وہ تین دن کی دلہن چھت پر اکیلی کھڑی تھی‘ اس کے لمبے اور گھنے بال کمر تک آئے ہوئے تھے‘ چہرے اور گردن پر لمبی کھرنچیں تھیں جن سے رسنے والا خون وہیں جم کر کھرنڈ کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
وہ بے خیال سی آگے بڑھی اور منڈیر سے لگی جالی کے ساتھ آرکی۔ اب نگاہ کے سامنے ہل چلے ہوئے کھیت تھے۔ ہوا اچانک تیز ہوئی تو سامنے شہر جانے والی تارکول کی سڑک پر گردو غبار بگولوں کی صورت اڑتا نظر آنے لگا۔ گھر کی چار دیواری کے باہر مویشی بندھے تھے۔
ہل چلے کھیت میں ایک آدمی بغل میں کپڑے کی پوٹلی دبائے بیچ بو رہا تھا۔ جب کہ سفید لباس میں ملبوس ایک قدر آور شخص منڈر پر کھڑا ہاتھ اٹھا کر بیچ بوتے آدمی سے بات کررہا تھا۔ وہ قد آور شخص اس چھت پر کھڑی دلہن کا شوہر تھا۔ لڑکی کی نگاہ اس پر پڑی تو ایک دم اس کا دل بھر آیا اور ذہن پرجیسے کوئی ہیجان طاری ہوگیا۔ وہ ایک دم چیخی اور چیختی چلی گئی تھی۔ منڈر پر کھڑے آدمی نے قدرے چونکتے ہوئے پلٹ کر دیکھا۔ کچھ دیر چھت پر کھڑی روتی لڑکی کو گھورا پھر تیز تیز چلتا حویلی کی جانب آنے لگا اور حویلی میں داخل ہوکر دوڑتا ہوا لمحوں میں وہ آدمی چھت پر اس کے روبرو تھا۔
’’عبیر کیا تکلیف ہے تمہیں‘ ہاں بوبو…؟‘‘ اس نے قریب آتے ہی اس کا بازو کہنی سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا تھا‘ وہ جیسے ہوش میں آگئی اور آنسوئوں سے جل تھل آنکھوں سے اسے تکنے لگی۔
’’کیوں پاگل ہورہی ہو؟‘‘ کیسا لہجہ تھا‘ کڑا‘ بے زار اور سنگین‘ حالانکہ کبھی یہی لہجہ شہد ٹپکاتا تھا۔ زیادہ پرانی بات بھی نہیں تھی۔
’’نیچے چلو‘ اب اگر مجھے چھت پر نظرآئیں تو ٹانگیں توڑ کر رکھ دوں گا۔‘‘ جارحانہ انداز میں اسے دھکا دے کر سیڑھیوں کی جانب لاتے وہ تلخی سے بولا‘ اس کے چہرے پر کوئی نرمی یا ملائمت نہیں تھی۔
’’اسامہ… اسامہ!میری بات کا یقین کریں‘ آپ سے میری پہلی شادی ہے اور میں باعصمت ہوں‘ آپ کو…‘‘
اس کے فولادی ہاتھ کے زناٹے دار تھپڑ نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
’’بکواس بند رکھو اپنی‘ میں نے تم سے کوئی وضاحت نہیں مانگی ہے‘ سمجھیں۔‘‘ وہ حلق کے بل چیخا تھا‘ عبیر نے گنگ ہوتے ہوئے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ وہ کچھ نہیں بول سکی تھی۔
…٭٭٭…
کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اس نے پٹ وا کیا تو ہوا کا یخ بستہ جھونکا اس کے بالوں کو چھوتا کمرے میں پھیل گیا۔ باہر ہر سو برف کی سفید چاردر بچھی ہوئی تھی۔ بلند و بالا پہاڑ‘ سروقد درخت‘ سڑکوں کے سرمئی پن کو بھی برف کی سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا۔ فضا میں خاموشی اور اداسی کا رنگ غالب تھا یا اسے محسوس ہورہا تھا۔ کمرے کے آتش دان میں آگ روشن تھی۔مگر اس کے اندر جیسے کوئی گلیشیئر جما ہوا تھا۔ نیا ٹھکانہ وہ نئے لوگ اور اس پر دھوکا۔ وہ جتنا سوچتی اسی قدر مضطرب ہوجاتی تھی۔ گو کہ وہ اس دھوکے و فریب کا کبھی حصہ نہیں بنی تھی مگر ضمیر زندہ ہو تو اضطراب اپنوں کی بد اعمالی پر بھی نصیب ہوا کرتا ہے۔ معاً اس کی نگاہ یک دم ایک منظر پر ٹھہر گئی۔ کر بھری یخ بستہ صبح کے ملگجے اجالوں میں جیسے ایک دم سورج کی سنہری کرنیں ہر سو جگمگانے لگی تھیں۔ وہ جو کوئی بھی تھا‘ ٹریک سوٹ میں سڑک کنارے چلتے ہوئے اچانک گلاب کے کنج کے پاس رک گیا تھا۔ جھک کر گلاب کی ادھ کھلی کلی کو توڑتا ہوا وہ اس سارے ماحول میں ایک دم خوب صورت اضافے کا سبب بن گیا تھا۔ کچھ منظر بلاشبہ اپنے اندر طلسمی کشش رکھتے ہیں۔ وہ بھی بے خود اسی منظر میں کھوگئی تھی وہ اپنے دھیان میں تھا۔ گلاب کی ادھ کھلی کلی ہمراہ لیے آگے بڑھ گیا۔ وہ تب چونکی جب ہنسی کی آواز سنی‘ حیرانی سے پلٹنے پر سارہ کو روبرو پاکے اس کے حلق تک کڑواہٹ گھل گئی تھی۔
’’بہت ہینڈسم ہے… ہے نا؟ محترم یہاں کے مشہور بزنس مین ہیں۔ اس مرتبہ ہمارا شکار یہی ہوگا۔ ساری معلومات لے چکی ہیں مام!‘‘ سینے پر ہاتھ باندھے سارہ بہت جوش سے اطلاع فراہم کررہی تھی۔ عبیر کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’بلکہ انا نے تو اس پر اپنے حسن جہاں سوز کے ڈورے بھی ڈالنے شروع کردیئے ہیں۔‘‘
عبیر نے ہونٹ بھینچ لیے اور کوشش کی کہ چہرے سے کچھ اخذ نہ ہونے پائے۔
’’کچھ کام تھا تمہیں مجھ سے؟‘‘ اس نے نروٹھے پن کی انتہا کردی۔ جبھی سارہ کے چہرے پر توہین کے احساسات سے آگ بھڑک اٹھی تھی۔
’’مام کا میسج ہے تمہارے لیے۔ اس پڑھائی اب ختم کرو اور دھندے میں ہاتھ بٹائو۔ آج کل ویسے بھی بڑا مندا چل رہا ہے۔ یہ تیسرا ٹھکانہ بدل لیا ہے مگر کوئی شکار نہیں پھنسا۔‘‘
’’تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ عبیر نے کسی قدر ناگواری کا اظہار کیا۔
’’ہاں تمہارا مسئلہ کیوں ہوگا۔ تم توبس عیش کرنے دنیا میں آئی ہو بکائو مال تو ہم ہیں نا‘ پیسہ بنانے کی مشین۔‘‘ سارہ تنفر سے بولتی چلی گئی۔ گویا اس گناہ آلود زندگی کا احساس ندامت بن کر انہیں بھی کچوکے لگاتا تھا۔
’’تونہ بنو مشینیں‘ کس نے فورس کیا ہے؟ جو کچھ کررہی ہو اپنی مرضی سے کرتی ہو۔‘‘ بغیر لگی لپٹی رکھے عبیر نے اسے سنانا شروع کیں‘ سارہ کو تو جیسے آگ لگ گئی۔
’’شٹ اپ! تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا‘ میری انسلٹ کرنے کا‘ سمجھیں۔‘‘
’’میں بھی تمہاری انسلٹ نہیں کررہی‘ حقیقت بیان کررہی ہوں‘ یہ الگ بات ہے کہ حقیقت بہت شرمناک ہے۔‘‘ عبیر کے لہجے میں نا صرف تاسف تھا بلکہ تضحیک اور حقارت بھی تھی‘سارہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’تم بھی کوئی شریف زادی نہیں ہو‘ اسی سسٹم کا حصہ ہو۔‘‘ وہ چیخ پڑی تھی‘ عبیر کا چہرہ دھواں دھواں ہوکر رہ گیا۔
’’یہی بد نصیبی ہے میری مگر یاد رکھنا میں تمہاری طرح اس گندگی میں نہیں رہوں گی۔‘‘ عبیر نے خود پر سکون رہتے ہوئے بھی سارہ کو آگ لگا دی تھی۔غصے میں بے قابو ہوتی وہ اس پر جھپٹ پڑی تھی۔ اگلے لمحے دونوں گتھم گتھا ہوچکی تھیں۔ ان کی چیخوں ‘ کوسنوں کی آواز پر دوسرے کمرے سے مام ‘ انا اور عینادوڑتی ہوئی وہاں پہنچی تھیں۔ انہیں اک دوسرے کو نوچنے کھسوٹتے اور گالیاں دیتے دیکھ کر مام کو صحیح معنوں میں دھچکا لگا تھا۔ انہوں نے عینا اور انا کے ساتھ مل کر بمشکل دونوں کو ایک دوسرے سے چھڑایا۔ مام‘ انا اور عینا کو اسے وہاں سے لے جانے کا اشارہ کرکے عبیر کو گھورنے لگیں۔ جس کے بال کھل کر بکھر چکے تھے‘ چہرہ سرخ اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’یہ سب کیا ہے عبیر؟‘‘ ان کا لہجہ بے حد سنگینی لیے ہوئے تھا۔ عبیر نے محض انہیں گھورنے پر اکتفا کیا اور بکھرے بالوں کو سمیٹ کر بینڈ میں جکڑنے لگی۔ مام کو اس کی اس حرکت میں سراسر اپنی توہین محسوس ہوئی تھی۔ یہ لڑکی شروع سے ہی اپنے انداز و اطوار کے باعث انہیں خائف کرتی رہی تھی۔ جبھی انہوں نے اس کے لیے اپنے مخصوص طریقہ کار کو بدلا تھا۔ وہ بہت زیرک اور جہاندیدہ تھیں۔ عبیر جیسی سرکش گھوڑی کو انہوں نے چابک سے نہیں پیار کی تھپکی سے قابو کیا تھا مگر پھر بھی اس کے تیور تیکھے اور انداز نخوت سے بھرا ہوا رہتا تھا۔ وہ ان میں سے کسی سے بھی گھلی ملی نہیں تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنی الگ دنیا بسائی تھی۔
وہ پڑھنا چاہتی تھی مام نے پابندی نہیں لگائی مگر آئے دن بدلنے والے ٹھکانوں کی وجہ سے انہوں نے بڑی مشکل سے سہی مگر اس کی ضد کے آگے ہار کر ہی ہاسٹل میں چھوڑا تھا۔ وہ انہیں ہاسٹل میں نہیں آنے دیتی تھی۔ وہ اپنے حلقہ احباب میں انہیں ملوانے سے کیوں گریزاں تھی‘ وہ جانتی تھیں اس کا بس چلتا تو شاید وہ چھٹیوں میں بھی ان کے پاس نہ آتی۔
’’کیا پوچھا ہے تم سے عبیر؟‘‘ اب کی مرتبہ انہوں نے اسے ڈانٹا تھا۔
’’بہتر ہوگا آپ سارہ سے پوچھ لیں۔‘‘ گردن پر پڑنے والی سارہ کے ناخنوں کی خراشوں کو دوپٹے سے سہلاتے ہوئے اس نے تلخی سے جواب دیا۔
’’میں تمہاری زبان سے سننا چاہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے برہمی سے جواب دیا تو عبیر نے ہونٹ بھینچ لیے جب کہ وہ ہنوز منتظر نگاہوں سے اسے تک رہی تھیں‘ عبیر کو ناچار زبان کھولنا پڑی۔
’’ہوں…‘‘ اس کے مختصر ترین جواب پر انہوں نے پر سوچ انداز میں ہنکارا بھرا۔
’’تمہیں اتنا غصہ کس بات کو سن کر آیا؟ پڑھائی چھوڑنے پر یا دھندے میں ہاتھ بٹانے پر؟‘‘ سوال ایسا تھا کہ عبیر کی گلابی رنگت کچھ اور بھی دہک کر انگارہ ہونے لگی۔
’’مام آپ جانتی ہیں مجھے آپ کا یہ طریقہ کار پسند نہیں ہے۔‘‘ وہ کسی قدر بے بسی سے بولی تو انہوں نے محض سر کو اثبات میں جنبش دی۔
’’پھر یہ کہ میں آپ کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتی‘ اسے میری ضد سمجھیں یا پھر التجا۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ مزید مضبوط اور دوٹوک تھا۔ اس کے چہرے پر ٹھہری مام کی پر سوچ نگاہوں میں تفکر بھی اتر آیا۔
’’اس کے باوجود کہ یہ معاشرہ تمہیں تمہاری اس پاکی سمیت قبول نہیں کرے گا۔ تم پر اس گھرانے کی عورت کا لیبل لگ چکا ہے عبیر!‘‘
’’نہ کرے‘ مگر میں مجبوری میں بھی گناہ کا راستہ اختیار نہیں کروں گی۔‘‘ وہ پھر اسی قطعیت سے کہہ گئی۔
’’پھر کیا کرو گی‘ خود کشی!‘‘ اب کے ان کے لہجے میں صرف جھنجلاہٹ نہیں تھی ‘ طنز بھی تھا۔
’’مام بہتر ہوگا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں‘ میں کچھ نہ کچھ کرلوں گی۔ خدا بہتر راستہ نکالے گا۔‘‘ مام کچھ دیر اسے تکتی رہیں پھر خاموشی سے اٹھ کر چلی گئیں۔
…٭٭٭…
مام لبنیٰ فریدہ بیگم والدین کی ڈھیروں ڈھیر اولاد میں ان کا نمبر آخری تھا اور ایسے بچے یا تو بہت زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں یا پھر توجہ و محبت میں بھی ان کا نمبر آخر میں ہی آتا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرا معاملہ ہوا تھا۔ جوتے کپڑے یہاں تک کہ کتابیں تک انہیں ہمیشہ بڑے بھائی‘ بہنوں کی استعمال شدہ ہی ملی تھیں۔ محدود آمدنی میں اتنے بڑے کنبے کی کفالت اور بے شمار اخراجات۔ کوئی ایک بھی تو ایسی خواہش نہیں تھی جو دل نے کی ہو اور وہ پوری بھی ہوگئی ہو۔ یہ محبت‘ توجہ میں کمی اور خواہشات کی بے مائیگی و تشنگی ان کے اندر کیسی باغی سوچیں اور خیالات جنم دے چکی ہیں‘ والدین کو اندازہ ہی نہ ہوسکا اور وہ بیاہ کر اگلے گھر سدھار گئیں جو والدین کے گھر سے مختلف حالات میں ہر گز نہیں تھا۔
وہاں بھی زندگی کا ڈھب ویسا ہی تھا جس سے چھٹکارے کی وہ ہمیشہ متمنی رہی تھیں مگر چھٹکارا ہی نہیں تھا تو انہوں نے حالات کو خود اپنے بل بوتے پر بدلنے کی ٹھان لی۔ بغاوت تبدیلی کا سب سے موثر ہتھیار ثابت ہوا کرتی ہے۔ خوب صورتی پاس تھی نازو ادا سے آراستہ حسن‘ سج سنور کر میدان میں اترا تو قدر دانوں کی کمی نہ ہوئی۔ دنیا میں ایسے مردوں کی کمی نہیں جنہیں عورت اشارہ کرے تو قدموں میں لوٹنے اور شرافت کے جامے سے باہر آنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے لوگوں کو اپنا وقت رنگین کرنا ہوتا اور ان کی مٹھی اور جیب گرم ہوجاتی۔ یہ مرد خاندان میں بھی ہوتے ہیں عزیز واقارب میں بھی ملتے ہیں اور گلی محلے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جو وقت اور حالات کے مطابق سہولت سے مطلب نکالنا خوب جانتے ہیں۔
کہتے ہیں گناہ خوشبو کی طرح ہوتا ہے پھیلنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ ان کے سسرالیوں میں پہلے چہ مگوئیاں ہوئیں پھر منہ پر کھل کر جھگڑے ہوئے مگر شرمندہ ہونے والوں میں ہوتیں تو یہ سب کرتیں کیوں۔ شوہر نے نام نہاد شرافت کا اظہار طلاق کی صورت میں کیا اور بچیوں کو بھی ماں کے سپرد کردیا۔ فریدہ بیگم نے سسرال سے جو جمع پونجی سمیٹی وہ یہی چار بیٹیاں تھیں۔ جو شکل و صورت میں انہی پر تھیں
اور ان کے مستقبل اور عیش و عشرت کا بہترین ذریعہ تھیں۔
…٭٭٭…
جب تک وہ خود جوان اور خوب صورت رہیں تب تک انہیں سراہنے والوں کی کمی نہیں رہی۔ انہی میں سے مسکین صورت آدمی سے نکاح کرکے انہوں نے اپنے اوپر سے طلاق یافتہ کا لیبل بھی اتار پھینکا اور معاشرے میں بظاہر عزت سے جینے لگیں۔ بیٹیاں انہی کی طرح تھیں‘ طرحدار ‘ حسین اور ادائوں کے ہتھیاروں سے لیس‘ راہ چلتوں کو بھی منٹوں میں اسیر کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا گو کہ ان کی تربیت ہی اس نہج پر نہیں ہوئی تھی انہوں نے آنکھ کھولتے ہی اپنے گھر کا ماحول بھی یہی دیکھا تھا۔ بس یہ اک عبیر تھی جس کے مزاج اور فطرت کی نیکی اور راستی نے انہیں پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔
وہ یہ بھی جانتی تھیں معاشرے میں انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا‘ جبھی کچھ سالوں سے انہوں نے انداز بدل لیا تھا۔ مہذب اور خاندانی ہونے کا بہروپ بھرا اور اپنی پشت پر چند طاقت ور ہاتھوں کی شہ پر بہت اطمینان سے اپنا کھیل کھیلنے لگیں۔ امیر دولت مند لوگوں میں کسی نہ کسی بیٹی کا رشتہ طے کرتیں‘ بیاہ ہوتا اور سمجھ دار بیٹی موقع ملنے پر وہاں سے سب کچھ سمیٹ لاتی اور پھر لٹنے والوں کو ان کا نشان تک بھی نہ مل پاتا۔ صرف یہی نہیں جو شادی کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے تھے وہ رات کے اندھرے میں لڑکی کو اپنے ٹھکانے پر لے جاتے تھے۔ یہ کام بہت راز داری سے کئی سالوں سے جاری تھے۔ جنہیں خبر تھی وہ اس راز کو افشا نہیں کرتے تھے اگر کبھی وہ پھنسیں بھی تو ان کے تعلقات کام آئے اور وہ صاف بچ نکلتی تھیں۔
…٭٭٭…
’’چھوٹی بی بی! آپ کو بیگم صاحبہ یاد کررہی ہیں۔‘‘ وہ اپنا بیگ تیار کررہی تھی جب ملازمہ دستک دے کر اندر آئی۔ اس کی صبیح پیشانی پر شکنیں سی نمودار ہوئیں۔
’’تم جائو‘ آتی ہوں میں۔‘‘ ملازمہ کو بھیج کر وہ الجھن زدہ متفکر سی بیٹھی رہی۔
’’کیوں بلوایا ہوگا مام نے؟‘‘ گوکہ ابھی اس کی چھٹیاں باقی تھیں مگر وہ چند دن میں ہی یہاں کے ماحول سے گھبرا گئی تھی۔ بس نہ چلتا تھا اڑ کر واپس ہاسٹل پہنچ جائے۔ اس نے گیلے بال تولیے کی قید سے آزاد کیے‘ انہیں سلجھایا پھر دوپٹہ ڈھنگ سے اوڑھتی ان کے کمرے کی جانب چلی آئی۔
’’یس کم ان!‘‘اس کی دستک کے جواب میں مام کی مغرور سی آواز ابھری تھی۔ انہیں دیکھ کر اب کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا تھا کہ وہ معمولی تعلیم یافتہ غربت میں پل کر جوان ہونے والی وہی فریدہ ہے جو کبھی ایک عام سی لڑکی تھی اب تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔
’’بیٹھو!‘‘ اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ جو سیل فون پر کسی سے بہت بے تکلفانہ گفتگو میں مصروف تھیں الوداعی کلمات ادا کرکے اس کی سمت متوجہ ہوتے ہوئے بولیں۔
’’آپ نے بلوایا تھا؟‘‘
گوکہ وہ اس کی سگی ماں تھیں مگر عبیر نے کبھی ان کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبہ محسوس نہیں کیا تھا اس کی وجہ واضح تھی اسے ان کے اندازو اطوار سے ہی نہیں ان کی گناہ آلود زندگی سے بھی نفرت تھی۔ وہ ان سے شاکی تھی کہ انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی بھی عاقبت تباہ کر ڈالی تھی۔
’’ایکچولی یہاںایک فیملی نے ہمیں اپنے پوتے کی برتھ ڈے پارٹی میں انوایٹ کیا ہے‘ ایسا ہے کہ تم آج شام کی اس تقریب کے لیے اناکے ساتھ جاکر اپنا پارٹی ویئر لے آئو۔‘‘
’’مگر میں وہاں جانے میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں تو…‘‘
انٹرسٹڈ نہ ہونا ایک الگ بات ہے اور کسی کام کو کرنا ایک یکسر الگ بات‘ تم وہاں جارہی ہو‘ اٹس مائی آرڈر اوکے‘ اب وہی کرو جو میں نے کہا ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں واضح حکم تھا۔ عبیر کچھ دیر ہونٹ بھینچے خاموش کھڑی رہی۔ پھر ایک جھٹکے سے پلٹ کر وہاں سے چلی گئی۔ وہ انا کے ساتھ مارکیٹ نہیں گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ مام اک طوفان اٹھائیں گی مگر اس کے برعکس ان کی خاموشی پر اسے حیرت نے آن لیا تھا۔ یہ حیرت اس وقت اضطراب اور شدید تاسف میں ڈھل گئی جب شام میں مام نے اس کاڈریس لاکر اس کے پاس رکھ دیا تھا۔
’’تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے عبیر! اور سنو‘ آج سے تمہاری پڑھائی کا سلسلہ بھی ختم۔ تم ہمارے ساتھ کام میں شامل ہورہی ہو۔ سارہ کی بات غلط نہیں ہے‘ میں نے تم سے یہ امتیازی سلوک کرکے تمہیں زیادہ سر چڑھالیا ہے‘ بس بہت ہوچکے یہ لاڈ وغیرہ۔‘‘
’’مگر میں ایسا ہر گز نہیں کروں گی یہ بات آپ بھی سن لیں۔‘‘ اس نے طیش میں آتے ہوئے کپڑے اٹھا کر پھینک دیئے۔ مام نے جواباً اسے سرد نظروں سے کچھ دیر ہونٹ بھینچ کر دیکھا تھا پھر جب وہ بولیں تو ان کا لہجہ سخت تھا۔
’’ایس پی دلبر چٹھہ کو جانتی ہو؟ جو پچھلے ہفتہ عینا کی برتھ ڈے پارٹی پر یہاں آیا تھا۔ تمہیں اک نظر دیکھ کر ہی تم پر مر مٹا مگر میں نے اس کو انکار کردیا تھا تو وجہ یہی تھی کہ میں تمہیں ہرٹ کرنا چاہتی تھی نہ ہی ایک دم سے اس راستے پر ڈال دینا۔ میں نے تمہارے لیے صاف ستھرا راستہ چنا ہے‘ یاد رکھو اگر تم نے اب پھر اکڑ دکھانے کی کوشش کی تو میں آج رات ہی چٹھہ کو یہاں بلوالوں گی‘ ایک رات کے وہ مجھے کم از کم بھی پچاس ہزار ہنس کے دے سکتا ہے مگر میں یہ سودا صرف ایک رات کا نہیں کروں گی۔‘‘ ان کے لہجے کی سنگینی نے عبیر کے حواس سلب کردیئے تھے اور چہرہ بالکل فق کر ڈالا۔ نگاہ کے سامنے ساٹھ پینسٹھ سالہ دلبر چٹھہ گھوم گیا‘ جس کی آنکھوں میں وحشت و خباثت تھی۔ عبیر سے چند منٹ اس کا سامنا محال ہوا تھا‘ بغاوت سرکشی و تنفر کے جذبات خوف کی چادر میں جا چھپے۔ اس کی جگہ لاچاری اور بے بسی نے لے لی‘ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پلٹی تو مام کا لایا ہوا ڈریس اس کے ہاتھ میں تھا اور آنکھوں میں بے تحاشا نمی۔