’’اس بیگ میں وہی سب کچھ ہے جس کی چاہ میں تم نے مجھ سے شادی کی۔ مجھے دھوکا دینا چاہا۔‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ بولا۔ عبیر کے چہرے پر تاریکی چھاگئی۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور ایک دم جھکتے ہوئے اس کے پیروں کو اپنے کانپتے سرد ہاتھوں میں جکڑ کر کہا تھا۔
’’میری اس دن کی باتوں پرمجھے معاف کردیں۔ اسامہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے‘ مجھے گھر سے نہ نکالیں۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے ماردیں مگر یہ سزا نہ دیں۔‘‘ وہ اس کے پیروں سے لپٹ گئی تھی اور زارو قطار روتے ہوئے بار بار یہی التجا کررہی تھی۔
’’میں تم جیسی عورت کو اب مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ میرے لیے یہ فیصلہ ناگریز ہوچکا ہے۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بے اعتنائی سمیت اس کے ہاتھ جھٹک کر فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ عبیر کے آنسوئوں میں شدت آنے لگی۔
’’میری بات کا یقین کریں اسامہ! میں نے آپ کو کوئی دھوکا نہیں دیا۔ میں آپ کے پاس غلط ارادے سے بھی نہیں آئی تھی۔ میں آپ سے شادی سے پہلے تک ان چھوئی تھی۔ یہ بچہ آپ کا ہی ہے لیکن اگر آپ ایسا نہیں چاہتے میں ابارشن کے لیے بھی تیار ہوں لیکن خدا کے واسطے مجھے یہاں سے نہ نکالیں۔ میں نے خدا سے ہمیشہ عزت و آبرو کی حفاظت کی دعا مانگی ہے۔ مجھ سے یہ تحفظ نہ چھینیں۔‘‘ وہ بلک رہی تھی تڑپ رہی تھی۔ اسامہ کی آنکھیں سلگنے لگیں۔
’’تم جھوٹی ہو‘ دغا باز ہو‘ تم اگر ایسی نہ ہوتیں تو اس تقریب میں مجھ پر ڈورے ڈالنے نہ آتیں۔‘‘ وہ زور سے پھنکارا تھا‘ عبیر ساکت رہ گئی۔
’’میں اس رات مجبور کردی گئی تھی‘ مام نے مجھے دھمکی دی تھی اگر میں اس تقریب میں نہ گئی تو مام اپنے پرانے گاہک کو بلوا کر اسی رات میری عزت کا دامن داغ دار کردیں گی۔ اسامہ بلیو می میں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر ایک بڑے گناہ سے بچ کر نسبتاً چھوٹا گناہ کیا تھا۔ میں آپ کومائل کرنے نہیں آئی تھی‘ میں اپنی عزت کی حفاظت کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘ اس نے گڑگڑاتے ہوئے اپنی ذات پر پڑا پردہ اٹھا کر ایک اور حقیقت آشکار کی تھی۔ اسامہ ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ پھر کاندھے اچکا دیئے تھے۔
’’تم کہہ سکتی ہو‘ مجھے تمہاری بات کا یقین نہیں ہے۔‘‘ اور عبیر سن پڑے لگی تھی۔ اس کی ماں نے اس کے وجود میں جو سوئیاں گاڑھی تھیں وہ انہیں اگر کھینچ کر نکالتی بھی تھی تو فائدہ نہیں تھا۔ متاثرہ جگہ سے خون کی پھوار نکلتی تھی اور درد میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔’’میں آپ سے ساری زندگی کچھ نہیں مانگوں گی۔ اسامہ! سوائے اس کے کہ اس چار دیواری اور اپنے نام کا تحفظ مت چھینیں۔ میری صرف یہی ایک بات مان لیں‘ میں قسم کھا کر کہتی ہوں اگر اللہ نے خودکشی کو حرام نہ کیا ہوتا تو اس زندگی سے میں موت کو گلے لگا کر چھٹکارا پالیتی۔‘‘ بے بسی کا شدید احساس ایک بار پھر اسے رلانے لگا تھا۔ اسامہ کچھ دیر ہونٹ بھینچے خاموش بے تاثر نظروں سے اسے تکتا رہا تھا پھر وہ واپس پلٹ گیا۔ وہ اسے پرکھنے اسے آزمانے آیا تھا۔ وہ اس آزمائش میں بھی پوری اتری تھی مگر اس کے اندر ابھی اتنی گنجائش پیدا نہیں ہوسکتی تھی شاید کہ وہ اسے معاف کردیتا۔ اس کی سزا میں تخفیف کردیتا اور عبیر‘ وہ اس میں خوش ہوگئی تھی کہ اس نے اسے حویلی سے نہیں نکالا تھا۔ اس سے اپنے نام کا مان نہیں چھینا تھا۔
…٭٭٭…
مسز ملک کے تاثرات سے خفگی اور غصہ چھلک رہا تھا‘ ڈرائیور کے ہمراہ وہ حویلی جارہی تھیں۔ انہوں نے اسامہ کو فون پر گفتگو کرتے سنا تھا‘ وہ ملازم سے مخاطب تھا اور عبیر کے متعلق بات کررہا تھا‘ تب انہیں اندازہ ہوا تھا وہ بد کردار لڑکی اپنی ماں کے ساتھ فرار نہیں ہوئی تھی بلکہ اسامہ کے قبضے میں تھی۔ اسامہ جو ان کا باوقار وجیہہ اور شان دار بیٹا تھا۔ وہ اس کے لیے ہر گز بھی کسی ہلکے کردار کی لڑکی کو قبول نہیں کرسکتی تھیں۔
اسامہ کی بیوی ان کی نسل کی امین تھی اور وہ ہر گز کسی گھٹیا لڑکی کو قبول نہیں کرسکتی تھیں۔ آج اسامہ کی جو بات چیت سنی تھی اس سے انہیں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اسامہ کے دل میں اس کی گنجائش پیدا ہورہی تھی۔ وہ اسے ایک کمرے کی حدوں سے نکال کر حویلی میں اپنی مرضی کی زندگی کی اجازت دے رہا تھا آج اگر وہ اسے حویلی میں یہ رعایت دے رہا تھا تو کل واپس اپنے گھر میں بھی لاسکتا تھا اور یہی انہیں گوارا نہیں تھا۔
’’کہاں ہے وہ لڑکی! جو یہاں اسامہ نے رکھ چھوڑی ہے؟‘‘ وہ حویلی پہنچی تھیں تو ملازموں کو لائن حاضر کرلیا تھا۔ جو مالکن کو اچانک اور غیر متوقع طور پر سامنے پاکر اور غصے میں دیکھ کر فطری گھبراہٹ کا شکار ہوچکے تھے۔
’’بیگم صاحبہ وہ لڑکی اندر کمرے میں ہے۔‘‘ ملازم نے گھگھیا کر بتایا تو وہ اسے گھورتی تن فن کرتی کمرے میں آن گھسیں۔ وہ سامنے ہی جائے نماز پر بیٹھی تھی۔ ہاتھ دعا کو پھیلے تھے اور آنکھوں سے آنسو زارو قطار بہہ رہے تھے‘ وہ تلملا سی گئیں۔
’’ان ڈراموں سے تم اسامہ کو تو متاثر کرسکتی ہو مگر مجھے نہیں‘ سمجھیں تم…‘‘ انہوں نے وحشیانہ انداز میں اسے جائے نماز سے گھسیٹ لیا تھا۔ عبیر کی آنکھیں خوف ودہشت سے پھٹ سی گئیں۔
’’مجھے معاف کردیں امی! میں مجرم ہوں آپ کی۔‘‘اس کی بات ان کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی بدولت ادھوری رہ گئی‘ پھر ہاتھ رکا نہیں تھا۔
’’بکواس بند کرو‘ خبردار جو معافی کا لفظ منہ سے نکالا۔ تمہاری وجہ سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔‘‘ وہ زور سے پھنکاریں اور ا سے بالوں سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا وہ سنبھلے بنا سر کے بل جاکر گری‘ سر کے پچھلے حصے میں شدید چوٹ آئی تھی۔ جبھی خون کا فوارہ سا ابل پڑا۔
’’رحم بیگم صاحبہ!چھوٹی بی بی نہ صرف دوجی سے ہیں بلکہ روزہ دار بھی ہیں۔‘‘ ان کے پیر کی زور دار ضرب سے وہ جس طرح تڑپ کر اذیت سے دوہری ہوتی‘ ملازمہ خاموشی سے یہ تماشا نہیں دیکھ سکی۔ عبیر کی رنگت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سفید پڑنے لگی تھی۔ مسز ملک نے تند نظروں سے عبیر کو دیکھا تھا۔ پھر تنفر بھرے اندا زمیں منہ پھیرلیا۔
’’روزے اور نماز سے کالے کرتوت نہیں چھپائے جاسکتے۔ بہرحال جتنی جلدی ہوسکے دفع ہوجانا یہاں سے۔ اسامہ کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے بہتر ہوگا تم بھی اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاکر ان کاکاروبار چمکائو۔‘‘ ان کے لہجے میں حقارت بھری ہوئی تھی۔ عبیر کو سب سے زیادہ تکلیف اسی بات پر ہوئی تھی۔جبھی کچھ دیر قبل کی ذلت اور سبکی کے ساتھ تکلیف بھی فراموش کرکے ان کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا پڑی تھی۔
’’میں بے قصور ہوں‘ خدا کی قسم ! میرا یقین کریں‘ مجھے کچھ نہ دیں‘ اس گھر سے نہ نکالیں‘چاہے ملازم کی حیثیت سے رہنے دیں۔ آپ کو خدا کاواسطہ ہے۔‘‘ زارو قطار رو رہی تھی۔ مسز ملک نے پرسوچ اور جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ سر تاپا کا نپی تھی اور رحم طلب نظروں سے انہیں دیکھتی رہی تھی۔ انہوں نے ہونٹ بھینچے اور منہ پھیرلیا۔
’’سعدیہ! اسے میں یہاںرہنے کی اجازت دے رہی ہوں مگر یہ یہاں ملازم کی حیثیت سے رہے گی۔‘‘ انہوں نے حکم سنایا تھا اور واپس پلٹ گئیں۔ ان کے خیال میں یہ رحم دلی کی انتہا تھی۔
…٭٭٭…
بہت پر تپش اور حبس زدہ شام تھی۔ افطار میں ابھی خاصا وقت تھا۔ اس کے علاوہ وہاں اکثر ملازمائوں کے روزے تھے۔ وہ سحر و افطار میں خود سارا کھانا بنانے کا انتظام سنبھالا کرتی تھی۔ یہ اس کا اچھا سلوک اور نرم رویہ ہی تھا کہ وہاں موجود سب ملازم اس کی عزت کرتے تھے اور اسے مالکن کی حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے سے برتر یعنی مالکوں کی طرح توقیر کیا کرتے تو وہ شرمندہ ہونے لگتی تھی۔
اس نے شربت بنانے کے بعد فریج میں رکھا اور خود پائپ لگا کر صحن میں چھڑکائو کرنے لگی تبھی حویلی کے اندرونی دروازے سے اسامہ اندر آیا تھا۔ پائپ عبیر کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ماں کے بعد بیٹے کے تیور پتا نہیں کتنے بُرے ہوتے۔ خوف اس کی رنگت میں زردیاں بھرنے لگا۔
’’السّلام علیکم!‘‘
اسامہ کے نزدیک آنے پر اس کے ہونٹ کپکپائے تھے۔ نظریں مجرموں کے انداز میں جھک کر قدموں سے جاملی تھیں۔
’’وعلیکم السّلام ! کیسی ہو؟‘‘
سوال ہوا تھا اور وہ غیر یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔
’’اتنا مشکل سوال پوچھ لیا ہے کہ یوں خوف زدہ نظر آنے لگو‘ شوہر ہوں تمہارا سخت غصیلا ٹیچر نہیں۔‘‘ اس کا سر تھپک کر وہ خفیف سا مسکرایا۔ عبیر کا سکتہ ٹوٹا مگر حیرت ہنوز تھی۔
’’تم قابل بھروسا نہیں ہو عبیر! مگر میں تمہیں موقع ضرور دینا چاہوں گا‘ پتا نہیں کیوں مگر میں تم سے دھوکا کھانے کو بھی تیار ہوں۔‘‘ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اندر لے آیا تھا اور گہرا سانس بھر کے آہستگی سے کہہ رہا تھا۔ عبیر کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔ اسے یقین نہیں آسکا تھا اسامہ نے ہی کہا جو ابھی اس نے سنا۔
’’ممی بہت خفا ہیں مگر انہوں نے گنجائش نکالی ہے۔ میں چاہتا تو تمہیں یہاں سے نکال سکتا تھا طلاق دے کر۔ مگر میں ایسا نہیں کررہا۔ معاف کرنا خدائی وصف ہے اور خدا معاف کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔ میں نہیں جانتا میں اتنا اعلیٰ ظرف کیونکر بن رہا ہوں اور میں اس اعلیٰ ظرفی پر قائم رہوں گا کہ نہیں‘ تم دعا کرنا میں اس پر قائم رہ سکوں۔‘‘ وہ رسانیت سے کہہ رہا تھا عبیر کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر شدت جذبات سے کچھ بولانہیں گیا۔ آنسو اس کے ہر جذبے کے مظہر بن گئے تھے۔
’’پیچھے پلٹ کر دیکھوں تو مجھے اپنی زندگی میں کوئی نیکی کوئی ایسا کام نظرنہیں آتا جو میں نے خالصتاً خدا کے لیے کیا ہو‘ تم کہہ سکتی ہو یہ درگزر یہ معافی میں نے خدا کی رضا حاصل کرنے کو دی ہے۔ ’’وہ‘‘ دلوں میں گنجائش نکالنے والا ہے۔ مجھے تمہارے معاملے میں اعلیٰ ظرفی پر قائم رکھے‘ تم دعا کرو گی نا؟‘‘ وہ سوال کررہا تھا۔ اسی پل فضا میں مغرب کی اذان کی مقدس آواز گونج اٹھی۔ اس نے پوری آمادگی کے ساتھ سر ہلایا تھا۔ اسامہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا۔ وہاں جہاں سب ملازمین جمع تھے اور روزہ افطار کررہے تھے۔ اسامہ نے پلیٹ سے کھجور اٹھا کر خود اس کے منہ میں ڈالی تھی۔
’’آج میرا روزہ نہیں ہے‘ میں گرمی میں روزہ نہیں رکھتا۔ مگر کل تم مجھے سحری کے لیے ضرور جگانا۔‘‘ وہ اسے تاکید کررہا تھا۔ عبیر کے دل میں جیسے ڈھیروں سکون اتر آیا۔ اس کی ساری دعائیں مستجاب ہوئی تھیں بلکہ خدا نے اسے اس کی اوقات سے بڑھ کر نواز دیا تھا۔ عید میں ابھی کچھ دن تھے مگر اسے ابھی سے عید سعید کی خوش خبری مل چکی تھی۔ گھپ اندھیرا چھٹا تو سنہری دھوپ نے ہر سمت روشنی پھیلا ڈالی تھی۔
ختم شد