مِری خاموش محبت کا صِلہ ہو جاؤ
حرفِ اظہار کی صورت میں ادا ہو جاؤ
راز ہو تو مِرے سینے میں سما بھی جاؤ
ورنہ آؤ مِرے ہونٹوں پہ صدا ہو جاؤ
تم تصوّر بھی نہیں ہو کہ بُھلا بھی نہ سکوں
تم عبادت بھی نہیں ہو کہ قضا ہو جاؤ
یا ہمیشہ کے لئے تم مِرے ہو جاؤ ابھی
یا ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا ہو جاؤ
اپنے جلتے ہوئے خوابوں میں اُتر کر حیدرؔ
اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا ہو جاؤ
٭ ٭٭