جبریت کے موسم کا جب عذاب آتا ہے
صرف اہلِ دل پر ہی تب عتاب آتا ہے
وہ حساب تو لے گا پر حساب کیا دیں گے
ہم گناہ گاروں کو کب حساب آتاہے
بس لحاظ کرتے ہیں ایک بے مرّوت کا
ورنہ اُس کی باتوں کا بھی جواب آتا ہے
عشق میں بچھڑ جائیں اور چاہے مل جائیں
دل زدوں پہ ہر حالت میں عذاب آتاہے
لب مکر گئے لیکن دل نہیں مکر پایا
جب بھی خواب آتا ہے تیرا خواب آتاہے
پہلے سے بھی بڑھتے ہیں صرف مسئلے حیدرؔ
جھوٹ بولنے سے کب انقلاب آتا ہے
٭٭٭