پیاسے سمندروں کی طرح تَیرتے رہے
اپنے مقدّروں کا لکھا سوچتے رہے
شب بھر اُتارتے رہے پلکوں پہ چاندنی
تم بوند بوند روشنی میں ڈوبتے رہے
جاگے ہیں میرے ذہن میں جب بھی ترے خیال
خوابوں کے شہر بنتے رہے، ٹوٹتے رہے
خاموشیوں کے لب پہ کوئی گیت تھا رواں
گہری اداسیوں کے کنول جھومتے رہے
رقصاں تھی اِس طرح تری یادوں کی آبشار
کہسار دل کے، جھانجھروں سے گونجتے رہے
تھی کتنے موسموں کی مہک اُس کے جسم میں
سانسوں کی تیز آنچ میں ہم بھیگتے رہے
٭٭٭