بہت زبردست ارینج منٹ تھی۔ گھاس و پیڑ پودوں کو زرد سفید روشنی نے بہت دلفریب و خوب صورت تاثر عطا کیا تھا۔ دلکش خوشبوئیں ماحول کا حصہ بنی ہوئی تھیں‘ ایک سائیڈ پر کھانے کی ٹیبلز ترتیب سے لگی ہوئی تھیں‘ وسیع رقبے پر پھیلا لان اور سفید سنگ مرمر کی شان سے سر اٹھائے خوب صورت رہائش گاہ اپنے مکینوں کے اعلیٰ ذوق کی غماز تھی۔ لان کے سبزہ زار پر ہی تقریب کا انعقاد تھا جوبہت اعلیٰ پیمانے پر کیا گیا تھا۔ رنگ و بو کا ایک سیلاب گویا وہاں امڈ آیا تھا۔ وہ ایسی تقریبات کی مشتاق تھی نہ عادی‘ جبھی اس نے اپنے لیے وہ کونا منتخب کیا تھا جو قدرے الگ تھلگ تھا‘لاتعداد برقی قمقموں کی روشنی وہاں تک آتے آتے اتنی ماند پڑ جاتی تھی کہ بہت کچھ واضح دکھائی بھی نہ دیتا تھا۔
اس نے ماحول سے فرار کی خاطر ہی سر اٹھا کر آسمان کو اداس اورمضمحل نظروں سے دیکھا گویا اللہ سے اپنی ماں کے سلوک کی شکایت کررہی ہو۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے جبھی تیرگی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے سر پھر سے جھکالیا۔ عینا‘ سارہ اور انا ماحول میں پوری طرح سے رچی بسی ہوئی تھیں۔ یقینا ان کا وہاں پہلے سے تعارف تھا جبھی بے تکلفی سے گھوم پھر رہی تھیں‘ ایسا نہ بھی ہوتا وہ تب بھی خود کو اجاگر کرنے اور اہمیت پانے کی تمام صلاحیتوں سے مالا مال تھیں۔
’’اوہ اچھا! تو آپ مسز باجوہ کی صاحب زادی ہیں۔ ماشاء اللہ… ماشاء اللہ جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔‘‘ وہ جو کوئی بھی تھا انا سے ہم کلام تھا۔جواباً وہ تفاخرانہ انداز میں ہنسی تو گویا فضا میں گھنٹیاں سی بج اٹھیں۔ عبیر نے چونک کر دیکھا اور کچھ پل کو منجمد ہوگئی تھی‘ وہ وہی نوجوان تھا جسے اس نے کھڑکی سے باہر سڑک پر گلابوں کے کنج کے پاس جھکے دیکھا تھا اور جس کے متعلق سارہ نے اپنے ارادے بتلا کر اسے حواس باختہ کردیا تھا۔ وہ آج اس روز سے بھی زیادہ شان دار اور وجیہہ لگ رہا تھا۔
’’کیسے ہیں آپ اسامہ ملک صاحب؟‘‘ وہ مسکرا کرگویا ہوئی۔
’’لوگ کہتے ہیں ہینڈسم ہوں‘ڈیشنگ ہوں‘ آپ کیا کہتی ہیں؟‘‘ اور انا جواب میں آہستگی سے ہنسی تھی۔ ایک بار پھر سماعتوں میں گھنٹیوں کی آواز گونجی۔ اس نے اپنی جگہ پر پہلو بدلا تھا۔ آگے پیش آنے والی صورت حال اسے ابھی سے بے چین کررہی تھی اور وہی ہوا تھا۔
’’آج آپ کو ایک خاص ہستی سے ملانا تھا‘ مائی ینگسٹر سسٹر عبیر کمال حسن!‘‘ انا اس کے ہمراہ عبیر کے پاس چلی آئی تھی۔ عبیر کے چہرے پر گھبراہٹ کا بڑا فطری غلبہ چھا یا تھا۔ جس میں بے بسی کے ساتھ کنفیوژن بھی واضح تھی۔ ان سب رنگوں نے مل کر ہی اس کی معصومیت بھری خوب صورتی کو انوکھا اور دلنشین سا نکھار بخش دیا تھا۔ اسامہ ملک نے نیم تاریکی میں مومی شمع کی مانند جگمگاتی اس وحشت زدہ ہرنی کی طرح نظر آتی لڑکی کو بے حد دلچسپی سے دیکھا تھا۔
’’عبیر! یہ اسامہ ملک ہیں‘ ملک صاحب کے چھوٹے صاحب زادے! بزنس ٹائیکون ہیں جناب!‘‘ انا اٹھلا کر تعارف کا مرحلہ نبھارہی تھی۔ عبیر اس خصوصی تعارف کے پیچھے چھپے پروگرام کی آلودگی و پیچیدگی کے ساتھ مکروہ ارادوں کو جانتی تھی جبھی نہ نگاہ اٹھائی تھی نہ سر اور یونہی ہونٹ کچلتی رہی تھی اور اسامہ ملک کی آنکھوں میں اس گریزاں و کنفیوژ لڑکی کے لیے دلچسپی و پسندیدگی کا انداز بڑھتا جارہا تھا۔
’’آپ انا کی رئیل سسٹر ہیں؟‘‘ اسا مہ ملک کی نگاہیں اس کی اٹھتی گرتی لانبی پلکوں پر جم گئی تھیں‘ انا اسے اسامہ کے پاس چھوڑ کر خود کسی بہانے سے وہاں سے سرک گئی تھی اور اب عبیر کی گویا جان پر بن آئی تھی۔ ان نگاہوںکی وارفتگی نے اس کے اوسان خطا کردیئے تھے۔ اس کے لیے دیئے انداز اور جواب کے باوجود اسامہ ملک اس سے گفتگو میں مصروف رہا تھا۔ پھر اس کے بعد بھی وہ جتنا کترائی جتنا بچی اسامہ ملک کی نگاہوں نے اسے ہر جگہ کھوجا تھا‘ کیک کٹنے کے بعد اس کا تعارف بالخصوص اپنے والدین سے کرایا تھا۔ وہ جتنی مضطرب اور جزبز ہوتی رہی تھی عینا وغیرہ اسی قدرمطمئن نظر آرہی تھیں‘ ان کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ اسامہ ملک ایک تگڑا شکار تھا اور آرام سے پھنسنے کو ازخود تیار بھی۔
…٭٭٭…
پھر مام کی خواہش اور توقع کے عین مطابق مسز ملک اسامہ کا رشتہ لے کر ان کے ہاںپہنچ گئی تھیں اور مام اپنی ساری خوشی چھپا کر بظاہر حیل و حجت سے کام لے رہی تھیں۔
’’مجھے تو آپ کی ساری بچیاں ہی پیاری لگی ہیں ماشاء اللہ! مگر اسامہ کی خواہش عبیر کے لیے ہے۔‘‘ وہ رکھ رکھائو والی خاندانی عورت تھیں۔ ان کے بات کرنے کے انداز میں بھی بہت سبھائو اور رواداری تھی‘ مام کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ خود ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتی تھیں مگر یہ معاملہ رسان اور تحمل کا متقاضی تھا۔ اتاولے پن کامظاہرہ کھیل بگاڑ بھی سکتا تھا۔ جبھی انہوں نے کچھ پس و پیش سے کام لیا‘ کچھ مجبوریوں کا رونا رویا‘ بڑیوں کو چھوڑ کر چھوٹیوں کا نہیںکرسکتیں وغیرہ وغیرہ اور بالآخر ان کو کئی چکر لگوانے کے بعد ہاں کردی۔
یہ سب کچھ بالا ہی بالا ہوا۔ بات طے ہونے کے بعد عبیر کو خبر ہوئی تو صحیح معنوں میں اس کے حواسوں پر بجلی سی گر پڑی تھی۔ اتنے شان دار شخص کو دھوکہ دینے کا خیال ہی بے قرار کر دینے کو کافی تھا۔ وہ تلملاتی ہوئی مام کے پاس آکر برس پڑی۔
’’میں نے آپ سے گزارش کی تھی مام! کہ مجھے اس کھیل سے الگ رکھیے۔‘‘
’’اور میں نے تمہاری اس گزارش پر کان نہیں دھرا‘ خبردار جو تم نے کوئی فضول حرکت کی ۔ ورنہ یاد رکھنا دوسرا راستہ ہمیشہ کھلا رہے گا اور محض دھمکی مت سمجھنا۔‘‘ یہ ان کا ایسا ہتھیار تھا جس سے وہ اسے حملہ سے قبل ہی زخمی کردیا کرتی تھیں۔ وہ ایک بار پھر خود کو لاچار محسوس کرنے لگی۔ سوائے چپ سادھ لینے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا سو اس نے چپ سادھ لی۔ فی الوقت وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر رہی تھی۔
وہ دن بھی آہی گیا جب وہ بیاہ کر اسامہ کے ہمراہ اس کے ویل فرنشڈ گھر میں آگئی تھی۔ مسز ملک نے بیٹے کے لیے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ وہ جوڑا جو اسے نکاح کے موقع پر پہنایا گیا تھا کم و بیش ایک لاکھ کی مالیت کا تھا۔ لوگ اس کی قسمت پر رشک کر رہے تھے مگر عبیر کا دل اس ڈرامے پر سسکتا رہا تھا۔ وہ عجیب سی بے کسی اور لاچاری میں مبتلا رہی تھی‘ کئی بار چاہا اسامہ سے ساری حقیقت کہہ دے مگر ایک عجیب سے خوف نے اس کی زبان کو سلب کردیا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکی تھی اور یہ دن آگیا تھا۔
مام کے علاوہ سارہ‘ انا اور عینا نے بھی اسے خوب پٹیاں پڑھائی تھیں۔ کسی کو الو بناکر مطلب نکالنے کے تیر بہدف طریقے سکھائے گئے تھے۔ وہ بے بسی کی تصویر بنی انہیں دیکھتی رہی تھی۔
’’بس کچھ دن ہیں‘ پھر اس کے بعد تو تم سے بھی پارسائی اور معصومیت کا ٹیگ اتر جائے گا پھر تم پر بھی بدکرداری کا ٹھپا لگ جائے گا۔ میرے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والا کبھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔ عبیر بیگم پھر تمہیں کیسے معاف کردیتی۔ آج کے بعد تم ہمیں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھ سکو گی نا ہم پر انگلی اٹھا سکو گی تم میں اور ہم میں آج کے بعد کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔‘‘ اس کی رخصتی کے وقت سارہ نے اس سے گلے ملنے کے بہانے نزدیک آکر اتنی حقارت اور تنفر سے کہا تھا کہ وہ بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکتی رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں اترے آنسو تک ٹھٹھر گئے تھے۔ سارہ اس قدر منتقم مزاج ہوگی یہ اس کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
’’حسن افسردہ ہو تو اس کی کشش اور بھی بڑھ جاتی ہے۔آپ مجھے بہت الگ اور خاص لگی تھیں جبھی مما کے سامنے میں نے آپ کا نام رکھا تھا۔‘‘ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر دور تک چلی گئی تھی کہ اسامہ کب کمرے میں آیا اسے خبر ہی نہ ہو سکی تھی جبھی وہ بہت بُری طرح سے ہڑبڑاگئی تھی۔ اس کی گھبراہٹ کو محسوس کرکے اسامہ مسکرایا تھا پھر اس کا حنائی ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لے کر آہستگی سے دبایا۔
’’بہت خاموش بلکہ اداس ہیں۔ کیا آپ کو مجھ سے تعلق استوار ہونے کی خوشی نہیں ہے؟‘‘ اس نے گھبرا کر پلکیں اٹھائی تھیں وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ انداز میں بے تحاشا شرارت بھری ہوئی تھی گویا مقصد اس کی توجہ حاصل کرنا تھا کسی بھی طریقے سے اور وہ اس میں کامیابی حاصل کرکے فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ عبیر بُری طرح سے جھینپی تھی۔ پلکیں شرمگیں انداز میں لرز کر جھک گئیں۔ وقتی طور پر سہی مگر وہ اس اضطرابی کیفیت سے نکل آئی تھی۔ جس کا شکار تھی۔
’’بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘ بھاری بھر کم لہجے میں کی گئی تعریف پر عبیر کا دل اپنی دھڑکنیں الٹ پلٹ کرنے لگا۔ رونمائی کا گفٹ جڑائو کنگن پہناتے اسامہ نے بہت ملائمت سے اسے بازوئوں میں بھر لیا تھا۔
’’اس ایک رات کا میں نے بہت شدت سے انتظار کیا تھا عبیر! تم جانتی ہو جب سے تمہیں دیکھا تھا میں نے‘ صحیح معنوں میں میری نیندیں اڑ گئی تھیں۔‘‘ اسامہ کا لہجہ جذبات کی شدتوں سے چور تھا اور دھیما ہوتا بالآخر سرگوشی میں ڈھل گیا تھا۔ عبیر کی آنکھیں جانے کس جذبے کے تحت بھر آئی تھیں۔ بھلا وہ اتنی عزت افزائی اور محبت کے لائق کہاں تھی۔
’’کیوں رو رہی ہو؟‘‘ اسامہ نے اس کے آنسوئوں کی نمی کو محسوس کرکے بے چینی سے سوال کیا تھا۔ عبیر نے نگاہ بھر کے اسے دیکھا۔ سیاہ شیروانی میں وہ ہمیشہ سے کہیں بڑھ کر شان دار اور خوبرو نظر آرہا تھا۔ وہ آنسوئوں کی وجہ پوچھ رہا تھا اور وجہ بتلانے لائق نہیں تھی۔ اس نے ہونٹوں کو باہم بھینچ لیا اور رات دھیرے دھیرے بھیگتی چلی گئی تھی۔
…٭٭٭…
اگلے دن اسامہ نے اس کا تعارف عبد العلی اور زارا سے کرایا تھا جو اس کے بڑے بھائی کی اولاد تھے۔ بڑے بھائی شیراز ملک اور ان کی وائف کی روڈ ایکسیڈنٹ میں دو سال قبل وفات ہوگئی تھی‘ تب اسامہ نے دونوں بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔
’’میں چاہتا ہوں عبیر تم ان بچوں کی ماں کا کردار ادا کرو۔ ان سے ویسے ہی محبت کرو جیسے کوئی ماں اپنی اولاد سے کرتی ہے‘ کروگی نا؟‘‘ اور عبیر نے پوری آمادگی کے ساتھ سر اثبات میں ہلادیا تھا۔ اس ایک رات میں ہی وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ وہ اسامہ کو دھوکا نہیں دے گی‘ چاہے مام اسے کتنا ہی اکسائیں۔ وہ اسامہ کو خود مناسب الفاظ میں اپنی صفائی پیش کرسکتی تھی۔ وہ اس سے درخواست کرسکتی تھی وہ اسے ان غلط لوگوں سے بچالے۔
صبح نماز کے بعد دعا میں بھی اس نے ربّ کریم سے یہی التجا کی تھی اور اسے پورا یقین تھا‘ خدا اس کی فریاد کو رد نہیں کرے گا۔ اپنے راستوں پر چلنے والوں کا ’’وہ‘‘ خود مددگارہوجایا کرتا ہے بلاشبہ رسم کے مطابق اسامہ اسے مام کی طرف ملوانے کو لایا تو اس کے انداز میں واضح بے دلی تھی۔ مام نے اس سے نگاہوں ہی نگاہوں میں کچھ سوال کیے تھے مگر وہ نظریں چرا گئی تھی اور مام اتنی جزبز ہوئیں کہ اپنی جگہ پر پہلو بدل کر رہ گئیں۔ جبھی انہوں نے بہانے سے اسے وہاں سے ہٹادیا تھا۔
’’عبیر بیٹا! دیکھنا ذرا عینا نے ابھی تک چائے کیوں تیار نہیں کرائی۔‘‘ وہ جانتی تھی بات بنتی نہ دیکھ کر انہوں نے اسے سمجھ دار اور عیار بیٹیوں کے نرغے میں دیا ہے جو لازماً اس سے اصل بات اگلوائیں‘ جبھی وہ کسی قدر ڈسٹرب ہوئی تھی۔ اسامہ کے سامنے انکار کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی‘ اسی لیے اٹھ کر باہر تو آگئی مگر عینا کے پاس جانے کا اس کا قطعی ارادہ نہیں تھا مگر وہ سب توجیسے اس کی تاک میں تھیں‘ اسے باہر آتے ہی دبوچ کر گویا سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔
’’کیا کچھ ہاتھ آگیا؟ تم نے اس کی جائیداد اور بینک بیلنس وغیرہ کی معلومات لی ہیں؟‘‘
’’اسامہ نے رونمائی میں کیا دیا؟وہ ساتھ لے آنا تھا‘ ظاہر ہے قیمتی چیز ہوگی‘ زیور بھی کسی بہانے سے اٹھا لاتیں‘ اسی طرح تو کرنا ہوتا ہے‘ کیا پتا تم کتنی دیر وہاں ہو۔‘‘ وہ لا تعلق بنی ہونٹ بھینچے سلگتی
آنکھیں جھکائے کھڑی رہی۔ گویا تہیہ کرلیا تھا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دینا‘ جبھی سارہ کو جیسے آگ لگ گئی تھی۔
’’تم ہمارے ساتھ ہاتھ نہیںکرسکتیں‘ یاد رکھو تم ہر لحاظ سے ہمارے رحم و کرم پر ہو‘ تمہاری حیثیت بہرحال کسی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے۔ جس کی ڈور ہمارے ہاتھ میں ہے‘ پارسائی کا ڈرامہ رچانے کی ضرورت نہیں۔ بس جتنی جلدی ہوسکے اپنا مقصد حاصل کرو‘ ہم زیادہ انتظار نہیں کرسکتے اورسنو‘ کوشش کرنا اس اسامہ سے دور رہنے کی‘ ایسا نہ ہو کہ وہاں سے لوٹو تو اس کے بچے کی زنجیر تمہارے قدموں میں پڑچکی ہو۔ ابارشن وغیرہ کے جدید طریقہ کے باوجود فیگر کا ناس ہوجایا کرتا ہے ۔ تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟‘‘ سارہ نے غصے میں اسے گھورتے ہوئے ٹہوکا دیا تھا۔ وہ پتھر کی مورتی کی طرح بے تاثر نظروں سے اسے تکے گئی۔
’’مام چائے کا کہہ رہی ہیں۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ بولی تو اس کا لہجہ اس کے چہرے کی طرح سپاٹ تھا۔ یوں جیسے ان کی کسی بات کو سرے سے سنا ہی نہ ہو‘ اپنی بات مکمل کرکے وہ ان کی تلملاہٹ دیکھنے کو رکی نہیں تھی۔ پلٹ کر کچن سے نکلی تو اسامہ کو دروازے کے باہرموجود پاکر اسے لگا تھا کسی نے یکلخت زمین اس کے قدموں تلے سے کھینچ لی ہو۔
…٭٭٭…
’’کون ہو تم؟ میں صرف سچ سننا چاہوں گا‘ یاد رکھنا اگر تم نے غلط بیانی کی تو میں تمہیں زندہ زمین میں بھی گاڑھ سکتا ہوں۔‘‘ اس کا چہرہ اسامہ کے سخت ہاتھوں کی بے رحم گرفت میں تھا۔ وہ لہجہ اتنا سفاک و سنگین تھا جب کہ چہرے کے تنے ہوئے عضلات اس کے قہرو غضب کے گواہ تھے۔ عبیر کی تو اسی وقت روح قبض ہوگئی تھی‘ گویا جب اس نے کچن کے باہر اسامہ کوموجود پایا تھا۔ وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی اس کے عتاب کا نشانہ بننے کو رہ گئی تھی۔
’’وہ اسے واپس لے کر آیا تو بیڈ روم میں آنے تک پتا نہیں کیسے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے رکھے تھے۔ اس کے بعد وہ کوئی وحشی جنونی انسان تھا جو عبیر کے منہ سے آہوں اور کراہوں کی صورت نکلتے سچ پر آپے سے باہر ہوتا اسے تشدد کا نشانہ بناتا رہا تھا۔ عبیر کے دل و دماغ پر مجرمانہ بوجھ دھرا تھا‘ جبھی اس نے کچھ چھپائے بغیر سب کچھ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا مگر جب اس نے اپنی صفائی پیش کرنی چاہی تب ہی وہ بپھر اٹھا تھا ۔
’’تو یہ پلان تھا تمہارا جس کے تحت تم نے مجھ سے شادی کی بدکردار عورت!‘‘ اس کا ہاتھ اٹھا تھا تو پھر رکنے میں نہیں آرہا تھا۔ عبیر پٹتے ہوئے بھی اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی تھی جبھی وہ کچھ اور غضب ناک ہوا تھا۔
’’تم نے دھوکا دیا مجھے‘ اسامہ ملک کو ہائو ڈسیریو!‘‘ وہ جیسے توہین سے پاگل ہورہا تھا۔
’’نہیں! میں تو آپ سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی …‘‘
’’بکواس بند کرو فاحشہ عورت!تم اگر ان کے پلان میں شامل نہ ہوتیں تو اس طرح سج دھج کر مجھے الجھانے کیوں آتیں؟ اور میں… میں کتنا احمق تھا‘ کتنی آسانی سے تمہارے جال میں پھنس گیا۔‘‘ وہ دانت بھینچ کر غرایا۔ عبیر اس کی وحشت کے آگے سراسیمہ ہونے لگی۔ وہ کتنی دیر جیسے خود ہی ہونٹ بھینچ کر اور ٹہل کر اپنا غصہ ضبط کرتا رہا تھا پھر پلٹ کر باہرنکل گیا تھا۔ عبیر وہیں بیٹھ کر سسکنے لگی۔ اس کے ہونٹ کے زیریں کنارے سے خون جاری ہوگیا تھا۔ گردن پر گہری خراشیں تھیں جو اسامہ کے تشدد کا نتیجہ تھیں۔ اس کی یہ سراسیمگی ابھی اس طرح اسے گھیرے ہوئے تھی جب وہ پھر اس کے پاس چلا آیا تھا۔
’’اٹھو! تم اسی وقت میرے ساتھ چلو۔‘‘ اس نے عبیر کے پاس رک کر اسے ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔ وہ پہلے ٹھٹکی پھر سخت وحشت زدہ سی ہوگئی۔
’’ک… کہاں؟ آپ کہاں لے کر جائیں گے مجھے؟‘‘ کتنا خوف تھا اس کی نگاہوں میں‘ جواب میں اسامہ کی آنکھوں میں صرف قہر نہیں اترا تھا۔ تضحیک بھی در آئی۔
’’تم ہو اس قابل کہ میں تمہیں اپنے ارادے بتائوں‘ ہاں؟‘‘ وہ آنکھیں نکال کر غرایا اور عبیر شرم سے گڑھنے لگی۔
پھر وہ ایک لفظ نہیں بولی تھی اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ اس حویلی میں آگئی تھی جہاں اس کی حیثیت شاید ملازموں سے بھی بدتر تھی یا پھر کسی قیدی کے جیسی‘ وہ اپنے مستقبل اور سزا کے متعلق فی الحال آگاہ نہیں ہوسکی تھی۔ اسے قسمت سے شکوہ نہیں تھا‘ اکثر والدین کی غلطی کا خمیازہ اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے۔
…٭٭٭…
’’یہ تمہارے کرتوتوں کی بہت معمولی سزا ہے‘ میں چاہتا تو تمہیں پولیس کے حوالہ بھی کرسکتا تھا مگر میں بے غیرت نہیں ہوں۔ جیسے بھی سہی مگر تم میری بیوی بن چکی ہو اس بھول میں بھی مت رہنا کہ میں تمہیں طلاق دوں گا تاکہ تم پھر سے گلچھڑے اڑانے لگو۔ یہ ہے وہ جگہ جہاں تمہیں اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزارنے ہیں۔‘‘ وہ اسے حویلی کے جس کمرے میں لے کر آیا تھا‘ اس میں زندگی کی ہر سہولت تھی مگر باہر کی دنیا سے رابطے کو ایک کھڑکی تک نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں اسے زنداں میں ڈال دیا گیا تھا۔
’’جو کچھ تم نے کیا اس کے بعد اگر میں تمہیں قتل بھی کردیتا تو یہ تمہاری گناہ آلودہ زندگی پر احسان ہوتا مگر میں تمہارے گندے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا تھا۔‘‘ کتنی حقارت تھی ان آنکھوں میں جس میں عبیر نے کبھی اپنی محبت کے سنہرے رنگ اترتے دیکھے تھے۔ اس نے آنسوئوں سے چمکتی آنکھوں کو جھکالیا۔ اس موقع پر کچھ کہہ کر وہ اس کے غصے کو ہوا نہیں دینا چاہتی تھی۔ پھر اسے چھوڑ کر خود واپس چلا گیا تھا۔ عبیر کے لیے زندگی جتنی بھی تنگ ہوئی تھی مگر ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ وہ مطمئن تھی خدا کے ہاں اس کی دعائیں مستجاب ٹھہری تھیں اور اسے گناہ سے آلودہ راستوں سے بچالیا گیا تھا۔