اُسے پھر اگلے سفر کے لیے اُبھرنا ہے
وہ جس کو شام کی دہلیز پر اُترنا ہے
نجانے ذات کے گرداب سے وہ کب نکلے
کہ فاصلوں کاسمندر بھی پار کرنا ہے
میں برگِ خشک ہوں تُو کوئی سر پھرا جھونکا
اب آبھی جاکہ مجھے ٹوٹ کر بکھرنا ہے
ابھی تو اُس نے کئی عہد مجھ سے کرنے ہیں
ابھی تو اُس نے ہر اک عہد سے مکرنا ہے
تو کیوں نہ مل لیں ہم اک دوسرے کو جی بھر کے
یہ جب یقیں ہے کہ اک دن ہمیں بچھڑنا ہے
یہ چند گھڑیاں ہی جنت نظیر ہو جائیں
پھر اپنے اپنے جہنم کو ہم نے بھرنا ہے
میں جس صدا پہ چلا ہوں نئے سفر کے لئے
اُسی کے حکم پہ حیدرؔ مجھے ٹھہرنا ہے
٭٭٭