مِرے خوابوں نے یقینا مجھے بہلایا تھا
میں نے خود کو یہ کئی مرتبہ سمجھایا تھا
سوچ کے ماتھے پہ کچھ گہری لکیریں اُبھریں
کسی بیتے ہوئے لمحے کا خیال آیا تھا
اُس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے
میں نے زندہ ہی تری یاد کو دفنایا تھا
کسی قاتل کی طرح تھا جو تعاقب میں مِرے
میں نے پہچان لیا وہ تو مِرا سایہ تھا
منزلوں نے تو مجھے ڈھونڈ لیا تھا حیدرؔ
پھر مِرا شوق سفر مجھ کو چُرا لایا تھا
٭٭٭