وزیر‘ فِیل اور شاہ پھر سے بدَل رہا ہے
وہ چال شاید اب اور ہی کوئی چَل رہا ہے
بچی ہوئی ہے بس اب تو خاک اور راکھ باقی
کہ اب نہ رسی نہ کوئی رسی کا بل رہا ہے
چلو پھر ابلیس کو بلاؤ اسے بتاؤ
جو ابنِ آدم پھسل گیا تھا سنبھل رہا ہے
کچھ اِس طرح ڈوبنے لگی ہے یہ دل کی دھڑکن
کہ جیسے دھیرے سے کوئی گھر سے نکل رہا ہے
کسی کے جَور وستم کی حیدرؔ کرامتیں ہیں
بجھا ہوا ہے یہ دل مگر پھر بھی جل رہا ہے
٭٭٭