نصیر حسین خیال 1916ء تک اپنے تبحر علمی اور انشا پردازی کی وجہ سے پورے ملک میں صوبۂ بہار کے آزاد (محمد حسین) کی حیثیت سے معروف ہو گئے تھے۔ حالانکہ ان کی تمام تحریروں کے مد نظر آزاد سے ان کا موازنہ ان کی انفرادی صلاحیتوں کو ماند کرنے کے مترادف تھا۔ خیال نے مذہبی اور ثقافتی نوعیت کے مضامین کے علاوہ تاریخی، تنقیدی، ظریفانہ اور خالص ادبی مضامین بھی لکھے جو ’اصلاح‘ (کھجوہ)، ’حسن‘ (حیدرآباد)، ’اودھ پنچ‘، ’نقیب‘، ’سہیل‘ (علی گڑھ)، ’دکن ریویو‘ (حیدرآباد)، ’ہند‘ (کلکتہ)، ’ندیم‘ (گیا)، ’ادیب‘ (الہ آباد)، ’ادب‘ (لکھنؤ)، ’جادو‘ (ڈھاکہ)، ’آفتاب‘ (کلکتہ۔ مدیر چراغ حسن حسرت)، ’جامعہ‘ (علی گڑھ)، ’اولڈ بوائے‘ (علی گڑھ)، ’دکن ریویو‘، ’لسان الملک‘، ’نگار‘، ’خیابان‘ (لکھنؤ)، وغیرہ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے تھے۔ نقی احمد ارشاد اور شائق عثمانی نے ان میں سے چند رسائل کا ذکر کیا ہے لیکن ان میں تفصیلات درج نہیں ہیں۔ ان میں سے جن مضامین کا ذکر عموماً ملتا ہے، ان کے عنوانات ہیں: ’’مرثیہ اور مرزا دبیر‘‘، ’’تزک خیال‘‘، ’’حالات انیس‘‘، ’’فردوسی اور انیس‘‘، ’’مرثیہ اور مرزا دبیر مرحوم‘‘، ’’ہماری زبان‘‘، ’’ہماری شاعری‘‘۔
ان کی چند تحریریں فرضی ناموں سے بھی شائع ہوئیں۔ ان میں سے ایک نام ارژنگ ہے۔ حیدر آباد سے شائع ہونے والے رسالہ ’حسن‘ میں بھی کسی فرضی نام سے خیال کے انشائیوں کی اشاعت کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے مدیر حسن بن عبد اللہ (المخاطب عماد نواز جنگ) تھے۔ مجھے 1891ء سے 1894ء تک کے جو شمارے دستیاب ہو سکے ان کے قلمکاروں میں ایسا کوئی نام نہیں ملا جسے خیال کا فرضی نام تصور کیا جا سکے۔ ’آفتاب‘ اور ’ندیم‘ میں بھی فرضی نام سے مضامین کی اشاعت ہوئی۔ ’آفتاب‘ میں شائع ’’ہمارے پانچ ملک الشعرا‘‘ کو ان کی انشا کا بہترین نمونہ کہا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ’آفتاب‘ میں شامل اشاعت کسی مضمون کا تذکرہ اگلوں کے یہاں نہیں ملتا۔ یہ وہ تحریریں ہیں جن میں خیال کی انشا کے مخصوص رنگ موجود ہیں۔ ایک اہم مضمون ’’نا مہذب خیرات‘‘ بھی ہے جو 1903ء میں ’اصلاح‘ میں شائع ہوا تھا۔ محفوظ الحق نے لکھا ہے کہ یہ پہلا مضمون تھا جسے خیال نے احباب کے اصرار پہ اپنے اصل نام کے ساتھ شائع کروایا تھا۔ ’اصلاح‘ میں شائع ہونے والے مضامین کی نوعیت اخلاقی، اصلاحی اور مذہبی تھی۔ جبکہ اس سے قبل خود ان کے رسالہ ’ادیب‘ میں بھی ان کی تحریریں شامل تھیں جو انگریزی تصانیف سے ماخوذ یا ان کا ترجمہ ہیں۔ اس لحاظ سے خیال کی نثر نگاری کی ابتدا ’ادیب‘ میں شائع تحریروں سے ہی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ ’حسن‘، ’اصلاح‘ سے ہوتے ہوئے ’العصر‘، ’خیابان‘، ’نیرنگ خیال‘ اور ’آفتاب‘ وغیرہ سے گزر کر ’نگار‘ پہ ختم ہوتا ہے۔ اس بنیاد پہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ خیال کی نثر نگاری کا مطالعہ محض ’’مغل اور اردو‘‘ کی روشنی میں کرنا اور صرف اسی کی بنیاد پر کوئی فیصلہ صادر کرنا سہل پسندی اور اگلے وقتوں کی ادبی بد دیانتی کا مظہر رہا ہے۔
’اصلاح‘ میں شائع خیال کا اولین مضمون ’’نا مہذب خیرات‘‘ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ کم عمری میں ہی اصلاح معاشرہ ہی نہیں مذہبی اصلاحات پر بھی کمر بستہ ہو گئے تھے۔ خیال کے مضامین میں ’’مسئلۂ امامت پر ایک معقولی نظر‘‘ ہو یا ’’سیاحت نامۂ ابراہیم بیگ‘‘ اور ’’دی مسلم ریفارم‘‘، سب زبان و بیان اور موضوعات کے اعتبار سے بہت ہی سنجیدہ اور عالمانہ ہیں۔ ان میں خیال معاشرے کے نباض ہونے کے ساتھ ساتھ مصلح کے طور پہ بھی نظر آتے ہیں۔ انھوں نے جن موضوعات پہ قلم اٹھایا وہ اہم تو تھے ہی لیکن ان کے اسلوب نگارش، جس میں کسی قسم کی احتیاط انھیں روا نہ تھی، کی وجہ سے ابتدا سے ہی لوگ ان سے بد ظن ہونے لگے۔ ان کے مضامین کے خلاف سخت رد عمل بھی شائع کیے گئے تو ان کی حمایت میں بھی مضامین لکھے گئے۔ ان مضامین میں اسلوب اور الفاظ کی نشست و برخاست سے پر کشش خطیبانہ آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’چھوٹے چھوٹے امروں سے ہم بڑے بڑے کلیوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ دانایان فرنگ کی نئی اور اکمل منطق ہے جس کے سہارے وہ زمین کی پر آشوب گھاٹیوں کو طے کر کے آسمان کے ستارے ہو گئے۔ یہی طریقہ مستحسن ہے۔ اور جب ایک ضمنی مرض دریافت ہو گیا تو دوسرے ضمنی امراض کی پہچان بھی آسان ہو گئی۔ اس لئے دوا کے اجزا کی تشخیص بھی زیادہ مشکل نہ رہی، اور اسی قاعدہ پر چھوٹے چھوٹے مرض کی تشخیص اور ان کے علاج کے بعد اس حقیقی مرض کا پتا بھی چل سکتا اور اس کا دفیعہ آسان ہو سکتا ہے جس کی ہمیں فکر ہے اور جس کا خیال دامن گیر ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے مرض جن کے دریافت کی ہم کو آ پڑی ہے اتنے ہیں کہ اس فضائے آسمانی کے ستاروں اور اس زمین کے سنگ ریزوں پر بھی سبقت لے گئے ہیں۔ لیکن اس فراوانی تعداد سے ہم ہمت نہیں ہارتے بلکہ یہ افراط صاحب فہم کو اور زیادہ کوشش پر مستعد و مشتعل کرتا ہے۔ اور وہ اپنا کام کمال احتیاط، بڑی دیکھ بھال اور دل کی مضبوطی کے ساتھ کرتا ہے۔‘ (نا مہذب خیرات 1319ھ مطابق 1901ء، 184)
’میں ایک زمانہ سے اسی خیال میں تھا کہ اپنی قوم کے آگے ان کی بدکاریوں، بے فکریوں اور نامآل اندیشیوں کا مرثیہ پڑھوں جس کے باعث ساری دنیا میں ان کا ماتم ہو رہا ہے۔ مگر منتظر تھا کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ اٹھ کھڑا ہو۔ بے سرا بھی ہو پر الاپے تو۔ اور میری قوم اس جاں گداز نوحہ و شیون کو سن تو لے۔ لیکن افسوس کوئی شخص ایسا نظر نہ آیا۔ جو واقف تھے ان میں سے ایک بھی ہمارے تنزل کا اصل سبب بتا دینے اور آگاہ کر دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ یوں تو بہت سے اٹھے اور تھک کر بیٹھ گئے اور آج تیس برس سے کوئی دن، کوئی رات ایسی نہیں گزری کہ کسی نہ کسی کی دردناک صدا کانوں تک آ نہ جاتی ہو۔ مگر میرے خیال میں پچھم سے ہو یا پورب سے، دکھن سے ہو یا اتر سے، جو ایسی صدائیں آئیں وہ ناکافی تھیں اور اصل سبب تنزل قوم سے کوسوں دور!‘ (نا مہذب خیرات، 195)
’اگر ان قویٰ کو رعیت فرض کرو تو یہ دل ان کا بادشاہ ہے۔ بلکہ ان قویٰ اور دل کے باہمی تعلقات رعایا و بادشاہ کے تعلقات سے بھی مستحکم و وسیع تر ہیں۔ کیونکہ ان قوتوں کے اپنے اپنے فرائض منصبی میں سستی کرنے کے وقت یہ ان کا زور آور محرک، ان بھٹکنے اور بے راہ روی کی حالت میں ان کا سچا ہادی و راہنما، ان کے تحیر کے ہنگام میں ان کا شفیق، منبۂ و معلم اور ان کے باہمی تنازع اور متضاد فیصلوں کی صورت میں ان کا با انصاف قاضی و حکم ہے۔ بلکہ ان دونوں کا باہمی علاقہ اس سے اور بھی زیادہ گہرا ہے۔ اس لئے کہ اگر ڈوب کر دیکھا جائے تو یہ دل وہ سرچشمہ ہے جس سے مختلف قویٰ اور حواس کی نہریں نکل کے پیچدار طریقوں سے بہتی اور باہر سے قسم قسم کے ادراکات و اثرات کو اپنے میں لیے ہوئے پھر اسی سرچشمہ میں گر جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ وہی ان کا مبدا اور وہی ان کا مرجع ہے۔‘ (مسئلۂ امامت پر ایک معقولی نظر 1320ھ مطابق 1902ء، 162)
ان مضامین میں انھوں نے بعض مروجہ مذہبی عقائد و اطوار کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس کا رد عمل بھی شدید ہوا۔ خیال کی ہی ایک تحریر سے علم ہوتا ہے کہ انھیں مولویوں نے کافر بھی کہہ دیا۔ لیکن اپنے مزاج کی رعونت اور بے پروائی کی وجہ سے ان باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ’’نا مہذب خیرات‘‘ کی اشاعت کے بعد ’اصلاح‘ کے تیسرے شمارے میں مولانا سید آقا حسن کا مضمون ’درد جگر‘ اور اس کے بعد سید دلاور حسین خاں کا مضمون ’’نا مہذب خیرات پر ریویو‘‘ اور مولوی محمد خلیل کا مضمون ’’درد جگر اور نا مہذب خیرات پر سرسری نظر‘‘ شائع ہوا تھا جن میں خیال کو طرح طرح سے گرفت میں لینے کی کوششیں کی گئیں۔ سید آقا حسن نے اپنے مضمون میں اس کے تئیں رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:
’ہمارے ہم صفیر و ہم خیال جناب نواب نصیر حسین خان خیال صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’نا مہذب خیرات‘ نظر سے گزرا۔ ایک تو دل زخم رسیدہ ہو ہی رہا تھا، ہزاروں سوراخ، لاکھوں ناسور پڑے ہی تھے، اس چٹپٹے مضمون نے اور نمک مرچ کا کام کیا مگر اسی کے ساتھ اصلاح کی کچھ اصلاح ہوئی، اور بلبلانا اور تلملانا کچھ کم ہو گیا ہے۔‘ (درد جگر 1319 ھ مطابق 1902ء، 243)
’اصلاح‘ کے ایک قلمکار مولوی محمد خلیل نے مضمون ’’درد جگر اور نا مہذب خیرات پر سرسری نظر‘‘ میں خیال کے مضمون اور اس پہ سید آقا حسن کی تحریر کو موضوع بناتے ہوئے لکھا تھا کہ:
’میری نظر سے مضمون ’نا مہذب خیرات‘ مطبوعہ نمبر ۸ اور ’درد جگر‘ مطبوعہ نمبر 10 و ’مکتوب سلاست اسلوب‘ مطبوعہ نمبر ۱۱ گزرے۔ میں اگرچہ ایک نہایت مردہ دل شخص ہوں اور منجملہ انہیں افراد قوم کے ہوں جو مرض مفلسی میں مبتلا ہوں اور فرصت اس کی نہیں کہ کسی کار خیر میں کسی نہج سے شرکت کا افتخار حاصل کروں تاہم ان مباحثوں نے مجھ میں روح تازہ پھونک دی کہ چند سطریں لکھنے کی توفیق ہوئی۔ چونکہ میں علوم دین سے غافل ہوں اس لئے اس تحریر میں اگر کوئی غلطی واقع ہو تو امیدوار ہدایت کا ہوں۔ میرے ذہن ناقص میں میرے دوست سید نصیر حسین خان صاحب خیال نے کچھ زیادتی کی ہے اور مولانا صاحب نے بھی اصل مطلب سمجھنے میں کچھ غلطی فرمائی ہے۔‘ (خلیل 1320ھ مطابق 1902ء، 28)
وہیں سید دلاور حسین نے خیال کے مضمون کی حمایت میں سید آقا حسن کے بیانات کی گرفت کی تھی تو خیال سے بھی یہ امید رکھتے تھے کہ وہ اپنے مضامین میں علمائے کرام کی شان میں تلخ کلامی سے پرہیز کریں:
’مضمون ’درد جگر‘ میں زیادہ شکایت اس بات کی ہے کہ امرا کے دلوں سے مولویوں کی وقعت بہت کم ہو گئی ہے۔ مولانا کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیوں ایسا ہوا اور کیا صورت اس کے دفیعہ کی ہے۔ ہر زمانہ میں ہادیوں کا کام رہا ہے کہ مہدی کی دست گیری کریں اور ان کو راہ راست پر لائیں۔ یہ ان کا فرض ہے، اور اگر علم رکھ کر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہمارے حقوق کے وہ ذمہ دار ہیں۔ ہم وسوسۂ شیطانی سے اگر اپنے حقوق نہیں سمجھتے اور گروہ علما سے اپنے حقوق طلب نہیں کرتے تو اس سے ان کا فرض کسی طرح کم نہیں ہوتا۔ امرا اگر خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اس قدر غافل ہیں تو وہ اس کی سزا پائیں گے۔ مگر ان نائب رسولؐ سے بھی تو کچھ پرسش ہو گی۔ ہم لوگوں کو رونا تو اسی کا ہے کہ ہمارے علما جو بمنزلہ انبیائے بنی اسرائیل کے ہیں، اور ہر فرقہ کے علما بدرجہا افضل ہیں، وہ بھی ہماری ہدایت سے غافل ہیں اور اپنا الگ فرقہ بنا رکھا ہے۔ آخر میں اپنے دوست سید نصیر حسین خان صاحب خیال سے باتفاق جناب ایڈیٹر صاحب اصلاح پھر عرض کروں گا کہ مخاطبت میں علمائے کرام کی شان میں کوئی کلمہ نا مناسب استعمال نہ کرنا چاہیے۔‘ (نا مہذب خیرات پر ریویو 1320ھ مطابق 1902ء)
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ خیال مولویوں کی جھنجھلاہٹ اور ان کے عتاب کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور جو بات انھیں قوم کی اصلاح کے لئے مناسب لگتی تھی اسے برمحل کہہ دیا کرتے تھے۔ اسی مضمون کے رد عمل میں سید دلاور حسین کا تلخ مضمون بھی اصلاح میں شائع کیا گیا تھا۔ ’’نا مہذب خیرات‘‘ کے رد عمل اور خیال کے تصورات کی محتاط حمایت میں سید آقا حسن کے لکھے طویل مضمون اور سید دلاور حسین کے مضمون ’’نا مہذب خیرات پر ریویو‘‘ کی روشنی میں خیال نے رسالہ کے مدیر کو لکھا تھا کہ:
’چڑچڑا، نا سمجھ، بیمار دوا پیتے وقت منہ ضرور ہی بنا لیتا ہے اور بعض اوقات تو الٹی دوا کی شیشی ہی منہ پر کھینچ مارتا اور جھلا کر کہہ اٹھتا ہے کہ ’صاحب! اب کے دوا دی تو جان کی خیر نہ جانو‘۔ لیکن کیا اس سے دردمند بے مزا ہو کر اپنی چارہ گری سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؟ حاشا و کلا! وہ اسی میں پھولے نہیں سماتے! بیمار کی زبان سے ایسے دو چار لفظ لغزش آمیز ہی سہی، سن کر ہشاش و بشاش ہوتے اور یقین کر لیتے ہیں کہ مرض درماں پذیر ہے اور جی توڑ کر چارہ گری پر جھک جاتے ہیں۔ میرا بھی یہ کام نہیں کہ نا سمجھی سے جو نا ملائم لفظ ملیں، میرے حق میں کہے جائیں، ان سے ناراض ہو جاؤں اور چپکا بیٹھ کر ڈوبنے والوں کا تماشہ دیکھوں۔ بلکہ میرا کام ہے سمجھانا، اس پر صلواتیں سنیں اور پھر سادہ لوحوں کو سمجھانا بجھانا، اور ان کو ان کے ادبار و ذلت قومی سے خبردار کرتے رہنا اور ڈوبنے والوں کو جان دے کر نکالنا۔ ’درد جگر‘ میں بھی) جو میرے مضمون ’نا مہذب خیرات‘ کا گویا رد ہے) قریب قریب ویسے ہی لفظ ہیں جیسے کوئی درد کا مارا بیچینی میں اپنا اظہار غم و اندوہ کر رہا ہو۔ اور دوا کی شیشی پر نظر جاتے منہ بنا کر اپنا غصہ نکال رہا اور چارہ گروں اور بہی خواہوں کو دُدکار رہا ہو۔ مگر کیا اس سے میرا دل چھوٹ سکتا ہے اور کیا کافر بننے اور لا مذہب خطاب پا جانے سے میرا دل سرد و سیر ہو سکتا ہے اور چارہ گری و بہی خواہی سے میں ہاتھ اٹھا لے سکتا ہوں، حاشا و کلا، بلکہ
سخنہاے دگر را ہم شنیدن آرزو دارم
’مضمون درد جگر‘ میں نے دل لگا کر اور بغور و تامل پڑھا اور ترش آمیز لفظوں کو اپنا طرۂ دستار جانا، ’بدم گفتنی و خورسندم جزاک اللہ نکو گفتنی! جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا‘۔ لیکن مجھے جہاں ایسے مضمون سے خوشی ہوئی وہاں صدمہ و افسوس بھی ہوا اور وہ فقط اس لئے کہ سادہ لوحی اور نا سمجھی سے ہمارے مضمون کا مطلب ہی الٹا سمجھا گیا اور ہمارے مقدس ’مولانا‘ کے درد جگر کو اتنی ترقی ہو گئی کہ ساری قوم کو چھوڑ چھاڑ آج ہم اپنے ’قبلہ و کعبہ‘ کی تیمار داری و چارہ گری میں مصروف ہو گئے اور صرف اس وجہ سے کہ خدا نہ کردہ دشمنوں کے کان بہرے، مرض کو شدت نہ ہو، اسی طرف جھک پڑے!‘ (مکتوب سلاست اسلوب 1320ھ مطابق 1902ء، 292)
اس معرکے کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ مدیر اصلاح کو لکھنا پڑا کہ
’اگر یہ مباحثہ شکر رنجی اور تلخ کلامیوں سے پورے طور پہ محفوظ رہے تو ایک روز مفید نتیجہ ضرور پیدا ہو گا۔ نواب خیال کو اس کا ضرور خیال رہے کہ آپ کی تحریر کے مخاطب معمولی اشخاص نہیں ہیں جن سے مساوات کا خیال زیبا ہے۔ بلکہ اس مقدس طبقہ کے سامنے آپ عرض حال کرتے ہیں جن کی تعظیم و احترام کو آپ کا کونشس واجب جانتا ہے۔ ہم اپنے علما سے بکمال ادب ملتجی ہیں کہ آپ اپنی رعایا کی جلد خبر لیجیے اور للہ اس طریقہ سے نہ کلام کیجیے جس سے وہ دل شکستہ ہوں۔‘ (اداریہ 1319ھ مطابق 1902ء، 296)
اسی درمیان ان کا نیا مضمون ’’سیاحت نامۂ ابراہیم بیگ‘‘ بھی شائع ہو گیا جس نے رد عمل کے اس ماحول کو سہ آتشہ بنا دیا۔ یہ سیاحت نامہ موید الاسلام سید جلال الدین کاشانی، مالک و مدیر ’حبل المتین‘، کلکتہ نے 1890ء میں بہ زبان فارسی شائع کیا تھا۔ اس فارسی تصنیف کی اشاعت کا مقصد ایرانیوں کو سلطنت ایران کی بد انتظامیوں اور ناکامیوں کی صحیح تصویریں دکھا کر اس انقلاب کے لئے آمادہ کرنا تھا جس کے سبب وہاں جمہوری حکومت کا نظام قائم کیا جا سکے۔ اس میں سلطنت اور اس سے وابستہ عمالوں کی بد اعمالیوں کو بتا کر ایرانیوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی ملتی ہے۔ سیاحت نامہ میں جا بجا آیاتِ قرآنی، نہج البلاغۃ، اور اقوال و اشعار کی مدد سے اسلوب کو متاثر اور پر کشش بنایا گیا ہے۔ یہ سیاحت نامہ ان زمانوں میں شیعہ حضرات کے درمیان عموماً موضوع بحث بنا رہتا تھا۔ ابراہیم بیگ بذات خود ایک خیالی شخص تھا لیکن کوئی ابراہیم بیگ کو زندیق، کافر، نیچری کہتا اور کسی کے نزدیک وہ اصلاح پسند ٹھیرتا تھا۔ خیال نے اس کی حمایت میں مضمون بعنوان ’’سیاحت نامۂ ابراہیم بیگ‘‘ لکھا تھا جس میں انھوں نے مذہب کے ٹھیکیداروں پہ براہ راست حملے کیے ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ ان کی حکمت عملیوں کی وجہ سے نہ صرف مذہب بلکہ مسلمان بھی بدنام ہو تے ہیں۔ ان کی ذہنی پستی، اخلاقی گراوٹ اور اقتصادی نیز تعلیمی پسماندگی کے لئے بھی بڑی حد تک ملاؤں کی غیر ذمہ دارانہ حکمت عملیاں ہی ہیں۔ خیال کے اس مضمون کی وجہ سے، جس میں انھوں نے سیاحت نامہ کی حمایت کی تھی، ان کے خلاف محاذ آرائیاں ہونے لگیں۔ ’ اصلاح‘ کے شمارے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ خیال نے ابراہیم بیگ کے خیالات کو عمومی طور پہ مسلمانوں کے لئے مفید تصور کیا تھا اور لکھا تھا کہ مسلمان اس کے پیش کردہ واقعات سے عبرت حاصل کریں اور اپنی عاقبت سنوارنے کی فکر کریں۔ مضمون کے اخیر میں انھوں نے سیاحت نامہ سے ایسے اقتباسات نقل کیے تھے جو بعض مذہبی امور کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ خیال لکھتے ہیں کہ:
’فی الحقیقت یہ سفرنامہ یا مصیبت نامہ کچھ دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے جو حالات ابراہیم نے اپنے ملک و ملت کے لکھے ہیں وہ مسلمانوں کی بد بختیوں کے زندہ گواہ ہیں جن کے پڑھنے سے دل میں درد ہوتا اور ایک ہوک اٹھتی ہے! جو عالم محمد شاہی عہد کے بعد اور پھر محمد علی شاہی واجد علی شاہی زمانہ میں ہمارے ملک و ملت کا تھا اس سے کچھ کم وہاں کا نہیں جس پر ابراہیم خون رویا ہے۔ یہ ایک عجیب اور طرفہ ماجرا ہے کہ مسلمان خواہ ایران کے ہوں یا روم کے، افغانستان کے ہوں یا ہندوستان کے، ان کی حالتیں کسی جادرست نہیں نظر آتیں۔ نہ معلوم اس بڑی ’’مشین‘‘ میں اس کا کون سا چلانے والا پرزہ ایسا ٹوٹ گیا ہے کہ کارکنان تقدیر سے بھی درست ہوتا نظر نہیں آتا۔‘ (سیاحت نامۂ ابراہیم بیگ اور میری قوم 1320ھ مطابق 1902ء، 65)
’اصلاح‘ کے چار شماروں میں مسلسل اسے موضوع بنایا گیا اور خیال کی حمایت و مخالفت میں مضامین لکھے گئے۔ سید حسین کا ایک طویل مضمون ’’سیاحت نامۂ ابراہیم بیگ پر ایک ریویو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں خیال کو نشانہ بناتے ہوئے مدیر سے کہا گیا کہ:
’میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی مذہبی غیرت اور اسلامی حمیت نے اس کمزوری کو نہ گوارا کیا کہ ایک آزاد خیال کی تحریر کی اشاعت روکیں اور اس کو اظہارِ خیالات سے محروم رکھیں اور قوم کی آزمائش کے لئے ایسی تحریر شائع فرمائی جس سے معلوم ہو کہ کہاں تک قوم آپ کے پرچۂ اصلاح کی قدر کرتی ہے اور اسے کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مولانا! آپ اپنی قوم کی زود رنجی سے کیا نہیں واقف ہیں۔ اور باخودہا کے تناقص کی کیا آپ کو خبر نہیں؟ اور اس آزادی سے آپ نے یہ تحریر شائع کر دی! اور یہ نہ خیال کیا کہ بے بصیرت حاسد کیا کچھ فساد کر سکتے ہیں حالانکہ اس قسم کی تحریریں ہمیشہ اسی غرض سے شائع ہوتی ہیں کہ قوم اس پر غور کرے اور اس کے نیک و بد کو پرکھے اور سوچے سمجھے نہ اس غرض سے کہ سب اس پر ایمان لا بیٹھیں۔ … ہماری تحریر نہ مناظرہ کے اصول پر ہے نہ ہم اصلاح کو ان باتوں کا دنگل بنانا چاہتے ہیں بلکہ صرف یہ دیکھنا منظور ہے کہ ابراہیم بیگ کا یہ سیاحت نامہ کسی خوش نیتی سے نہیں لکھا گیا ہے نہ اس غرض سے کہ قوم اس سے سبق لے اور اپنے افعال و اعمال کو درست کرے بلکہ صرف تعصب مذہبی محرک ہے اور وہی زہر اس پردہ میں نکالا جا رہا ہے۔ تعجب ہے کہ ہمارے نواب خیال نے اس پر مطلق نہ خیال کیا اور انھیں باتوں کو اپنی تحریر میں منتخب کیا جس سے مذہب پر حملہ ہو اور ہمارے مذہبی حقوق پائمال کیے جائیں۔‘ (1320 ھ مطابق 1902ء، 114)
’اصلاح ‘ میں ہی’’مسئلۂ امامت پر ایک معقولی نظر‘‘، ’’مسلم ریفارم‘‘ اور ’’پیوند کردہ ام جگر پارہ پارہ را‘‘ کے عنوان سے مضامین شائع ہوئے تھے۔ یہ سبھی زبان و بیان پر خیال کی مضبوط گرفت کے ساتھ ہی ان کے اصلاحی مزاج کی بہترین مثالیں ہیں۔ اوقاف کا نظم، تعلیم نسواں، ائمہ کی ذمہ داریاں، مسکینوں اور یتیموں کی خبرگیری جیسے موضوعات پہ انھوں نے اپنی بے لاگ رائیں پیش کی تھیں۔
’دکن ریویو‘ میں شائع مضمون ’’مرثیہ اور مرزا دبیر‘‘ مرثیوں میں واقعہ طرازی کے مختلف پہلوؤں بطور خاص الفاظ اور زبان و بیان پر خیال کی باریک بینی کا شاہد ہے۔ اس مضمون کے ساتھ ہی ’جادو‘ میں شائع خطوط پر گذشتہ باب میں گفتگو کی جا چکی ہے۔
’ادیب‘ کی میر حسیر عظیم آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والی ساتویں جلد کے پہلے، دوسرے اور تیسرے شمارے میں انشائیہ ’’خالاؤں کا مارا آغا‘‘ کی اشاعت ہوئی تھی۔ مارچ 1913ء کے شمارے میں، پہلی دو قسطوں کی مانند، آخر میں درج ہے ’باقی دارد‘۔ گویا تب تک مکمل نہیں ہوا تھا۔ لیکن جون 1913ء کے شماروں تک پھر اس کی کوئی قسط شائع نہیں ہوئی۔ ممکن ہے اس کے بعد کے شماروں میں اس کی اشاعت ہوئی ہو۔ مجھے وہ شمارے نہیں مل سکے۔ اس کی پہلی قسط میں انشائیہ کے متن سے قبل مدیر کی جانب سے ایک نوٹ بھی شامل ہے جس سے اس زمانے میں ادیب و انشا پرداز کی حیثیت سے خیال کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جس طرح چاشنیِ کلام کے لئے مثل اور ذائقۂ زبان کے لئے نمک درکار ہے، اسی طرح تفریح دماغ کے لئے متانت آمیز ظرافت بھی چاہیے۔ اس کی زندہ مثال ذیل کی داستان میں دکھائی گئی ہے جو نواب سید نصیر حسین خاں صاحب خیال عظیم آبادی کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ مضمون کی دلچسپی کو انداز بیان اور بڑھا دیتا ہے۔ اس داستان کا آغا مولانا شرر کا آغا صادق نہیں ہے بلکہ خالاؤں کا مارا ہے۔ گربۂ مسکین بھی وہ نہیں جو فقیہ عماد کے ساتھ نماز پڑھا کرتی تھی جس کی نسبت حافظ شیرازی فرما گئے ہیں:
اے کبک خوش خرام کجا می روی بہ ناز
غرہ مشو کہ گربۂ عابد نماز کرد۔
یا وہ بلی نہیں جس کی نسبت مثنوی موش و گربہ میں عبید زاکانی نے لکھا ہےع
مژدہ بادا کہ گربہ زاہد شد۔‘ (خالاؤں کا مارا آغا (1) 1913، 26)
اس انشائیہ میں خیال نے ایرانیوں کی اردو گوئی کی خوبصورت پیشکش کی ہے۔ اس کے تینوں حصوں میں ایک ایرانی موسوم بہ آغا کی گفتگو اس کے اصل لہجے میں پیش کی گئی ہے۔ جا بجا فارسی اور اردو کی آمیزش نے اسے پر لطف بنا دیا ہے۔ مکمل انشائیہ میں اعلیٰ طبقہ کی معاشرت پہ لطیف طنز بھی موجود ہے۔ آغا کے ذریعہ استعمال کی جانے والی فارسی اور اردو کی آمیزش کو دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے مزاحیہ انداز بھی اختیار کیا گیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’ہم سب کھاتے اور باتیں کرتے جاتے تھے۔ پُسی (بلی) کو وقت معلوم تھا۔ آدھا کھانا ختم ہو چکتا تو وہ پہنچتی۔ فرحا نے زانو بدلا تو سمجھے کہ پسی آئی۔ بے تکلف گود میں جا بیٹھی۔ ایک سچی رکابی منگائی گئی۔ سب نے اپنے آگے سے تھوڑا تھوڑا سا اس میں ڈالا۔ فرحا نے منھ سے منھ ملا کر اسے پیار کیا۔ اس کا نیلا پٹا درست ہوا۔ گرہ مضبوط دی اور اٹھا کر میز پر چھوڑ دیا۔ وہ گلدان سے مل کر بیٹھی۔ رکابی کی طرف جھکی، منھ ڈالا اور مشغول ہو گئی! پسی سب کو عزیز تھی۔ پیش خدمت، باورچی، خانساماں یہاں تک کہ مہتر بھی چاہنے لگا تھا۔‘ (26-28)
اسی مطعم میں ایک ایرانی نوجوان ہے جسے بلّیوں سے وحشت ہوتی ہے۔ اس کے ذکر کے بعد باتیں بلیوں سے ان کی میموں تک پھیلتی جاتی ہیں اور خیال اچھوتے لہجے میں آغا کی متنوع وحشت انگیزیوں کی تصویر کشی کرتے جاتے ہیں۔
’آج پسی کو میز پر قرار نہیں۔ دن بھر کھیلنا نہیں ملا۔ اب خوش فعلیوں پر ہے! فرحا نے اس کی ریشمی ڈوری کرسی کے بازو میں باندھ دی ہے۔ وہ میز پر سے کبھی نیچے کبھی اوپر۔ ابھی فرحا کے زانو پر تھی، ابھی اس کے کندھے پر پہنچی۔ گردن پر منہ رکھ کر لگی بالوں کی خوشبو سونگھنے۔ ہوٹل میں شاید اس کا چرچا ہوا۔ ایک ایک کر کے دیکھنے آیا۔ بعض جھانک ہی کر بھاگے۔ بعض قریب بھی آئے۔ مگر اس جوان کی طرف پیٹھ کیے ہوئے۔ باورچی بھی پہنچا، چولہے پر ہنڈیا چڑھی چھوڑ کے آیا۔ ایک نے دوسرے کو دکھایا۔ پسی کے نصیب پر شاید سب نے رشک کھایا۔ اس وقت بعض نک چڑھے حکام بھی ادھر ہی مخاطب تھے۔ اکثر پڈنگ چھری سے کاٹنے لگے۔ ادھر سے نظر ہٹی تو اپنی حرکت پر شرمائے۔‘ (27)
اسی دوران آغا سے آشنائی کے بعد راوی اور اس کے درمیان دلچسپ گفتگو بھی شروع ہو جاتی ہے جسے اس تحریر میں شگفتہ اسلوب اور مزاح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
’آقا وہ ماہ جنوری تھا۔ فروری و مارچ دو ماہ الحمد للہ خوش گذشت۔ قدرے از احوال دنیا ہم آشنا شدہ بودم۔ ہم عرض کر چکے ہیں کہ وو (وہ) ہوتل خیلے بزرگ مثل یک بہشت تازہ برزمِن (زمین) بود۔ نعمات و تکلفات گونا گوں براے مہمانانِ فراہم آور دہ بودند۔ از ماہ مارچ سیاحانِ دنیا می آمدند در پاریس و اقامت میکردند در اِن (ایں) ہوتل۔ ایں کیست آغا؟ بابا اِں (ایں) زن یک امیر کبیر امریکا ئیست! دیروزکی مہمان شدہ؟ دختر دیوک آف ادمبرا! ان تلگراف از کجا آمدہ؟ از ہندوستان مہاراجہ برودہ از بامبیِ (بمبئی) حرکت کردہ۔ می آیند! خیر۔ دیشب دو اُطاق (کمرہ) مخصوص کہ کرایہ کردست (کردہا ست ان کیست آغا؟ نمشناسی (نمی شناسی) عجیب! سر آغا خون (خاں) ست در لندن بود۔ حالابہ پاریس آمدہ براے تفرج و سیر و عیش و نشاط! خوب میسیو سولمن امروز چرا بر موتوکارِ خود استاسون (اسٹیشن) رفتہ ست۔ چہ کار دارد؟ نمی دانی عجیب! فدیو مصر و ولیعہد دولت زاپوں (جاپان) ہر دو تشریف می آرند۔ سولمن برائے استقبال رفتست (رفتہ است)!‘ (خالاؤں کا مارا آغا (2) 1913، 64)
درج بالا اقتباسات ’خالاؤں کا مارا آغا‘ کی مختلف قسطوں سے ماخوذ ہیں۔ تیسری قسط (مارچ 1913ء) میں بھی متن سے پہلے مدیر کا ایک نوٹ شامل ہے جس میں انشائیہ کے سلسلے میں قارئین کے رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
’اس مضمون کی جیسی حیرت انگیز عالمگیر پسندیدگی ہوئی ہے اس سے نقاد ان فن کی نکتہ سنجی اور زندہ دلان اردو کی شگفتگیِ طبع و مذاق سلیم کا کافی ثبوت ملتا ہے، اور ہمیں بخوبی اس کا اندازہ ہو گیا کہ اردو کی دنیا کیرکٹر (عادات و خصائل) نگاری کا خیر مقدم کرنے کو تیار ہے۔ اس بنا پر ہمارا یہ کہنا فضول نہ ہو گا کہ اس طرز انشا پردازی میں بھی ہماری زبان یورپ کی زبان سے پیچھے رہنا نہیں چاہتی۔ ... پسندیدگی کے جتنے حوصلہ افزا پیغامات قدر دانان ادیب نے بھیجے تھے، نہایت شکر کے ساتھ نواب خیال صاحب عظیم آبادی کے پاس بھیج دیے گئے ہیں۔ اور واقعی ممدوح ہر طرح مستحق داد ہیں۔‘ (خالاؤں کا مارا آغا (3) 1913، 136)
رسالہ ’لسان الملک‘ میں شائع خیال کی ایک تحریر بعنوان ’’داستان اردو‘‘ کی ابتدا میں اس کے جوائنٹ ایڈیٹر سید منظر علی اشہر نے ’’خالاؤں کا مارا آغا‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کی اشاعت کے ساتھ ہی یہ اعتراف کیا گیا کہ اردو زبان انگریزی ادب کے بالمقابل آ گئی اور چارلس ڈکنس کے لاجواب مضامین کا جواب دینے کے لائق ہو گئی۔ (1923، 3)
خیال کے انتقال کے بعد ’معاصر‘، پٹنہ، میں سید علی سجاد پر ان کی ایک تحریر بعنوان ’’بہار کا ایک اردو ناول نگار‘‘ شائع ہوئی تھی۔ مضمون کی ابتدا میں اختر اورینوی کا درج ذیل نوٹ شامل ہے:
’دلی نے اردو کے دو ناول نگار پیدا کیے، نذیر احمد اور راشد الخیری۔ لکھنؤ نے بھی دو ناول نگاروں کو چمکایا، رتن ناتھ سرشار اور عبد الحلیم شرر۔ مگر دور اولیٰ کے عظیم آباد نے آسمان ناول نگاری میں چار چاند لگائے۔ سید علی محمد شاد (صاحب صورۃ الخیال، تین حصے، 1888ء میں)، سید افضل الدین (صاحب فسانۂ خورشیدی 1886ء)، بیگم مولوی یحیٰ علی صاحب (صاحبۂ اصلاح النسا) اور سید علی سجاد (صاحب محل خانہ، دو حصے، 1902ء)۔ یہ بہاریوں کی سہل انگاری اور نا قدردانی ہے اور دوسرے تاریخ ادب لکھنے والے حضرات کی نا رسائی یا تنگ نظری کہ آج تک ان بہاری ناول نگاروں کا زبان قلم پر نام نہ آیا۔ ادارہ بڑی تلاش و جستجو کے بعد خیال عظیم آبادی کا ایک نادر غیر مطبوعہ مقالہ سید علی سجاد عظیم آبادی کے متعلق شائع کر رہا ہے۔‘ (اردو ناول نگار 1945، 7)
نصیر حسین خیال عظیم آبادی کو ’داستان اردو‘ لکھنے کے بعد اپنے ہم عصروں کا خیال آیا تو انھوں نے سید علی سجاد عظیم آبادی کی ناول نگاری کے متعلق کچھ لکھا مگر وہ بھی شائع نہ ہوا۔ اب رسالہ ’معاصر‘ پٹنہ کے نومبر 1945ء سے اس کار آمد مقالہ کی اشاعت کا انتظام کیا گیا ہے۔ (7)
خیال کا یہ مضمون چراغ حسن حسرت کے رسالہ ’آفتاب‘ میں شائع ہو چکا تھا۔ حسرت نے اس کا ذکر کیا ہے:
’ایک اور طویل مضمون جو انہیں دنوں آفتاب میں چھپا خیال کے ہم مکتب اور بچپن کے رفیق سید علی عرف پیارے صاحب کا تذکرہ ہے۔ جس میں ان کا قلم کہیں گلفشاں اور کہیں خوننابہ بار نظر آتا ہے۔ یعنی اس میں کہیں چوچلے اور چہلیں ہیں کہیں زمانہ کی قدر نا شناسی کا ماتم۔‘ (حسرت 1939، 45)
یہ تحریر سید علی سجاد کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کی ادبی خدمات کا ایک مجموعی جائزہ ہے جسے خیال نے اپنے مخصوص لب ولہجے میں پیش کیا ہے۔ یہ خیال کی انشا پردازی کی ایک انوکھی جہت کو روشن کرنے کے ساتھ ہی نثر نگاری سے ان کی دلچسپی اور اس کی افادیت پسندی کے تئیں ان کے طبعی میلان کو مزید واضح کرتی ہے۔ سید علی سجاد اور خیال دوست بھی تھے، رفیق کار بھی۔ ان دونوں نے مل کر ’ادیب‘ کا اجرا کیا تھا۔ خیال کو یہ احساس تھا کہ علی سجاد کی ادبی خدمات جس مرتبہ کی ہیں ان کے مطابق ان پہ توجہ نہیں دی گئی۔
’زمانہ مردہ پرست ہے، ایک عام اور مشہور مقولہ ہے۔ لیکن میرا وطن ایسے زبان زد فقرے سے بھی شاید آشنا نہیں۔ صوبۂ بہار کی خاک نے جو پتلے کھڑے کیے وہ اپنے رنگ و روپ میں کہیں کی زمین سے پست نہیں رہے، مگر اوروں نے اپنے کو سراہا اور اونچا کر دکھایا۔ اور ہم نے اپنے کاگوں کو ہمیشہ زمین میں ہی سلایا، اور خاک میں ہی ملایا۔ ان کی زندگیاں موت سے اور پھر موت زندگیوں سے کسی وقت بہتر نہیں نکلی۔ یہ سنت عرصہ سے جاری ہے اور آج بھی فرض و واجب کا حکم رکھتی ہے۔ سجاد بھی اسی تغافل شعار زمین سے اٹھے تھے اس لئے گمان کیسا، یقین کامل تھا کہ اِن کے ساتھ بھی اگلوں کا سا سلوک کیا جائے گا۔ اور اگر کبھی زمانہ نے اس زمانہ شناس کو یاد کیا تو پھر اس وقت کوئی پورا نام و نشان بتانے والا باقی نہ رہے گا۔ اسی خیال سے یہ چند سطریں لکھوا دیں اور یہ بھی سمجھا کہ اپنوں کی یاد تازہ کر دینے کے لئے شاید یہی ایک بہانہ ہو جائے۔ اور اس ایک شمع کے جلتے باقی شکستہ مزاروں پر بھی کنول روشن دکھائی دینے لگیں۔‘ (بہار کا اردو ناول نگار 1945ء، 11)
سید علی سجاد کے خاندان، ان کی پیدائش، تعلیم و تربیت، شاعری سے ان کی رغبت اور پھر اوائل عمری میں ہی نثر نگاری کی جانب مائل ہونے کی تفصیلات رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’عظیم آباد کے شوقین ان دنوں ساون کے میلے کیا کرتے تھے جن میں شہر کے اکثر نوجوان امیر زادے بنے اپنے گھروں کی تقریب کی طرح شریک ہوا کرتے اور احباب کے ساتھ ارباب نشاط کے جمگھٹ بھی رہتے تھے۔ ہرے بھرے باغوں میں فاصلہ فاصلہ سے کھم گڑے اور جھولے پڑے ہوئے ہیں۔ سجاد بھی اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے شریک نشاط ہیں۔ تار نظر ہنڈولوں کی ڈوریوں سے الجھ رہے ہیں اور سوا اس کے کچھ سجھائی اور دکھائی نہیں دیتا۔ یہ سماں کئی میلوں تک رہا۔ نشہ اترا تو انھیں اپنے حال پر نظر ہوئی اور فوراً ً ایک چبھتا ہوا مضمون ’’مشیر قیصر‘‘ (اخبار لکھنؤ) میں لکھ ڈالا۔ اس میں یہاں کے میلوں کی کیفیت، اور ساون کے مزے، پھر شریف زادوں کی آوارہ گردی و تباہی کے نشان کچھ اس طرح سے قلم بند کر دیے کہ معمولی مضمون اخلاق کی ایک کتاب بن گیا۔ ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ ڈالا اور پڑھنے والوں نے وہ اثر لیا کہ پھر تو باغوں میں خاک اڑنے لگی اور یہ جمے جمائے میلے جڑ سے اکھڑ گئے۔ یہی مبارک تاریخ سجاد کی نثر نگاری کی ہے جس کے بعد یہ مشغلہ ان کی عمر کے ساتھ بڑھتا گیا۔‘ (12)
کسب معاش کے لئے سید علی سجاد کی تگ و دو اور اس سلسلے میں محمود آباد، لکھنؤ، حیدر آباد اور کلکتہ میں ان کے قیام، ’ادیب‘ اور ’اودھ پنچ‘ سے ان کی وابستگی، ’’پھولوں کی ڈالی‘‘، ’’محل خانہ‘‘، ’’نئی نویلی‘‘ کی تصویریں پیش کرنے کے دوران خیال نے ان کے ذاتی حالات اور ادبی مشاغل کا دلچسپ مرقع پیش کیا ہے۔
’ایک تو ان میں خود ہر طرح کا مذاق موجود اور اس پر لکھنؤ کی صحبتیں، جو کچھ نہ ہو جاتا، تھوڑا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں گھر صرف احباب بنا اور دماغ وقف بے فکری ہو گیا۔ کچھ دن یوں بھی گزرے۔ ان صحبتوں سے جی سیر ہوا تو اب شہر سے لال باغ اٹھ آئے۔ آبادی سے ذرا ہٹ کر ایک کوٹھی کرایہ لی اور وہ نئے طرز و انداز پر سجی گئی۔ پرانی طرز معاشرت کے بدلے نئے خیالات نے گھر کیا۔ سب کے پہلے سر کے بال صدقہ اتارے گئے اور البرٹ فیشن سر چڑھا۔ کٹاؤ کی دو پلڑی ترکی سے بدلی گئی اور در دامن انگرکھے کی جگہ شیروانی نے لے لی، اور پھر وہ کٹ چھٹ کر آخر کوٹ بن گئی۔ بر کے پائنچوں سے ٹانگیں پنڈلیاں پڑی جھانکتی تھیں۔ نئی تہذیب نے آنکھ دکھا کر اسے کھڑے کھڑے اتروا لیا اور پتلون آگے پیش کر دی۔‘ (13)
حسرت نے ’آفتاب‘ میں خیال کی کئی تحریریں شائع کی تھیں۔ ان کا بیان ہے کہ:
’ایک دن میں ان سے ملنے گیا۔ بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے میں نے پوچھا ’کوئی نئی کتاب شروع کی ہے ‘؟کہنے لگے بھئی کہاں کی کتاب۔ امیر نواب (صاحبزادے کا نام) کو اردو پڑھانا چاہتا ہوں۔ کوئی ڈھب کی کتاب نہیں ملتی۔ اس کے لئے ایک چھوٹا سا رسالہ لکھا ہے۔ کوئی سو ڈیڑھ سو صفحات کی کتاب تھی۔ ہند اور اہل ہند اس کا نام رکھا تھا۔ اس میں ہندوستان کے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کے لباس، رسم و رواج، خیالات و عادات اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیے گئے تھے۔ اس کے چند اجزا میں نے ’آفتاب‘ میں بھی چھاپے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے چھوٹے بڑے بیسیوں مضامین لکھے جو مختلف رسالوں میں شائع ہوئے۔ ان میں ایک دلچسپ مضمون ’ہمارے پانچ ملک الشعرا ’آفتاب‘ میں چھپا تھا۔ یہ ملک الشعرا کون تھے۔ سر عبد الرحیم، سر علی امام، عبد اللہ یوسف علی، صاحبزادہ آفتاب احمد خاں اور ڈاکٹر ضیاء الدین۔ لطف یہ کہ ان پانچوں میں ایک بھی ایسا نہیں جسے شاعری سے کوئی تعلق ہو۔ طنزیہ مضمون تھا لیکن طنز کے پردے میں وہ بہت سی کام کی باتیں کہہ گئے ہیں۔‘ (حسرت، 52-43)
حسرت نے 1925ء کے اواخر میں اس رسالے کا اجرا کیا تھا۔ پہلے شمارے کے سارے مضامین خود انھوں نے لکھے تھے لیکن رفتہ رفتہ قلمی معاونین کی تعداد بڑھتی گئی۔ انھوں نے ’مردم دیدہ‘ میں لکھا ہے کہ جب خیال اس رسالہ کے لئے مضامین لکھنے کی خاطر آمادہ ہو گئے تو کوئی بھی شمارہ ان کے مضمون سے خالی نہیں رہتا۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ خیال کے کئی مضامین زینت آفتاب بنے تھے۔ پیش نظر کتاب کے باب بعنوان ’خیال اور انیس و دبیر‘ میں ’آفتاب‘ میں شائع خیال کے مضامین ’’میر ضاحک‘‘ اور ’’فردوسی و انیس‘‘ کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ اس کے ایک شمارے میں شامل خیال کے مضمون کے سلسلے میں گجرات کے ماہنامہ ’زبان‘ سے درج ذیل واقفیت ملتی ہے:
’یہ مشرقی ہندوستان کا مصور رسالہ بہ زیر ادارت جناب چراغ حسن حسرت صاحب کلکتہ سے جنوری 26ء سے بڑی آب و تاب کے ساتھ نکلنا شروع ہوا ہے۔ زیر نظر ستمبر نمبر کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ہندوستان کے بہترین لکھنے والے بہم پہنچائے ہیں اور مضامین کا انتخاب بھی اچھا ہوتا ہے۔ چنانچہ نواب سید نصیر حسین صاحب خیال مدظلہ نے ’ہندو اہل ہند‘ میں ہماری غذا کے متعلق واقعی اور نتیجہ خیال ظاہر فرمایا ہے۔‘ (گجرات کا ماہنامہ زبان 1987، 290)
متعلقہ مضمون اسی کتاب کا حصہ ہے جسے خیال صاحبزادے کو اردو سکھانے کی غرض سے لکھ رہے تھے۔ ’’ہند اور اہل ہند‘‘ کے کچھ اجزا نقی احمد ارشاد نے بھی اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں اور لکھا ہے کہ یہ غیر مطبوعہ ہے۔ ستمبر کا شمارہ میں نے نہیں دیکھا، لیکن اسی موضوع سے متعلق خیال کی تحریر ’آفتاب‘ کے جولائی 1926ء کے شمارے میں بعنوان ’’ہندی، ہمارا لباس‘‘ شائع ہوئی تھی۔ ممکن ہے کہ ستمبر والے شمارے میں اس کے دوسری قسط منظر عام پر آئی ہو۔
رسالہ ’آفتاب‘ میں مضمون ’’فردوسی و انیس‘‘ اور ’’ہمارے پانچ ملک الشعرا‘‘ کی اشاعت خیال کے فرضی نام ارژنگ سے ہوئی تھی۔ مکمل نام یوں لکھا ہے: مانیِ فطرت حضرت ارژنگ۔ ارژنگ کے نام سے گیا کے رسالہ ’ندیم‘ میں مضمون ’’ہماری زبان‘‘ کی اشاعت بھی ہوئی تھی۔ ’آفتاب‘ میں شامل خیال کے مضامین کے ساتھ چراغ حسن حسرت کے ادارتی نوٹ بھی شامل ہیں۔ مضمون ’’ہندی، ہمارا لباس‘‘ کے سلسلے میں حسرت کے الفاظ ہیں کہ:
’نواب صاحب موصوف اپنے صاحبزادے کے لئے ہندوستان کی ایک مختصر لیکن جامع تاریخ لکھ رہے ہیں۔ ہماری التجا پر آپ نے کسی قدر ترمیم کے بعد یہ دو حصے آفتاب میں اشاعت کے لئے مرحمت فرمائے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ قومیت سیاسیات کے سمندر کی سب سے اونچی لہر ہے لیکن ہندوستان میں گونا گوں معاشرتی اختلافات کی موجودگی میں ہماری نام نہاد قومیت کا وجود ہی کیا رہ جاتا ہے۔۔ ۔ جناب نواب صاحب مد ظلہ نے اس اہم مسئلہ پر جس بالغ نظری سے روشنی ڈالی ہے یہ انہیں کا حصہ ہے۔ اسلوب بیان کی خوبی نے اس خشک موضوع کو نہایت دلچسپ بنا دیا ہے۔‘ (ہندی، ہمارا لباس 1926، 3)
مضمون کے ان دونوں حصوں میں خیال نے ہندوستان کی معاشرت کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ مرکزی فکر تہذیبی بوقلمونی اور مسلمانوں اور ہندوؤں کا تہذیبی اختلاط ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’انگریزی کپڑے اس ملک میں فرنگیوں کے شروع زمانہ سے نکلے۔ ہمارے یہاں کے بڑے لوگوں میں غالباً سب سے پہلے نواب سعادت علی خان (اودھ) نے یہ کپڑے پہنے۔ وہ زمانہ تک کلکتہ میں رہے۔ انگریز بھی وہاں ان کے درباری تھے۔ ان کا چست لباس بھایا کہ وہ شیر و شکار کے لئے بہت ٹھیک تھا۔ نواب گھوڑے پر چڑھتے وقت زیادہ تر انگریزی کپڑے پہنتے اور باہر نکلتے تھے۔ پھر لکھنؤ میں نصیرالدین حیدر شاہ بادشاہ نے فرانسیسی شاہوں کے سے کپڑے بنوائے، پہنے اور پہنوائے۔ مگر وہ زیادہ نہ چلے۔ غدر کے بعد انگریزوں اور انگریزی چیزوں سے نفرت بڑھ گئی تھی۔ اس لئے زمانہ تک اس قوم کا لباس ہماری آنکھوں میں کھٹکتا، اور کوئی بھلا آدمی یہ کپڑے پہنتا نہ تھا۔ مگر اب الٹا ہے۔‘ (5)
’’ہمارے پانچ ملک الشعرا‘‘‘کے سلسلے میں قدوس صہبائی نے لکھا تھا کہ:
’نواب خیال خود شاعر نہیں تھے لیکن سخن فہمی اور سخن سنجی میں غضب کا ملکہ رکھتے تھے۔ ان کے مضمون ’پانچ ملک الشعرا‘ میں نکتہ سنجی اور شاعری میں تخئیل کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ نو مشق شعرا کے بارے میں لکھتے ہوئے انھوں نے عجیب صداقت پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’ان حضرات کی مثال تازی گھوڑے کی سی ہے رضالت موجود لیکن اچھے شہ سوار کی ران باگ دیکھی نہیں قدم تو چلے مگر جب پھریری لی، طبیعت سے مجبور ہو کر دولتی جھاڑ دی۔‘ (نواب نصیر حسین خیال 1955، 40)
اس انشائیہ کا ذکر اوراق پارینہ میں دو تین دیگر اصحاب کے یہاں بھی ملتا ہے۔ سبھوں نے اسے خیال کے مشہور زمانہ انشائیہ ہونے کا اقرار تو کیا ہے لیکن قدوس صہبائی کے علاوہ کسی نے بھی کوئی عبارت پیش نہیں کی ہے۔ طنز و مزاح سے مزین عبارتیں خیال کے مضامین اور خطوط میں بھری پڑی ہیں۔ ان کا یہ انداز نگارش خود نوشت میں بھی موجود ہے۔ ’’تزک خیال‘‘ میں جس دلچسپ انداز میں انھوں نے کلکتہ کے بعض معاصرین کی تصویر کشی کی ہے اس کے بمقابلہ ’’ہمارے پانچ ملک الشعرا‘‘ میں ان کی طبعی جولانیاں مزید نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس کی اشاعت ’آفتاب‘ کے جون، جولائی اور اگست کے شماروں میں ہوئی تھی۔ اس میں خیال نے صاحبزادہ آفتاب احمد خان، سر عبد الرحیم، سر علی امام، عبد اللہ یوسف علی اور سر ضیاءالدین احمد کے خاکے پیش کیے ہیں۔ ان سب کو انھوں نے ملک الشعرا کا خطاب دیتے ہوئے مزاح کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ ان اصحاب سے خیال کے ذاتی مراسم بھی تھے۔ اس مضمون کا تعارف کراتے ہوئے حسرت نے پانچویں پشت والی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ خیال نے:
’اپنی اردو دانی اور خصوصاً مرثیہ خوانی کا بھی ثبوت دے کر واقف کاروں سے سند حاصل کر کے اپنی ہمہ دانی کا محضر تیار کر لیا۔ اب یہ ہیں وہ ’’ڈسکوریاں‘‘ اور یہ ہیں وہ خانہ تلاشیاں جن پر دنیا تصدق اور عالم نثار رہا! اسی طرح اگر ہمارے ایک مخدوم نے ہندوستان کے پانچ ایسے ملک الشعرا کو دریافت کر لیا جو اب تک روپوش تھے تو انھوں نے دنیا پر احسان اور عالم پر کرم فرمایا۔ اور اس محنت و تحقیق کے صلہ میں وہ جناب بھی مسلم یونیورسٹی کے ارکان اور خصوصاً وہاں کے فیاض اردو لیکچرر کی جانب سے اگر علامۂ عصر اور محقق وقت کا لقب قبول کریں تو اس دار العلوم پر احسان فرمائیں۔‘ (ہمارے پانچ ملک الشعرا (1) 1926، 32)
خیال نے ظریفانہ انداز میں متذکرہ اصحاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان کے کمالات کا ذکر کیا ہے۔ صاحبزادہ آفتاب خان کا ذکر ’نوائے کیمبرج‘ کے اس مضمون میں بھی موجود ہے جس میں وہاں منعقد تقریب کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
’علی امام صاحب راوی ہیں کہ کیمبرج میں آپ کا بہترین شغل اور پاس ٹائم اگر کچھ تھا تو یہی اردو نظم کی محبت و خدمت! وہاں آپ زیادہ تر میاں رنگین اور جان صاحب کی ریختیاں پڑھا کرتے، مزے لیتے اور فخریہ فرماتے کہ ہندوستان اور ہماری اردو ہی کو یہ شرف ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں کی زبانوں میں امتیاز و فرق ہے۔ اور یہ نہ ہو تو پھر مزہ کیا۔ یورپ کو یہ لذت نصیب نہیں۔ اس لئے کہ ان کے مرد و عورت کبوتروں کے جوڑے کی طرح ہر وقت سر ملائے دانہ بدلتے رہتے ہیں۔ اس سے اخیر میں مساوات ہو جاتی اور پھر دونوں کی زبان بھی ایک ہو کر ان کے اس خلقی امتیاز کو مٹا دیتی ہے جو ایک ہلکے سے پردے کی صورت میں درمیان زن و مرد قائم اور بے حد دلچسپ، دلفریب ہے۔‘ (34)
خان صاحب کی یہ شعر نوازی علی گڑھ میں بھی دائم و قائم ہی نہیں رہی بلکہ اکابرین پر بھی اپنے اثرات قائم کرتی رہی۔ شعر نوازی سے مراد ان کی تقریریں ہیں۔ خیال لکھتے ہیں کہ:
’جوانی کے گزرنے اور ایام بے فکری سے آزاد ہونے کے بعد بھی ہمارا یہ بلبلِ علی گڑھ ہمیشہ چہکتا رہا۔ سر سید چھپ کر ان نغموں کو سنتے اور سید محمود ٹوک ٹوک کر صاحبزادہ صاحب کو پڑھواتے اور شیخ صاحب کو گواتے۔ محسن الملک واقعی شاعر دل تھے۔ خدا بخشے ان مرحوم کو جب دردِ گردہ اٹھتا تو شیخ صاحب بلوائے جاتے۔ صاحبزادہ صاحب کی غزلیں ان کی زبان سے سنتے اور پھر آرام فرماتے!‘ (34)
سر عبد الرحیم کے ذکر کی ابتدا ان لفظوں سے ہوتی ہے کہ یہ دوسرے ملک الشعرا بھی شہسوار میدان نظم و شاعری اور چالیس سال کے مشاق و چابک سوار ہیں۔ کہتے ہیں کہ، پیدا ہوئی ہے آپ کے صدقہ میں شاعری! سر عبد الرحیم کے ذکر کے دوران ان کے خطبات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کئی اور برگزیدہ ہستیوں کو بھی دام در دام اپنے دام ظرافت میں سمیٹ لیا ہے۔
’ہمارے ان ملک الشعرا کی مدراس یونیورسٹی والی نظم اور رائل کمیشن والا ان کا قصیدہ غرا اور پھر علی گڑھ والا دو غزلہ و سہ غزلہ کسی ہوشمند و خوش مذاق سے وہ پڑھوا کر سنیں اور سمجھیں تو معلوم ہو کہ اصلی مذاق و فطری ظرافت کیا چیز ہے۔ صاحبزادہ صاحب، میاں محمد شفیع، علی امام صاحب، میاں جناح، اور پھر شیخ عبد القادر و سلطان احمد کے سے شعرا اور خصوصاً عبد العزیز پشاوری اور ڈاکٹر ضیاء الدین کے سے خوش فہم و سخن سنج و پر مذاق حضرات کو جس نظم پر حال آ گیا ہو اس کی نسبت کچھ کہنا، چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے۔‘ (36)
رونق محفل رہنے والی ان بے مثل ہستیوں کی انفرادیت کو روشن کرنے میں خیال سے ان کے دیرینہ خوشگوار تعلقات کی کلیدی اہمیت ہے۔ وہ ان سب کی ذاتی زندگی اور عملی سرگرمیوں سے ہی اچھی طرح واقف نہیں تھے، ان کے مزاج آشنا بھی تھے۔ عبد اللہ یوسف علی بھی خیال کے دوستوں میں تھے۔ متذکرہ اصحاب کی ہی مانند ان کے ذکر میں بھی انھوں نے جولانیِ طبع کا پرکشش مظاہرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یوسف علی کی شاعری ان کی عمر ہی کی مانند پکی اور سمہ و خضاب سے آزاد ہے۔ کیمبرج والے مضمون میں ان کا ذکر خیر بھی موجود ہے۔ اسی سے متعلق ایک اضافہ یہاں موجود ہے کہ
’ہمارے ممدوح ایک عرصہ تک ولایت میں رہے، مگر وہاں ایک دن بھی بے کار نہ تھے۔ لیڈن (ہولینڈ کا ایک مشہور شہر) کے مشہور ادبی رسالہ لے پواِم اوریانتے (Le poem Oriente) میں آپ کی غزلیں عرصہ تک شائع ہوتی رہیں اور محض آپ کی جہت سے، مشرقی حسن و عشق کی بھونڈے مغرب میں بھی بنیاد پڑ گئی۔ 1920 کے اکتوبر میں کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور یونین کلب کا سالانہ جلسہ تھا۔ آپ بھی مدعو ہوئے۔ ہماری خوش قسمتی سے وہاں ایک اردو انجمن بھی قائم ہے۔ موقع پر نظر کر کے اس نے ایک بڑے مشاعرے کی طرح ڈالی۔ آپ کو خاص طور پر زحمت دی گئی۔ بڑا مجمع تھا۔ آپ ہی میر مشاعرہ تجویز ہوئے۔ غزلیں پڑھی جانے لگیں۔ شمع آپ کے سامنے آئی تو دو زانو ہو بیٹھے۔ اور پھر حاضرین پر شیرانہ نظر ڈال کر اور بندِ قبا کھول کر، مصرع طرح میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلمان ہو گیا پر جو زبردست مصرع لگا دیا تھا اسے للکار کر جس وقت ارشاد کیا۔ ارے
اس کی ضد سے آپ ظاہر اس کا ایماں ہو گیا
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
تو مشاعرہ چیخ اٹھا۔ ہزاروں ہاتھ بلند ہو گئے۔ رو مال اچھلنے اور واہ واہ کے نعرے گونجنے لگے۔ پڑھتے پڑھتے مقطع کی نوبت آئی۔ سنبھل بیٹھے۔ اور حاضرین اور خصوصاً ارکان انجمن اور ممبران یونین کو مخاطب کر کے بتا بتا کر اس انداز و لہجہ میں وہ مقطع ارشاد ہوا کہ بزم مشاعرہ مجلس رقص بن گئی۔‘ (ہمارے پانچ ملک الشعرا (2) 1926، 13)
اس انشائیہ کا سب سے طویل حصہ سر ضیاء الدین احمد سے متعلق ہے۔ ان کا تعارف ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے:
’ہمارے اس خمسہ نجبا میں جناب ڈاکٹر صاحب کا پانچواں نمبر اس لئے نہیں ہے کہ خدا نا کردہ وہ جناب اس میدان میں اوروں سے پیچھے یا معاذ اللہ صرف پانچویں سواروں میں ہیں! نہیں بلکہ اس کے برعکس یہاں ہم کو استاد نظامی کی شاگردی و تقلید منظور تھی اور ہے کہ ان کے مشہور خمسہ میں بھی جو آخر ہے وہی اول! اس کے علاہ انگریز کہتے ہیں کہ لاسٹ بٹ نٹ دی لیسٹ! اس کا مطلب بھی شاندار اور نظامی کی ترتیب کے موافق اور ہمارے قرار دادہ نمبروں کے مطابق ہے۔‘ (ہمارے پانچ ملک الشعرا (3) 1926، 10)
بعد ازاں فرماتے ہیں:
’ڈاکٹر صاحب کی زندگی واقعی عجب ہمہ گیر، بے تقصیر اور بے تسخیر ہے۔ اورنگ زیب اگر شعر و شاعری کا بیخ کن اور خصوصاً سیر و شکار کا دشمن نہ ہوتا اور اسے کار بے کاراں نہ کہتا تو ہم ضیاءالدین کو عالمگیر کہتے۔ مگر ہم اب آپ کو سلطان محمود غزنوی کہیں گے۔ اس لئے کہ وہ ایک مشہور فاتح ہے اور ہمارے ڈاکٹر صاحب نے بھی حصار علی گڑھ کے توڑنے اور قلعہ علی گڑھ کے بار بار فتح کرنے میں فاتح سومنات سے کہیں زیادہ نام نکالا ہے۔ پھر محمود ہی کی طرح ہمارے حضرت بھی سیر و شکار کے عاشق اور شاعری میں مست اور شاعر پرست ہیں۔‘ (10)
سچدا نند سنہا، علی برادران، نواب مزمل اللہ خاں، مولوی بشیر الدین وغیرہ کے پر مزاح تذکروں سے مزین یہ حصہ خیال کی انشائیہ نگاری کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔
کتاب ’’داستان عجم‘‘ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ’’شاہنامہ‘‘ کے عنوان سے رسالہ ’خیابان‘ میں چار قسطوں میں شائع ہوئے تھے۔ یہ مضامین شاہنامہ کے معاشرتی اثرات کے جائزہ پر مشتمل ہیں۔ خیال نے شاہنامہ کو ایک ایسی قوت کی شکل میں دیکھا ہے جس میں اقوام کی تقدیریں بدل ڈالنے کی طاقت موجود ہے۔ اس میں انھوں نے شستہ و شگفتہ زبان و بیان میں حکیمانہ انداز تخاطب اختیار کیا ہے۔
’زندہ ملک، زندہ قوم اور زندہ انسان اپنے گرد و پیش کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ فردوسی بھی زندہ تھا، اس لئے ملک کے اندرونی و بیرونی اثروں سے اس کا دور رہنا محال تھا۔ ایران سے ملے ہوئے اس وقت کئی ملک تھے۔ عربستان، ہندوستان، ترکستان اور چینستان۔ وہاں کی قوموں کا اثر ایران پر پڑ رہ اور فردوسی بھی اس سے خالی نہ تھا۔ لیکن اس کے شاہ نامہ کے لئے نہ زمین عرب موزوں تھی نہ زمینِ ہند کہ وہاں کی گذشتہ روایتوں سے اپنی کتاب کو مفید بنا سکتا۔ شاہ نامہ میں جس وقت کے قصوں اور جنگوں کا بیان ہے، عرب اس وقت لایعنی تھا اور ہند بے معنی۔ اس لئے اسے نیم مہذب ترکستان اور مہذب چینستان سے واسطہ رکھنا تھا۔ حکمت چین اسی وقت سے مشہور اور وہاں کے قصے اور حکایتیں معروف تھیں۔ اس وجہ سے اس کتابِ عجم کا ایک اچھا حصہ قدیم چینی، مذہبی اور نیم مذہبی روایتوں کا نگار خانہ بن گیا اور اس کے علاوہ شاہ نامہ چونکہ ایرانی و تورانی جنگوں کا مرقع اور اصل رستم کا کارنامہ ہے، اس لحاظ سے اسے اپنے ہیرو کا خیال رکھنا ضرور تھا۔‘ (شاہنامہ پر بیرونی اثر 1934، 294)
مضمون ’اشو زردشت‘ بھی اسی شاہنامہ والے سلسلے کی کڑی ہے۔ بنیادی طور پہ طاہر رضوی کی کتاب پہ تبصرہ ہونے کے باوجود اسلوب نگارش اور تفصیلات کی وجہ سے یہ ایک باضابطہ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ طاہر رضوی اور ان کی کتاب کے سلسلے میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ یہ مضمون اسلوبی انفرادیت، حکیمانہ اور اصلاحی نقطۂ نظر کے ساتھ ہی ثقافتی تاریخ پہ خیال کی بہترین گرفت کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔
’سمجھنا چاہیے کہ وجود میں آئی ہوئی کوئی چیز فنا نہیں ہوتی۔ ہم محسوس نہ کر سکیں مگر وہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتی ہے یہی حالت خیالات و عقائد کی بھی ہے۔ مزدک گو بظاہر فنا ہوا مگر وہ اور اس کے عقائد فضائے ایران کو گھیرے رہے اور اس کے سو برس بعد ہی وہ عراق میں نمودار ہوئے۔ جنگ صفین کے خوارج نے بھی یہی مزدکی عقیدہ پیش کیا اور الملک اللہ کا نعرہ مار کر اور مسلمانوں کے عقیدہ سے گریزاں ہو کر اپنا علم علیحدہ بلند کرنے لگے ان عجمی و عراقی یعنی مزد کی عقائد نے نہ صرف ساسانیوں اور مذہب زردشت کو کمزور کیا بلکہ تیسری چوتھی صدی ہجری کے مسلمانوں کے عقائد میں بھی تلاطم ڈالا اور وہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوا کیا ہے۔ نوشیرواں کے بعد ایران چین سے نہ رہا۔ ہرمز سوم اور بہرام کی حکومتیں ملک کے ان وزرا و امرا کے زیر اثر تھیں جو اپنے رسوخ و قوت کے لئے آپس میں جنگ کرتے اور تخت جمشید پر اپنے مطلب و اثر کے شہزادوں کو بٹھاتے و اٹھاتے تھے۔ خسرو پرویز بھی اسی طرح تخت نشین ہوا اس کا زمانہ ہند کے آخر مغل بادشاہوں کے مشابہ ہے سلطنت کمزور، رعایا منتشر اور فوج ابتر تھی، ملکی و قومی مذہب (زردشتی) بھی شہ زور نہ تھا اور ظاہری ٹھاٹھ کے سوا ملک میں کچھ باقی نہ تھا۔ شیریں اسی خسرو کی وہ محبوب نمکین ہے جو فرہاد سے منسوب ہو کر مشہور ہوئی اور ہمارے ادب کی زبان پر اب بھی چڑھی ہوئی مزا دے رہی ہے۔ پوران دخت و شاہنشاہ، اور ارزم دخت ملکہ و شاہ شطرنج تھے ان کے بعد یزدگرد شاہ ایران بنا۔ یہ اپنے پیشروؤں سے بھی زیادہ کمزور و بے خبر نکلا۔ فارسیوں پر نازیوں کا تسلط اسی کے وقت میں ہوا۔ ضحاک کے بعد ایران اب دوبارہ عربوں کے ہاتھ آیا۔ قدیم قومی نفاق تازہ ہوا اور ساسانیوں کا یوں خاتمہ ہو گیا۔‘ (اشو زردشت 1935، 12)
مضامین بعنوان ’’ہماری شاعری‘‘، ’’ہماری زبان‘‘، ’’ہماری عورتیں‘‘، ’’نادر اتحاد‘‘ گرچہ خالص ادبی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں، انھیں بھی خیال نے شگفتہ طرز تحریر میں یوں قلمبند کیا ہے کہ موضوع کی پیشکش کے ساتھ ہی ادبی لطافت اور شوخیِ بیان ہی ان کی جان بن جاتے ہیں۔ ’ہماری شاعری‘ میں انھوں نے اپنے مخصوص عالمانہ انداز میں اردو شاعری کے مزاج و اسلوب اور رجحانات کو واضح کیا ہے اور ضمناً ایسے تنقیدی تبصرے بھی کیے ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ وہ شاعری کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہ مضمون ایران و عرب کی معاشرتوں اور شعری روایتوں کے جزر و مد اور اردو پہ ان کے اثرات پر ایک تنقیدی تبصرہ کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس سے خیال کی دور رس بصیرتوں کی نمائندگی بھی ہوتی ہے۔
’ابھی کہا جا چکا ہے کہ تاتاریوں کی سفاکیوں نے ترک و فارس کے اہل صفا کو کس طرح ہندوستان پہنچایا اور کس خموشی و صلح جوئی سے وہ اپنے فرائض و وظائف میں مشغول تھے۔ شاہ بو علی قلندر کا دائرۂ استغراق اگر میدان پانی پت کو گھیرے ہوئے ؎در دیر و حرم جلوہ دلدار کیست کی آواز سے اس زمین کو فتح کر رہا تھا تو دلی میں سلطان جی کا رواق عروج بھی ؎ پروانہ چراغ حرم و دیر نداند کی صدا سے یہاں کی فضا پر قبضہ کیے ہوئے تھا۔ اہل دل کی ایسی صفائیوں نے اس ملک کے بند چشموں میں ایک طلاطم ڈالا اور یہاں کے قدیم رنگ باطنیت میں ہیجان شروع ہو گیا۔ بابا کبیر داس انھیں صداؤں سے اٹھے اور گرو نانک بھی انھیں آوازوں سے چونکے اور پھر ہماری زمین پر سرمد ظاہر ہو کر منصور سمجھا گیا اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ عالمگیر کے بعد جب سلطنت میں انقلاب و زوال شروع ہوا تو سختیِ قلب گھٹنے اور گدازیِ دل بڑھنے لگی اور ہماری رنگین مزاجی شوب کھا کر آخر صوفیانہ ہو گئی۔‘ (1932، 29)
مزید لکھتے ہیں کہ:
’اردو کی زبان کھلی تو اس ذکر میں جس کا اخلاق عقلیات و جذبات دونوں کا حامل اور ممدوح فریقین ہے۔ دکھن میں آپ کی زبان بہت قبل وجود میں آئی۔ عادل شاہی (ہمعصر اکبر و جہانگیر) دربار نے وہاں اس کی بنیاد نظم پر رکھوا دی۔ شجاع الدین نوری اُدھر کا وہ زردشت ہے جس کا نام اور کام دونوں نور علی نور سمجھا گیا۔ وہاں بھی آپ کی زبان پھوٹتی اور اس نظم کی بسم اللہ ہوتی ہے تو اُسی ذکر میں جو عشق و معرفت کا سر چشمہ اور ہماری حیات کے لئے آب حیات ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اردو نظم و نثر کی بنیاد اخلاق پر ہے نہ کہ بد اخلاقی پر۔‘ (31)
’’نادر اتحاد‘‘ اور ’’ہماری عورتیں‘‘ ایسے مضامین ہیں جن کے نقوش اولین خیال کے لکھنؤ والے خطبے میں موجود ہیں۔ انھیں بعض اضافوں کے ساتھ تذکروں کی شکل میں علیحدہ شائع کروایا گیا تھا۔ موخر الذکر مضمون کی ابتدا درج ذیل عبارتوں سے ہوتی ہے:
’ہر ملک میں زبان زیادہ تر وہاں کی عورتوں کے قبضہ میں رہی ہے۔ عربی خاتونوں اور فارسی خو زادیوں نے بھی ہمیشہ اپنی تیغ زبان کے جوہر دکھائے۔ ہندی عورتوں نے بھی اپنی بھاکھا میں وہ وہ دوہے سنائے کہ ان سے کٹار اور نیمچے شرمائے۔ یہاں جب فارسی آئی تو ہماری عورتوں نے اسے بھی منہ لگایا اور جب اردو پھیلی تو اسے بھی اپنی منہ بولی بیٹی بنایا۔ ان کے گھروں میں اس اردو نے وہ درجہ پایا کہ آج تک وہ ان کی چیز مانی جاتی اور ان کی نشانی سمجھی جاتی ہے!‘ (ہماری عورتیں 1934، 5)
ان تحریروں کا مقصد یہ تھا کہ اردو زبان و ادب کی خدمت کے معاملے میں غیر مسلم ادبا و شعرا اور خواتین کے کارناموں کا برملا اعتراف کیا جائے۔ اس سلسلے میں جو تذکرے اس سے قبل لکھے جا چکے تھے، خیال نے ان ہی کی بنیاد پرتذکروں کی صورت میں یہ مضامین لکھے تھے۔ خطبہ 1916ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو خیال غیر مسلموں اور خواتین کی اردو نوازی کا اعتراف کرنے والوں کی اولین صف میں شامل نظر آتے ہیں۔ عشرت لکھنوی (ہندو شعرا) اور ناظر کاکوروی (اردو کے ہندو ادیب) کی کتاب اور رسالے کی اشاعت اس کے بہت بعد ہوئی تھی۔ ’ہماری زبان‘ میں انھوں نے بہار، بالخصوص عظیم آباد کی اردو کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
خیال کی کم و بیش سبھی تحریریں رسائل کے مدیران کرام کے نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی تھیں۔ متذکرہ مضامین کے ساتھ بھی رسالہ ’ندیم‘ کے مدیر کی جانب سے ادارتی نوٹ شامل ہے۔ ’’ہماری زبان‘‘ کے سلسلے میں عرض کیا گیا ہے کہ اس مضمون سے ’’جناب ارژنگ کی تاریخ دانی، واقعات پر عبور، تفاصیل پر نظر، معلومات کی فراوانی اور زبان اردو سے والہانہ الفت ہویدا ہے۔ مضمون میں زبان ایسی پیاری استعمال کی گئی ہے کہ شیرینی اور لطافت ٹپکی پڑتی ہے‘‘۔ ’’نادر اتحاد‘‘ اور ’’ہماری عورتیں‘‘ کے سلسلے میں اداریہ کے الفاظ دیکھیے:
’اس ماہ میں ہم نہایت ہی فخر کے ساتھ اس قابل قدر مضمون کو شائع کرتے ہیں جو ’داستان اردو کا ایک ورق: نادر اتحاد‘ کے عنوان سے نواب صاحب نے عنایت فرما کر نہ صرف ہمیں بلکہ دنیائے ادب کو اپنا رہین منت فرمایا ہے۔ مضمون کی اہمیت اور اس کی ادبی حیثیت کے متعلق صرف یہی کہنا کافی ہے کہ ہندو شعرا کے حالات و کلام کو نواب نصیر حسین صاحب خیال کے قلم نے صفحۂ قرطاس پر لایا ہے۔ آج جو اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کو پروان چڑھانے میں کس طرح ہندو ادبا اور فضلا نے کافی حصہ لیا ہے۔ اس مضمون کے علاوہ داستان اردو کا ایک اور ورق ایک اچھوتا، دلچسپ ادبی مضمون ’ہماری عورتیں ‘ کے عنوان سے بھیج کر جو ہماری ہمت افزائی کی ہے، ہمارے پاس الفاظ نہیں جو ان مخلصانہ کرم فرمائیوں کا شکریہ ادا کریں۔‘ (نظرات (2) 1934ء، 3)
’’ہماری زبان‘‘ کے متعلق خود خیال کے الفاظ ہیں کہ ’’وہ مضمون یوں لکھا گیا ہے جس طرح بے تکلفانہ خط لکھتے ہیں۔ پھر یہ بھی تہیہ کر لیا گیا تھا کہ ہمارا قلم نہ معلوم ہو‘‘۔ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری زبان‘ والا مضمون آپ اگست کے ’ندیم‘ میں چھاپ رہے ہیں۔ مجھے امید نہیں کہ بہار اس سے فائدہ اٹھائے، اس لئے کہ وہ ’زمین‘ اِدھر 40، 30 سال سے وہ دماغ نہیں پیدا کرتی جس کی ایک ایسے خود رو صوبہ کو ضرورت ہے۔ بہر کیف، اس مضمون کے نہ چھپنے سے اس کا چھپ جانا بہتر ہے۔‘ (مکتوبات مشاہیر 1999، 33)
مضمون ’’نادر اتحاد‘‘ کے سلسلے میں خیال نے مدیر کو لکھا تھا کہ:
’نادر اتحاد‘ والا مضمون جاتا ہے۔ خیر، شائع کر دیجیے۔ لیکن محض ’تماش بینوں ‘ کو ایسی چیزیں کیا پسند آئیں گی۔ جو محض ’تخیلات‘ پر گزارہ کر رہے ہوں وہ کسی ریسرچ کی کیا قدر کر سکتے! ایسی محنتوں کی کیا داد دے سکتے ہیں۔ اسی لئے میں نے جا بہ جا اس میں ادب کی چاشنی بھی ذرا بڑھا دی ہے کہ اس مزے میں شاید وہ پڑھا جا سکے۔ لیکن میں نئے لوگوں کی جگہ لینا پسند نہیں کرتا۔ نوجوان نکل رہے ہیں۔ وہ بڑھیں اور میدان لیں۔ میں تو اخیر صف اور پنشن خواروں کی فہرست میں آ چکا۔ یہ محض آپ کی خاطر تھی اور پھر وعدہ کا خیال تھا کہ مضمون جا رہا ہے۔‘ (مکتوبات مشاہیر، 33)
’’داستان اردو‘‘ کے جتنے بھی حصے علیحدہ مضامین کی شکل میں شائع ہوئے ان سب میں ہندوستان کی ہزاروں سال کی ثقافت کی تاریخ کو سمیٹ کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ زبان اردو اور اس لحاظ سے مسلمانان ہند کی ثقافت کو یہاں کی مٹی کی بو باس سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مزید بر آں، ہندوستانی رزمیوں، جاتک کتھاؤں ہی نہیں مذاہب و ثقافت عالم نے بھی اردو زبان و ادب کی نشو و نما میں اپنے اپنے کردار ادا کیے ہیں۔ اس سے متعلق تمام مضامین میں خیال نے زبان و بیان کی منفرد راہ اختیار کی ہے جس کی روشنی میں انھیں مولانا محمد حسین آزاد کے اسلوب کا مقلد کہنا کسی بھی صورت میں روا نہیں ہو سکتا۔ غور طلب ہے کہ لکھنؤ کے خطبۂ صدارت سے قبل ایسی کوئی تحریر انھوں نے شائع نہیں کی تھی۔ زمانی اعتبار سے اس سے فوراً قبل جو تحریر شائع ہوئی تھی وہ ’’خالاؤں کا مارا آغا‘‘ ہے جس میں انھوں نے لسانی تجربے کیے تھے اور فارسی و اردو کی آمیزش پیش کی تھی۔ خطبہ میں ان کا اسلوب بالکل مختلف ہو جاتا ہے اور جب اس سے متعلق حصے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے ہیں تو ان میں بھی وہی اسلوب نگارش موجود رہتا ہے جس کی تعریف رشید احمد صدیقی نے بھی کی تھی۔ یہی انداز بیان ’’داستان عجم‘‘ کی اشاعت تک قائم رہتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان زمانوں کے ناگفتہ بہ حالات میں تمام مضامین میں اردو کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خطبہ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’ایک دو صدی نہیں بلکہ آپ کی زبان کا پورے چالیس صدیوں کا قصہ اور اس کی تدریجی ترقی کا حال ابھی چند منٹ میں آپ کے سامنے پیش ہونے والا ہے اور اسے سن کر اپنی تعلیم اور اپنے سیاسیات پر بھی غور کرنے کا آپ کو موقع ملے گا۔ کوئی زبان ہو جب تک وہ سلطنت کی زبان اور کسی قوم کے تعلیمی ضروریات کو پورا نہ کر سکتی ہو اس کی بزرگی و اہمیت دیرپا نہیں ہو سکتی۔ چار ہزار برس کی محنت اور ہزار سال کی متفقہ کوشش کے بعد اس اردو کو آپ پراکرت کے معمولی درجہ سے ترقی دے کر لینگویج کے رتبہ تک لا چکے ہیں۔ اور اب آپ کا فرض یہ ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو اپنی زبان کو نئی اور موجودہ ضروریات کے مطابق بنا ڈالیے۔ مشاعروں کی واہ واہ اور مجلسوں کی آہ آہ سے اب ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ اوس سے پیاس نہیں بجھ سکتی۔ ہم کو کچھ اور کرنا اور اس زبان کو کچھ اور بنانا ہے۔ انجمن ترقی اردو اپنے نئے اور کارگزار سکریٹری کے ہاتھ میں آ کر اس طرف اقدام کر چکی ہے اور میں نہایت مسرت سے اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ حامیِ زبان اردو ایک دار المصنّفین کے قائم کرنے پر مستعد ہیں۔‘ (داستان اردو: پہلی قسط 1917، 59)
اصل مقصد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ اصل مقصود ہندیوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینا اور ایک ایسی اردو یونیورسٹی کا قائم کرنا ہے جس کی تحریک آج سے پچاس برس قبل یعنی 1867ء میں علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی اور برٹش انڈین ایسوسی ایشن کی متفقہ کوشش سے عام ہو چکی اور گورنمنٹ تک جاچکی ہے‘‘۔ بعد ازاں حافظ محمود شیرانی کا نظریۂ ارتقائے اردو دہراتے ہوئے اس پہلو پہ اصرار کرتے ہیں کہ جب اس زبان کے ڈانڈے اس ملک کی مٹی میں ہی پیوست ہیں تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی زبان کے ذریعہ سے اس ملک کا صحیح اور اصلی کیرکٹر قائم و برقرار رکھا جائے۔ اس کے لئے برنارڈ شا یا اوسکر وائلڈ کو پڑھنے کی ضرورت نہیں بلکہ تلسی اور انیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مکمل خطبہ اسی مفروضے پر قائم ہے۔ اردو کی نشو و نما کے نشیب و فراز پہ گفتگو کا انداز داستانی اسلوب کا حامل ہے لیکن یہاں ان کا مقصود یہ کبھی نہیں رہا کہ وہ تاریخ زبان بیان کریں۔ وہ چاہتے تھے کہ زبان کے فروغ کی ایسی تصویر پیش کی جائے جس میں ہر کہ و مہ، شاہ و مصاحب اور تمام مذاہب و ملل کی عملداریاں نمایاں کی جا سکیں۔ تاریخی غلطیوں سے قطع نظر، اس ادق موضوع پر مجمع عام سے مخاطبت کے لئے جس زبان اور بیان کی ضرورت تھی، خیال اس پہ قدرت رکھتے تھے۔ داستان اردو کے مختلف حصوں میں ان کے اسلوب کا یہ حسن بکھرا پڑا ہے۔ غیر آریوں کا ذکر ہو تو لب و لہجہ مختلف، مہا بھارت کے تذکرے ہوں تو الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی ساخت الگ، صوفیائے کرام اور بادشاہوں کی گفتگو ہو تو الفاظ کا شان نزول جدا، مغلوں کا بیان ہو تو آداب اسلوب منفرد، معاصر عہد موضوع بنتا ہے تو زبان و بیان کی نیرنگیوں کے معنی خیز تیور، خطابت میں دانشوری کا مظاہرہ، معاشرتی امور پہ ان کی دسترس، واقعات کو ایک دوسرے سے متحد کرنے کی سلیقہ مندی، خیال آفرینی، تدبر، خوش بیانی و سلاست طرازی، ملاحت و شائستگی اور حسب ضرورت سخت کلامی، یہ سبھی ایسے اجزا ہیں جن سے خیال کا اسلوب نمو پاتا ہے۔ اس کی مثال کے طور پر داستان اردو سے متعلق مختلف مضامین سے چند حصے دیکھیے۔
’عرب اپنی آزادی و خود مختاری سے زیادہ اپنی زبان اور اپنے لٹریچر کے لئے مشہور رہے ہیں۔ اسی زبان آوری کے بل پر انھوں نے اپنے سوا ساری دنیا کو عجم (گونگا) کہا۔ قدرت نے بھی ان کا ساتھ دیا اور جو کتاب انھیں عطا کی گئی اس کا ادب بھی دنیا میں عدیم النظیر تسلیم ہوا۔ عرب و ادب، دو متضاد چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونوں لازم و ملزوم کی طرح دنیا کے ہر شعبہ اور گوشہ میں ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔ ان کے صحرائی بادیہ نشینوں سے لے کر، شہری اور محلوں کے مکینوں نے، ان کے علما و جہلا نے، ان کے مردوں اور عورتوں نے، ان کے بڈھوں اور بچوں نے، ان کے امیروں و غریبوں نے اور ان کے مولیٰ و موالی (غلاموں) نے فطرت کے اس بڑے عطیہ یعنی جذبات کی شاعری کی ہمیشہ پرستش کی اور سفر میں، حضر میں، خوشی میں اور رنج میں، صلح کے میدان اور جنگ کے مصاف میں وہ ان کی طبیعت ثانیہ بنی رہی ہے۔‘ (65)
’راجہ داہر کی جنگ و شکست پرانی تاریخ ہند کا اخیر ورق اور عربی و ترکی و ایرانی خروج کا دیباچہ اور غیر اقوام سے نئے ارتباط و تعلق اور پائیدار رشتہ کے پیدا و قائم ہو جانے کا دلچسپ عنوان ہے۔ اس ملک میں اب تک باہر کی بیٹیاں آئیں اور اپنی زبان ساتھ لائیں تھیں۔ مگر اب ہوا پلٹی اور ہند کی بیٹیاں بھی باہر نکلیں اور اس ایکسچینج کی بدولت زبانوں کا سکہ دونوں جگہ کرنسی ہونے اور بھنّے لگا۔‘ (67)
’اس دُوا دَوی میں بھاشا، فارسی پر سبقت لے گئی اور اپنے اصول و ساخت توڑے اور بدلے بغیر چل نکلی۔ اپنے ساتھی فارسی کی سرکار سے رفتہ رفتہ اس نے وہ کل لوازمات اور ضروریاتِ زندگی کے وہ ساز و سامان حاصل کر لئے کہ اس کی دوکان کا خریدار و گاہک اور طرف کا محتاج نہ رہا۔ اس کا بازار عام و وسیع ہو کر گرم ہوا اور آخر وہ اردو بنا جسے دیکھ کر ترکی دنگ اور مغل شرمندہ رہ گئے۔‘ (داستان اردو: دوسری قسط 1917، 138)
’حاکم زبانیں محکوم زبانوں سے بہت کم دبتی ہیں۔ عربی بھی فارسی سے زیر نہیں ہوئی۔ مگر ہند کی خاک بڑی عناں گیر ہے۔ اس نے ترکیوں فارسیوں کا لباس ہی نہیں اتارا اور ان کا ہتھیار ہی نہیں کھولا بلکہ ان کی شمشیر زبان کو یہاں کا پتھر بھی چٹا چھوڑا۔‘ (146)
’صاحبو! یہ وہی نوری ہے جس نے آپ کی زبان کو روشن و منور کیا اور یہی وہ پہلا خیاط ہے جس نے وہ جامہ قطع کیا جو آپ کی اردو کے قدِ موزوں پر درست و چست نظر آیا اور اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کی بنا اخلاق پرہے اور اس (اردو) کی زبان پھوٹتی ہے تو اس ذکر میں جس ذکر نے عالم میں ایک صحیح و سادہ اخلاق پھیلایا اور ہمیشہ پھیلاتا رہے گا۔ صاحبو! موجودہ زبانوں میں سوا اردو کے کسی کو یہ شرف حاصل نہیں کہ اس کے نظم و نثر کی بنیاد کسی اخلاق پر رکھی گئی ہو۔‘ (داستان اردو: تیسری قسط 1917، 174)
’حق کہا ہے امیر المؤمنین نے کہ ان الزمان مفرق الاحباب اور آخر اسی ناہنجار زمانہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے بھائی چارے میں بھی خلل و افتراق ڈالا۔ یہ اردو جو ان دو قوموں کی متفقہ کوشش کا نتیجہ اور یہ زبان جو ان کے اتحاد کا بڑا سبب تھی، تفرقہ پردازوں نے اسے کمزور کرنا چاہا۔ صدیوں سے آپس میں ایک بے نظیر سمجھوتا ہو چکا تھا اور دونوں اس پر کاربند تھے مسلمانوں نے محبت و خلوص کے برقرار رکھنے اور دوستی کے قائم رہنے کی آرزو میں ایثار کی انتہا کر دی۔ اپنی اصلی زبان عربی، فارسی، ترکی کو ہمیشہ کے لئے انھوں نے بھلایا اور ملکی اور اپنے عزیز بھائیوں کی زبان کو بے تکلف یاد کر لیا۔ ہندوؤں نے اس کا لاجواب جواب دیا۔ اور آپس کی کشش کے قائم و دائم رہنے اور جذبات سرد نہ ہو جانے کی خاطر بلا پیش و پس انھوں نے اپنے ان بھائیوں کے وہ حروف اختیار کر لیے جو سامی عہد کے یادگار اور ایک قدیم قوم کو ایک دوسری پرانی قوم سے ملانے والے اور دونوں کو ایک ہی صف و مسطر پر کھڑا کر کے دنیا کو یکجہتی کا سبق دے رہے تھے۔‘ (186-87)
’اودھ پنچ‘، ’حسن‘، اور ’آفتاب‘ کے بعض مضامین مجھے حاصل نہیں ہو سکے۔ تاہم جتنے بھی دستیاب ہو سکے ہیں ان کے موضوعات، نقطۂ نظر نیز اسلوب و انشا اور ان میں واقعات کو پرونے کی خیال کی سلیقہ مندی کے مد نظر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ خیال نے تاریخ ادب پہ تبصرہ کی صورت میں ثقافتی شیرازہ بندی کی بے مثل نظیریں پیش کی ہیں۔ خیال کے مضمون ’’میر ضاحک‘‘ سے قبل ادارتی نوٹ میں حسرت کے الفاظ ہیں:
’مخدومی نواب سید نصیر حسین صاحب خیال بالقابہ دورِ حاضرہ کے بے نظیر انشا پرداز، بلند پایہ محقق، ایک روش خاص کے موجد، اور طرز میں مقلد نہیں بلکہ مجتہد ہیں۔ آپ کے انداز تحریر کے متعلق عرض کرنا گویا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے۔ ’’آفتاب‘‘ کو آپ کی ذات گرامی سے بہت کچھ توقعات ہیں اور امید ہے دنیاے علم کا یہ ناچیز ذرہ نظر انور سے فروغ پاتا اور اپنے صحیح معنوں میں آفتاب کہلاتا رہے گا۔‘ (میر ضاحک 1926، 3)
خیال کے اسلوب نگارش کے سلسلے میں وہ فرماتے ہیں کہ:
’خیال کبھی کوئی پرانا قصہ بیان کرتے تھے تو سماں باندھتے تھے اور لکھنے بیٹھتے تھے تو موتی رولتے چلے جاتے تھے۔ نثر میں ان کا انداز محمد حسین آزاد سے بہت ملتا جلتا ہے لیکن آزاد اپنی تحریروں کو بہت کاٹ چھانٹ کے بعد شائع کرتے تھے۔ انھوں نے جہاں کوئی چیز قلم برداشتہ لکھی ہے اس میں ان کے حقیقی انداز کی جھلک تک نظر نہیں آتی۔ ان کے خطوں کا مجموعہ’ مکتوبات آزاد‘ کے نام سے چھپ گیا ہے۔ دو تین خطوں کے سوا باقی سب پھیکے ہیں۔ خیال کا یہ حال نہیں تھا۔ وہ قلم برداشتہ بھی لکھتے تھے تو ماہر فن مرصع نگار کی طرح الفاظ کے نگینے جڑتے چلے جاتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے دوستوں کو وقتاً فوقتاً جو خط لکھے ہیں ان میں بھی عجب کیفیت ہے۔ کئی مضمون انھوں نے مجھے لکھوا دیے اور نظر ثانی کیے بغیر چھپنے بھیج دیے۔‘ (حسرت 1939، 39-40)
خیال کے زیادہ تر مضامین میں ثقافتی بو قلمونی کا ایسا آہنگ موجود ہے جو اپنے قاری کو دعوت غور و فکر بھی دیتا ہے اور ماضی کی مستحکم معاشرتی آمیزشوں کے فہم کا سلیقہ بھی عطا کرتا ہے۔ مذہبی امور میں اصلاح کی کوششوں سے شروع ہونے والا خیال کے مضامین، خطبات و مکتوبات کا سلسلہ اس اضطراب کی آئینہ سازی بھی کرتا ہے جسے وہ ایک دانشور کی حیثیت سے محسوس کرتے رہے۔ ان کی نگاہیں ثقافت و معاشرت کے جن پہلوؤں پہ ٹکی تھیں، اور وہ قلم و بیان سے جس دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے رہے اس سے ظاہر ہے کہ معاشرے کے ضمیر کو زندہ رکھنے کے لئے مسلمانان ہند اور برادران وطن کو دائمی اخوت و محبت کا پیغام دینا ہی ان کی نگاہ میں اردو اور مسلمانوں کے استحکام کے لئے واحد راہ عمل تھا۔
٭٭٭