مِرے بدن پہ ترے وصل کے گلاب لگے
یہ میری آنکھوں میں، کس رُت میں کیسے خواب لگے
نہ پُورا سوچ سکوں، چھوسکوں، نہ پڑھ پاؤں
کبھی وہ چاند، کبھی گُل، کبھی کتاب لگے
نہیں ملا تھا تو برسوں گزر گئے یوں ہی
پر اب تو اس کے ِبنا ہر گھڑی عذاب لگے
تمہارے ملنے کا مل کر بھی کب یقیں آیا
یہ سلسلہ ہی محبت کا اک سراب لگے
یہ میرے جسم پہ کیسا خمار چھایا ہے
تمہارے جسم میں شامل مجھے شراب لگے
ہمیں تو اچھا ہی لگتا رہے گا وہ حیدرؔ
بلا سے ہم اُسے اچھے لگے، خراب لگے
٭٭٭