اندھیرے جنگل میں عبدل، نندی کو ڈھونڈتا ہے لیکن نندی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ عبدل تھک ہار کر ایک گھنے درخت کے تنے کے سہارے حیران کھڑا ہو جاتا ہے۔ خاصی رات ہو گئی ہے۔ وہ نندی کے خیال میں کھو جاتا ہے۔
عبدل: ٹھہرو نندی!
ٹھہرو نندی کہاں چلی ہو؟
رستہ بھول نہ جانا!
نندی: کنویں میں نہ جھانکو!
عبدل: وہ دیکھو وہ ریت پہ بڑھیاں دَوڑ رہی ہیں!
اکبر: میں کنچ گھر جا رہا ہوں عبدل!
تمھارا پیغام بھیج دُوں گا
بڑی اندھیری ہے آج کی شام
آندھی آئے گی!
نندی: ادھر گرد سی اُڑ رہی ہے
چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں
رات ہو گئی ہے
(اتنے میں لوگوں کا شور سنائی دیتا ہے اور وہ جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں)
عبدل: کم بختوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے
کیسے بھاگوں ؟
آگ ---- آگ ---- آگ
چاروں جانب آگ کا دریا
کہاں ہو نندی؟
بولو نندی کہاں چھپی ہو!
باہر جاؤں!
لیکن نندی!
نندی مر جائے گی عبدل!
ایک آواز: اُلٹے پاؤں پلٹ جا عبدل!
نندی اب نہ ملے گی
اس کی قسمت میں جلنا ہے
اُلٹے پاؤں پلٹ جا!
عبدل: لیکن نندی! اُسے اکیلا چھوڑ کے جاؤں!
نہیں نہیں! میں جل جاؤں گا!
جل جاؤں گا!
جل جاؤں گا!
آواز: آگ کسی کی میت نہیں ہے
اپنی جان بچا لے عبدل!
نندی اب نہ ملے گی
اندھی آگ کا رستہ چھوڑ کے راتوں رات نکل جا پیارے
وہ رستہ ہے!
اب آواز نہ دینا عبدل!
نندی اب آواز نہ دے گی!
وہ رستہ ہے!
اِس رَستے سے دریا کے اُس پار اُتر جا!
آگ کے منہ پہ آنکھیں نہیں ہیں
آگ ہے اندھی
آگ ہے بہری!
اپنی جان بچا لے عبدل
وہ رستہ ہے!!