اگرچہ پیار کا اب کوئی سلسلہ بھی نہیں
پر اس سے ترکِ تعلق کا حوصلہ بھی نہیں
کچھ اپنے گرد حصار ایسے کھینچ بیٹھا ہوں
کہ اب خود اپنے نکلنے کا راستہ بھی نہیں
مسافتوں میںہوں کس پیکرِ ہوا کے لئے
جو کوئی رنگ نہیں ہے کوئی صدا بھی نہیں
مری اُداسیاں ہیں قرض اُس کی چاہت پر
اک ایسا قرض کہ جو واجب الادا بھی نہیں
میں جانتا ہوں کہ یہ وقتِ استجابت ہے
مگر یہ کیا کہ لبوں پر کوئی دعا بھی نہیں
تمام روشنیاں، خوشبوئیں بجا حیدرؔ
پر اُس گلاب بدن سا کوئی ہوا بھی نہیں
٭٭٭