دو پرندے چہکتے رہے رات بھر
اور بھرتے ‘ چھلکتے‘ رہے رات بھر
رات کی رانی مہکی کہ تم آئے تھے
دونوں عالَم مہکتے رہے رات بھر
سیدھے رستے کو پانے کی دھن میں مگن
کس طرح ہم بہکتے رہے رات بھر
سرد جسموں میں بھی جان سی آگئی
ایسے جذبے دہکتے رہے رات بھر
رات بھر وصل کا چاند چمکا کیا
دل سمندر ہُمکتے رہے رات بھر
زندگی! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم
بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر
حاصلِ عمر ٹھہرے ہیں لمحے وہی
جن میں حیدرؔ بھٹکتے رہے رات بھر
٭٭٭