ہم جو میدانِ عمل میں ڈٹ گئے
راستے سارے سفر کے کٹ گئے
ٹوٹ کر برسے مگر انجام کار
چھَٹنے ہی تھے غم کے بادل‘ چھٹ گئے
بڑھنے گھٹنے کا عجب ہے سلسلہ
بڑھ گئے حد سے تو سمجھو گھٹ گئے
آپ کی رُسوائیوں کے خوف سے
آپ کے رَستے سے ہم خود ہٹ گئے
جتنی اچھی صورتیں ہم کو ملیں
اُتنے ہی خانوں میں حیدرؔ بٹ گئے
٭٭٭