’دلہن کہاں ہے؟‘‘ اسامہ ابھی آفس سے واپس آکر بیٹھا ہی تھا جب مسز ملک نے اس کے پاس آکر حیرانی سے پوچھا۔ اسامہ نے انہیں بھی اس معاملے کی ہوا تک نہیں لگنے دی تھی۔ وہ اتناانا پرست تھا کہ سگی ماں کے آگے بھی بیوی کی بدکرداری کو کھول کر نہیں رکھ سکا تھا۔ سبکی کا احساس اسے ہر وقت کچوکے لگایا کرتا تھا۔ یہ خیال کہ اسے کتنی آسانی سے ٹریپ کرلیا گیا تھا‘ اسے اکثر جنون سے دوچار کرنے لگتا۔ عبیر کو گائوں والی حویلی میں چھوڑنے کے بعد اس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے عبیر کی ماں اور بہنوں کو حوالات میں بند کرادیا تھا۔ اس کا ارادہ ان کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کرکے سخت سزا دلوانے کا تھا مگر بزنس کے سلسلے میں اسے کچھ دنوں ملک سے باہر جانا پڑا تھا۔ اس کی عجلت اور کوشش کے باوجود یہ ٹور طوالت اختیار کرگیا تھا۔ واپس آنے پر سب سے پہلی اطلاع اسے ان عورتوں کی رہائی اور پھر اس علاقے سے بھی روپوش ہونے کی ملی تو سوائے کف افسوس ملنے کے وہ کچھ نہیں کرسکا تھا۔ اس کے بعد اسے فوری طور پر عبیر کا خیال آیا تھا۔
کہیں وہ بھی اپنی شاطرانہ فطرت کی بدولت اس کے ملازموں کو ڈاج دے کر فرار نہ ہوگئی ہو۔ اس خدشے کے پیش نظر اسامہ نے حویلی رابطہ کیا تھا۔ ملازمہ سے بات چیت کرکے عبیر کی طرف سے خیر کی خبر سن کر قدرے اطمینان بھی نصیب ہوا مگر مما کے سوال نے اسے پھر سے جزبز کردیا تھا۔
’’آپ بولتے کیوں نہیں اسامہ! میں تو سمجھی آپ عبیر کو اپنے ساتھ لے کر گئے ہو‘ اگر وہ آپ کے ساتھ نہیں گئی تو پھر کہاں ہے؟‘‘ مسز ملک سوال پر سوال کررہی تھیں۔ اسامہ کے چہرے کے عضلات تنائو کا شکار ہوکر رہ گئے۔
’’مرگئی ہے وہ‘ آپ آئندہ اس کا تذکرہ نہیں کریں گی‘ اوکے؟‘‘ اس نے سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ مسز ملک حیران پریشان سی کھڑی رہ گئیں۔ یہاں عبیر کی فیملی کے متعلق بھی عجیب و غریب باتیں سننے کو ملی تھیں کہ پولیس ان عورتوں کو پکڑ کر تھانے لے کر گئی تھی‘ مسز ملک اگلے دن صورت حال جاننے کو وہاں پہنچیں تو وہاں وہ ملازمہ ملی تھی جو صفائی ستھرائی پر مامور تھی۔ اسی سے مسز ملک کو بس اتنا پتا چل سکا تھا کہ وہ تینوں لڑکیاں اور ان کی ماں آج صبح ہمیشہ کے لیے وہاں سے جاچکی تھیں‘ تب مسز ملک کی پریشانی گھبراہٹ میں بدل گئی تھی۔
’’کہاں چلی گئیں؟ مطلب کچھ پتا ہے تمہیں؟‘‘ انہوں نے مضطربانہ سوال کیے تھے جواب میں ملازمہ نے راز داری سے ان کے نزدیک ہوکر جوکچھ کہا تھا وہ انہیں پریشان کر گیا تھا۔ ملازمہ کے مطابق بیٹیوں کے ذریعے مال دار لوگوں کو لوٹنا ان کا پیشہ تھا ملازمہ ان سے ہمدردی بھی کرتی رہی تھی۔
’’آپ کو رشتہ کرنے سے قبل اچھی طرح چھان بین کرنی چاہیے تھی بیگم صاحبہ!‘‘
مگر وہ لوگ اس طرح کے لگتے تو نہیں تھے‘ تمہیں یقینا غلط فہمی ہوئی ہوگی۔‘‘ انہوں نے اپنے تئیں بات ختم کردی تھی مگر بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ پھر یہ بات انہوں نے ملازمہ کے علاوہ دیگر لوگوں کے منہ سے بھی سنی تھی‘ معزز بیگمات باقاعدہ ان سے افسوس کرنے آئی تھیں اور ناکردہ گناہوں کی ایک طویل فہرست عبیر کے خاندان سے منسوب ہوتی چلی گئی تھی۔ مسز ملک اپنے طور پر یہ فیصلہ کرچکی تھیں عبیر کو اسامہ سے طلاق دلوا کر فارغ کرنے کا۔
…٭٭٭…
اس نے نماز کے بعد دعا کو ہاتھ بلند کیے تو پلکوں پر آنسو جگنو بن کر چمکنے لگے تھے۔ یہ جو کچھ ہوا تھا وہ اس پر شاکی نہیں تھی مگرکبھی کبھی دل بھرانے سا لگتا تھا۔ یہاں کرنے کو اس کے پاس کچھ نہیں تھا اور فراغت اسے پاگل بنانے کو کافی تھی تب اس نے اپنی وحشت سے گھبرا کر رب سے لو لگالی تھی۔
اللہ جو دلوں کے بھید سے آگاہ ہے وہ تو اس صورت بھی اپنے بندے کا منتظر رہتا ہے اگر وہ گناہ گار ہو‘ وہ تو پھر بے قصور تھی۔ اللہ کی یاد سے دل کو سکون دینا چاہا تو جیسے ہر غم سے آزاد ہوگئی تھی۔ پہلے جو ہر وقت دل کو دھڑکا لگا رہتا تھا اسامہ کے کسی بھی انتہائی فیصلے کا اب اس سے بھی گویا چھٹکارا مل گیا تھا۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کے سکون میں فرق نہیں آیا۔ ملازمہ جس کے ذمے اس کا کھانا پہنچانا تھا‘ وہ اس کے دروازے کی چابی کی بھی مالک تھی۔ اس نے سکون سے دعا مانگی تھی پھر منہ پر ہاتھ پھیر کر اٹھتے ہوئے جائے نماز تہہ کرنے لگی۔ سلیقے سے اوڑھے دوپٹہ کے ساتھ اس نے جیسے ہی رخ پھیرا نواڑی پلنگ کی بیک سے ٹیک لگائے اپنی ہی سمت متوجہ اسامہ کو روبرو پاکے وہ اپنی جگہ جیسے ساکن کھڑی رہ گئی تھی۔
اسامہ نظریں اسی پر جمائے اٹھ کر اس کے نزدیک آگیا ۔ عبیر کی صرف نظریں نہیں جھکیں‘ دل بھی دھڑک اٹھا۔
’’بہت اچھا کررہی ہو‘ خدا سے معافی مانگ کر اپنے گناہ بخشوارہی ہو‘ مگر یاد رکھنا میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘ سگریٹ ہونٹوں سے نکال کر جوتے تلے مسلتے ہوئے اس نے سرد آواز میں جتلایا عبیر نے جواب میں چپ سادھے رکھی تو اسامہ کو اس کا یہ سکوت زہر آلود کرنے لگا۔
’’کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم کہ میری باتوں سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟‘‘ اسامہ نے غراتے ہوئے ایک دم اس کی گردن دبوچ لی تھی۔ عبیر اس کی گرفت میں زور سے پھڑپھڑائی۔
’’مجھے معاف کردیں اسامہ میں…‘‘
’’بکواس بند رکھو سمجھیں۔‘‘ اس نے نفرت زدہ انداز میں اسے جھٹک دیا تھا۔ وہ سوفے پر جاکر گری سرسوفے کی ہتھی سے جالگا تھا۔ زمین آسمان جیسے اس کی نظروں میں گھوم گئے تھے۔ مگر آزمائش ختم نہیں ہوئی تھی۔
’’ساجدہ بتارہی تھی تم پریگنٹ ہو‘ بتایا کیوں نہیں تم نے مجھے؟‘‘ وہ کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا۔ عبیر کے اوسان خطا ہونے لگے وہ کہہ نہیں سکی اس نے ایسا کوئی اختیار دیا تھا اسے نہ سہولت مگر زبان تو جیسے گنگ تھی خوف سے مجبوریوں سے۔
’’مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے‘ سن رہی ہو تم جہنم واصل کرو اس گناہ کی پیداوار کو۔‘‘
’’جی…‘‘ عبیر کی آنکھیں حیرت و خوف سے پھٹ سی گئیں۔ اسامہ کے تاثرات مزید خوفناکی سمیٹ لائے تھے۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو مجھے جیسے بہت بڑاکارنامہ انجام دیا ہو۔‘‘ وہ دانت بھینچ کربولا تھا۔ اس کے لہجے میں ایسی تپش تھی جس کی آنچ روح تک سلگا رہی تھی۔
’’یہ ناجائز بچہ نہیں ہے کہ میں اسے ضائع کرادوں اور…‘‘ اس کی بات اسامہ کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی بدولت ادھوری رہ گئی تھی۔ اس کا ہاتھ اس انداز میں عبیر کے چہرے پر پڑا تھا کہ اس کے ہونٹ اور ناک سے ایک ساتھ خون چھلک پڑا تھا مگر اسامہ کی آنکھوں سے پھر بھی نفرت کی چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھیں۔
’’مجھے سبق پڑھانا چاہتی ہو مجھے‘ بدبخت عورت! کیا سمجھتی ہو خود کو‘ مجھے کیا پتا مجھ تک آنے سے قبل تم کتنے مردوں کے دل بہلانے کا کام کرچکی تھیں۔ یہ کس کا گناہ ہے جسے تم میرے سر تھوپنا چاہتی ہو‘ تم جیسی بدقماش عورتوں کے سب ہتھکنڈوں سے بخوبی آگاہ ہوں میں۔‘‘ اس کا لہجہ اس کی نظروں سے زیادہ شدید اور بے لحاظ تھا۔ عبیر گال پر ہاتھ رکھے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھی پھر جانے کیا ہوا تھا‘ وہ خوف و بے بسی جیسے کہیںگم ہوگئی اس کی جگہ طیش اور غیظ و غضب نے لے لی۔ کوئی بجلی سی چمکی تھی اور اس نے آگے بڑھ کر اسامہ کا گریبان پکڑ لیا تھا۔
’’کیا سمجھتے ہو تم خو دکو کہ بہت پارسا ہو اور میں بدکردار عورت ہوں‘ ہاں۔ میں نے بتایا تمہیں اپنی صفائی بھی دی‘ یہ تھی میری پارسائی کی نشانی۔ تم نے جو سلوک کیا میرے ساتھ میں نے اسے خاموشی سے سہہ لیا‘ یہ تھی میری نیک طینت کا اظہار۔ جو بدقماش عورت ہوتی میں تو یہ چار دیواری یہ بند دروازے میرا راستہ نہیں روک سکتے تھے‘ سمجھے تم۔ میں نے سب کچھ سہا‘ صرف اس لیے کہ تم حق بجانب تھے اور میرے دامن پر میرے اپنوں کے کردار کے داغ تھے۔ کیچڑ میں کھلنے والا کنول چاہے پاکیزہ ہو مگر مشکوک ضرور رہتا ہے۔ میں بھی اپنی صفائی پیش کرنے کوثبوت نہیں لاسکتی۔‘‘ جو بات گھن گرج سے تلخی سے شروع ہوئی تھی‘اس کا اختتام پھر اس کے آنسوئوں پر ہوا تھا۔ وہ جیسے تھک گئی تھی‘ اور بُری طرح روتے ہوئے اسے چھوڑ کر فاصلے پر ہوگئی تھی۔ اسامہ کچھ دیر اسے روتے دیکھتا رہا تھا پھر کچھ کہے بغیر پلٹ کر باہر چلا گیا۔ عبیر وہیں بیٹھ کر بے آواز آنسوئوں سے روئے گئی تھی۔
…٭٭٭…
اس کے کمرے میں بے حد اندھیرا تھا۔باہر موسم اپنی شدتوں پر تھا۔ طوفانی ہوائوں کے جکڑ سے درختوںکی ٹہنیاں ٹوٹ کر گر رہی تھیں۔ بارش کی بوچھاڑکھلی کھڑکی سے ہوا کے زور پر اندر آتی اور کمرے کے ایک حصے کو بھگو جاتی‘ بادل کی گرج‘ بجلی کی چمک اس کمرے کے اندھیرے کو نگل کر چند لمحوں کو اس کے خدوخال کو عیاں کرجاتی۔ وہ بیڈ پر بالکل ساکن لیٹا ہوا تھا مگر اس کے وجود کے اندرباہر موسم جیسی بے چینی اضطراب اور وحشت تھی۔ سماعتوں میں بار بار روتی سسکتی آواز کی بازگشت گونجتی تھی۔
’’جو سزا تم نے مجھے سنائی میں نے بلا حیل و حجت قبول کرلی۔ یہ تھی میری پارسائی کی نشانی۔ تم نے جو سلوک میرے ساتھ کیا اسے میں نے خاموشی سے سہہ لیا‘ یہ تھی میری نیک طینت کا اظہار۔ جو بدقماش عورت ہوتی میں تو یہ چاردیواری یہ بند دروازے میرا راستہ نہیں روکے سکتے تھے۔ اسامہ نے اپنی جگہ اضطراب کی کیفیت میں پہلو بدلا اور چہرے کا رخ پھیر کر کھڑکی کے باہر دیکھا۔ اس کا ذہن بہکا تھا اور وہ منظر روشن ہونے لگا۔ جب اس نے پہلی بار اس لڑکی کو دیکھا تھا‘ ہر انداز میں گریز۔ چاہے وہ جھکتی پلکیں ہوں یا پھر اس کے سامنے اور توجہ پرکنفیوژن میں ہونٹوں کو دانتوں سے کچلنا۔ شادی کی رات بھی اس کی حیا آمیز گھبراہٹ زدہ انداز میں اتنا فطری تاثر تھا کہ وہ انداز ازخود اس کی پارسائی و پاک دامنی کے گواہ بن گئے تھے۔
’’کیا وہ سچ کہہ رہی تھی؟ مگرکیسے؟ اتنی بری اور غلط عورتوں کے درمیان وہ خود کیسے ان چھوئی رہ گئی۔‘‘ اس نے خود سے سوال کیے تھے اوربے کل بے چین سا ہوکر ٹہلنے لگا۔ سگریٹ کے کش لیتے دھواں بکھیرتے وہ صرف اسے ہی سوچتا رہا۔ اس میں شک نہیں تھا کہ وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ یہی محبت اسے دل میں گنجائش رکھنے اور درگزر سے کام لینے پر اکسا رہی تھی مگر اس کی میل ایگو کو یہ بھی ہر گز گوارا نہیں تھا کہ اس کی بیوی کا کردار داغ دار ہو۔ چاہے محبت سہی مگر وہ اپنی شریک حیات کو اس کی بدکرداری کے ساتھ قبول کرنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتا تھا۔
وہ اتنی مطمئن کیوں تھی؟ اسے تو اس قید خانے میںپاگل ہوجانا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس وہ ریلیکس نظر آتی تھی۔ کیا یہ بھی ڈرامہ ہے‘ محض مجھے دھوکا مزید دھوکا دینے کو؟اس نے اک نئی بات سوچی اور دماغ کی رگیں کھینچتی ہوئی محسوس کرنے لگا۔
اگر تم غلط ہو ‘ قصور وار ہو تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ یہ طے ہے چاہے مجھے اپنے دل کو خود اپنے پیروں تلے کیوں نہ کچلنا پڑجائے۔‘‘ اس نے سوچا تھا اورجیسے حتمی فیصلہ کرکے کسی قدر مطمئن ہوا تھا۔
…٭٭٭…
ایک ہفتہ بعد وہ پھر اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ پچھلی بار اس کو رو برو پاکے عبیر کے چہرے پر پہلے حیرت اتری تھی پھر خوف البتہ اسے وہاں نارمل انداز میں چلتے پھرتے سوتے اٹھتے دیکھ کرجو چیز اس نے سب سے زیادہ شدت سے نوٹ کی تھی وہ اس کا اطمینان یعنی وہ اس ماحول سے اس سزا سے پریشان تھی نا ہی وحشت زدہ اس کے برعکس اس کے چہرے پر اک ٹھہرائو اک سکون تھا۔ اسی سکون نے اسامہ کے اندر سب سے زیادہ سوال اٹھائے تھے۔