کون دیکھے گا بھلا اِن جلتی آنکھوں کے عذاب
جھیلتے رہنا ہے جن کو اندھے خوابوں کے عذاب
زندگی کی ہر برہنہ شاخ پر تحریر ہیں
پھول چہروں پر جو ٹوٹے زرد لمحوں کے عذاب
سانپ بن کر ڈس گئیں اک دن لکیریں ہاتھ کی
قسمتوں میں رہ گئے اب صرف یادوں کے عذاب
جب بھی یاد آتی ہیں کچھ مجبوریاں، محرومیاں
گھیر لیتے ہیں مجھے اُس کے سوالوں کے عذاب
اک مسلسل روگ بن کر رہ گئی یہ زندگی
قطرہ قطرہ ایسے اترے زہر سانسوں کے عذاب
کب تلک چھائی رہے گی یوں ہی اندھی روشنی
کب تلک حیدرؔ رہیں گے اِن اندھیروں کے عذاب
٭٭٭