گھنی تاریکیوں میں روشنی کی آس باقی ہے
یہی دولت بہت ہے جو ہمارے پاس باقی ہے
تمہارے قُرب نے ٹھنڈک کا اک احساس توبخشا
مگر اِس جسم کی جلتی، مچلتی پیاس باقی ہے
تمہارے ہی لئے ہیں دل کے جتنے مل سکیں ٹکڑے
تمہارے واسطے ہے تن پہ جتنا ماس باقی ہے
چلو ہم بے سلیقہ ہیں مگر یہ بھی تو بتلاؤ
سلیقہ عشق کا پھر اور کس کے پاس باقی ہے
گلابوں کی مہک تھی یا کسی کی یاد کی خوشبو
ابھی تک رُوح میںمہکار کا احساس باقی ہے
نبھانا ہے ابھی تو قول اپنے باپ کا ہم نے
ابھی اپنے مقدر کا کڑا بَن باس باقی ہے
ابھی قرضے چکانے ہیں عزیزوں کے سبھی حیدرؔ
ابھی موسم بدلنے کی ہماری آس باقی ہے
٭٭٭