جِنّوں، دیووں اور پری زادوں کے بیچ
ایک قیدی کتنے آزادوں کے بیچ
حق اُسی کا ہوگا جو بھی بچ رہا
فیصلہ ہونا ہے شہزادوں کے بیچ
سوچ لو انجام بھی اِس عشق کا
چُُن دیئے جاؤ گے پھر یادوں کے بیچ
کھیل کا پانسہ پلٹ جانے کو ہے
شاہ مارا جائے گا پیادوں کے بیچ
گھر گئے ہیں ناشناسوں میں کہاں
منہ کھڑے تکتے ہیں دلدادوں کے بیچ
زندگی حیدرؔ بسر ہوتی رہی
جیسے کوئی گیت فریادوں کے بیچ
٭٭٭