندان کے تھے۔ دونوں بھائی بالکل انگریز معلوم ہوتے تھے۔ صورت سیرت طینت طبیعت رہائش و طرز معاشرت سب انگریزوں جیسی تھی۔ ان لوگوں نے دور دور عراق و یورپ کی سیر بھی کی تھی۔ غضنفر صاحب کے پاس شرعی طور پر میم صاحبہ تھیں۔ اولاد سب کی ہنوز موجود ہے۔ تینوں بھائی مر گئے۔ اب ان لوگوں کی اولادوں سے راقم کو واقفیت نہ رہی۔ ان لوگوں کی زندگی تک آمد و رفت رہی۔ بلکہ یہ لوگ راقم کے مہمان بھی ہوا کرتے تھے۔‘ (1991، 18)
شادی کے بعد خیال نے 1900ء میں، اور بعض روایتوں میں 1899ء میں عظیم آباد کو خیرباد کہہ کر کلکتے میں سکونت اختیار کر لی۔ خود خیال نے کلکتے میں با ضابطہ سکونت کا سال 1900ء لکھا ہے۔ ام سلمیٰ بیگم 1922ء میں اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن ان کی حیات میں ہی خیال نے دوسرا نکاح بھی کر لیا تھا۔ محل ثانی کا نام مریم بیگم تھا۔ نقی احمد ارشاد نے ان کے نام کے علاوہ کوئی اور اطلاع فراہم نہیں کی ہے۔ ’تزک خیال‘ میں یہ بیان موجود ہے کہ خیال سے ام سلمیٰ بیگم کے نکاح کے کچھ دنوں بعد ہی ان کی ہمشیرہ یعنی خیال کی نسبتی بہن، کنیز مریم خاتون بیوہ ہو گئی تھیں۔ تب ان کی عمر سولہ برس تھی۔ کلکتہ میں خیال کی سکونت کے بعد وہ تا حیات خیال اور ام سلمیٰ کے ساتھ ہی رہیں۔ خیال نے ان کا سال وفات 1918ء لکھا ہے۔ نقی احمد ارشاد نے جس محل ثانی مریم بیگم کا ذکر کیا ہے ان کی وفات کا سال انھوں نے 1920ء لکھا ہے۔ چونکہ ان کے سلسلے میں براہ راست کسی قسم کی جانکاری موجود نہیں ہے، لہذا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ مریم بیگم در اصل کنیز مریم خاتون ہی رہی ہوں گی جو خیال کے صاحبزادے امیر نواب کی والدہ تھیں۔ نقی احمد ارشاد کی اطلاع کے مطابق امیر نواب کی پیدائش 1917ء میں ہوئی تھی، اور اس کے تیسرے ہی سال 1920ء میں مریم بیگم کی رحلت ہو گئی۔ خیال اور ارشاد کے یہاں مریم بیگم کے وصال کے دو مختلف سنین ملتے ہیں۔ سنین کے اندراج میں خیال سے جا بجا بھول ہوئی ہے۔ خود اپنے سال پیدائش اور شادی کے سال کے لئے انھوں نے دو مقامات پہ دو بیانات دیے ہیں۔ خیال نے ان دونوں کی رحلت کا ذکر کیا ہے لیکن جس انداز میں مریم بیگم کا ذکر کیا ہے، اس سے یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ وہی ان کی محل ثانی بھی تھیں۔
’میری بی بی کی ایک بہن کنیز مریم خاتون تھیں۔ وہ میری شادی کے بعد ہی سولہ برس کی عمر میں بیوہ ہو گئیں۔ اس وقت سے سنہ 1918ء تک، یعنی تقریباً بیس برس وہ میرے ساتھ رہیں۔ میری ان کی محبت غیر معمولی اور ضرب المثل ہو گئی تھی۔ ہم نے ان کی سی مضبوط اور مستقل مزاج اور بہادر بی بی نہیں دیکھی۔ انھوں نے سنہ 1918ء میں قضا کی اور مجھے نیم جان چھوڑ گئیں!ًانا للہ۔‘ (تزک خیال اول، 18)
اولاد
خیال کے تین بیٹے تھے۔ محل اولی ام سلمی بیگم سے دو صاحبزادے ہوئے، صفدر نواب اور حیدر نواب۔ دونوں کم عمری میں ہی فوت کر گئے۔ محل ثانی، مریم بیگم سے خیال کو صرف ایک اولاد تھی، سید امیر نواب، جن کا سال ولادت 1917ء ہے۔ پیدائش کے تیسرے ہی برس، نقی احمد ارشاد کی روایت کے مطابق، مریم بیگم کے انتقال کی وجہ سے امیر نواب کی پرورش ام سلمی بیگم نے کی۔ جب ان کی بھی رحلت ہو گئی تو اس خاندان میں باپ بیٹے کے علاوہ کوئی اور نہ رہا۔ خیال نے امیر نواب کی پرورش اور تعلیم میں زمانے کی کروٹوں کے مطابق کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انگریزی پڑھنے لکھنے کے معاملے میں کم عمری میں ہی امیر نواب نے اچھی دسترس حاصل کر لی تھی۔ اردو کم جانتے تھے۔ باپ بیٹے کے درمیان انگریزی میں ہی باتیں ہوتی تھیں۔ اگر اردو میں خط و کتابت کی ضرورت بھی ہوتی تو وہ انگریزی میں ہی لکھتے پھر اسے ترجمہ کیا جاتا تھا جس میں کبھی کبھی خود ارشاد مرحوم بھی تعاون کرتے تھے۔ چراغ حسن حسرت نے ایک واقعہ بیان کیا ہے:
’ایک دن میں ان سے ملنے گیا۔ بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے میں نے پوچھا ’’کوئی نئی کتاب شروع کی ہے؟‘‘ کہنے لگے بھئی کہاں کی کتاب۔ امیر نواب کو اردو پڑھانا چاہتا ہوں۔ کوئی ڈھب کی کتاب نہیں ملتی۔ اس کے لئے ایک چھوٹا سا رسالہ لکھا ہے۔ کوئی سو ڈیڑھ سو صفحات کی کتاب تھی۔ ہند اور اہل ہند اس کا نام رکھا تھا۔ اس میں ہندوستان کے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کے لباس، رسم و رواج، خیالات و عادات اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیئے گئے تھے۔ اس کے چند اجزا میں نے ’آفتاب‘ میں بھی چھاپے تھے۔‘ (43)
ہندوستان کے جغرافیہ سے متعلق اس کتاب کا ایک جز نقی احمد ارشاد نے بھی اپنی کتاب میں شامل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ داستان اردو کا باب ہے۔
سید امیر نواب
سید مجتبیٰ حسین کے نام 31 اکتوبر 1932ء کو لکھے مکتوب میں خیال نے ریاست حیدر آباد کی جانب سے امیر نواب کے تعلیمی وظیفے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت وہ آٹھویں جماعت کے طالبعلم تھے۔ اس لحاظ سے 1932ء میں ان کی عمر چودہ یا پندرہ سال کے آس پاس رہی ہو گی اور جس سال خیال کا انتقال ہوا (1934ء) اسی سال انھوں نے میٹرک پاس کیا ہو گا۔ زمانۂ طفلی میں پٹنہ میں ہی رہا کرتے تھے۔ خیال تنہا رہ گئے تو انھیں اپنے ساتھ رکھنے لگے۔ کلکتہ میں ام سلمی بیگم کی رحلت کے بعد امور خانہ داری اور امیر نواب کی دیکھ بھال کے لئے خیال کے برادر نسبتی کی بیٹی رقیہ بیگم بھی ساتھ رہا کرتی تھیں۔ خیال کے مکتوبات میں ان دونوں کے خیر پور میں بھی ساتھ ہونے کا ذکر موجود ہے۔ خیرپور سے واپسی کے بعد امیر نواب عموماً پٹنہ یا کلکتہ میں ہی رہا کرتے تھے۔ خیال کے انتقال کے وقت بھی وہ کلکتے میں تھے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں کے بعد امیر نواب پاکستان ہجرت کر گئے۔ نقی احمد ارشاد نے ہجرت کے بعد ان کے حالات کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی جن اصحاب نے خیال کو موضوع بنایا ہے ان کے یہاں امیر نواب سے ناواقفیت کا ہی علم ہوتا ہے۔ بہزاد فاطمی کا بیان ہے کہ امیر نواب کراچی میں قیام کے دوران انگریزی مضامین بھی لکھا کرتے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں حقوق العباد پہ امیر نواب کی ایک مطبوعہ تصنیف کا بھی ذکر کیا ہے۔ (یہ فسانہ زلف دراز کا، 42)
سید فیضان رضا نے کراچی کے دو ایسے اصحاب سے ذاتی مراسلوں کے ذریعہ بعض معلومات فراہم کی ہیں جن سے سید امیر نواب کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ کراچی کے پروفیسر محمد رضا کاظمی نے Islam and Human Rights کے موضوع پر امیر نواب کے کتابچہ کی اشاعت کی توثیق کی ہے۔ ان کی اطلاع کے مطابق امیر نواب کا انتقال کراچی میں ۲۰۰۲ء میں ہوا۔ پروفیسر محمود رضا کاظمی کے برادر خورد سید کاظمی اور امیر نواب رفیق کار بھی تھے۔ انھوں نے امیر نواب کی دو انگریزی تصانیف کا تذکرہ کیا ہے Islam's Gift to Humanity: Human Rights (Huqooq-ul -Ibaad)
اور
Two Asian Revolutions, Two New Democracies
اپنی کتاب Mr. Tourism میں کاظمی صاحب نے نواب کے ذکر کے دوران ایسی معلومات بہم پہنچائی ہیں جو اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان کے سلسلے میں سرحد کے اِس پار کسی کو کوئی واقفیت نہیں ہے۔ ہجرت سے قبل وہ کلکتہ میں منبیندر ناتھ رائے کی انقلابی جماعت کے سرگرم کارکن تھے۔ پاکستان جانے کے بعد نواب 1950ء کے دہے میں سیلانی کی حیثیت سے پاکستان مقبوضہ کشمیر کی وادیِ نیلم اور دیگر شمالی علاقوں کی سیاحت کرتے رہے۔ اس دوران انھوں نے سیاحت نامے بھی لکھے جن کی اشاعت حکومت پاکستان کے رسالہ The Perspective میں ہوئی تھی۔
امیر نواب قد آور شخصیت کے حامل تھے اور شناساؤں کے حلقے میں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ اس کا سبب خاندانی وجاہت کے ساتھ ہی ان کی اپنی شخصیت بھی تھی۔ جسٹس دوراب پٹیل سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ نواب جب بھی ان کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ خود باہر آ کر ان کا استقبال کیا کرتے تھے۔ امیر نواب سے سید کاظمی کی پہلی ملاقات کراچی کے Aage Kadam Printery میں اس کے مالک احمد علی کی صدارت میں منعقد آزاد خیالوں کے ایک اجلاس میں ہوئی تھی۔ اس قسم کی مجلسوں میں نواب پابندی کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور ان کی منفرد شناخت قائم ہو چکی تھی۔ ان کی دوسری ملاقات The Diplomat نام کے رسالہ کے دفتر میں ہوئی تھی۔ سید کاظمی اس رسالہ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنائے گئے تھے۔ نواب وہاں پہلے سے ہی آپریشنل ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ کاظمی صاحب چند واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نواب مرحوم سے انھوں نے ادارتی ذمہ داریوں کی کئی باریکیاں سیکھی تھیں۔ وہ صحافت کے بلند معیار کی علامت تھے۔ The Diplomat سے کاظمی صاحب کے الگ ہونے کے بعد بھی ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ امیر نواب نے کراچی سے شائع ہونے والے Pakistan Illustrated Weekly میں بھی ملازمت کی تھی۔
کلکتہ میں سکونت
انیسویں صدی کے اواخر تک سیاسی، معاشی یا معاشرتی اسباب سے دہلی، لکھنؤ، عظیم آباد اور دیگر مراکز اردو سے ہجرت کے بعد کلکتہ کو اپنا مستقر بنانے والے ادیبوں اور شاعروں کی ایک وسیع تعداد ہے جس میں ایسے اصحاب قلم بھی شامل ہیں جن کے ذاتی اور تخلیقی جوہر یہاں کے زمانہ شناس اور عہد ساز ادبی ماحول میں ایسے درخشاں ہوئے کہ متعلقہ عہد کے دیگر ادبی مراکز کی تابانیوں کو ماند کرنے لگے۔ نصیر حسین خیال نے عمر عزیز کے کم و بیش چونتیس برس یہاں گزارے اور یہیں سے انھیں ملک گیر سطح پر جادو بیان مقرر اور صاحب طرز نثر نگار کی حیثیت سے شناخت بھی حاصل ہوئی۔
کلکتہ میں ان دنوں مسلم انسٹی ٹیوٹ، زکریا اسٹریٹ کا رنگون ریستوراں، خیال کی بنیا پوکھر اور گارڈن ریچ کی کوٹھیاں اور تال تَلہ کے پاس شاد عظیم آبادی کا دولت خانہ ایسے مراکز تھے جہاں فارسی اور اردو شعر و ادب کے اکابر و اساطین کی مجلسیں سجتی تھیں۔ موید الاسلام جلال الدین کاشانی، مظفر الحسن شمیم، سلیم اللہ فہمی، مولوی چراغ حسن حسرت، پروفیسر عبد الرحیم، پروفیسر محفوظ الحق، نجیب اشرف ندوی، مولانا جلال الدین تہرانی، بہادر رضا علی وحشت کلکتوی، مولانا شائق احمد عثمانی، نواب زادہ ایف ایم عبد العلی، باقی غازی پوری، آغا حشر کاشمیری، علامہ جمیل مظہری وغیرہ ان صحبتوں میں شامل رہنے والے نامور حضرات تھے۔ چراغ حسن حسرت کا بیان ہے کہ:
’وہ (خیال) شہر سے باہر تالتلہ کے پاس رہتے تھے۔ میں تقریباً ہر شام کو کام سے فارغ ہو کر ان کے ہاں پہنچ جاتا تھا۔ رات کے بارہ بجے تک صحبتیں رہتی تھیں اور اتوار کو سارا دن انہیں کے ہاں گزرتا تھا۔ انہیں صحبتوں میں کبھی مولانا شائق احمد عثمانی ہوتے تھے کبھی نواب زادہ ایف ایم عبد العلی باقی غازی پوری۔ خان بہادر رضا علی وحشت پروفیسر محفوظ الحق اور پروفیسر عبد الرحیم تشریف لے آتے تھے۔‘ (حسرت، 30)
خیال بہت جلد کلکتہ کے ادبی ماحول میں گھل مل گئے۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ سے خیال کا گہرا تعلق رہا۔ اختر حسین رائے پوری نے لکھا ہے کہ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں مولانا رضا علی وحشت کلکتوی، صلاح الدین خدا بخش اور نواب نصیر حسین خیال عموماً کسی موضوع پر اظہار خیال کیا کرتے تھے۔ پروفیسر محفوظ الحق ان زمانوں میں انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری تھے۔ چراغ حسن حسرت، ابو الحسن بسمل، قمر صدیقی، جمیل مظہری وغیرہ بھی یہاں کی بزموں میں شریک رہا کرتے تھے۔ کلکتے کا رنگون ریستوراں بھی وہاں کے علما و فضلا کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ وہاں ایرانیوں کی بڑی تعداد بھی جمع ہوتی تھی۔ ان میں ہی فارسی اخبار ’حبل المتین‘ کے مالک و مدیر موید الاسلام سید جلال الدین کاشانی بھی تھے۔ خیال اس ریستوراں میں تو شاذ ہی جاتے لیکن وہاں کے سبھی اکابرین سے ان کے خوشگوار تعلقات تھے۔ بہزاد فاطمی لکھتے ہیں کہ:
’کلکتہ میں ان کا مکان عرصۂ دراز تک ملک کی اہم شخصیتوں کی آمد کا مرکز رہا۔ 1925ء میں مجھے مولانا ابو الکلام آزاد اور ایران کے مشہور جلا وطن نا بینا صحافی آقائے موید الاسلام اڈیٹر حبل المتین کی زیارت کا شرف انہیں کے مکان پر ہوا۔‘ (35)
اس بزم کی رونق کا ذکر جمیل مظہری نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’دو اور عظیم فنکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا شرف بھی مجھے حاصل ہے۔ یہ تھے نواب نصیر حسین خاں خیال، نثر کے آزاد ثانی اور شیکسپئر ہند آغا حشر کاشمیری۔ ان دونوں بزرگوں کی قیام گاہیں بھی دبستان وحشت کی طرح دو ادبی اور فنی درس گاہیں اور ادب کا وہ مے خانہ تھیں جہاں تشنگان ذوق کا مجمع صبح و شام اکٹھا ہوا کرتا تھا۔ میں بھی ان دونوں مے خانوں کا مستقل بادہ خوار تھا۔ دونوں کی شفقتیں میرے حال پر بے پایاں تھیں۔ دونوں ہی میری ابھرتی ہوئی شاعری اور نثاری کی انتہائی مبالغے کے ساتھ حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ دونوں بزرگوں کی صحبتوں میں ایک دوسرے کا ذکر ہوتا رہتا تھا۔ ایک دن نواب موصوف کو لے کر آغا صاحب کے مکان پر پہنچ گیا۔ دونوں اس گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ دونوں کے سینوں کی ہڈیاں نہ ٹوٹ جائیں۔ پھر اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آغا حشر جو سوائے میڈن تھیٹرس کے کہیں نہیں جاتے تھے، نواب صاحب کی قیام گاہ Continental Hotel میں تشریف لے گئے۔‘ (ا. ع. ارشد 1991، 389)
موید الاسلام سید جلال الدین کاشانی سے خیال کے گہرے مراسم تھے۔ وہ شاد عظیم آبادی کی فارسی شاعری کے بھی معترف تھے۔ کاشانی پٹنہ بھی تشریف لا چکے تھے۔ نبیرۂ شاد نقی احمد ارشاد کے الفاظ ہیں کہ:
’1925ء میں جب جد مرحوم شاد کلکتہ تشریف لے گئے تو آقاے موصوف ملنے کو مارسڈن اسٹریٹ میں آئے تھے جہاں ہم لوگوں کا قیام تھا۔ آقائے موصوف نابینا تھے اور ان کی صاحبزادی سکینہ بیگم ساتھ آئی تھیں۔ پھر ۲جنوری 1927ء کو آقائے موصوف معہ ناظم التجار جد مرحوم سے ملنے شاد منزل تشریف لائے تھے۔ صرف فارسی میں گفتگو کرتے تھے۔‘ (شاد کا عہد اور فن: حصۂ دوم 1988، 67)
جلال الدین کاشانی صرف فارسی نہیں، اردو میں بھی گفتگو کرتے تھے۔ چراغ حسن حسرت نے بھی خیال سے ان کے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد مرحوم نے اس واقعہ کا ذکر بھی کیا ہے جب خیال کے ساتھ موید اسلام ملاقات کی غرض سے شاد کے پاس تشریف لائے تھے۔ ’’شاد کا عہد اور فن‘‘ کی دوسری جلد میں اس سلسلے کی کئی اہم معلومات موجود ہیں۔ اس ملاقات کے دوران ’شاد و خیال و آقاے موصوف فارسی میں باتیں کر رہے تھے۔ ‘ (76)
کلکتہ کے بڑے حکام اور سیاسی مدبروں اور صحافیوں سے خیال کے بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ ان اصحاب میں سر سریندر ناتھ بنرجی، سر جگدیش چندر بوس اور نواب فیض جیسے اکابر بھی شامل تھے۔ خیال تبحر علمی، شخصیت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے کلکتہ کے برطانوی حکام کے درمیان بھی اپنی شناخت قائم کر چکے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ موید الاسلام سید جلال الدین کاشانی نے اپنے اخبار ’حبل المتین‘ میں حج سے متعلق ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں حج کے موقع کو مسلمانوں کے سیاسی اجتماع کی صورت میں بھی استعمال کرنے کی وکالت کی گئی تھی۔ اس میں یہ اظہار خیال کیا گیا تھا کہ حج در اصل عالم اسلام کے نمائندوں کا سیاسی اجتماع ہے جو بدقسمتی سے ایک مذہبی رسم بن کر رہ گیا ہے۔ چراغ حسن حسرت کا بیان ہے کہ اس مضمون کی وجہ سے سرکاری حلقوں میں بڑا شور مچا اور گورنر بنگال نے ایک خیر خواہ سرکار ہندوستانی سے اس مضمون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موید الاسلام کو ایسے مضامین لکھنے سے روکو۔ اگر حج کے متعلق اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو مشرق میں یورپ کی کسی قوم کے قدم نہیں جم سکیں گے۔ اسی واقعہ کو نصیر حسین خیال نے بھی بیان کیا ہے، اور غالباً حسرت کا اشارہ بھی ادھر ہی ہے:
’مجھے خوب یاد ہے کہ اسی زمانے میں میں ایک مرتبہ سر اینڈرو فریزر (لفٹیننٹ گورنر، بنگال) سے ملنے گیا۔ مجھ سے انھوں نے پوچھا، ’’تم حبل المتین پڑھتے ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں۔ ‘‘ سوال ہوا، کہ اس ہفتہ کا اخبار تم نے دیکھا ہے؟ کہا، ’’ابھی نہیں۔ ‘‘ میز پر سے حبل المتین اٹھا کر میرے ہاتھ میں دیا، کہا کہ سرخ پنسل سے نشان زدہ آرٹیکل کو پڑھو۔ میں نے دیکھنا شروع کیا۔ حج کے متعلق مضمون تھا۔ اس کی تاریخ اور اس کے وجوب پر بحث اور مسلمانان عالم کو اس مرکز تک کھینچ لانے کی وجہ و ضرورت کو بتا کر ایک ایسے موقع سے فائدہ نہ اٹھانے اور اب بھی آپس میں نہ متفق ہو جانے پر ملامت تھی۔ میں مضمون پڑھ چکا تو سر اینڈرو نے فرمایا کہ اگر اس آرٹیکل کا اثر اور زہر پھیلا تو ہم فنا ہو جائیں گے۔‘ (تزک خیال چہارم، 18-19)
شائق احمد عثمانی نے لکھا ہے کہ جب 1912ء میں ڈاکٹر سڈلر کی صدارت میں کلکتہ یونیورسٹی کمیشن قائم ہوا تو اس کمیشن میں خیال سے بھی شہادت لی گئی۔ ’ملک کے تعلیمی معاملات اور پھر یہاں کی زبان کے متعلق اس موقع پر آپ کا بیان وہ پُر مغز بیان تھا جس نے بنگالہ میں اردو کو سنبھال لیا۔ اس کمیشن نے بجا طور پر اس کا اعتراف کیا ہے کہ ہمارے ممدوح کی شہادت ایک وزن رکھتی اور اردو کی بزرگی کو تسلیم کرا دیتی ہے۔ (مغل اور اردو، 4) سید قاسم رضا مختار لکھتے ہیں کہ جب 1918ء میں بہ صدارت راؤس کلکتہ یونیورسٹی کمیشن قائم ہوا تو اس میں آپ سے بھی شہادت لی گئی تھی۔ ’ اس موقع پر بھی آپ نے اردو زبان کے متعلق وہ پر مغز بیان دیا جس نے بنگال میں بھی اردو زبان کی اہمیت تسلیم کرا دی‘۔ (حضرت خیال مرحوم عظیم آبادی 1938، 12) کلکتہ یونیورسٹی کمیشن در اصل دو برسوں، 1917ء سے 1919ء تک، کے لئے قائم ہوا تھا۔ اسے سیڈلر کمیشن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یونیورسٹی اوف لیڈز کے وائس چانسلر Dr. Michael Sadler کو اس کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ اس کمیشن نے بے شمار اصحاب سے زبانی اور تحریری شہادتیں لی تھیں۔ ر اقم نے Calcutta University Commission 1917-1919 کی رپورٹ کی ساتویں جلد میں مسلمانان کلکتہ کی فہرست میں خیال کا نام دیکھا ہے۔ وہ 1912ء سے 1919ء تک ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ کے رکن بھی رہے۔
علی گڑھ سے تعلقات
خیال اکثر علی گڑھ کا سفر کیا کرتے تھے۔ وہاں قیام کے دوران بھی وہ سرگرم رہا کرتے تھے۔ ان کی سرگرمیوں میں زبان اردو کو ملکی زبان کا درجہ عطا کرنے کا جذبہ سر فہرست ہوا کرتا تھا اور وہ اسی تعلق سے وہاں کی ادبی انجمنوں سے بھی رابطے میں رہتے تھے۔ علی گڑھ کے رسالہ ’اولڈ بوائے ‘ کی دعوت پہ انھوں نے وہاں تقریریں بھی کی تھیں۔ چھتاری کے نواب سر احمد سعید خاں اور نواب محسن الملک اور بعد ازاں سر راس مسعود سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ سر ضیاء الدین احمد سے بھی ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔
کلکتہ یونیورسٹی کمیشن (سیڈلر یونیورسٹی کمییشن) کی رپورٹ (1919ء) میں خیال کے نام کے ساتھ Trustee, M.A.O. College, Aligarh بھی لکھا ہے۔ 1909ء میں خیال کو ایم اے او کالج، علی گڑھ کے ٹرسٹی کی ذمہ داریاں عطا کی گئی تھیں۔
’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ‘ کے شمارہ بابت 24 اکتوبر 1906ء میں ’آل انڈیا محمڈن ڈیپوٹیشن ‘ کے عنوان سے نواب محسن الملک بہادر کی مفصل رپورٹ شامل اشاعت ہے۔ اس کے حصہ ’ترتیب مسودۂ ایڈریس‘ کے تحت یہ تفصیل درج کی ہے کہ انگریزی، فارسی، اور عربی کے نہایت لائق ادیب و انشا پرداز نواب عماد الملک مولوی سید حسین بلگرامی کو بمبئی میں تشریف فرما ہو کرمسودہ مرتب کرنے کی ذمہ داری عطا کی گئی، اور اسی دوران محسن الملک نے ’خاص خاص صاحب الرائے اور معزز اور تعلیم یافتہ مسلمانوں سے بذریعہ مراسلات دریافت کیا کہ مسودہ میں کیا کیا باتیں لکھی جائیں۔ اس پر کلکتہ، مدراس، پنجاب، ممالک متحدہ، سندھ اور بمبئی کے مسلمانوں نے جو رائیں اور تجویزیں پیش کیں، وہ سب نواب عماد الملک بہادر کو دکھائی گئیں، اور ان تمام آرا اور تجاویز کو ملحوظ رکھ کر، پوری توجہ سے نواب عماد الملک نے انگریزی میں مسودہ مرتب کیا ۔ گزارش کا مسودہ نواب عماد الملک نے تیار کر لیا تو ملک کے بیالیس نامور مسلم اکابر، اور ایک انگریز، جو مدرسۃ العلوم، علی گڑھ کے پرنسپل تھے، سے اس کے متعلق رائیں مانگی گئیں۔ ان اصحاب کی فہرست میں بارہواں نام خیال کا ہے۔
گزٹ کے متذکرہ شمارے میں ہی 16ستمبر 1906ء کو لکھنؤ کے قیصر باغ کی بارہ دری میں منعقد ہوئے اجلاس میں شامل اصحاب کی فہرست میں پہلا نام خیال کا ہے۔ نواب محسن الملک نے ہندوستان کے مختلف صوبوں کے مسلمان اصحاب الرائے اور مسلم انجمنوں کو ۷ ستمبر 1906ء کو بذریعہ تار یہ اطلاع ارسال کی تھی کہ میموریل کے شملہ پہنچنے کی تاریخ 20 ستمبر مقرر کی گئی ہے، لہذا ضروری ہے کہ ایسی با اختیار کمیٹی تشکیل دی جائے جو میموریل ایڈریس کے مسودہ پر غور کر کے قطعی تصفیہ کرے، اور جو ممبر ڈیپوٹیشن میں شریک کیے جائیں، انھیں منتخب کرے۔ بارہ حضرات کا انتخاب کیا گیا، اور یہ طے کیا گیا کہ کمیٹی کا اجلاس لکھنؤ میں 16 ستمبر کو منعقد کیا جائے گا۔ لکھنؤ کا ابتدائی جلسہ 15 ستمبر کو راجا نوشاد علی خاں کے دولت خانہ پر حامد علی خاں، بیرسٹر، لکھنؤ کی صدارت میں منعقد ہوا، اور 16 ستمبر کو قیصر باغ کی بارہ دری میں باضابطہ اجلاس مولوی رفیع الدین، بیرسٹر، کی صدارت میں ہوا جس میں کمیٹی کے 40 چالیس اصحاب شریک ہوئے۔ اس فہرست میں پہلا نام خیال کا ہے۔ اسی اجلاس میں مختلف صوبوں کے ان نمائندوں کا نام متعین کیا گیا جنھیں اس ڈیپوٹیشن کے رکن کی حیثیت سے وائسرائے کی خدمت میں ایڈریس پیش کرنے کی غرض سے حاضر ہونا تھا۔ اس اجلاس میں منظور شدہ رزولیوشن پہ دستخط کرنے والوں میں خیال کے علاوہ بنگال سے تین اور اصحاب تھے (نواب امیر حسن خاں، شاہزادہ بختیار شاہ، اور مرزا شجاعت علی بیگ) ۔ آل انڈیا محمڈن ڈیپوٹیشن، جو یکم اکتوبر 1906ء کو شملہ میں بحضور وائسرائے حاضر ہوا تھا، اس کے ایڈریس پہ آٹھواں دستخط خیال کا تھا۔
خیال محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی سنٹرل اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن تھے۔ لیکن علی گڑھ گزٹ کے مطابق20 مئی 1906ء کو علی گڑھ میں منعقد اجلاس میں شریک نہیں ہونے والے 28 حضرات میں خیال بھی تھے۔
آل انڈیا مسلم لیگ سے تعلقات
نواب محسن الملک نے خیال کو نہ صرف علی گڑھ کا ٹرسٹی بنایا بلکہ بنگال میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ خیال نے تعلیمی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانان بنگالہ کے ذہن نشیں کرایا کہ نئی ضرورتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید تعلیم کی ضرورت ہے۔ خیال نے بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شاخ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ خود ان کے الفاظ ہیں کہ انھوں نے سنہ 1908ء میں کلکتے میں مسلم لیگ کی شاخ قائم کی۔ نواب سر سید شمس الہدی سکریٹری بنائے گئے اور خیال ان کے نائب تھے۔ (تزک خیال سوم 1926، 10) وہ مسلمانوں کی اجتماعی ہندوستانی شناخت کے مبلغ تھے اور چاہتے تھے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کسی بھی صورت و تدبیر سے کم کیے جائیں۔ 1916ء میں آل انڈیا اردو کانفرنس کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ لیکن اس سلسلے میں خیال کی رائے ابتدا سے ہی یہی رہی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضا کی سازگاری کے لئے مسئلۂ زبان کا تصفیہ ناگزیر ہے۔ وہ اسے سیاسی کی بجائے معاشرتی مسئلہ تصور کرتے تھے۔ 1916ء میں ہی کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان سیاسی مفاہمت کی غرض سے 29 دسمبر کے تاریخی میثاق لکھنؤ میں اکابرین کے ساتھ ہی خیال بھی شامل تھے۔
سیاست سے مسلمانوں کی دلچسپی کے سلسلے میں ان کا واضح مؤقف تھا کہ مسلمان پہلے معاشرتی اعتبار سے خود کو مضبوط کریں، تعلیم حاصل کریں، تجارتوں میں فعال ہوں۔ اس لحاظ سے سر سید احمد خاں کے ہمنوا بھی تھے۔ حالانکہ خیال سیاست میں براہ راست دلچسپی نہیں لیتے تھے، اس پرانی مسلم لیگ کے حامی تھے جو ’سوٹیبل سیلف گورنمنٹ‘ کو معراج تصور کرتی تھی۔ مسلم لیگ کے بدلتے ہوئے رجحانوں سے بد ظن ہو کر انھوں نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور صرف ایسی تدابیر پہ غور و فکر کرتے رہے جو ہندو مسلم اتحاد کی فضا کو قائم و دائم رکھ سکے۔
لکھنؤ سے تعلقات
ہمدم دیرینہ سید علی سجاد عظیم آبادی کی وجہ سے خیال لکھنؤ کی ادبی نیز سیاسی سرگرمیوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں کی سر بر آوردہ شخصیات سے دوستانہ مراسم بھی رکھتے تھے۔ لکھنؤ میں آل انڈیا محمڈن ڈپیوٹیشن کی سرگرمیوں میں رہنمائی کے لئے دیگر دیدہ وروں کے ساتھ خیال کی شمولیت اس حقیقت کا بین اشارہ ہے کہ مسلمانان ہند کے مستقبل کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے والوں میں وہ بھی نمایاں مقام کے حامل تھے۔ اس وفد کے دسویں برس 24 دسمبر 1916ء کو لکھنؤ میں ہی منعقد آل انڈیا اردو کانفرنس کی صدارت کے لئے ان کا انتخاب بھی یہ واضح کرتا ہے کہ مسلمانان ہند کی مستقبل سازی کے عمل میں انھیں ایک وقیع مقام حاصل تھا۔
مولوی محمد عزیز مرزا حیدرآباد کی ملازمت سے مستعفی ہو کر 1909ء میں علی گڑھ آ گئے تھے۔ مسلم لیگ کے دفتر کے لکھنؤ منتقل ہونے کے بعد مارچ 1910ء سے وہ لکھنؤ میں ہی قیام پذیر تھے، اور وہیں 1912ء میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ زمانۂ طالبعلمی میں انھوں نے علی گڑھ میں، پھر دوران ملازمت حیدر آباد میں کئی رفاہی، علمی، اور ادبی کلبوں اور انجمنوں کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران انھوں نے ’مسلم کلب‘ کے نام سے بحث و مباحثہ کی ایک انجمن قائم کی تھی۔ خیال بھی اس کلب سے جڑے تھے، اسے مالی تعاون فرماتے تھے اور اس کے پروگرام میں بھی شامل ہوا کرتے تھے۔ خیال کے ایک مکتوب سے یہ علم بھی ہوتا ہے کہ فرنگی محل کے مولانا عبد الباری سے بھی ان کے اچھے مراسم تھے اور ان کے دولت کدے پر منعقد ہونے والی ادبی نشستوں میں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔
ریاست حیدرآباد سے تعلقات
خیال ابتداءً فارغ البال تھے لیکن خاندانی دولت و ثروت دستورِ امرا و نوابین نبھانے میں صرف ہو گئی۔ شادی کے بعد مالی حالات قدرے بہتر ہوئے تاہم بود و باش اور مجلسی زندگی کا انداز وہی رہا جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ ذرائع آمدنی کی جستجو کی جانب مائل ہونے لگے۔ طرحدار تو تھے ہی، مزاج میں رعونت بھی تھی، خاندان کی وجاہت و نیک نامی کا اثر بھی تھا کہ دست طلب دراز نہیں کر پاتے تھے۔ حالات نے کسی حد تک مجبور کر دیا تو اپنے مراسم کی بنا پر ایسے مواقع تلاشنے لگے جن میں عزت و وقار بھی ہو۔ معاش کے سلسلے میں چند برسوں تک حیدرآباد میں مقیم رہے جہاں انھوں نے سر علی امام کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ علی امام اگست 1919ء میں حیدرآباد پہنچ چکے تھے جبکہ خیال 23 اکتوبر 1919ء کو حیدر آباد پہنچے۔ ۱۱مئی 1920ء کو انھوں نے حیدرآباد چھوڑ دیا۔ اگست 1920ء سے مارچ 1921ء تک خیال انگلینڈ اور دیگر ممالک کے سفر پہ رہے۔ اپریل 1921ء میں جب حیدرآباد واپس آئے تو وہاں کی سیاسی چپقلشیں اپنے شباب پہ تھیں۔ سر علی امام نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور 6 ستمبر 1922ء کو حیدرآباد سے اپنے وطن پٹنہ روانہ ہو گئے۔ حیدرآباد میں خیال کے قیام کی بھی یہی مدت رہی۔
مہاراجا سر کشن پرشاد اور بعض دیگر اصحاب اختیار سے خیال کے دیرینہ تعلقات تھے لیکن پریشاں حالی ان کا مقدر بنی رہی۔ مسلم عظیم آبادی کے نام لکھے خیال کے ایک خط سے یہ واقفیت ہوتی ہے کہ حیدر آباد میں اپنے قیام سے وہ خوش نہیں تھے۔ کشن پرشاد شاد کے ایک خط سے بھی یہ علم ہوتا ہے کہ خیال کسی معاملے میں حیدرآباد سے بد ظن ہو گئے تھے۔ ان کے درمیان خط و کتابت کا ذکر کرتے ہوئے حبیب ضیا نے لکھا ہے کہ دونوں کے آپس میں گہرے مراسم تھے اور ان کے درمیان عرصہ تک مراسلت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ انھوں نے مہاراجا کو لکھا خیال کا ایک خط مورخہ 22 جولائی 1925ء بھی شائع کیا ہے۔
ایک عرصۂ دراز سے خیر و عافیت مزاج مبارک و عالی معلوم نہیں۔ امیدوار ہوں کہ از راہ شفقت بزرگانہ دو کلمۂ خیریت ارشاد فرما کر سرفراز و ممتاز کیا جاؤں۔ زیارت قدم بوسی کے اشتیاق کو کیا عرض کروں۔ اس اثنا میں اکثر شرف ملاقات و نیاز کا قصد ہوا کہ ایک مرتبہ پھر حیدرآباد حاضر ہو کر مشرف ہوں مگر شومیِ قسمت سے قاصر رہا اور اب تک قاصر ہوں۔ دیکھیے ایسا مبارک موقع پھر کب نصیب ہوتا ہے۔ اور جناب عالی فقیر کے دیرینہ اشتیاق کو پورا فرماتے ہیں۔ (مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد: حیات اور ادبی خدمات 1978، 241)
حبیب ضیا کی کتاب میں شامل یہ خط ’نقوش‘ کے مکاتیب نمبر میں شائع ہو چکا تھا۔ اس کے جواب میں لکھا ہوا مہاراجا کا خط بھی کافی اہم ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی خیال کے حالات جاننے کے لئے مضطرب تھے۔ مہاراجا کے مکتوب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’کیا حیدرآباد سے آپ اس قدر ناراض ہو گئے کہ جس تاریخ سے روانہ ہوئے ہیں بھولے سے بھی کبھی آپ نے اس طرف کا قصد نہیں کیا۔۔ ۔ فقیر شاد مع فیملی کے خیریت سے ہے۔ لیکن آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ فقیر زادہ خواجہ پرشاد سلمہ اللہ تعالیٰ کی بائیں آنکھ آہنی کیل کے صدمے سے ایسی مجروح ہوئی کہ بینائی میں اس آنکھ کی فرق آ گیا۔ اس بدنصیبی کو کیا کہوں کہ کئی اولاد ذکور میں وارث جائز اور چراغ خاندان خدا رکھے رہ گیا تھا، اس میں بھی یہ نقص پیدا ہو گیا۔ دعا فرمائیے کہ خدائے تعالیٰ فضل فرمائے۔ باقی اور کیا لکھوں۔ حیدرآباد کب تشریف لائیں گے؟ اور ضرور تشریف لائیے۔‘ (241-43)
خیال اس سے قبل اپنے مکتوب بتاریخ 10 فروری، 1920ء میں بھی مہاراجا سے اپنی پریشانیوں کا ذکر کر چکے تھے۔
’کل فقیر کو جناب والا کے مزاج کے دور از حال نا درست ہونے کی خبر معلوم ہوئی۔ شافی ٔحقیقی جلد صحت عطا فرمائے۔ میں تو اس درجہ محجوب ہوں کہ کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ مگر مجبوری و معذوریِ فقیر پر خود جناب والا کی نظر ہو گی اور عدم حاضری پر امید ہے کہ میں خطاوار نہ سمجھا جاؤں گا۔‘ (1957، 477)
یہ خط سیف آباد، حیدرآباد سے لکھا گیا تھا۔ اس خط سے قبل 20 جنوری 1920ء کو وہیں سے مسلم عظیم آبادی کے نام خط میں خیال لکھتے ہیں کہ:
’میں 23 اکتوبر گذشتہ کو یہاں پہنچا اور معاملات کچھ ایسے الجھے ہوئے تھے کہ رخت سفر اتارنے کے قبل میرا کام شروع ہو گیا اور جب سے جُتا ہوا ہوں۔ اب تک مجھے اپنی صحیح جگہ معلوم نہیں اور جب تک اس کا فیصلہ نہ ہو جائے میرا جی لگ نہیں سکتا۔‘ (1957، 467)
حیدرآباد میں ان زمانوں میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ وہ ریاست بد عنوان امرا و مصاحب کی آماجگاہ بنی تھی جن کی ریشہ دوانیاں غیر حیدرآبادیوں کو سازشوں کا شکار بناتی رہتی تھیں۔ خیال نے مولوی علی سجاد پر لکھے اپنے مضمون میں بھی اس کی جانب واضح اشارے کیے ہیں اور لکھا ہے کہ سجاد کو زمین حیدرآباد پر قدم رکھے ہوئے پورا ڈیڑھ سال بھی نہ ہوا ہو گا کہ ’حسب دستورو عادت قدیم وہاں نئی نئی انٹریگوں کی سرنگیں کھدنا شروع ہو گئیں ‘۔ ان کے دوست نواب صاحب کے پرانے حاسدین زیر زمین سے ابل پڑے اور معمولی بلکہ روزمرہ کے واقعات مذہبی رنگ سے شوخ بنائے جانے لگے۔ تاہم خیال ریاست حیدرآباد کی اردو پروری اور ادیب نوازی کے معترف بھی تھے۔ اسی مضمون میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ
’وہاں کی خاک نے جب خود میں لئیق فرزند پیدا کرنے کی عام صلاحیت کم ہو جاتے دیکھی تو زمین ہند کے رشیدوں کو بلوا بلوا کر پرورش کیا، فرزندی میں لیا اور یوں اپنا نام اونچا کیا۔ مادر ہندوستان کے اب بھی جو فرزند صالح اپنی دماغی قابلیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں ان میں بیشتر وہی ہیں جنھیں وہیں کی خاک پا سے نسبت رہی اور وہیں کے متروکہ سے اتنے بنے رہے کہ بے فکریوں سے اب تک وہ کام کر رہے ہیں، جن کی یاد عرصوں تک دماغوں میں تازہ رہے گی اور زمین دکن کو سرسبز رکھے گی۔‘ (اردو ناول نگار 1945، 7)
خیال ہی نہیں، سر علی امام اور حیدرآباد سے یہ شکایت شاد عظیم آبادی کو بھی رہی۔ لیکن جب انھیں سر اکبر حیدری کے معاملات کا علم ہو گیا تب راضی بہ رضا ہو گئے۔
سر علی امام سے تعلقات
محمد حسام الدین خان غوری نے لکھا ہے کہ سر علیا مام حیدرآباد دکن کے صدر اعظم مقرر ہوئے تو خیال ان کے سکریٹری رہے۔ (تحریک علی گڑھ اور حیدر آباد دکن، 140) نواب سر سید علی امام موید الملک بہادر، صدر اعظم، سرکار آصفیہ سے خیال اور شاد کا خاندانی ربط تھا اور گھریلو مراسم بھی تھے۔ سر علی امام جب 1914ء میں لا ممبر بنائے جانے کے بعد کلکتہ میں رہنے لگے تو ان کے اور خیال کے مراسم اور بھی گہرے ہو گئے۔ 20 اگست 1919ء کو سر سید علی امام مدار المہام کی حیثیت سے حیدرآباد تشریف لے گئے تھے۔ انھوں نے خیال کو صیغۂ اردو کے پرائیوٹ سکریٹری کی حیثیت سے رکھا۔ لیکن حیدرآباد کے معاملات اندرونی سازشوں کی وجہ سے بگڑنے لگے تھے جس کے شکار خود سر علی امام کے ساتھ ہی خیال بھی ہوئے۔ بقول ارشاد، ان سازشوں کے سرغنہ سر اکبر حیدری تھے جو سر علی امام کو ایک آنکھ نہ دیکھ سکتے تھے، اور نہ شمالی ہندوستان کے مہذب اور خود دار لوگوں کو پسند کرتے تھے۔ نتیجتاً سر علی امام اور خیال دونوں کو مستعفی ہونا پڑا۔ منظر علی اشہر اسی بابت فرماتے ہیں کہ حیدر آباد سے خیال کو بہت زیادہ تعلق نہیں رہا۔ سر علی امام وزیر اعظم بنے تو خیال کو انھوں نے اپنی معتمدی میں رکھا۔ دونوں نے ساتھ ہی یورپ کا سفر بھی کیا، لیکن سفر سے واپسی کے بعد ہی سر علی امام مستعفی ہو گئے اور خیال کو بھی حیدرآباد چھوڑنا پڑا۔ (منظر الکرام 1345ھ، 116)
بہرکیف، حیدر آباد کے حالات نہ سر علی امام کو راس آئے اور نہ ہی خیال کو۔ ’بستان آصفیہ‘ (راؤ 1350ھ، 22) کے مطابق دو سال دس ماہ اٹھارہ یوم کارفرما رہنے کے بعد نا معلوم وجوہ سے اول الذکر نے اس عہدہ سے سبکدوشی کی استدعا کی۔ انیس الرحمن انیس نے لکھا ہے کہ میلان طبع کے تحت وہ سبکدوش ہو گئے۔ (نواب موید الملک سر علی امام 1990، 82) سر علی امام نے 21 فروری 1922ء کو اپنے والد گرامی نواب سید امداد امام اثر کو لکھا تھا کہ: (ترجمہ) میں چند روز کے لئے حیدرآباد جا رہا ہوں، نظام دکن سے نجی مشورت کے لئے۔ اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ میں دوبارہ ہز اگزالٹیڈ ہائینس کی ملازمت قبول کر لوں۔ (انیس، 82) نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ حیدرآباد کا جو تصور خیال کے ذہن میں تھا، انھوں نے وہاں کی تہذیب اس کے بر عکس پائی۔ سازش، ریشہ دوانی، درباری مصاحبت، وغیرہ۔ یہ سب وہ معاملات تھے جو خیال کے مزاج کے مخالف تھے۔
’شاد کو حیدرآباد کی سماجی اور سیاسی حالت معلوم نہیں تھی۔ ریشہ دوانی، مصاحبت، لگی پٹی وہاں کا دستور تھا۔ سر علی امام نے نظام کو رائے دی تھی کہ اگر آپ اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہیں تو شمالی ہندوستان سے مسلمانوں کو بلوا کر حیدرآباد میں آباد کریں۔ یہ بات سر اکبر حیدری کو ناگوار گزری اور انھوں نے سر علی امام کے خلاف مقامی امرا سے مل کر پروپگینڈا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کے اندر سر علی امام کو حیدر آباد سے علیحدہ ہونا پڑا۔ جب شاد کو معلوم ہوا کہ خود نظام شعرا کے اشعار سن سن کر تمسخر اور مضحکہ کرتے ہیں، امرا اور شعرا کو نظام کے سامنے کھڑے رہنا پڑتا ہے، جھک جھک کے سلام کرنا پڑتا ہے، تو حیدر آباد نہ گئے۔‘ (ارشاد 1988، 49-50)
خیال کو جو ذمہ داریاں سونپی گئیں، وہ غالباً ان سے خوش یا مطمئن نہیں تھے یا پھر وہ معاملات ان کے بس کے ہی نہ تھے۔ اسی خط میں وہ پھر لکھتے ہیں کہ دعا کیجیے کہ یا تو مجھے یہاں جلد اپنی صحیح جگہ مل جائے کہ میں مطمئن ہو کر کچھ کام (ادبی) کر سکوں یا یہاں سے گلو خلاصی ہی ہو جائے کہ عافیت کی زندگی نصیب ہو۔ سر علی امام کے مستعفی ہونے کے بعد خیال نے بھی حیدرآباد چھوڑ دیا۔ خیال کو لکھے مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے ایک خط مورخہ 10 مئی، 1920ء سے واقفیت ہوتی ہے کہ یورپ کے سفر کے لئے انھوں نے ۱۱مئی 1920ء کو حیدرآباد سے رخت سفر باندھا تھا۔
’شاد نواز حضرت خیال دام محبتہ۔ ابھی معلوم ہوا کہ کل آپ کا قصد روانگی کا ہے۔ آپ کا سچا خلوص اور آپ کی ہمدردی اہل دکن کے ساتھ اور خصوصاً آپ کا حسن سلوک اس فقیر حقیر کے ساتھ، یہ صفات ایسے نہیں کہ شاد آپ کو دل سے بھول جائے۔ اگر خدا نہ کرے ایسا کیا تو شاد بھی جماد بے حس ہے۔ چوں کہ آپ کا قصد سفر و دور دراز کا ہے اس لئے شاد اپنے خاندان کے عمل درآمد کے لحاظ سے حضرت امام ضامن علیہ السلام کے ضامن بھیج کر متوقع ہے کہ آپ اس کو قبول کر کے شاد کو ممنون کریں۔‘ (1957، 373)
بعد ازاں کرشن پرشاد شاد نے 13 اگست 1920ء کے مکتوب میں خیال کو لکھا تھا کہ ان کے ’حیدرآباد سے رخصت ہونے کے بعد بہت سی چہ میگوئیاں ہوئیں۔ بلکہ اب تک جتنی زبانیں ہیں اتنی ہی باتیں مشہور ہوئی جاتی ہیں ۔
’بعد نیاز دلی فقیر شاد اس یاد فرمائی کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ آپ کی بے خیالی کا اثر کچھ ایسا عالمگیر ہو گیا ہے کہ اکثر احباب کے خیال سے شاد فراموش ہو چکا ہے یا لائق یاد فرمانے کے نہیں رہا۔ فقیر اگر جناب کو لکھتا تو کس ایڈریس پر۔ اس لئے کہ جب بھی دریافت کیا کہ حضرت خیال سلم کہاں تشریف فرما ہیں تو جتنی زبانیں اتنی ہی چیزیں۔ کوئی مشرق، کوئی مغرب، کوئی شمال، کوئی جنوب۔ الغرض یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو آپ زمین کے ساتھ گرم سفر ہیں یا آپ کے بلا گردوں ہے۔ بہر حال آپ کی جانب سے کوئی بھی دو حرفی خط موصول ہونے پر بھی فقیر جواب سے تساہل کرتا تو ٹھیک مجرم تھا۔ اور یوں تو دلی دوستوں سے اس قدر غافل رہنے کو بھی فقیر جرم سمجھتا ہے، جس کا یہ فقیر مرتکب ہے۔ اور معافی کا خواستگار۔‘ (حبیب 1978، 242)
رمن راج سکسینہ نے اسے سیاسی رقابتوں کا دور کہا ہے۔ سازشوں کی آماجگاہ ہونے کے با وجود اس دور کا حیدر آباد علما اور دانشوروں کا مسکن بھی تھا۔ اس کی وجہ سے سیاسی رقابتوں کے ساتھ ہی علمی رقابتیں بھی نمایاں ہونے لگی تھیں۔ سر اکبر حیدری جیسے کچھ حضرات ایسے بھی تھے جو غیر دکنی اصحاب کے بر سر عہدہ ہونے کی مخالفت پہ کمر بستہ تھے۔ ان کے مقامی ہونے کی وجہ سے سرکار میں ان کے رسوخ بھی زیادہ تھے۔ ان کی رخنہ اندازیوں کے سبب سر علی امام یا سر سید راس مسعود جیسے اکابرین آزادانہ طور پہ اپنے فرائض ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ وہیں دوسری جانب اپنی علمی یا ادبی حیثیت کا احساس عطا کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح نظام سے داد و دہش کے طالبوں کی کمی بھی نہ تھی۔ حیدر آباد سے خیال اس قدر کبیدہ خاطر تھے کہ اپنی کتاب ’مغل اور اردو‘ میں حیدرآباد کی اردو کو دلی کی اردوئے معلی سے کمتر ہی نہیں کہا، یہ بھی لکھ دیا کہ ولی دکنی نے در اصل دلی آ کر ہی یہ زبان سیکھی تھی۔ پروفیسر نصیر الدین ہاشمی نے خیال کے اس بیان کی گرفت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’نواب خیال کا منشا یہ ہے کہ اردوئے معلی چونکہ مغل سلاطین کی پرورش یافتہ تھی اس لئے وہی فصیح ہے، اور دکن کی زبان جو نربدا کے ادھر بولی جاتی تھی، غیر فصیح ہے۔ ‘‘ (مقالات ہاشمی، 390) ایسا قطعی نہیں ہے کہ دکن کی ادبی خدمات کا خیال نے اعتراف نہیں کیا ہے، لیکن اس قسم کے ان کے بیانات کو ادیب نہیں بلکہ زخم خوردہ انسان کے تصورات کی حیثیت سے دیکھنا اور ان سے صرف نظر کرنا چاہیے۔
خیال حیدر آباد سے واپس کلکتہ آ گئے تھے۔ کبھی کبھی پٹنہ میں بھی قیام رہتا تھا جہاں وہ عموماً شاد عظیم آبادی کے دولت کدہ پر ہی رہا کرتے تھے۔ لیکن حیدرآباد میں ان کے قیام کے دوران خود شاد کو بھی ان سے بعض توقعات وابستہ ہو گئی تھیں جن کا ذکر شاد نے اپنے غمگسار و مددگار دوست سید ہمایوں مرزا کے نام لکھے اپنے مکاتیب میں کیا ہے۔ بعض اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
’نصیر میاں کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے، بہت کم ہے۔ غالباً اگر میں حیدرآباد پہنچوں بھی تو مجھ سے ملاقات نہ کریں گے اور وہاں فرد ہونا تو نا ممکن ہے۔ یہاں مشہور کر رکھا تھا کہ خاص سرکار نظام کے سکریٹری اور پچیس سو روپیہ ماہانہ تنخواہ ہے۔ سر سید علی امام صاحب سے اس دفعہ پوچھا تو انھوں نے اردو صیغہ کا ان کو اپنا سکریٹری بتایا۔ سر علی امام کو اس دفعہ نصیر میاں کے تذکرہ میں کچھ سرد مہر پایا۔‘ (مکتوبات شاد عظیم آبادی 1939، 83-83)
’مجھے کمال حیرت تھی جب سے نصیر میاں سلمہ ہمارے صدر اعظم طال بقآ کے پرائیوٹ سکریٹری ہوئے ہیں، بر خلاف گذشتہ میرے خطوں کے جواب کیوں نہیں آتے۔ نصیر سلمہ پر حیرت نہ تھی بلکہ اس پر حیرت تھی کہ سر سید علی امام صاحب نے کیوں ادھر توجہ نہ کی۔‘ (87-88)
’میں نے نور چشم نصیر میاں سلمہ کا کیا بگاڑا ہے، اگر نقصان کیا یا کر رہا ہوں تو اپنا کیا۔ پہلے تو خواجہ اسمعیل صاحب وکیل اور مسٹر سلطان احمد صاحب کو لکھ لکھ بھیجتے تھے کہ ستر برس کی عمر میں اس بڈھے کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسے لوگوں کی باتوں کا اعتبار کر رہا ہے۔ اب سلطان نہیں ہیں تو محلہ کے لوگوں کو میری نسبت مضحکہ آمیز و طنز و تشنیع لکھا کرتے ہیں۔‘ (115)
ان بیانات سے ظاہر ہے کہ شاد غلط فہمیوں کے سبب خیال سے بد ظن ہو گئے تھے۔ انھیں اس کا علم یا احساس نہ تھا کہ خیال خود ہی نظر کرم کے متلاشی بنے پھر رہے تھے۔ محولہ بالا اقتباسات بالترتیب فروری 1920ء، 6 اپریل 1920ء اور 2 ستمبر 1922ء کے مکتوبات سے ہیں۔ 2 ستمبر 1922ء کے ہی مکتوب میں یہ بھی رقم ہے کہ ’میاں نصیر نے لوگوں کو لکھا ہے کہ حیدرآباد میں بجز کشن پرشاد کے علی محمد شاد کے اعلیٰ مضامین کو سمجھتا کون ہے۔ نتیجہ یہ کہ اگر کسی اور ذریعہ سے دکن گئے بھی تو ان کا کمال مٹی میں مل جائے گا۔ میاں نصیر نے لوگوں کو لکھا ہے کہ صدر اعظم کو دو سو روپیہ ماہانہ منصب دینے کا اختیار ہے۔ (م. ق. زور 1939، 117) پھر 12ستمبر 1922ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ’مکرر یہ کہ سر علی امام صاحب کو تا امکان ٹٹولیے کہ وہ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں ‘۔ (م. ق. زور 1939، 129) یہ بھی واضح ہے کہ خود شاد عظیم آبادی اپنی مالی مشکلات رفع کرنے کے لئے سر علی امام سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ ابتداءً سر علی امام نے کچھ وعدے کیے لیکن انھیں ایفا نہ کر پائے۔ خیال سے بھی انھیں توقع تھی کہ حیدرآباد میں ان کے لئے مالی منفعت کی کوئی صورت نکالنے میں وہ معاون ثابت ہوں۔ لیکن وہاں کی زمینی سچائیاں کچھ اور تھیں۔ گرچہ سید ہمایوں مرزا حسب استطاعت کبھی کبھی ان کا تعاون کر دیا کرتے تھے، بعد ازاں وہ بھی شاد کے ان خطوط کا جواب موخر کرنے لگے جن میں فرمائشیں ہوتی تھیں۔ ان مکاتیب سے ہی یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سر علی امام سے انھیں جو امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی رفتہ رفتہ دم توڑتی گئیں۔ ایک خط (مورخہ 24 فروری 1925ء) میں کہتے ہیں کہ ’’واقعی میری عقل حیران ہے کہ آخر مجھ غریب نے حضرت سر سید علی امام صاحب کا کیا بگاڑا تھا کہ حیدرآباد کے بارہ میں مجھ کو اس قدر دھوکے میں رکھ کر سخت زیر بار کر دیا۔ (م. ق. زور 1939، 223) ان مکاتیب میں ہی انھوں نے بار بار یہ بھی لکھا ہے کہ نصیر میاں (خیال) پٹنہ میں ہیں اور ان کے ساتھ ہی رہ رہے ہیں۔
شاد اور حیدر آباد کے تعلقات (سید سر علی امام اور مہاراجہ کشن پرشاد سے سید ہمایوں مرزا اور سید سر راس مسعود تک) اگلے زمانوں میں بھی موضوع گفتگو رہے ہیں۔ قاضی عبد الودود نے بھی اس سلسلے میں خوب لکھا تھا۔ بعض تفصیلات ’معیار‘ کے قاضی عبد الودود نمبر میں بھی موجود ہیں۔ ان تفاصیل سے مترشح ہے کہ حیدرآباد میں خیال کا قیام، ان کے تمام تر تعلقات و وابستگیوں کے باوجود، اس نہج کا نہیں تھا کہ وہ کسی اور کی خاطر تو کیا، خود اپنے لئے بھی کچھ کر سکتے۔ لیکن اس کا یہ نقصان ہوا کہ ان کے سلسلے میں غلط فہمیاں پیدا ہونے لگیں یا کی جانے لگیں۔ خیال سے شاد کچھ بد ظن رہا کرتے تھے اس کا ایک سبب خاندان کی جائداد تھا، دوسرے یہ کہ، بقول نقی احمد ارشاد کچھ اہل محلہ حاجی گنج جو شاد سے بغض و حسد کرتے تھے انھوں نے بھی ان رنجشوں کو بڑھانے میں منفی کردار ادا کیے۔ بعد ازاں شاد عظیم آبادی کو بھی یہ احساس ہو گیا تھا۔ انھیں سر علی امام سے بھی شکایتیں تھیں۔ اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ شاد وہاں کے زمینی حالات سے واقف نہیں تھے۔ سر علی امام کے علاوہ دیگر اکابرین وقت سے بھی خیال کے اچھے تعلقات تھے۔ بہزاد فاطمی نے لکھا ہے کہ انھوں نے 1957ء میں مولانا مظہر الحق کے آبائی مکان آندر، ضلع سیوان میں ایک تصویر دیکھی تھی جس میں جناح، حسن امام سر علی امام کے بھائی، مولانا مظہر الحق اور دوسرے سیاسی اکابرین کے ساتھ خیال بھی موجود تھے۔
یورپ کی سیاحت
حیدرآباد سے لوٹنے کے بعد خیال کلکتہ، پٹنہ، اور دارجلنگ آتے جاتے رہے۔ کہیں مستقل قیام نہیں رہا۔ انھیں آمدنی کی فکر ستانے لگی تھی۔ کلکتہ میں اہلیہ کی علالت کی وجہ سے خیال کو یورپ کا سفر ملتوی کرنا پڑا تھا۔ مہاراجا سر کشن پرشاد شاد کو 8 اگست 1920ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ:
’فقیر حد درجہ خجل و شرمسار ہے کہ خدمت عالی میں اب تک عریضہ نگار ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ کلکتہ آ کر جناب عالی کی خادمہ سخت علیل ہوئیں اور ڈیڑھ ماہ تک صاحب فراش رہیں۔ خیر، اب وہ اچھی ہیں۔ ان کی علالت کی وجہ سے سفر یورپ بھی ملتوی ہو گیا تھا مگر اب کہ الحمد للہ اطمینان ہے۔ 21 اگست کو ان شا اللہ بمبئی سے اس سفر کا قصد ہے۔ ‘(نصیر حسین خاں خیال کے خطوط 1957، 476)
خیال نے مہاراجا سے غالباً یورپ میں مستقل سکونت کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ خیال پھر کسی صورت حیدرآباد میں ہی مقیم ہو جائیں لیکن وہاں کے حالات بھی موافق نہیں تھے۔ خیال کے محولہ بالا مکتوب کے جواب میں ۳۱ اگست 1920ء کے خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ
’سفر یورپ کے التوا کی خبر نے شاد کے حال کو خوش تو کیا تھا مگر اس کے ساتھ ہی پھر آپ کا قصد بدستور معلوم کر کے افسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ اب بھی دور ہیں لیکن ہندوستان میں رہ کر جب چاہیں حیدر آباد آ سکتے ہیں۔ البتہ یورپ سے حیدر آباد آنا معنی دارد۔ اگر مستقل ارادہ ہے تو بسلامت روی و باز آئی۔‘ (1957، 373)
متذکرہ خط بنام شاد کے مطابق یورپ کے سفر کا آغاز بمبئی سے 21 اگست 1920ء کو ہوا۔ ’بستان آصفیہ‘ کے مطابق موید الملک سر علی امام لیگ اوف نیشنز میں منجانب سرکار عظمت شریک ہونے کے لئے 20 اکتوبر 1920ء کو ’باخراجات سرکار عالی بلدہ سے یورپ روانہ ہوئے اور بعد انفراغ لیگ وغیرہ یکم اپریل 1921ء کو مراجعت فرمائی بلدہ ہوئے۔ (بستان آصفیہ، ہفتم، 192) سید رضا قاسم مختار نے لکھا ہے کہ 1920ء میں فرمانروائے دکن حضور نظام خلد اللہ کی طرف سے خیال انگلستان بھیجے گئے۔ خیال کا یہ سفر سر علی امام کے ساتھ ہوا تھا لیکن سیاحت کی غرض سے خیال نے ترکے میں ملی پٹنہ کی جائداد بھی فروخت کر دی تھی۔ انھوں نے فرانس، بلجیم، جرمنی، انگولہ اور اٹلی کی سیر سے لوٹنے کے دوران ترکی اور مصر کی سیاحت بھی کی۔ ایسے بیانات بھی موجود ہیں کہ انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی کے اردو دانوں کے درمیان اور، مصر، ترکی و عراق میں ان کی کافی پذیرائی ہوئی۔ خیال نے اپنے ایک مضمون میں مصر کی سیاحت کا ذکر کیا ہے۔
’قدیم مصری زبان میں ہلیا (Halie) کے معنی شمس، آفتاب کے ہیں اور پلس (polis) شہر۔ ہلیا پلس یعنی مدینۃ الشمس! یہی پلس بگڑ کر ہمارا پولیس بنا یعنی شہر کا داروغہ۔ یہ قدیم شہر اجاڑ ہو گیا تھا۔ اب پھر بس رہا ہے۔ اسی میں وادی القمر یعنی لونا پارک (Luna Park) کا سا ایک ولایتی چکر بھی ہے شوقین شہر و پارک کی سیر اور سرو کی زیارت کرتے اور لطف اٹھاتے ہیں۔ 1921ء میں آپ کا ایک رند سیاح وہاں بھی پہنچا۔ وہ نڈر، زمین یوسفؑ کو چومتا، کسی سرو کو کبھی آنکھوں سے لگاتا اور مزے لیتا رہا۔‘ (شاہنامہ پر بیرونی اثر 1934، 225)
شائق احمد عثمانی نے اس سفر کے بیان میں لکھا ہے کہ:
’انگلستان کے سفر کو ختم کر کے آپ یورپ آئے۔ فرانس، بلجیم، جرمنی اور اٹلی کے مشہور مقامات اور خصوصاً وہاں کی تعلیم گاہوں کو دیکھتے ہوئے آپ مصر تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کی خاص طور پر پذیرائی ہوئی۔ مصر کے پاشاؤں کے مشہور کلب کے آپ اعزازی ممبر بنائے گئے۔ قاہرہ میں مرحوم زغلول پاشا سے خوب ملاقاتیں رہیں۔ مصر میں ڈیڑھ ماہ قیام کے بعد آپ انگورہ (انقرہ) تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کلب میں اتارے گئے اور قوم ترک کے مہمان بنائے گئے۔ غازی مصطفی کمال صدر جمہوریۂ ترک سے ربط و ضبط رہا۔ مصر کے مشہور روزانہ اخبار الاھرام نے اپنے پرچہ میں آپ کے حالات اور خیالات درج کیے۔‘ (مغل اور اردو، 4)
ریاست خیر پور سے تعلقات
یورپ کے سفر سے قبل، اسی برس مریم بیگم کا انتقال ہو چکا تھا۔ یورپ سے واپسی کے بعد خیال 1929ء میں کلکتہ واپس آئے تواسی سال محل اولیٰ کنیز ام سلمی کی رحلت بھی ہو گئی۔ اولاد میں صرف ایک بیٹابچا اور خاندانی جائیداد کی تقسیم کے بعد پٹنہ کے رشتہ داروں سے بھی انسیت تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ ان تمام صدموں کا اثر اتنا شدید تھا کہ علیل رہنے لگے۔ تبدیلی ٔ آب و ہوا کی غرض سے 1929ء میں خیرپور (سندھ) تشریف لے گئے تو ریاست خیر پور سے بھی وابستہ ہوئے۔ لیکن علاقائی، سیاسی مسائل اور وہاں کی ابتر صورت حال میں الجھ کر رہ جانا انھیں گوارہ نہ ہوا۔ خیر پور میں قیام کے دوران خیال کے صاحبزادے امیر نواب بھی ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔ وہ خیر پور کے میر علی نواز خان کا بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ
’میر صاحب نہایت بھاری بھرکم دراز قد تھے۔ پیٹ اتنا بڑا کہ ڈائننگ چیئر پر بیٹھ کر نہیں کھا سکتے تھے۔ ایک بڑی آرام کرسی پر پڑے رہتے تھے۔ دونوں بغل میں میزوں پر کھانے کی پلیٹیں رکھ دی جاتی تھیں۔ میر صاحب کے شکم پر بڑے تولیے بچھا دیے جاتے تھے۔ کبھی داہنی طرف ہاتھ مارا اور بھر مٹھی لقمہ منہ میں، اور کبھی بائیں طرف۔ یہاں تک کہ موٹے موٹے تولیے شوربے سے بھر جاتے تھے۔‘ (ارشاد 1981، 20)
نقی احمد ارشاد رقمطراز ہیں کہ شیریں میر صاحب کی محبوبہ ملکۂ عالیہ بنی ہوئی تھی اور بڑے بڑے حکام کو تم، تیں کر کے مخاطب کرتی تھی۔ جب خیال مرحوم حیدرآباد میں نہ ٹک سکے تو ایسی وحشی جگہ میں کب تک رہ سکتے تھے۔ (1981، 20)
سید مجتبیٰ حسین کے نام لکھے ایک مکتوب بتاریخ 22 جولائی 1929ء میں خیال نے خیرپور کے حالات پیش کیے ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ مرزا محمد عسکری نے خیال کے نام اپنے مکتوب بتاریخ 17 اکتوبر 1929ء میں لکھا ہے کہ ’اب ایک خوش خبری سنی۔ وہ یہ کہ جناب ریاست خیرپور کے وزیر اعظم ہو گئے ہیں۔ ‘ (ارشاد 1981) خیال نے اس خط کا جواب اسی برس ماہ نومبر میں حیدر آباد سے بھیجا تھا اور یہ لکھا تھا کہ وہ کئی ہفتوں سے حیدر آباد میں ہیں اور متذکرہ خط انھیں خیرپور سے واپس ہو کر حیدر آباد میں ملا۔ اس مکتوب میں خیال نے خیرپور کے سلسلے میں عسکری کی مبارکباد پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ خیرپور کی ریاست میں وہ وزیر تھے۔ رسالہ ’اصلاح‘ کھجوہ کے شمارہ بابت شوال المکرم 1353ھ میں یہ ذکر موجود ہے کہ 1928-9ء کے دوران خیال ریاست خیرپور کے چیف سکریٹری کے عہدے پر مامور تھے۔ یہیں بر سر کار رہتے ہوئے انھوں نے 1929ء میں عراق و کربلا کا سفر بھی کیا تھا۔ خیال کے دیگر مکاتیب سے ظاہر ہے کہ انھیں وہاں کے سیاسی اور معاشرتی حالات راس نہیں آئے۔
’بے قاعدگی و بے ضابطگی کی وجہ سے یہاں کے معاملات کی گتھیاں سلجھانے میں صبر ایوبؑ سے کام لینا اور عمر نوحؑ کے حاصل ہونے کی دعا کرنی پڑتی ہے اور اس میں وقت کی بربادی ظاہر ہے۔ مجھے بلا مبالغہ دس گھنٹوں سے کم نہیں کام کرنا پڑتا ہے۔ سامنا و سابقہ ان لوگوں سے ہے جنھیں سویلائزڈ دنیا کی ہوا بھی نہیں لگی۔ سندھیوں کے عادات و خصلات بالکل بلوچی اور عراقی ہیں۔ جس طرح اسلام و شیعیت سے واسطہ نہیں اسی طرح یہاں بھی مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ محرم جس طرح گزرا اور جو مجھ پر گزری وہ میری زندگی کی تاریخ میں ایک اندوہناک واقعہ ہے۔ لغویات کے پرہیز کی وجہ سے جو شخص 14، 15 برس سے مجالس کی شرکت تک چھوڑ چکا ہو، اسے یہاں اس موقع پر ادنی ترین خیالات و مراسم میں مجبوراً حصہ لینا پڑا۔ اور باتیں تو ایک طرف، عاشورۂ محرم کو ایک قافلہ کا سوانگ بھرا گیا۔ مجھ خوش نصیب کو ایک افسر کی حیثیت سے اس شیعی اور خالص مذہبی عزا میں زوروں کے ساتھ حصہ لینا ہوا، اور اپنی حالت پر فاتحہ پڑھنا پڑا۔ آپ اپنے یہاں کے محرمی اکھاڑوں اور دنگلوں مناظروں کو روتے ہیں مگر اگر سندھ آ جائیں تو سب فراموش کر کے یہاں کے قافلے کے سالار بن جائیں۔‘ (ارشاد 1981، 229-30)
بالآخر وہ سال بھر میں ہی استعفیٰ دے کر پٹنہ لوٹ آئے۔ 1930۔ 31ء میں زیادہ تر وقت انھوں نے پٹنہ میں ہی گزارا۔ نقی احمد ارشاد نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس مرتبہ وہ پٹنہ میں مستقل قیام کے ارادے سے تشریف لائے تھے۔
’الغرض خیال اس دفعہ پٹنہ میں مستقل سکونت کے خیال سے تشریف لائے تھے۔ کلکتہ اور دارجلنگ کی کوٹھیاں بک چکی تھیں۔ صرف خود اور ایک لڑکا امیر نواب۔ چھ ماہ تو بواسیر کی بیماری اور علاج میں کٹ گئے۔ مجالس محرم، نوروز کے جلسے یا مشاعروں میں فرش پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔‘ (1981، 21)
’گھر میں الگ تنگی ٔ معاش تھی اور نہال مرحوم خیال کے چھوٹے بھائی کو ان کا رہنا پسند نہیں تھا۔ ماں بیٹے میں بھی کچھ خانگی شکر رنجی تھی۔ الغرض ڈیڑھ سال کے قیام کے بعد مرحوم کلکتہ یا لکھنؤ چلے گئے۔‘ (1981، 25)
پٹنہ سے وہ کلکتے گئے اور وہاں سے لکھنؤ۔ پٹنہ میں قیام کے دوران ان کی یہ کوشش بھی رہی کہ شاد کے نمائندہ کلام کا انتخاب کیا جا سکے اور اس کی بہترین طباعت کی سبیلیں بھی تلاش کی جائیں۔ اس سلسلے میں وہ مہاراجا کشن پرشاد شاد سے ہر ممکن تعاون کے حصول کے لئے بھی تیار تھے۔ 15ستمبر 1931ء کو لکھے خیال کے ایک خط سے علم ہوتا ہے کہ تب وہ لکھنؤ میں مقیم تھے۔ جنوری 1932ء کے آغاز میں ریاست رام پور سے بھی وابستہ تھے۔ لیکن چند ماہ بعد ہی کشمیر چلے گئے۔
کشمیر میں قیام
خیال کے کشمیر میں قیام کی تفصیلیں ان کے دو مکاتیب میں موجود ہیں جو انھوں نے میر عنایت حسین امداد اور مجتبیٰ حسین کے نام لکھے تھے۔ ان خطوط سے یہ واقفیت ہوتی ہے کہ وہ ریاست کشمیر کے مہمان کی حیثیت سے وہاں گئے تھے۔ ان میں کشمیر میں ان کی کسی ریاستی مصروفیت کا ذکر نہیں ملتا لیکن موخر الذکر کے نام لکھے خط میں انھوں نے خود کو Minister in Waiting لکھا ہے۔ سید مجتبیٰ حسین کے نام مکتوب مورخہ 31 اکتوبر 1932ء میں انھوں نے القاب و آداب سے پہلے ’منسٹر اِن ویٹنگ، جموں اینڈ کشمیر‘ لکھا ہے، حالانکہ ۲۲اکتوبر 1932ء کو میر عنایت حسین امداد کے نام لکھے خط میں ایسی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ بہزاد فاطمی نے لکھا ہے کہ خیال ریاست خیرپور سندھ اور کشمیر میں وزیر کے عہدے پر فائز رہے۔ (یہ فسانہ زلف دراز کا, 35) خیرپور سے لوٹنے اور رام پور جانے کے درمیانی وقفے میں ان کا زیادہ تر وقت کشمیر، کلکتہ، دارجلنگ، پٹنہ اور علی گڑھ میں گزرا۔ دارجلنگ میں انھوں نے اپنی کوٹھی بھی بنوائی یا خریدی تھی۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران سر راس مسعود سے ان کی عنایتوں کے خواہاں رہے۔
سر راس مسعود سے تعلقات
یہ روایتیں بھی موجود ہیں کہ سر راس مسعود جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تو خیال کو شعبۂ اردو کے صدر کی حیثیت سے تقرر کرنا چاہتے تھے۔ خیال کے حیدرآباد میں قیام کے دوران ہی سر سید راس مسعود نواب مسعود جنگ بہادر سرکار آصفیہ میں ناظم تعلیمات تھے۔ جلیل قدوائی نے یہ روایت سختی کے ساتھ مسترد کی ہے۔ (1982، 87) لیکن یہ بہر حال حقیقت ہے کہ اہلیہ کی رحلت کے بعد رفتہ رفتہ خیال کی مالی آسودگی ختم ہوتی گئی اور اس جستجو میں رہنے لگے کہ انھیں ان کے ادبی کاموں کی تکمیل کے بہانے سے ہی سہی، مالی تعاون میسر ہو جائے۔ اور اسی غرض کی تکمیل کے لیئے ان میں خودستائی کی کیفیت در آئی تھی۔ لیکن اس سلسلے میں سید سر راس مسعود کو لکھے ان کے مکاتیب سے نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ علی گڑھ میں اپنی تقرری کے خواہاں ہی نہیں تھے، بلکہ اسے اپنا حق بھی سمجھتے تھے۔ ان مکاتیب میں ہی خیال نے علمی کاموں کے بہانے دست طلب دراز کیا ہے۔
’پھاٹک حاجی گنج، پٹنہ سٹی۔ 26 اگست 1930ء۔
اب بہت جلد جس طرح ہو فیصلہ کیجیے اور مجھے اپنے پاس بلا لیجیے۔ یہ مدد بھی صرف ایک سال کے لئے چاہتا ہوں جس کے بعد پھر کسی امداد کی ضرورت نہیں رہے گی اور اپنی بقیہ زندگی آپ کی اور یونیورسٹی کی خدمت میں گزار دوں گا۔‘ (قدوائی 1982، 88)
’مجھے اس وقت ساڑھے تین سو ماہوار ایک سال کے لئے اس غرض سے درکار ہیں کہ ایک دو پڑھے لکھے آدمیوں کو رکھ کر اس کتاب داستان اردو کو ختم کر دے سکوں۔ جس طرح ہو مجھے اگست کے اخیر یا زیادہ سے زیادہ ستمبر کے پہلے ہفتے تک ضرور بالضرور وہاں آپ کے پاس آ جانا اور آپ کی یونیورسٹی کی خدمت میں مصروف ہو جانا چاہیے۔‘ (قدوائی 1982، 91-92)
’جعفر منزل، علی گڑھ۔ یکم نومبر 1931ء۔ ہمارے خیال میں اس کام علی گڑھ میں اردو کو استحکام عطا کرنا میں چار مہینے لگیں گے اور زیادہ سے زیادہ دو ہزار روپیہ صرف ہو گا۔ اسی نومبر سے کام شروع کر دیا جائے اور مجھے پانچ سو روپیہ عنایت ہو کہ کل سے کام شروع کر دوں۔ مجھے آج ٹھیک چار بجے موٹر بھیج کر بلوائیے اور اس وقت صرف پانچ سو کا ایک چیک مجھے دے کر کلکتے جائیے۔‘ (قدوائی 1982، 93)
’جعفر منزل، علی گڑھ۔ 21 نومبر 1931ء۔ میں تعلیم کو سمجھتا ہوں اور مجھے نہ صرف کتابی علم ہے بلکہ یورپ اور مصر کی یونیورسٹیوں کو اچھی طرح دیکھ چکا اور تعلیم کی اصلیت اور اس کی غرض سے واقف ہوں۔ اس لئے آپ کی اور سر مالکم بیلی کی رائے ہو تو میں رامپور کے صیغۂ تعلیمات کو ہاتھ میں لے کر بہت کام کر سکتا ہوں۔‘ (قدوائی 1982، 179)
انھیں نہ تو علی گڑھ میں استاذی کا منصب عطا ہوا، نہ ہی ان کی اردو کے تئیں اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے رقوم کی منظوری ہوئی، نہ ہی رامپور کے صیغۂ تعلیمات سے وابستگی کے لئے کوئی پیش رفت ہوئی۔ لیکن وہ بھی، شاد عظیم آبادی کی ہی مانند، اپنی علمیت، قابلیت اور تعلقات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے مناصب و مراعات حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ ان کے خاندانی جاہ و حشم اور موجودہ خانگی حالات کے پس منظر میں ان کی ان کوششوں کو غیر اخلاقی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان اسباب سے تعلقات میں کشیدگیاں پیدا ہوئیں۔ جلیل قدوائی نے لکھا ہے کہ
’معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب خیال نے از خود اپنے چند روزہ قیام علی گڑھ کے دوران میں مسعود صاحب سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کر لی تھیں، اور شعبۂ اردو میں دخیل ہونا چاہتے تھے۔ ورنہ اس زمانے میں شعبۂ اردو کی توسیع کا مسئلہ یونیورسٹی کے منتظمہ کے زیر غور آیا ہی نہیں تھا۔‘ (قدوائی 1982، 64)
اس کے بعد محولہ بالا مراسلوں کی روشنی میں کہتے ہیں کہ کیا ایسی ’صفات‘ رکھنے والے بزرگ کے ہاتھوں میں، جن کے یہ خطوط مظہر ہیں، کسی یونیورسٹی کے نوجوانوں کا مستقبل دیا جا سکتا ہے۔ علی گڑھ میں شعبۂ اردو میں جو اولین تقرریاں ہوئیں ان میں خود جلیل قدوائی کا بھی انتخاب ہوا تھا۔ کیوں نہ قدوائی صاحب کے بیان کو بھی ایک ایسے شخص کا خیال تصور کیا جائے جو نواب خیال ہی کی طرح خود بھی اس تقرری کا امیدوار تھا۔ رہا معاملہ سر سید راس مسعود کی عنایتوں کے حصول کا، تو جلیل قدوائی نے ’شعلۂ مستعجل‘ میں جن اصحاب علم و ادب کے خطوط شامل کیے ہیں، ان سب کے متعلق یہی لکھا ہے کہ وہ راس مسعود سے مراعات کے حصول کے لئے جا و بے جا دباؤ ڈالتے تھے۔
’سر راس کے چند احباب بلکہ چند اہل غرض اصحاب نے انھیں حد سے زیادہ سادہ دل سمجھ کر اپنے دام فریب میں لانا چاہا اور ان کی شرافت و نیک نیتی سے نا جائز فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوشش کی، ان کی عزت نفس کو مجروح، ان کے دل کو مذبوح کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان صفحات پہ جو مراسلت پیش کی جاتی ہے ان سے ناظرین کو سر راس اور ان کے احباب کے مزاج اور سرشت کا خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔‘ (قدوائی 1982، 180)
اس کے لئے انھوں نے جن حضرات کے خطوط پیش کیے ہیں ان میں نواب خیال کے علاوہ نواب امداد امام اثر، مولوی عبد الحق، مولوی محمد امین زبیری، جوش ملیح آبادی، ابو الاثر حفیظ جالندھری، عبد الرحمن چغتائی اور شیخ عطاء اللہ بھی شامل ہیں۔ راس مسعود سے جلیل قدوائی کے تعلقات حیدر آباد سے ہی تھے۔ انھوں نے بعض حضرات کے خطوں کے جواب میں لکھے راس مسعود کے مکتوبات بھی پیش کیے ہیں لیکن خیال کے کسی مکتوب کا جواب نہیں ہے جبکہ خیال کے خطوط سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ سر راس مسعود نے ان کی تجاویز (جن کا ذکر خیال کے خط میں موجود ہے) کے سلسلے میں انھیں خط لکھے تھے۔ یہی صورت حال شاد عظیم آبادی کے ساتھ بھی اس وقت نظر آتی ہے جب وہ سید ہمایوں مرزا (اصل نام سید عاشق حسین) سے توقعات وابستہ کرنے لگتے ہیں جو شاد کے استاد حضرت الفت حسین فریاد عظیم آبادی کے صاحبزادہ تھے۔ ’مکتوبات شاد عظیم آبادی‘ میں سید محی الدین قادری زور نے جتنے خطوط شامل کیے ہیں ان سے یہ علم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب اکثر و بیشتر شاد کا مالی تعاون کیا کرتے تھے۔ لیکن ان خطوط میں یکطرفہ صورت حال ہی ہے۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ مرزا کسی نہ کسی غرض سے ہی رقم بھیجتے تھے اور شاد ان سے حاصل ہونے والی رقم کا حساب بھی روانہ کیا کرتے تھے۔ شاد نے ’حیات فریاد‘ میں ہمایوں مرزا اور ان کی بیگم کی خوب تعریفیں کی تھیں۔ اس کی طباعت کے لئے بھی وہ رقم بھیجا کرتے تھے۔ نقی احمد ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’یہ خیال کہ مرزا صاحب شاد کی مالی مدد کرتے تھے، غلط ہے۔ جو روپے ہمایوں مرزا بھیجتے تھے، شاد کو ان کا حساب دینا پڑتا تھا۔ کتاب حیات فریاد کی تکمیل میں جب دیر ہوئی تو ہمایوں مرزا نے اپنے اخراجات کی تفصیل شاد کو لکھ بھیجی۔‘ (1981، 180)
ہمایوں مرزا، بالفاظ نقی احمد ارشاد، آج ان مکاتیب اور ’حیات فریاد‘ کی ہی وجہ سے زندہ ہیں۔ لیکن جب خود کلیات شاد کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو ہمایوں مرزا نے دلچسپی نہیں لی اور شاد کی وفات کے بعد ان کے اخلاف سے طوطا چشمی بھی برتنے لگے۔ جنھیں شاد اتنا عزیز رکھتے تھے اور ایسا مخلص سمجھتے تھے ان کے ساتھ تو اس طرح کے معاملات تھے، لہٰذا یہ بعید نہیں کہ حسب موقع مرزا بھی خیال کے خلاف شاد کو کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہوں گے۔ یہ سب اگلے وقت کے لوگوں کے معاملات تھے جن کا تعلق خاندانی اور علمی رقابتوں سے بھی رہا ہو گا۔
خیال کے پاس کسی جامعہ سے حاصل کی ہوئی کوئی سند نہیں تھی۔ کوئی آٹھویں جماعت پاس شخص محض انفرادی صلاحیتوں اور کسبی علم کی بنیاد پر رجواڑوں تک رسائی تو حاصل کر سکتا تھا، تعلیمی اداروں تک نہیں۔ رہا معاملہ سر راس مسعود اور خیال کی اردو اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کا، اور رامپور کے صیغۂ تعلیم سے منسلک ہونے کا، تو جس طرح سر سید علی امام اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود شاد عظیم آبادی کے لئے کچھ نہیں کر سکے، بعینہ، سر سید راس مسعود بھی خیال سے اپنے خوشگوار تعلقات کے باوجود ممد و معاون نہ ہو سکے۔ اس پس منظر میں جلیل قدوائی کے ذریعہ سر راس مسعود سے خیال کی توقعات کو نشانہ بنانا محل نظر ہے۔ خیال ضرورتمند تھے لیکن یہ ان کی ذاتی ضروریات نہیں تھیں۔ محض اردو اور مسلمانوں کے لئے کچھ کام کرنا چاہتے تھے اور صرف اسی سلسلے میں تعاون کے لئے انھوں نے سر راس مسعود سے توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ یہ ان کی سادہ لوحی تھی۔ حیدرآباد اور خیر پور کے تلخ تجربات کے باوجود انھوں نے زمانے کی نبض اور اصحاب اقتدار سے منسلک حضرات کی مصلحت پسندیوں کو نہیں پہچانا۔ ان مراسلوں کے حوالے سے ہی پروفیسر مختار الدین احمد نے جلیل قدوائی کو 18 مارچ 1991ء کے ایک مراسلے میں یہ لکھا تھا کہ
’انھیں (خیال کو) صدر شعبۂ اردو بنانے کا فیصلہ تو راس مسعود مرحوم نے کبھی نہیں کیا ہو گا۔ یہ ممکن ہے کہ وہ ان کے پیہم اصرار پر شعبۂ اردو یا کسی اور ادارے سے منسلک کرنا چاہتے ہوں لیکن اس کی مشکلات کا اندازہ کر کے انھوں نے یہ خیال ترک کر دیا ہو۔ یہ بھی اسی وقت ممکن ہے جب حسن ظن سے کام لیا جائے۔ قاضی عبد الودود صاحب کی رائے تو شاد و خیال کے بارے میں بہت بری تھی۔‘ (انجم 2008، 132)
قاضی صاحب کی رائے کس کے بارے میں اچھی رہی، کہنا مشکل ہے۔ ’اشتر و سوزن‘ کے حوالے سے نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ قاضی صاحب نے بزرگان شاد کی توقیر نہیں کی۔ (1982، 13) قاضی عبد الودود کی اس رائے کے سلسلے میں عابد رضا بیدار کا بیان ہے کہ
’غالب، شاد اور ابو الکلام آزاد وہ تین موضوع ہیں جن پر بات چھڑ جائے تو پھر ع
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!
باقی رہے شاد اور ابو الکلام، تو ان دونوں نے اپنے بارے میں غلط بیانی اور مغالطہ سے اس قدر کام لیا ہے اور اپنی عظمت کا امیج ابھارنے کی ایسی بیجا کوششیں کی ہیں جس سے ایسی طبیعتوں میں جیسی قاضی صاحب کی ہے، ایک شدید رد عمل ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ان کے لئے الرجی کا سا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔‘ (1976، 301)
شاد اور ان کے اجداد کے ضمن میں قاضی صاحب کے کئی بیانات کو نقی احمد ارشاد غلط ثابت کر چکے ہیں۔ منصور عالم نے بھی قاضی عبد الودود کی تحریروں اور ان سے گفتگو کی بنیاد پر ان کے اور شاد کے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ (شاد عظیم آبادی اور قاضی عبد الودود 1976, 324-29) یہ پسند و ناپسند کا معاملہ علمی کم، ذاتی زیادہ تھا۔ ان تمام بیانات کا ماحصل، مسلم عظیم آبادی کے لفظوں میں بس یہ ہے کہ یہ کمزوریاں طبعی یا وہ اخلاقی کمزوریاں تھیں جو غیر معمولی نہیں بلکہ تقاضائے بشریت تھیں اور اگلے وقتوں کے قانونِ تہذیب و اخلاق کے مطابق۔ (شاد کی کہانی شاد کی زبانی 1958، 268-69) نصیر حسین خیال کے ساتھ بھی معاملہ یہی تھا کہ وہ تعلقات کی بنا پہ حصول مراعات کو اپنا حق سمجھنے لگے تھے۔
دیگر اسفار
خیال ناسازیِ طبیعت کے سبب عموماً پہاڑوں پہ قیام کو ترجیح دیتے تھے۔ دارجلنگ میں انھوں نے بنگلہ بھی خرید لیا تھا۔ لیکن اپنے سیلانی مزاج کی وجہ سے کہیں بھی مستقل طور پہ نہیں رہتے تھے۔ شملہ، دارجلنگ، کلکتہ، کشمیر، علی گڑھ، عظیم آباد، پانی پت وغیرہ کا سفر ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ یورپ کے سفر کے بعد خیال مسلسل علیل رہا کرتے تھے۔ نقی احمد ارشاد کہتے ہیں کہ وہ پیچش اور بواسیر کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ 28 مارچ 1928ء کے مراسلے میں پروفیسر اشہر لکھنوی کو خیال لکھتے ہیں کہ
’ (از کلکتہ) میری حالت میں تبدیلی آج کل قابل اطمینان نہیں۔ آج دس دنوں سے دوا ترک کر دی۔ اور اپنے خدا کے سوا کسی کے زیر علاج نہیں۔ کب تک یہ حالت رہے گی اور اسے برداشت کر سکوں گا، نہیں جانتا۔‘ (خطوط بنام اشہر لکھنوی، 346)
یہ مرض پھر تا عمر رہا۔ اس درمیان طبیعت کچھ بحال ہوئی تو وہ عراق اور کربلا کی سیاحت کے بعد لکھنؤ، علی گڑھ، دہلی اور لاہور کے سفر پہ بھی رہے۔ 1930ء میں ہی ایران بھی تشریف لے گئے جہاں شہنشاہ مملکت کے مہمان بنے۔ 1931ء میں وطن عزیز کو واپسی ہوئی تو کشمیر اور علی گڑھ میں ہی زیادہ قیام رہا۔ تقریباً ایک سال پٹنہ میں بھی رہے۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران ان کی یہ کوشش رہی کہ سر سید راس مسعود سے حیدرآباد اور پٹنہ کے تعلقات کی بنا پر کسی طرح مالی استحکام کی کوئی صورت نکل آئے۔ اس کے لئے انھوں نے اپنی قابلیت اور اپنے ذاتی روابط کے حوالے بھی پیش کیے، لیکن نا مراد رہے۔ 1932ء سے 1934ء تک قومی زبان کے مسئلے سے متعلق اپنی تجاویز کے ساتھ خیال مختلف صوبوں کے سفر پہ رہے۔ اسی درمیان 1933ء میں ان کی کتاب ’مغل اور اردو‘ شائع ہو گئی۔ اس کوشش میں بھی تھے کہ یہ کتاب یونیورسٹیوں، کم از کم، پٹنہ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہو جائے۔
سیر و سیاحت اور جہاں بینی کے شوق سے خیال کے ان مراسم کا علم بھی ہوتا ہے جو عظیم آباد، کلکتہ اور دہلی ہی نہیں، دور دراز کے ممالک میں موجود اصحاب علم اور ارباب حکومت سے بھی تھے۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں سے ایک وسیع حلقے میں اپنی شناخت قائم کر لی تھی اور انھیں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔
مالی حالت
شاد اور خیال کے زمانے تک دولت کی فراوانی ختم ہو چکی تھی۔ خاندانی وقار اور علم کی شہرت باقی تھی۔ شاد کو پدری اور مادری ترکے سے ماہانہ تقریباً پچاس روپے ملتے تھے۔ شاد کی بہ نسبت خیال کی مالی حالت قدرے بہتر تھی۔ لطف اللہ خاں صادق کی وفات کے بعد حسب قانون مغلیہ ان کی جائداد کی ضبطی کے عوض جو رقم ملی اسے لے کر شاکر خاں عظیم باد آئے اور دو چار مواضعات حاصل کیے۔ ان کے گزر جانے کے بعد خیال کی دادی فاطمہ بیگم کو موضع پہلاد پور، پرگنہ غیاث پور ملا جس کا کچھ ٹکڑا خیال کے حصے میں آیا۔ خیال نے یورپ کے سفر کی غرض سے اس جائداد کو فروخت کر دیا تھا۔ چونکہ خیال کے والد میر نوروز حسین ان کے زمانۂ طفلی میں ہی قضا کر گئے تھے، انھیں خاندان سے وراثت کا کوئی حصہ نہیں ملا۔ اس ضمن میں نقی احمد ارشاد کی پیش کردہ درج ذیل تفصیلات نہایت اہم ہیں:
’عیسی خاں رفعت نبیرۂ شاکر خاں کو صرف ایک ہی صاحبزادی فاطمہ بیگم تھیں جو اپنے حسن و جمال و سلیقہ میں یکتا تھیں۔ محسن صاحب کو سو روپیہ کا مالکانہ ملا تھا جو بدر النسا بیگم نے میر تفضل علی کو لکھا تھا۔ سو روپیہ ماہانہ میر عباس والد شاد کو۔ فاطمہ بیگم کو موضع پہلاد پور پرگنہ غیاث پور بہ ترکہ پدری ملا تھا۔ میر نوروز حسین والد خیال نے 1296ھ میں رحلت کی۔ اس وقت خیال چار برس کے تھے۔ سال پیدائش 1292ھ اور ان سے چھوٹی بہن سجادی بیگم سال ولادت 1294ھ۔ فاطمہ بیگم کا سال رحلت چہارم ربیع الثانی 1300ھ۔ سجادی بیگم کا سال رحلت 1324ھ۔ الغرض 1296ھ میں خیال از قانون شریعت دادی کی جائیداد سے محروم ہو گئے۔‘ (کاروان رفتہ 1995، 123)
لیکن خیال نے ’تزک خیال‘ میں لکھا ہے کہ ان کی دادی نے اپنی جائیداد کا وہ حصہ جس سے خیال محجوب و محروم بوجہ انتقال والد ہو گئے تھے، ان کے نام لکھ دیا تھا۔ 1296ھ مطابق 1879ء میں سید نوروز حسین کی وفات ہو گئی تھی۔ پھر فالج کا شکار ہونے کے بعد 1909ء میں سید جعفر حسین کی رحلت کے وقت تک قرض کا بڑا بوجھ بھی تھا۔ جس کی وجہ سے خیال کی والدہ بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتی رہیں۔ سید نوروز حسین کے انتقال کے بعد جائداد کے تنہا وارث سید جعفر حسین ہی تھے۔ جعفر حسین کے صاحبزادے اور خیال کے اخیافی بھائی صادق حسین نہال کے مطابق سید جعفر حسین کی وفات کے بعد بچی ہوئی جائداد کی قیمت صرف 80 ہزار روپے تھی، اور قرض ایک لاکھ روپے کا۔ نالش اور قرقی ضبطی شروع ہوئی تو للو بابو مہاجن کے تعاون سے تھوڑی سی جائیداد بچ سکی جس سے سالانہ تیس روپے ماہانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔ اسی سے خیال کی والدہ سید النسا بیگم عرف جھبا صاحب کسی طرح گزر بسر کرتی رہیں۔ نقی احمد ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’افسوس ہے کہ شاد کے ہمدرد اس وقت پیدا ہوئے ہیں جب شاد کا کل کلام اس عرصے میں شائع ہو گیا اور شاد منزل، شاد کے انتقال کے ۸۴ سال بعد فروخت ہو گئی۔ اتنے طویل عرصے تک یہ ہمدردان شاد کہاں تھے جب پورا حاجی گنج مسلمانوں سے 1947ء لغایت 1962ء تک خالی ہو گیا۔ شاد کا مکان آخری تھا جو فروخت ہوا۔ خیال کا مکان 1954ء میں فروخت ہو گیا۔‘ (1981، و-ہ)
شادی کے بعد خیال کے مالی حالات کچھ سنبھلے لیکن یہ تبدیلی دیرپا نہ تھی۔ خیال کی بیگم کو ترکۂ پدری میں خاصی دولت ملی تھی جس میں بنیا پوکھر اور گارڈن ریچ کی کوٹھیاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے دارجلنگ میں بھی ایک کوٹھی بنوائی تھی جو 1928ء میں فروخت کر دی گئی۔ خیال نے استغنا اور رئیسانہ طرز زندگی کی وجہ سے تمام دولت یوں خرچ کی کہ ان کے وفات کے وقت ڈھائی سو روپے نقد اور تین سوٹ کیس کپڑوں کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔ خود خیال کو پٹنہ میں جو جائیداد ملی تھی اسے انھوں نے یورپ کی سیاحت کے لئے فروخت کر دیا۔ امیر نواب کو حیدر آباد سے پچاس روپیہ ماہانہ تعلیمی وظیفہ ملا کرتا تھا جسے خیال کی رحلت کے بعد بند کر دیا گیا۔ امیر نواب بعد میں پاکستان چلے گئے، اور اب یہاں اس خاندان کا نام لیوا کوئی نہیں۔
آمدنی کی کوئی صورت نہ ہونے اور اپنی فیاضیوں کی وجہ سے عمر کے آخری مرحلوں میں تنگدستی کا شکار ہو گئے تھے۔ حسرت نے ان کی مالی حالت کا ذکر یوں کیا ہے:
’میں حضرت خیال سے پہلے پہل ملا تو وہ بڑے ٹھاٹھ سے زندگی بسر کرتے تھے تین چار نوکر تھے۔ کوٹھی اگرچہ کرایہ کی تھی لیکن اس کا کرایہ بھی ڈھائی تین سو سے کم کیا ہو گا؟ کوئی تیس سال سے ان کی زندگی کا یہی ہنجار تھا لیکن آخر میں ان کی مالی حالت اگلی سی نہیں رہی تھی۔ مجھے اس بات کا بالکل احساس نہ ہوتا لیکن جب میرے لئے سٹیٹ اکسپریس کے بجائے گھٹیا قسم کے سگریٹ آنے لگے اور چار نوکروں کے بجائے صرف دو رہ گئے تو مجھے خیال ہوا کہ ان کی حالت دگرگوں ہے۔ تھوڑے دنوں کے بعد انھوں نے کوٹھی چھوڑ دی اور مٹیا برج اٹھ گئے۔‘ (56)
ان کے دولت کدے پر صبح و شام اچھی خاصی محفل جمی رہتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی وہ رونقیں ماند پڑتی گئیں۔ اسی کسمپرسی میں وفات بھی ہوئی۔ نقی احمد ارشاد کی پیش کردہ تفصیلیں ملاحظہ فرمائیے:
’نصیر حسین خیال کو بیوی کی طرف سے بہت دولت ملی۔ مگر خیالِ نوابی نے ان کو تباہ و برباد کیا۔ سر علی امام سے منسلک ہو کے حیدرآباد 1919ء میں گئے۔ وہاں سے بھی بے نیل و مرام سر علی امام کے ساتھ چند ماہ بعد استعفا دے کر واپس ہونا پڑا۔ خیر پور سندھ، میر خیر پور کے ملازم ہوئے۔ مشکل سے ایک سال تک ٹک سکے۔ 1930ء میں واپس آئے اور 11 دسمبر 1934ء کو چھتاری نواب احمد سعید خاں مرحوم کے در دولت پر انتقال ہوا۔‘ (1995، 123)
شخصیت اور وضعداری
نصیر حسین خیال وجیہ و شکیل تھے۔ رنگ شفاف گندمی اور قدمیانہ تھا۔ مونچھیں گھنی اور بڑی تھیں جن کے نکیلے کونوں کو اوپر اٹھائے رکھتے تھے۔ شخصیت با رعب تھی اور ان کی وضعداری کی وجہ سے پر کشش بھی۔ شگفتہ مزاج تھے اور پہلی ملاقات میں ہی کسی کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ کسی بھی موضوع پر بے تکلف اور بیباک گفتگو کرتے تھے۔ اس دوران حس مزاح اور حاضر جوابی بھی بلا کی ہوتی تھی۔ نقی احمد ارشاد کا بیان ہے کہ خیال اور ان کے بڑے بھائی عابد حسین کمال نہایت حسین و جمیل اور باغ و بہار تھے۔ گفتگو کے دوران صحت زبان کا خاص خیال رکھتے اور مخاطب سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو فوراً ہی اس کی اصلاح بھی کرتے تھے۔ مذہبی اثرات نہیں تھے لیکن مرثیہ خوانی کی محفلوں میں شوق سے شریک ہوا کرتے تھے۔ شیروانی یا انگریزی لباس زیب تن کرتے تھے۔ دونوں ہی صورتوں میں ایک خاص قسم کی ٹوپی سر پہ ہوتی تھی جس کے سامنے کے حصہ میں دو بوتام لگے رہتے تھے۔ اچھے اور قیمتی لباس کے شوقین تھے اور بود و باشِ طرز مغربی کے دلدادہ تھے۔ چراغ حسن حسرت نے ان کا یہ نقشہ پیش کیا ہے:
’خیال کی رنگت گوری چٹی تھی۔ قد مولوی غلام محی الدین قصوری سے کسی قدر نکلتا ہوا۔ دبلا پتلا جسم۔ بڑی بڑی آنکھیں۔ ستواں ناک۔ کھلی پیشانی، داڑھی منڈی ہوئی، مونچھیں نکیلی زیادہ تر انگریزی لباس پہنتے تھے۔ کبھی کبھی شیروانی اور گھٹنا بھی پہن لیتے تھے۔ میں نے انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو سیاہ سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ جو ان کی گوری رنگت پر عجب بہار دے رہا تھا۔ اس وقت ان کی عمر پچپن سال کی تھی لیکن طبیعت بے اختیار ان کی طرف کھینچتی تھی۔ جوانی میں خدا جانے کیا قیامت ہوں گے۔‘ (32)
بالفاظ بہزاد فاطمی:
’خیال مرحوم خوش رو، جامہ زیب اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ طرز گفتگو میں بلا کی کشش اور جاذبیت تھی۔ جی چاہتا تھا کہ ان کی بذلہ سنجی اور سنجیدہ لطیفہ گوئی گھنٹوں سنتے رہیں۔ حفظ مراتب اور عزت نفس کا بھی پورا لحاظ تھا اور دوسروں سے بھی اسی کی امید رکھتے تھے۔ بود و باش، وضع قطع مغربی لیکن طبیعت مشرقی سانچے میں ڈھلی ہوئی۔‘ (37)
گھر پہ سادہ لباس، عموماً سفید بنیان اور سفید تہ بند استعمال کرتے تھے۔ خیال ان لوگوں میں سے تھے جو وضع داری کو لازمۂ شرافت سمجھتے ہیں، جن کے ساتھ رکھ رکھاؤ اور ادب قاعدے سب ختم ہو گئے۔ خالص مشرقی خیالات کے حامی ہونے کے باوجود بعض معاملوں میں وہ مغرب کے پیرو تھے۔ جب کبھی ہندوستانیوں کے لباس کا ذکر آیا انھوں نے یہی کہا کہ
’بھئی ہندو مسلمانوں میں بڑا اختلاف معاشرت کا ہے۔ یہ تو ہونے سے رہا کہ ہندو مسلمانوں کی وضع اختیار کر لیں یا مسلمان ہندوؤں کا سا لباس پہننا شروع کر دیں۔ باہمی اتحاد کا طریقہ یہی ہے کہ دونوں اپنا اپنا طریق معاشرت چھوڑ کے یورپ کی پیروی شروع کر دیں اور ایک نہ ایک دن یہ ہو کے رہے گا۔‘ (حسرت 1939، 54)
خیال کی جوانی کا عالم خود ان کے ہی ایک بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ کلکتہ کے خان بہادر محمد یوسف کے ذکر کے دوران انھوں نے ’تزک خیال‘ میں لکھا ہے کہ خان بہادر حضرت یعقوبؑ کی طرح جہاں اپنے بچوں پر فدا تھے، وہیں انھیں (خیال کو) عزیز ہی نہیں رکھتے تھے، بلکہ اپنا یوسف سمجھتے تھے۔
خیال خواتین کے پردے کے حامی نہیں تھے۔ پردے کی سخت مخالفت کرتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’بدصورت عورتوں کو پردہ میں بٹھا دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن حسین عورتوں کو کیوں پردہ میں رکھا جائے؟‘‘وہ مشرقیت اور مغربیت کے امتزاج کا عجیب و غریب نمونہ تھے۔ بظاہر ان کے خیالات بالکل مغربیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے معلوم ہوتے تھے لیکن بہت سی باتوں میں خالص مشرقی تھے۔ حسرت نے ان کی شخصیت کے اس پہلو کی بہت ہی موثر تصویر کشی کی ہے۔
’نشست و برخاست کے طریقے میل جول کے ادب آداب میں بھی ان پر مشرقیت کا اثر غالب نظر آتا تھا۔ خاص طور پر جب کبھی کسی پرانی صحبت یا اگلے وقتوں کے کسی بزرگ کا ذکر کرتے تھے تو ان کی مشرقیت بالکل بے نقاب ہو جاتی تھی۔ اس وقت وہ پرانے زمانے کے کوئی داستاں گویا الف لیلہ کا کوئی کردار معلوم ہوتے تھے۔ بعض ایسے موقعوں پر میں نے انہیں آبدیدہ بھی دیکھا ہے۔‘ (مردم دیدہ، 54)
خیال کی محفلوں میں عموماً ادبی موضوعات پہ ہی بحثیں ہوا کرتی تھیں لیکن کبھی کبھی سیاسی اور مذہبی بحثیں بھی چھڑ جاتی تھیں۔ حسرت نے لکھا ہے کہ جس طرح مولانا ظفر علی خاں گفتگو کرتے وقت ادبیات و مذہب سے گریز کر کے سیاسیات پر آ رہتے ہیں اسی طرح خیال مرحوم کو یہ سلیقہ حاصل تھا کہ بحث سیاسی ہو یا مذہبی وہ بڑی خوبی سے اس کا سرا ادبیات سے ملا دیتے تھے اور پھر اپنا یا کسی دوسرے بزرگ کا کوئی مضمون، میر انیس کا کوئی مرثیہ، شاد کی کوئی غزل یا میر حسن کی مثنوی کا کوئی ٹکڑا پڑھ کر سنانا شروع کر دیتے تھے اور اس دھن میں انہیں بالکل اس بات کا خیال نہیں رہتا تھا کہ محفل میں جو لوگ موجود ہیں ان میں کتنے ایسے ہیں جنھیں اس موضوع سے دلچسپی ہے۔
مکتوبات خیال سے شہادتیں ملتی ہیں کہ وہ حق گو اور بیباک تھے۔ کسی کی غلطی یا کوتاہی کی نشاندہی سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ وضعدار بھی تھے اور خود دار بھی۔ ریاست حیدر آباد ہو یا خیرپور کی وزارت، کہیں بھی انھوں نے اپنے اصول سے سمجھوتا کرنا گوارا نہیں کیا۔ ان کے مزاج میں قدرے بے نیازی بھی تھی۔ کسی بھی معاملے میں اپنی بے لاگ رائے پیش کر دیتے تھے یہ سوچے سمجھے بغیر کے اس سے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اپنے عہد کے بعض دیگر نامور حضرات کی مانند کسی کے بھی سامنے سرنگوں ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ اگر کسی سے کچھ توقعات بھی وابستہ تھیں تو ان کے اظہار مدعا میں شان بے نیازی رہتی تھی اور یہ احساس بھی کہ تعاون ہوا تو تمھارا بھلا، نہ ہوا تو تمھارا ہی نقصان۔ قابل غور ہے کہ شاد عظیم آبادی سے بھی انھوں نے کبھی مراعات کی جستجو نہیں کی۔ جن اصحاب اقتدار سے شاد کے مراسم تھے ان کے سامنے بھی دست سوال دراز نہیں کیا۔
علالت و رحلت
خیال 1928ء سے بواسیر اور پیچش کے مرض میں مبتلا تھے۔ جہاں بھی جاتے عام طور پہ ان کا ہندو خانساماں ساتھ رہتا تھا۔ 1930ء سے ان کے مرض میں شدت آتی گئی یہاں تک کہ کرسیوں پہ ایک خاص انگشتری نما گدّا رکھ کر بیٹھا کرتے تھے۔ احباب کو اپنے خطوں میں جن دواؤں کو بھیجنے کی تاکید کرتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا انحصار حکمت اور دیسی طریقۂ علاج پر بھی تھا۔ ۶جنوری 1934ء کو مجتبیٰ حسین کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ عمر کا پیمانہ اب چھلک رہا ہے، ’میں نے صحیح کہا، دو تین سال سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ انجم مانپوری کو لکھے 28 اپریل اور 7 مئی 1934ء خطوں میں دواؤں کا ذکر موجود ہے اور یہ کیفیت بھی کہ ’’آپ کے رخصت ہونے کے بعد سے گھبرا رہا ہوں۔ ‘‘ انھیں ہی 3 اگست 1934ء کے خط میں لکھتے ہیں کہ ’’میں آج کل اچھا نہیں ہوں۔ ‘‘ انھوں نے اپنے کئی خطوط میں اپنی علالت کے ذکر کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ 14 جون 1934ء کے مکتوب بنام پروفیسر حمید عظیم آبادی میں لکھتے ہیں ’’مگر آپ کے اس کام کا انجام دیکھ کر مرنا چاہتا ہوں۔ جلدی کیجیے۔ آپ خطوط کے لکھنے میں دیر نہ کیا کیجیے۔ آپ کا حال سننے کو ترستا رہتا ہوں۔ پھر یہ کہ چراغ کا تیل اور اس کی بتی دونوں ختم پر ہے۔ ‘‘ 1933-34ء کے دوران لکھے کئی خطوط سے واقفیت ہوتی ہے کہ انھیں موت کی آہٹ کا احساس ہو چکا تھا۔ عارضۂ قلب بھی تھا اور مضطرب رہا کرتے تھے۔ 9 جنوری 1934ء کو سید مجتبیٰ حسین کو لکھتے ہیں کہ ان کی عمر کا پیمانہ چھلک رہا ہے اور دو تین سال سے زیادہ نہیں جی سکتے۔ حمید عظیم آبادی کو 14 جون 1934ء اور پھر 24 جولائی 1934ء کے خط میں کہتے ہیں کہ ایک برس سے مطلق جان نہیں ہے۔ چلنا، پھرنا، ہنسنا، بولنا مجبوراً ہے۔ ’’خود کو کسی ہلکے کام میں لگائے رکھتا ہوں، یعنی وقت گزارتا ہوں، اور بس۔ ‘‘
خیال 28 اکتوبر 1934ء کو پٹنہ کے سفر پہ گئے تھے۔ شائق احمد عثمانی کے نام اسی تاریخ کے ایک خط میں انھوں نے ذکر کیا تھا کہ وہ پٹنہ سے الہ آباد، علی گڑھ اور پھر دلی کا سفر کریں گے۔ محمد شوکت عثمانی نے لکھا ہے کہ دلی جانے کے بعد سخت علیل ہو گئے تھے اور اسی حالت میں علی گڑھ لائے گئے تھے۔ وہاں سے اسی برس انھوں نے پھر علی گڑھ کا رخ کیا اور ۹دسمبر کو چھتاری کے نواب سر احمد سعید خاں، وزیر اعظم، صوبۂ متحدہ کے مہمان ہوئے۔ وہیں حرکت قلب بند ہو جانے سے 11 دسمبر کو آپ کا انتقال ہو گیا۔ اس دوران خیال بنارس میں بھی مقیم تھے۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کے نام مولوی مہیش پرشاد کے ایک مکتوب مورخہ ۲دسمبر 1934ء سے علم ہوتا ہے کہ خیال نومبر 1934ء کے وسط سے بنارس میں ہی تھے۔
’آپ کا مرسلہ مع گرامی نامہ ملا، شکریہ۔ آج کل یہاں بنارس میں عرصہ دو ہفتہ سے نواب نصیر حسین خیال صاحب مقیم ہیں۔ اکثر ان کی خدمت با برکت میں پہنچنا پڑا، اس لئے آپ کی خدمت میں شکایتی خط نہ بھیج سکا یہاں تک کہ آپ نے خود ہی بھیج دیا۔ خیر، نواب صاحب کے یہاں اکثر آپ کا ذکر رہا۔ وہ آپ کے بڑے مداح ہیں۔‘ (پرشاد 1977، 90)
نقی احمد ارشاد کا بیان ہے کہ چھتاری کے نواب سر احمد سعید خاں نے ان کے انتقال کی خبر بذریعہ تار سر سید سلطان احمد کو بھیجی تھی جسے انھوں نے کسی سے شاد منزل میں پہنچوا دیا۔ چھتاری میں غسل میت کے بعد جسد خاکی علی گڑھ لایا گیا جہاں نماز جنازہ ہوئی۔ چھتاری کے نواب کے پرائیوٹ سکریٹری اور دو ملازموں کے ہمراہ اکسپرس ٹرین میں ایک مال گاڑی کے ڈبہ میں تابوت بحفاظت پٹنہ سٹی اسٹیشن تک بھیجوایا گیا۔ 13 دسمبر 1934ء کی صبح کے آٹھ بجے ان کی لاش پہنچی۔ پٹنہ میں دوبارہ غسل میت ہوا اور والدہ نے اپنا کفن بیٹے کو دیا۔ (1981، 7) خاندانی قبرستان میں اسی روز ماموں شاد اور خلف شاد سید حسین کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔ بہزاد فاطمی نے لکھا ہے کہ جب خیال کا جسد خاکی پٹنہ پہنچا تو ان کی والدہ محترمہ با حیات تھیں خیال کی والدہ سید النسا بیگم عرف جھبا صاحب کا انتقال اگست 1943ء میں ہوا۔ بیٹے کے انتقال کی خبر ملی تو:
’ خاموش رہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میر فصیح مرحوم کا یہ شعر پڑھا:
ہوئے جو اکبر جوان رعنا
پھر اپنے جینے کی کیا ہوس ہو
کربلائے معلیٰ کا طاہر کفن جو اپنے لئے رکھ چھوڑا تھا، حسین اور جامہ زیب بیٹے کے آخری پیرہن کے لئے حوالے کیا اور اپنے با کمال بھائی کے پہلو میں رکھنے کی اجازت دے دی۔ دونوں ماموں بھانجے شاد منزل مرحومہ کے اسی احاطے میں دفن ہیں۔‘ (فاطمی، 36)
نقی احمد ارشاد راقم ہیں کہ:
’حاجی گنج کے لوگوں میں سے (جو اس وقت آباد تھا، غرناطہ نہ بنا تھا) سید مجتبی حسین، ان کے بھائی سید مصطفی حسین (ڈاکٹر نواب دربھنگہ کے والد) ، سید قدرت حسین خلف میر عنایت حسین امداد، خود امداد، سید تقی میر خلف سید علی میر (بردار زنِ شاد) ، اور ہم دونوں بھائی، سلطان احمد اور نقی احمد اسٹیشن گئے اور مزدور رکھ کر لاش کو مع تابوت اٹھوا لائے۔‘ (1981، 6)
خیال کے تابوت کے ساتھ ان کا جو سامان پٹنہ پہنچا اس میں چمڑے کے تین سوٹ کیس تھے، ایک بستر بند اور ایک ناشتہ دان۔
’سوٹ کیس کھولنے پر صرف 250روپے پائے گئے اور پہننے کے جاڑے اور گرمی کے لباس۔ ان کے علاوہ ’داستان عجم‘ کا مسودہ جو خود خیال مرحوم کے حروف میں تھا۔ مرحوم کی بس یہی کائنات تھی۔ کلکتہ اور دارجلنگ کے مکانات بہت پہلے بِک چکے تھے اور 1927ء سے مختلف ہوٹلوں میں رہتے تھے۔ کلکتہ سے جب ان کے صاحبزادے امیر نواب تشریف لائے تو چیزیں ان کے حوالہ کر دی گئیں‘ (1981، 7-8)
٭٭٭